اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

سورۂ فرقان؛ آيات 74۔ 77 پروگرام نمبر 679

بعد از حمد و درود سلسہ وار تفسیر کلام نور میں سورۂ فرقان کی ۷۴ ویں آیت سے ہم اپنی گفتگو شروع کررہے ہیں۔
سورۂ فرقان؛ آيات 74۔ 77 پروگرام نمبر 679

کلام نور ۶۷۹
 
سورۂ فرقان۔ ۱۷
 
آیات۷۴۔ ۷۷
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
 
بعد از حمد و درود سلسہ وار تفسیر کلام نور میں سورۂ فرقان کی ۷۴ ویں آیت سے ہم اپنی گفتگو شروع کررہے ہیں۔
 
خداوند عظیم ، رحمان کے بندوں کی ایک اور خصوصیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
 
وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا ہبلناَ مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (74)
 
اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی دعاؤں میں کہتے ہیں، ہم کو ہماری ازواج اور ذریت کی طرف سے آنکھوں میں ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو متقی اور پرہیزگاروں میں  پیش قدم قرار دے۔ سورۂ 25(74:77)
 
گفتگو جیسا ہم نے عرض کیا رحمان کے بندوں کی چل رہی ہے، چنانچہ اب تک دس صفات بیان کی جاچکی ہے، گیارہویں صفت بیان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود کو اپنی ذات سے قطع نظر دوسروں کے سلسلہ میں بھی خاص طور پر اپنے اہل و عیال کے اعمال اور رفتار و کردار سنوارنے  اور سنبھالنے کا ذمہ دار اور جواب دہ سمجھتے ہیں اس لئے خداوند متعال سے اپنی خصوصی دعاؤ ں میں التجا کرتے ہیں کہ ان کی ازواج اور ذریت کو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے کہ وہ خدا کی طاعت و اطاعت  میں مشغول رہیں اور گناہ و معصیت سے اجتناب و دوری میں کامیاب رہیں اور نتیجے میں ان کے اعمال صالحہ کو دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی اور روشن ہوں گویا ان کی دلی تمنا اور آرزو بس اتنی ہے  کہ بیوی بچوں کا کوئی کام اور کوئی حرکت ان کے ایمان و اخلاص کو چوٹ اور تکلیف نہ پہنچائے ، ظاہر ہے رحمان کے بندے اہل حق ہیں، وہ ہوائے نفس کی اطاعت وپیروی نہیں کرتے اس لئے ہر طرح کی بیوی یا بچے پسند نہیں کرتے، ایسی بیوی چاہتے ہیں جو ان کی طرح خدا والی ہو اور اس سے ایسے بچے وجود میں آئیں جو خدا کے بندے ہوں اور جنھیں دیکھ کر ماں باپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ خوشی و شادمانی محسوس کریں اور اس کا ایک اہم رخ یہ بھی ہے کہ ایسے بچے ان ہی گھروں میں تربیت پاسکتے ہیں جہاں میاں بیوی کے تعلقات انسانی جذبوں اور اخلاقی اصولوں پر استوار ہوں اور دونوں، بچوں کے سلسلے میں اپنے اپنے فرائض  برابر سے بخوبی انجام دیں۔ کوتاہی نہ برتیں یعنی  زن و شوہر دونوں مومن اور مومنہ اور نیکوکار ہوں اور دونوں صدق و صفا کے پیکر ایک دوسرے کی نگاہوں کے لئے روشنی اور ٹھنڈک ہوں۔
 
''واجعلنا للمتقین اماما''۔سلسلۂ دعا کو آگے بڑھاتے ہوئے رحمان کے بندے خدا سے التجا کرتے ہیں کہ خدایا ہم کو توفیق دے کہ کارہائے خیر کی انجام دہی میں اور تیری رحمتوں کی دست یابی کی راہ میں ہمیں تیرے پرہیزگار بندوں پر سبقت اور تقدم اور پیشوائی حاصل ہو تا کہ دوسرے ہم سے سیکھیں اور ہماری پیروی کریں ، جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۸ ، فاستبقوا الخیرات سے اور سورۂ واقعہ کی گیارہویں آیت والسّابقون السّابقون اولئک المقرّبون سے پتہ چلتا ہے کہ رحمن کے بندے متقین کے درمیان بھی ہر کام میں صف در صف دوسروں سے خود کو مقدم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، یعنی وہ معاشرے سے الگ تھلگ تنہائی اور گوشہ گیری کی زندگی کی زندگی پسند نہیں کرتے دینداروں کے ساتھ رہکر کمال و ارتقا کی راہ میں سب کو ساتھ لے کر آگے آگے چلنا چاہتے ہیں، صرف اپنی نجات کے چکر میں نہیں رہتے ، پورے خاندان اور معاشرے کی پیشوائی کرتے ہیں اور خود کو دوسروں کے لئے مثال اور نمونہ بنادیتے ہیں اور مومنین اور متقین کے درمیان افتخار بن جاتے ہیں ۔
 
اس کے بعد سورۂ فرقان کی آیات ۷۵ااور ۷۶ میں خدا فرماتا ہے:
 
أُولَئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفۃ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِیہا تَحِیّۃ وَسَلَامًا (75)
 
خَالِدِينَ فِیہا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا (76)
 
یعنی یہی وہ ہیں جنھیں ( دین خدا کی راہ میں)  انھوں نے جو صبر و استقامت کیا ہے اس کی جزا کے طور پر (بہشت میں) غرفے (یعنی بلند و بالا منزل یا بالائی حجرے ) عطا کئے جائیں گے اور درود و سلام کے ساتھ ان کا استقبال کیا جائے گا۔ سورۂ 25(75:77)
 
وہ وہاں ہمیشگی کی زندگی گزاریں گے  جو کتنا اچھا ٹھکا نا اور کتنی حسین رہائش ہے۔ سورۂ 25(76:77)
 
رحمان کے بندوں کی بارہ خصوصیات  بیان کرنے کے بعد  ان آیات میں ان کی جزاء کے طور پر  بہشت میں ان کے بلند مقام اور منزلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا کی اطاعت  اور گناہ و معصیت سے دوری کی راہ میں  پامردی اور ثابت قدمی کے تحت پیش آنے والی تمام سختیوں اور مصیبتوں پر صبر و تحمل اور راضی بہ رضا رہنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے، ہر حال میں الہی احکام و فرائض کی انجام دہی اور منکرات سے دوری کے لئے محکم عزم و جزم کی ضرورت ہے اور صبر کی یہ وہ منزل ہے کہ جس کی جزا میں خداوند عالم رحمان کے بندوں کو بہشت میں دوسروں سے بلند ایک ارفع و اعلی منزل عطا کرے گا اور اللہ کے فرشتے درود و  سلام کے ساتھ  ان کا استقبال کریں گے جو ان کے لئے سرور و شادمانی کا سبب ہوگا اور انھیں وہ ہر طرح کے خوف و خطر سے سلامت و حفاظت کی خوش خبری دیں گے، تمام اہل بہشت سلام کریں گے اور رحمان کے بندے سکون و اطمینان کے ساتھ  ابد الآباد تک کے لئے بہشت میں رہیں گے واقعاً ان کی یہ رہائش گاہ کسی کے لئے بھی قابل تصور بہترین رہائش گاہ ہے۔
 
اور پھر  سورۂ فرقان کی آخری آیت میں خداوند متعال اپنے حبیب محمد مصطفیﷺ سے فرماتا ہے:
 
قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا (77)
 
(اے ہمارے نبی(ص)! آپ لوگوں سے ) کہدیجئے اگر تم لوگ دعاؤ عبادت نہ کرو  (اور تم اس کو گڑگڑاکر نہ پکارو) تو میرے پروردگار کو تمہاری کوئی پرواہ  (احتیاج و ضرورت یا قدر و قیمت) نہیں ہےکیونکہ تم نے حق کی تکذیب کی ہے اور جلد ہی اس کی سزا ( لعنت کا طوق بن کر )تمہاری گردن میں  یوں لٹکے گی (کہ تم اس کو ہرگز خود سے جدا نہیں کرسکوگے) ۔ سورۂ 25(77:77)
 
چونکہ سورۂ فرقان میں کفار و مشکرین کی جانب سے مرسل اعظم(ص) کی نبوت و رسالت اور قرآن حکیم کی حقانیت کے انکار اور اعتراض و مخالفت  نیز خدا کے رسول اور کتاب کی تکذیب  کا ذکر تھا  سورہ کے اختتام میں خلاصۂ گفتگو کے طور پر خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کے ذریعے لوگوں کو ایک اہم نکتہ کی طرف متوجہ اور خبردار کیا ہے کہ خداؤ رسول اور ان کے دین و پیغام کی مخالفت اور تکذیب کرنے والےاس حقیقت کو سمجھ لیں کہ پروردگار اور محمد اکرم(ص) کی نگاہ میں یہ لوگ کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتے ان کا وجود اور عدم ان کے نزدیک برابر و یکساں ہے کیونکہ انھوں نے حق، دین حق، رسول حق، کتاب حق اور پیام حق کی تکذیب کی ہے اور ان سے اب کسی خیر کی امید باقی نہیں رہ گئی ہے چنانچہ یہ تکذیب ہی ان کے لئے عذاب بن جائے گی ، اور  لعنت و نفرین کی صورت میں ہمیشہ ان کی گردنوں میں معلق رہے گی اور یہ لوگ اس سے کبھی اپنی جان نہیں چھڑا سکیں گے اب اگر خدا نے ان کو دعوت دی ہے تو صرف اتمام حجت  کے لئے ہے اور اس لئے ہے کہ شائد یہ تکذیب اور مخالفت سے باز آجائیں۔
 
معلوم ہوا:
 
-    بیوی بچوں کے اخلاق و تربیت کے سلسلے میں ہر شخص جواب دہ ہے اور پورے علم و اگہی کے ساتھ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے اسلامی اخلاق و تربیت کا پیکر بنائیں اور اس سلسلے میں خدا سے مدد طلب کریں ۔
 
-    نیکوکار اولاد اور ازواج آدمی کی زندگی میں سرور و شادمانی آنکھوں کی ٹھنڈک اور فخر و مباہات کا باعث ہیں۔ حتی میاں بیوی کو ایک دوسرے کی خوشی کا خیال رکھنا چاہئے اور ایک دوسرے کو محبت و رغبت کی نگاہوں سے دیکھنا چاہئے۔
 
-    کسی اسلامی معاشرے کی حکمرانی اور نظم و انتظام خدا کے پاک و مخلص عالم و شجاع انسان کے ہاتھوں میں ہونا ضروری ہے کیونکہ دنیا پرست افراد قوم و ملت اور دین و مذھب دونوں کو ڈبو دیتے ہیں۔
 
-    خدا کے بندوں کے لئے صبر و استقامت لازم ہے، عزم جزم کے بغیر خدا کی بارگاہ میں آدمی مقرب نہیں ہوسکتا۔
 
-          امن و آشتی، اخوت و محبت اور اخلاص ایک بہشتی معاشرے کی خصوصیات میں سے ہے۔
 
خدا کی بارگاہ میں دعا اور عبادت الہی عنایات کا سرچشمہ ہے، اسی طرح خداؤ رسول کے احکام و فرامین کی قولی اور عملی تکذیب الہی قہر و عذاب کا باعث ہے۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآن مجید ذریعہ نجات
امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا

 
user comment