کلام نور ۶۷۸
سورۂ فرقان۔ ۱۶
آیات۷۰۔ ۷۳
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعد از حمدو ثنا سلسلہ وار تفسیر کلام نور میں ہم یہ گفتگو سورۂ فرقان کی آیات ۷۰ اور ۷۱ سے شروع کررہے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآَمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللّہ سَيِّئَاتہِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللہ غَفُورًا رَحِيمًا (70)
وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فانّہ يَتُوبُ إِلَى اللہِ مَتَابًا (71)
مگر یہ کہ وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں اور عمل صالح انجام دیں تو خداوند عالم ان کی برائیوں کو اچھائیوں سے بدل دے گا اور خدا تو بڑا بخشنے اور رحم کرنے والا ہے۔ سورۂ 25(70:77)
اور جس کسی نے توبہ کرلیا اور اچھے کام کئے اس نے یقیناً خدا کی جانب اچھی اور پسندیدہ برگشت کی ہے۔ سورۂ 25(71:77)
اس سے قبل شرک، قتل اور زنا کی مانند گناہان کبیرہ انجام دینے والوں کو دنیاؤ آخرت دونوں جہانوں میں مرتب ہونے والے آثار و نتائج سے خبردار و ہوشیار کیا گیا تھا کہ ایسے لوگ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی سخت عذاب سے دچار ہونا پڑے گا۔ اب ان آیات میں ان لوگوں کو جو ایمان لانے سے قبل اس قسم کے گناہ کرچکے ہوں ذلت و عذاب سے نجات کی بشارت دی گئی ہے کہ خداوند عظیم بڑا بخشنے اور رحم و کرم سے کام لینے والا ہے جو لوگ بھی اپنی آئندہ کی زندگی میں اس طرح کے گناہوں سے ہمیشہ کے لئے توبہ ؤ استغفار کے ساتھ ایمان لے آئیں گے اور اچھے اعمال انجام دے کر پچھلے گناہوں کا تدارک کرلیں گے یعنی شرک و کفر سے دست بردار ہوکر سچے دل سے خداؤ رسول پر ایمان لے آئیں گے اور بندگان خدا کے حقوق کی ادائگی کے ساتھ اپنے تمام دینی فرائض انجام دیں گے خداوند رحیم ان کو بخش دے گا کیونکہ خدا بڑا بخشنے اور رحم کرنے والا ہےوہ اپنے بندوں کے حق میں اس قدر مہربان ہے کہ بخشش و کرم کے بہانے تلاش کیا کرتا ہے اور بندوں کو توبہ ؤ استغفار کے لئے موقع پر موقع دیتا چلا جاتا ہے۔ ایمان کے ذریعے انسان کے اندر وہ انقلاب پیدا کردیتا ہے کہ اس کی بری عادتیں اچھی خصلتوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور دیندار معاشروں میں ان کو اور زیادہ قدر و منزلت کی نگاہ سے لوگ دیکھنے لگتے ہیں، شرک و ریاکاری کا جذبہ، توحید و اخلاص میں بدل جاتا ہے مظلوموں پر ظلم کرنے والے ظالموں کے خلاف جہاد و پیکار کے لئے آمادہ ہوجاتے ہیں ، بے غیرتی اور بے حیائی انسانی غیرت اور عفت و پاکدامنی میں بدل جاتی ہے، شائد اسی لئے قرآن نے اپنی پچھلی زندگی میں غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی بھی شکل میں سرزد ہونے والے گناہوں سے توبہ ؤ استغفار کی تشویق و ترغیب کے لئے دو دو آیتوں میں توبہ ؤ بخشش کا ذکر کیا ہے، کہ اللہ کے بندے اس کے وعدوں پر یقین کے ساتھ برائیوں سے توبہ کریں اور نیک کاموں کے ذریعے گناہوں کا تدارک کریں تو خدا یقیناً رحیم و مہربان ہے اور اس کے گناہوں کو ضرور بخش دے گا، چاہے وہ گناہان کبیرہ ہی کیوں نہ ہوں ، لطف و رحمت الہی سب کے شامل حال ہے۔
اس کے بعد سورۂ فرقان کی ۷۲ ویں آیت میں خدا فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَشہدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا (72)
اور (بندۂ رحمان ) وہ لوگ ہیں جو بیہودہ نشست و برخاست میں شرکت نہیں کرتے نیز یہ کہ لغو و غیر مفید عمل یا باتوں کی طرف کان نہیں دھرتے اور وقار و متانت کے ساتھ وہاں سے گذر جاتے ہیں۔ سورۂ 25(72:77)
رحمان کے بندوں کی خصوصیت اور خاصیت کا ذکر تھا، اسی کے ذیل میں خدا کے ان بندوں کی دو اور خصوصیات یہاں بیان ہوئی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ دوسروں کے حقوق کا پاس و لحاظ اور احترام کرتے ہیں، کسی بھی ایسی نشست و برخاست میں شریک نہیں ہوتے جہاں جھوٹ بولا جاتا یا لہو و لعب انجام پاتا ہو اور دوسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ اس طرح کی بیہودہ اور غیر مفید نشستوں سے وقار و متانت کے ساتھ گذر جاتے ہیں، یعنی نہ صرف یہ کہ شریک نہیں ہوتے بلکہ وہ ادہر سے گذرتے وقت خود کو اس چیز سے پاک و منزہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ہم نشینی ، اختلاط یا ان کے کامو ں کی طرف نگاہ کرنا بھی پسند کریں، وہ پورے ایمانی وقار کے ساتھ وہاں سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔
اس کے بعد سورۂ فرقان کی ۷۳ ویں آیت میں خدا فرماتا ہے:
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآَيَاتِ رَبّہمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَیہا صُمًّا وَعُمْيَانًا (73)
اور یہ (رحمن کے بندے) ان لوگوں میں ہیں کہ جن کے سامنے جس وقت ان کے پروردگار کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ اندھوں اور بہروں کی طرح اس پر ٹوٹ نہیں پڑتے (یعنی سمجھ بوجھ کر اس پر عمل کرتے ہیں)۔ سورۂ 25(73:77)
آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے بندوں کو عقل و سمجھ عطا کرنے والے رحمان کے بندے ہیں اس لئے کہ جب ان کے سامنے خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں وہ اندھوں اور بہروں کی طرح بلا سوچے سمجھے اور دیکھے بھالے ان پر ٹوٹ نہیں پڑتے یعنی قرآنی حکمت و موعظت کی باتیں بھی آنکھ بند کرکے قبول نہیں کرتے وہ ''ہر چہ از دوست رسد نیکوست'' کہ قائل نہیں ہیں، جو کچھ بھی پڑھتے اور لکھتے ہیں اس پر غور و فکر کرتے ہیں ، تعقل و تفکر سے کام لیتے ہیں بلاوجہ کی باتوں سے دل نہیں باندھتے، عقل و ہوش کے ساتھ باتیں سنتے اور علم و بصیرت کے ساتھ مانتے اور قبول کرتے ہیں اور جب کسی بات کی حکمت و مصلحت پر ایمان لے آتے ہیں تو ان کو الہی موعظت و نصیحت پر عمل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا گویا رحمان کے بندوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ کوئی بھی بات آنکھ اور کان بند کرکے نہیں مانتے ہر بات اپنی بصیرت و معرفت کی میزان پر تولتے اور پرکھتے ہیں اس کے بعد مانتے ہیں اسی لئے اپنے ایمان و عقائد میں محکم و مستحکم ہوتے ہیں، انحراف کا شکار نہیں ہوتے ، الہی آیات کے بارے میں غور و فکر کرتے ہیں تا کہ الہی مقصود کو گہرائی کے ساتھ سوچ سمجھ کر ایمان لائیں اور کبھی کسی کی لقلقۂ زبان اور سفسطۂ شیطان میں پڑکر راہ ایمان و قرآن سے منحرف نہ ہونے پائیں۔
معلوم ہوا:۔
اسلام میں کسی کے لئے بھی راہ مسدود نہیں ہے، گنہگاروں کے لئے بھی توبہ ؤ برگشت کی راہ باز ہے، پچھلے گناہوں سے توبہ او ر تدارک خدا کے دین و احکام پر ایمان اور اعمال صالحہ کی انجام دہی کمال و نجات کی بنیادی شرط ہے۔توبہ ؤ استغفار اور ایمان ایک قسم کا درونی انقلاب ہے جس کے بعد تمام برائیاں ، اچھائیوں میں بدل جاتی ہیں، یعنی توبہ صرف گالوں پر تھپڑ مارلینے کا نہیں بلکہ فکر و نظر اور عمل و رفتار منقلب ہوجانے کا نام ہے۔نہ صرف انجام دینا بلکہ گناہ کی بزم میں شرکت اور تماشائی ہونا یا جھوٹ اور فریب کی گواہی دینا بھی جائز نہیں ہے۔اہل ایمان اس طرح کے اجتماعات میں شامل نہیں ہوتے اتفاق سے گذر ہوبھی جائے تو وقار و متانت کے ساتھ وہاں سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔نہی عن المنکر کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ مومن گنہگاروں کی طرف سے بے اعتنائی دکھائے اور ایسے اجتماع سے باہر نکل جائے ۔خدا کے بندوں کی زندگی کا ایک ہدف و مقصد ہے، وہ اپنی زندگی فضول اور غیر مفید کاموں میں نہیں لگاتے۔تعقل و تفکر مومن کے تمام کاموں کی بنیاد اور اساس ہے ، خدا چاہتا ہے کہ اس کے بندے جنھیں اس نے عقل و خرد سے نوازا ہے دینی امور بھی بصیرت و آگہی کے ساتھ انجام دیں۔اہل ایمان حتی آنکھ کان بند کرکے قرآنی آیات پر ایمان نہیں لائے ، چہ جائے کہ دوسروں کے اقوال و ارشاد کو مان لینا اور آنکھ بندکرکے اس پر عمل کرنا۔ عقل و بصیرت سے عاری اندھی عبادت یا اندھی ریاضت کی اسلام اجازت نہیں دیتا
source : abna