اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بیت ؑ اپنے شیعوں سے محبت کرتے ہیں۔ جس طرح اہل بیت ؑ کے شیعہ اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اسی طرح اہل بیت بھی اپنے شیعوں سے شدید طور پر محبت کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ ان کی خوشبو اور روحوں سے بھی محبت کر تے ہیں ان کے دیدار و ملاقات کو بھی دوست رکھتے ہیں وہ اسی طرح ان کے مشتاق رہتے ہیں جس طرح دو محبوب ایک دوسرے کے مشتاق رہتے ہیں اور یہ فطری بات ہے کیونکہ محبت کا تعلق طرفین سے ہوتا ہے ایک طرف سچی محبت ہوگی تو دوسری طرف بھی سچی محبت ہوگی۔اسحاق بن عمار نے علی بن عبد العزیز سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابوعبد اللہ ؑ سے سنا کہ فرماتے ہیں: خدا کی قسم مجھے تمہاری خوشبو، تمہاری روحیں، تمہارا دیدار اور تمہاری ملاقات بھی محبوب ہیں اور میں دینِ خدا اور دینِ ملائکہ پر ہوں پس اس سلسلہ میں تم ورع کے ذریعہ میری مدد کرو کیونکہ میں مدینہ میں شعیر کے مانند ہوں۔ میں گھومتاہوں لیکن جب تم میں سے کوئی نظر آجاتا ہے تو مجھے سکون ہو جاتا ہے ۔جس طرح کالے بالوں میں سفید بال قلیل ہوتے ہیں اسی طرح میں مدنیہ میں تنہا ہوں، میں مدینہ میں گھومتا رہتا ہوں شاید تم میں سے کوئی نظر آجائے اور میں اس کے پاس آرام کروں۔عبد اللہ بن ولیدسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابو عبد اللہ سے سنا کہ فرماتے ہیں :ہم ایک جماعت ہیں خدا کی قسم میں تمہارے دیدار کو پسند کرتا ہوں اور تمہاری گفتگو کا اشتیاق رکھتا ہوں۔نصر بن مزاحم نے محمد بن عمران بن عبد اللہ سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے جعفر بن محمدعلیہما السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: میرے والد مسجد میں داخل ہو ئے تووہاں ہمارے کچھ شیعہ بھی موجود تھے آپؑ ان کے قریب گئے انہیں سلام کیا اور ان سے فرمایا: خدا کی قسم میں تمہاری خوشبو اور روحوں کو دوست رکھتا ہوں ، اور میں دینِ خدا پر ہوں۔پس ورع و کوشش کے ذریعہ میری مدد کرو اور تم میں سے جو کسی کو اپنا امام بنائے اس کو اس کے مطابق عمل کرنا چاہئے، تم خدا کے سپاہی ہوتم خدا کے اعوان ہو، تم خدا کے انصار ہو۔محمد بن عمران نے اپنے والد سے انہوں نے ابو عبد اللہ، سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ایک روز میں اپنے والد کے ساتھ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ منبر و قبر -رسولؐ-کے درمیان آپؑ کے اصحاب کی ایک جماعت بیٹھی ہے میرے والد ان کے قریب گئے انہیں سلام کیا اور فرمایا: خدا کی قسم میں تمہاری خوشبو اور روحوں کو دوست رکھتا ہوں۔ تو اس سلسلہ میں تم ورع و جانفشانی کے ذریعہ میری مدد کرو۔یہ دو کلمات انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں
:۱۔ میں تمہاری خوشبو اورروحوں سے محبت کرتا ہوں۔
۲۔ ورع و کوشش کے ذریعہ تم میری مدد کرو۔پہلا جملہ محبت و شوق کے اعلیٰ مراتب کا غماز ہے کہ امام کو اتنا اشتیاق و عشق ہے کہ وہ اپنے شیعوں میں جنت کی خوشبو محسوس کرتے ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ محبت کے بارے میں اس سے زیادہ بلیغ اور واضح تعببیر استعمال ہوئی ہوگی۔دوسرا جملہ اس محبت کے ضوابط کو بیان کرتا ہے کیونکہ یہ محبت لوگوں کی ایک دوسرے سے محبت کے فرق سے بدلتی رہتی ہے یہ بھی محبتِ خدا میں سے ہے اوریہ محبت کا بلند ترین درجہ ہے لیکن طاعت وعبودیت اور ورع و تقوی میں اس کا پلہ بھاری رہے گا اور ورع و تقوے کے جتنے پلے بھاری ہوں گے اسی تناسب سے محبت میں استحکام و بلندی پیدا ہوگی۔ اسی لئے امام نے اپنے شیعوں سے یہ فرمایا ہے کہ مجھے تم سے جو محبت ہے اس میں ورع ، تقویٰ اور خدا کی طاعت و عبودیت کے ذریعہ میری مدد کرو۔بیشک وہ لوگ امام کے شیعہ تھے اور اہل بیت ؑ جانتے ہیں کہ شیعہ ان سے کتنی محبت رکھتے ہیں اہل بیت ؑ اس محبت کے بدلے ان کو اتنی ہی یا اس سے زیادہ محبت دینا چاہتے ہیں، لہٰذا اہل بیتؑ نے اپنے شیعوں سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے نفسوں کو اس محبت کا اہل بنا لیں اوریہ اہلبیت ؑ ورع و تقویٰ اور طاعت و عبودیت سے پیدا ہوگی اور اس وقت اہل بیتؑ کی اپنے شیعوں سے محبت خدا کی محبت ہی کی ایک کڑی ہوگی۔
اس طرح شیعوں سے اہل بیتؑ کی محبت ایسی ہی ہوگی جیسے باپ اپنے بیٹے سے محبت کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ بیٹا اپنے اخلاق و عادات اور کردار و آداب میں اس محبت کا اہل ہو اور وہ ایسا کام نہ کرے کہ جس سے باپ کی عزت پر حرف آئے اور اس کے دل سے بیٹے کی محبت نکل جائے اوروہ اسے عاق کر دے۔جس نے ان کے شیعوں سے عداوت کی اس نے ان سے دشمنی کی اور جس نے ان کے شیعوں سے محبت کی اس نے ان سے محبت کی۔
جس طرح بغض و محبت کا تعلق طرفین سے ہوتاہے یعنی ایک طرف کی محبت اسی وقت سچی ہو سکتی ہے جب دوسری طرف بھی سچی محبت ہو اسی طرح تو لا و تبریٰ بھی ہے پس جس طرح ہم اہل بیت ؑ کے دشمنوں کو دشمن سمجھتے ہیں اور ان سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے دوستوں سے محبت کرتے ہیں اسی طرح اہل بیتؑ بھی اس شخص کو دشمن سمجھتے ہیں جو ان کے شیعوں سے عداوت رکھتا ہے اوراس شخص سے محبت کرتے ہیں جو ان کے دوستوں سے محبت کرتا ہے۔ابن ابی نجران سے روایت ہے کہ انہوں کہا،میں نے ابو الحسن ؑ سے سنا ہے :جس نے ہمارے شیعوں سے دشمنی کی در حقیقت اس نے ہم سے دشمنی کی اور جس نے ان سے محبت کی حقیقت میں اس نے ہم سے محبت کی، کیونکہ وہ ہم میں سے ہیں وہ ہماری طینت سے پیدا کئے گئے ہیں لہٰذاجو بھی ان سے محبت کرے گا وہ ہم میں سے ہے اور جو ان سے دشمنی رکھے گا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمارے شیعہ نورِ خداسے دیکھتے ہیں وہ خدا کی رحمت میں چلتے پھرتے ہیں اور اس کی کرامت سے سرفراز و کامیاب ہوتے ہیں۔ابو الحسنؑ سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جس نے ہمارے شیعوں سے عداوت کی اس نے ہم سے عداوت کی اور جس نے ان سے محبت کی اس نے ہم سے محبت کی کیونکہ وہ ہم ہی میں سے ہیں وہ ہماری طینت سے خلق کئے گئے ہیں جس نے ان سے محبت کی وہ بھی ہم میں سے ہے اور جس نے ان سے دشمنی کی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ہمارے شیعہ نورِ خداسے دیکھتے ہیں اور اسکی رحمت میں چلتے پھرتے ہیں اور اس کی کرامت سے سر فراز ہوتے ہیں اگر ہمارے شیعوں میں سے کسی کوکوئی مرض لاحق ہوتا ہے تو اس کے مرض سے ہم بھی متأثر ہوتے ہیں ۔
اور اگران میں سے کوئی غمگین ہوتا ہے تو اس کے غم سے ہمیں بھی رنج ہوتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی خوش ہوتا ہے تو اس کی خوشی سے ہم بھی خوش ہوتے ہیں اور ہمارا کوئی شیعہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہے خواہ وہ مشرق و مغرب میں کہیں بھی ہو اوراس کے اوپر کچھ قرض ہو تو ہمارے ذمہ ہے اور اگر اس نے مال چھوڑا ہو تو وہ اس کے وارث کا ہے ۔
ہمارے شیعہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں، زکواۃ دیتے ہیں، خانہ خدا کا حج کرتے ہیں، ماہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں،اہل بیت سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے دشمنوں سے بیزار رہتے ہیں یہی لوگ صاحبان ایمان و تقویٰ اور یہی اہل زہد و ورع ہیں ،جس نے ان کی بات کو رد کر دیا اس نے خدا کے حکم کو رد کر دیا اور جس نے ان پر طعن کیااس نے خدا پر طعن کیا کیونکہ یہی خدا کے حقیقی بندے ہیں، یہی اس کے سچے دوست ہیں ،خدا کی قسم اگر ان میں سے کوئی ربیعہ و مضر کے قبیلے کے برابر لوگوں کی شفاعت کرے گا تو خدا اس کی اس عظمت کی بنا پر جواس کی نظر میں ہے ا ن کے بارے میں اس کی شفاعت کو قبول کرے گا۔
اہل بیت کے شیعوں پر اور شیعوں کے اہل بیت ؑ پر حقوق صرف اہل بیت ہی اپنے شیعوں سے اور ان کے دوستوں سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت وبیزاری نہیں کرتے ہیں بلکہ جس طرح شیعوں پر اہل بیت کے حقوق ہیں کہ وہ خدا کی طرف ان کی ہدایت و راہنمائی کریں اور ان کو حدود خدا کی تعلیم دیں اور انہیں عبودیت کے آداب سکھائیں اسی طرح ان کے شیعوں پربھی لازم ہے کہ ان سے سیکھیں۔ابو قتادہ نے امام جعفرصادق ؑ سے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا: ہمارے شیعوں کے حقوق ہم پر زیادہ واجب ہیں بہ نسبت ہمارے حقوق کے جوان کے ذمہ ہیں۔ عرض کیا گیا کہ فرزندِ رسولؐ یہ کیسے؟ فرمایا: اس لئے کہ ان پر ہماری وجہ سے مصیبت پڑی ہے مگر ان کی وجہ سے ہم پر مصیبت نہیں پڑتی۔
تحریر: سید اطہر حسین جعفری
source : abna