ہمارے بارہ کے بارہ اماموں میں سے ہر ایک کی منفرد خوبیاں ہیں ۔ اب پتہ نہیں جسارت ہے یا نہیں ؟ کہتے ہیں " در مثل مناقشه نیست "
یعنی اگر کوئی کسی چیز کی مثال بیان کرنا چاہے تو اسے یہ نہیں کہنا چاہیۓ کہ یہ مثل اچھی ہے یا نہیں ۔ معلم جب کسی ضرب المثل یا کسی موضوع کو بیان کرنا چاہے تو اسے بچے کی عمر اور فہم کے لحاظ سے ہی اسے بیان کرنا پڑتا ہے ۔ ایک سات سال کے بچے یا دس سال کے بچے سے لے کر یونیورسٹی کے پروفیسر کے لیۓ تدبر کا انداز مختلف ہو گا ۔
فٹ بال کے کھیل میں گیارہ کھلاڑی ہوتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کھلاڑی کا کردار مختلف ہوتا ہے ۔ کوئی سر سے تو کوئی پاؤں سے فٹ بال کو اپنے قابو میں رکھتا ہے ۔ بہرحال ان سب کا ھدف تو گول کرنا ہی ہوتا ہے لیکن ان کی حرکات ایک طرح کی نہیں ہوتی ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک مخصوص قسم کا وظیفہ انجام دیتا ہے اور آخر میں ایک ھدف یعنی گول کرنے میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے ۔
اسی طرح ہمارے اماموں نے بھی دین کی تبلیغ میں مختلف طرح کے وظائف انجام دیۓ ہیں ۔ ہر امام کا کردار دوسرے سے کچھ مختلف ضرور تھا مگر مقصد ایک تھا کہ دین اسلام کی خدمت کی جاۓ ۔
مثال کے طور پر انسان کے حالات بھی مختلف ہوتے ہیں یا تو برائیاں اس کے وجود کا منظم حصّہ بن چکی ہوتی ہیں یا نہیں ۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام کی ایک دعا کا مفہوم ہے کہ اے خدا ! اگر میرے اندر برائیاں رچ گئی ہیں اور میری خصلت کا حصہ بن گئی ہیں تو میری اصلاح فرما دے ۔ اگر میں برا ہوں لیکن برائی میری روح میں زیادہ داخل نہیں ہوئی ہے کہ میرے میرے نظام کا حصہ ہو کر میری فطرت بنے لیکن مجھ پر طاری ہے ۔ مجھے بدل دے اور خوبی میں تبدیل کر دے ۔
source : tebyan