«ڈاکٹر شیخ یوسف قرضاوی» کے نام «آیةاللہ شیخ محمدمہدی آصفی» کا کھلا خط: مجھے نہیں معلوم کہ قرضاوی کے نزدیک «بدعت» کی تعریف کیا ہے؟ آپ اہل تشیع کو حسینی مجالس برپا کرنے پر کو ستے ہیں؟ ان لوگوں (اہل تشیع) نے خرافات، توہمات اور بدعتوں کے جدید زمانے اور مواصلات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں کیونکر قیام کیا اور کیونکر استوار رہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
«جناب قرضاوی» مسلم علماء اور مبلغین میں سے ہیں؛ جو مختلف شعبون میں امت مسلمہ کے امور میں اہتمام اور میدان عمل میں حاضر و موجود شخصیت کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں؛ ان کا ماضی سراسر جد و جہد سے عبارت ہے اور اخوان المسلمین پر شدید سرکاری دباؤ کے دور میں قید و بند اور جلاوطنی کی صعوبتیں بھی جھیل چکے ہیں.
جناب شیخ اخوان المسلمین کے اہم ترین اور نامی ترین مبلغین میں شمار ہوتے ہیں اور جس روز سے انہوں نے حسن البناء (رہ) کے ساتھ ملاقات کی ہے؛ ان سے متأثر ہوکر دعوت و تبلیغ میں شامل ہوئے ہیں.
ہم انہیں تقریب، وحدت اور اختلاف کے خلاف جہاد کرنے والی شخصیت کے عنوان سے جانتے ہیں؛ وہ اب بھی شیخ حسن البناء (رہ) کے پیروکار ہیں جبکہ شیخ البناء مصر میں تقریب مذاہب اور وحدت مسلمین کی تحریک کے ابتدائی بانیوں میں شمار ہوتے ہیں.
مگر ان دنوں ان کے کلام اور رجحانات میں تبدیلیاں محسوس ہو رہی ہیں جبکہ ان کا کلام و رجحان کبھی بھی ایسا نہ تھا. ان کی نئی باتوں سے مسلمانوں کی قربت و مفاہمت کی خوشبو نہیں آ رہے.
ان کا آخری کلام جو ہم نے پڑھا مصری روزنامے «المصری الیوم» کے ساتھ ان کی بات چیت تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ :
میرا اعتقاد ہے کہ شیعہ ایک جعلی گروہ ہے اور نتیجتاً گمراہ فرقہ ہے! اور کہتے ہیں کہ: شیعہ اور سنی مذاہب کے درمیان «سبّ صحابہ» اور مکمل طور پر سنی آبادی والے ممالک میں تشیع کی ترویج جیسی سرخ لکیریں (Red Lines) موجود ہیں. ان کا مزید کہنا ہے کہ: شیعہ اپنے مذہب کی ترویج کے لئے کروڑوں بلکہ اربوں روپے خرچ کرتے ہیں اور ان کے پاس تجربہ کار افراد بھی موجود ہیں جبکہ اس ثقافتی یلغار کے مقابلے میں اہل سنت کو ثقافتی امن و حفاظت کے وسائل میسر نہیں ہیں
مجھ پر جناب قرضاوی کے نئے رجحانات میں یہ اہم نکتہ منکشف ہؤا کہ ان کے یہ رجحانات ان کے ماضی اور ان کے فکری اصولوں کے منافی ہیں؛ وہ ماضی میں مذاہب کے درمیان قربت اور مفاہمت کے لئے کوشاں تھے؛ اور ان فکری اصولوں پر کاربند تھے جن کی بنیاد شیخ حسن البنا اور شیخ محمود شلتوت (رحمہ مااللہ) کے مکتب پر رکھی گئی تھی. یہ رجحانات ان کے ماضی اور ان کے فکری مکتب کے منافی ہیں.
البتہ مذاہب اسلامی کے درمیان توافق و مفاہمت کا مفہوم اصول دین اور فروع دین میں مکمل مفاہمت نہیں ہے جس طرح کہ اصول اور فروع کے اختلافات بھی جب تک کتاب و سنت کی بنیاد پر اجتہاد کے دائرے میں ہوں اس بات کا باعث نہیں بننے چاہئیں کہ ہم میں ایک دوسرے پر بدعت اور گمراہی کی تہمت لگائیں.
دین میں بدعت
مجھے نہیں معلوم کہ قرضاوی کے نزدیک «بدعت» کی تعریف کیا ہے؟
مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ کیا کسی پر کتاب و سنت کے فہم و ادراک کے حوالے سے کسی اور کے معیار سے اختلاف کرنے پر بدعت گذاری کی تہمت لگائی جا سکتی ہے؟
اگر ایسا ہے تو مجتہدین اور صاحبان رائے بھی ایک دوسرے پر بدعت گذاری کی تہمت لگا سکیں گے؛ کیونکہ ان میں سے ہر ایک آیات اور روایات سے کوئی حکم حاصل کرتا ہے جو دوسرے مجتہدین سے مختلف ہوتا ہے؛ اسی طرح علم حدیث میں جرح و تعدیل کے معیار مختلف ہیں چنانچہ ایک عالم کسی حدیث پر عمل کرتا ہے اور دوسرا عالم اس کے برعکس عمل کرتا اور اس حدیث کو ترک کردیتا ہے.
چنانچہ [آپ کے معیار کے مطابق] ہر مذہب دوسرے اسلامی مذاہب پر بدعت گذاری کا الزام لگا سکتا ہے؛ حتی کہ اہل سنت کے فرقے بھی ایک دوسرے پر بدعت گذاری کا الزام لگا سکتے ہیں.
البتہ میرا نہیں خیال کہ قرضاوی صاحب بدعت کی اس تعریف سے اتفاق کریں گے.
کتاب و سنت کے فہم و ادراک کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ اجتہاد میں اختلاف بھی بدعت کے زمرے میں نہیں آتا.
شیعہ امامیہ کے پاس بھی "كتاب" و "سنت" کی سوا کوئی منبع نہیں ہے. اجماع بھی اہل تشیع کے نزدیک ثانوی کردار کا حامل ہے اور سنت کو کشف کرنے کا وسیلہ ہے اور کتاب و سنت کی طرح دلیل کامل نہیں ہے.
source : www.tebyan.net