یغمبروں کے اکثر معجزات حسّی اثرات کی سلطنت میں اور انہی کے زمانے پر منحصر تھے اور فقط اسی عہد کے لوگ ان کا مشاھدہ کرتے تھے لیکن قرآن کا اعجاز ابدی اور قیامت تک پایدار اور باقی رہنے والا ہے ۔ قرآن کی معجزہ عظمت معنی اور اس میں پوشیدہ اسرار اور اس کے علم کا استعمال ،محدود حواس اور طبیعی پہلوؤں سے ماورا میں قابل دید اور قابل دریافت ہے ۔ اس الہی الہام کا انکشاف اور گویائی ایک محدود دورے سے متعلق نہیں اور اس کے نور کی درخشانی کی جھلک ابد تک خود اس پیغام الہی کی حقانیت پر حجّت ہے ۔
قرآن کی آیتیں اور الفاظ ایک بسیط اور لامتناہی واقیعت کی تجلی اور روشن دلیل ہیں ۔ قرآن ایک کہکشانی مشابہت رکھتی ہے جس کے بطن میں متعدد مراتب پوشیدہ ہیں ۔ قرآنی علوم کی گہرائی تک لطف خداوندی کے بغیر رسوخ حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر ہم قرآن کی آیات اور اس کے الفاظ کا صرف ظاہری معنی کے تحت اور اپنی معنویت کی گہرائیوں میں نفوذ کیۓ بغیر مطالعہ کریں تو قرآنی معنوں کا صرف سطحی طور پر سامنا ہو گا اور قرآن کے پوشیدہ راز ہم سے مخفی رہیں گے ۔ فقط باطنی دریافت کے ذریعے کسی شخص کے لیۓ قرآن کی لامتناہی اور ابدی واقعیت کے انکشاف کا حصول ممکن ہے ۔
جلال الدین رومی حقیقت قرآن کی دریافت اور ادراک کے مختلف درجات کے فرق کے بارے میں یوں کہتے ہیں :
'' بعض لوگ اس راہ میں دودھ پیتے بچوں کی مانند قرآن کے لفظی معنوں کا ادراک حاصل کرتے ہوۓ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، لیکن وہ لوگ ، جنھوں نے اس کی شناخت کی راہ میں سلوک اختیار کر لیا ہے ، اس کے گہرے معنی دریافت کرتے ہیں اور ان کے لیۓ ایک اور ہی لذت ہے ۔
مکتب قرآن کے طالب علم کو چاہیے کہ قرآن کے معنوں کو ظاہری اور باطنی طور پر دریافت کرکے ادراک حاصل کرے اور اس کی تعلیمات کو مکمل یگانگت میں کشف کرے ۔
مولوی اپنی '' مثنوی معنوی '' میں قرآن کے پوشیدہ بطون اور رازوں کے بارے میں یوں کہتے ہیں ۔
source : tebyan