انسانیت بنیا دیا عمارت
انسان ایک قسم کا حیوان ہے اس لئے دوسرے تمام جانداروں کے ساتھ اس کی بہت ساری چیزیں مشترک ہیں اور یہ بعض بنیادی فرق بھی رکھتا ہے جن وجہ سے انسان دوسرے جانداروں سے ممتاز ہوتا ہے۔ انسان حیوان سے اپنی مشترک و امتیازی و جوہات کی بناء پر دو طرح کی زندگی کا حامل ہے۔ حیوانی اور انسانی زندگی یا دوسرے معنوں میں مادی اور ثقافتی زندگی۔
اب یہاں یہ مسئلہ درپیش ہے کہ انسان کی حیوانیت اور انسانیت میں کیا ربط ہے؟ بحث یہ ہے کہ انسان کی حیوانی زندگی اور انسانی زندگی کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ یا انسان کی مادی زندگی اور روحانی و تمدنی زندگی کا باہم کیا جوڑ بنتا ہے؟ کیا ان دونوں میں سے کوئی ایک جڑ کا کام دیتی ہے اور دوسری اس کی شاخ و برگ کی مانند ہے؟ ایک اساس کے طور پر ہے تو دوسری اس کا پر تو اور انعکاس ہے؟ ایک بنیاد ہے تو دوسری اس کے اوپر قائم ہونے والی عمارت ؟ آیا مادی زندگی بنیاد ہے اور ثقافی زندگی عمارت ہے؟
آج کل بحث مباحثوں میں سماجی پہلوزیادہ غالب رہتا ہے اور نفسیاتی پہلو نظر انداز کر دیا جاتا ہے سماجیات کو اہمیت دی جاتی ہے اور ماہرین نفسیات کی آراء پس پشت ڈال دی جاتی ہیں لہٰذا بحث کی صورت یوں بنتی ہے کہ آیا اجتماعی و معاشرتی شعبوں کی اقتصادیات ہی بنیاد بنتی ہے چونکہ پیداوار اور پیداواری روابط اسی پر منحصر ہیں اور باقی تمام سماجی پہلواس کا پر تو ہیں۔ خصوصاً وہ شعبے جو انسان کی انسانیت کے علم بردار ہیں۔ وہ بھی اقتصادی بنیادپر اٹھنے والی عمارت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا سائنس فلسفہ ادب دین قانون اخلاق اور فن ہر دور میں اقتصادی و معاشی حقیقتوں ہی کے مظاہر رہے ہیں اور خود بنیاد کی حیثیت نہیں رکھتے۔
جی ہاں! آج کل جو بحث ہے وہ اس اندا زمیں ہے لیکن سماجیات کی اس بحث کا نتیجہ بہرحال علم نفسیات (سائیکالوجی) ہی پر منتہی ہوتا ہے۔ پھر یہ بحث انسان کی اصلیت و حقیقت کے بارے میں موجود فلسفی بحث میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ یوں کہ انسان کی انسانیت کسی صورت بھی اصالت کی مالک نہیں فقط اس کی حیوانت اصالت سے بہرہ مندہے۔ حیوانیت کے مقابلے میں انسان کے اندر انسانیت نام کی کوئی اصالت موجود نہیں ہے۔ اس سے اسی نظریے کی تائید ہوتی ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان کسی بنیادی فرق کا قائل نہیں۔
اس نظریہ کے مطابق خیر خواہی حقیقت جوئی جمال پرستی اور خدا پرستی جیسے انسانی رجحانات کی اصالت کا انکار ہوتا ہے مزید اس سے اس امر کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ انسان کائنات اور حقیقت سے متعلق حقیقت پسند ہو سکتا ہے کیوں کہ پھر کوئی نظریہ فقط نظریہ نہیں ہو سکتا غیر جانبدار رائے نہیں ہو سکتی بلکہ نظریہ کسی خاص مادی رجحان ہی کا نتیجہ ہو گا۔ تعجب ہے کہ اس نظریے کے حامل بعض مکاتب انسانیت کا دم بھی بھرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کے ارتقاء کا سلسلہ حیوانیت سے شروع ہوتا ہے اور انسانیت کے کمال تک جا پہنچتا ہے۔ یہ اصول ایک ایک فرد پر بھی پورا اترتا ہے اور معاشے پر بھی صادق آتا ہے ۔
انسان اپنے وجود کی ابتداء میں ایک مادی جسم ہوتا ہے۔ جوہری تکامل کے ساتھ ساتھ روح یا جوہر روح میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انسانی روح جسم کے دامن میں آنکھ کھولتی ہے پروان چڑھتی ہے اور آزادی کی دولت سے مالا مال ہو جاتی ہے۔
انسانیت کی حیوانیت بھی اس گھونسلے اور آشیانے کے مترادف ہے جس میں اس کی انسانیت پروان چڑھ کر کمال حاصل کرتی ہے۔ کمال کی خاصیت یہ ہے کہ وجود مکمل جس قدر بھی کمال حاصل کرتا جائے گا مستقل آزاد قائم بالذات اور اپنے محیط پر حاکم اور موثر ہوتا چلا جائے گا۔ لہذا انسان کی انسانیت فرد میں یا معاشرے میں جس قدر کمال حاصل کرے گی۔ استقلال اور تمام جوانب پر حاکمیت کی جانب گامزن رہے گی۔ کمال حاصل کرنے والا انسان ایک ایسا فرد ہے جو اندرونی و بیرونی ماحول کے تسلط و حاکمیت سے مبرا ہو اور عقیدہ و ایمان سے وابستہ ہو۔ معاشرے کی تکمیل بھی عیناً اسی طرح وقوع پذیر ہوتی ہے جیسے تکمیل روح جسم کے دامن میں اور فرد کی انسانیت کی تکمیل اس کی حیوانیت کے دامن میں انجام پاتی ہے انسانی معاشرہ زیادہ تر اقتصادی شعبوں کے خمیر سے ہی پروان چڑھتا ہے۔ معاشرے کے ثقافتی اور روحانی پہلومعاشرے کی روح کی طرح ہوتے ہیں جیسے جسم اورروح ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے کی روح اور بدن ایک دوسرے پر اپنے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یعنی مادی شعبوں کے درمیان ایسے ہی روابط ہوتے ہیں۔جیسے فرد کے تکامل کا سفر روح کی زیادہ سے زیادہ آزادی استقلال اور حاکمیت کی جانب ہوتا ہے۔ معاشرے کی تکمیل بھی اس نہج پر ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہیے زندگی پر آزادی و حاکمیت اور ثقافتی زندگی کا غلبہ ہوتا جاتا ہے۔
گل
مستقبل کا انسان اقتصادی حیوان نہیں بلکہ ثقافتی حیوان ہے مستقبل کا انسان شکم پرور نہیں بلکہ عقیدہ و ایمان اور مسلک کا انسان ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی معاشرہ ایک جبر کے تحت قدم بہ قدم صراط مستقیم پر انسانی اقدار کی طرف رواں دواں ہے اور انسانی معاشرہ اس اعتبار سے ہر زمانے میں پہلے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔
ممکن ہے انسانی معاشرتی و اجتماعی زندگی کی تمام تر مادی و سائنسی ترقی کے باوجود روحانی اعتبار سے گذشتہ ادوار کی نسبت پستی کا شکار ہو جیسا کہ آج ہمارے اس دور کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی حرکت میں مجموعی طور پر مادی و روحانی دونوں میدانوں میں پیش رفت کر رہا ہے۔ روحانی اعتبار سے انسان کی تکمیل حرکت بالکل سیدھی خط مستقیم پر نہیں ہوتی بلکہ گاہ بگاہ دائیں بائیں منحرف ہوتی رہتی ہے اور بعض اوقات ٹھہراؤ پھر باز گشت سے بھی دو چار ہو جاتی ہے لیکن اس کے باوجود مجموعی طور پر ایک تکمیل حرکت ہے اس بناء پر ہم کہتے ہیں کہ مستقبل کا انسان ثقافتی حیوان ہے نہ کہ اقتصادی مستقبل کا انسان شکم پرور نہیں بلکہ ایمان و عقیدہ کا انسان ہے۔
اس نظریہ کے تحت انسان پہلے اپنی اصالت کی وجہ سے پیداواری آلات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر تکمیلی مراحل طے کرتا ہے۔ اپنی اسی تکمیل کی بناء پر قدرتی اور معاشرتی ماحول سے اس کی وابستگی اور تاثیر پذیری میں بھی آہستہ آہستہ کمی واقع ہوتی رہتی ہے دوسری طرف عقیدے ایمان مسلک اور نظریات کے ساتھ اس کی وابستگی ہوگی اور قدرتی و اجتماعی ماحول آزادی استقلال اور عقیدہ و ایمان کے ساتھ مکمل وابستگی ہو گی اور قدرتی و اجتماعی ماحول آزادی استقلال اور عقیدہ و ایمان کے ساتھ مکمل وابستگی حاصل کر لے گا۔ اگرچہ گذشتہ ادوار میں انسان نے اپنے وجود اور قدرتی نعمتوں سے کمتر فائدہ اٹھایا ہے اور زیادہ تر اپنی حیوانیت اور فطرت ہی کا اسیر رہا ہے۔ لیکن مستقبل کا انسان جہاں اپنے وجود اور فطرت سے پہلے بڑھ کر مستفید ہو گا وہاں ان کی قید سے نسبتاً زیادہ آزاد ہو گا اور ان دونوں پر اپنے غلبے میں اضافہ کرے گا۔ اس نظریہ کے مطابق انسان کی حقیقت اگرچہ حیوانی و مادی تکمیل ہی کے دامن میں ترقی کے زینے طے کرتی ہے لیکن کسی صورت میں مادی تکامل کے زیر سایہ یا تابع نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ خود سے علیحدہ آزاد مستقل اور کمال حاصل کرنے والی ایک حقیقت ہے۔ یہ مادی پہلوں سے اثر قبول کرتی ہے اور ان پر موثر بھی ہوتی ہے۔ انسان کا خالص تمدنی ارتقاء اور اصل انسانی حقیقت ہی دراصل انسان کی قسمت و تقدیر کا آخری فیصلہ کریں گے نہ کہ ترقی یافتہ پیداواری آلات انسان کی یہ اصل حقیقت اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ اور زندگی کے باقی شعبوں کے ہمراہ پیداواری آلات کو بھی کمال بخشتی ہے۔ پیداواری آلات خود بخود ترقی کے زینے طے نہیں کرتے۔ جیسے اوزار کے ترقی یافتہ ہونے سے پیداواری نظام ارتقاء پاتا ہے تو گویا اس نظا م میں تغیر و تبدل کی گنجائش موجود ہے۔ انسان کی انسانیت میں بھی اسی طرح تغیر و تبدل آتا رہتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں تکامل ہوتا ہے اور انسانیت پیداواری نظام کو بھی کامل کر دیتی ہے۔
source : tebyan