دراصل قرآن حکيم کي تعبيرات کا کمال يہي ہے کہ اس ميں قدرت کي ظاہري نشانيوں کو غيبي حقائق کے لئے بطور دليل پيش کيا گيا ہے - ايک عام انسان بھي اس سے اپني سمجھ بوجھ کے مطابق دليل کے طور پر اخذ کرسکتا ہے اور بالغ نظر دانشور،حکيم يا فلسفہ دان بھي انہي الفاظ وتعبيرات ميں اپنا مدعا پا کر اس پر مزيد غور وفکر کرسکتا ہے - اس طرح وہ عقلي دلائل اور براہين کي روشني ميں بھي ان حقائق کو تسليم کرنے لگتا ہے -
کائنات کي ظاہري نشانيوں کو دليل کے طورپر پيش کئے جانے کا يہ قدرتي نتيجہ ہے کہ اس کتاب مبين ميں ضمني طور پر مختلف علوم وفنون سے تعلق رکھنے والے مسائل کي طرف بھي اجمالاً اشارات وکنايات کئے گئے ہيں ليکن اصل مقصد ان علمي حقائق کا بيان نہيں ہے بلکہ غيبي حقائق کوتسليم کرانا ہے جن کے لئے بطور دليل ان کا تذکرہ بھي کيا گيا ہے - مثال کے طور پر قرآن مجيد کي سورہ ''المومنون'' ميں انسان کي تخليق کے بارے ميں ايک جگہ ارشاد رباني ہے -
ترجمہ: '' ہم نے انسان کو مٹي کے جوہر سے پيدا کيا ، پھر ہم نے اسے ايک محفوظ جگہ ميں نطفہ بنايا پھر ہم نے اس نطفے سے خون کا لوتھڑا بنايا - پھر اس خون کے لوتھڑے سے گوشت کي بوٹي بنايا ، پھر گوشت کي بوٹي کوہڈي بنايا ،پھر ہم نے ہڈيوںپرگوشت چڑھايا ، پھر ہم نے اسے ايک دوسري ہي مخلوق بناديا - کيسي شان والا ہے اللہ تمام صناعوں سے بڑھ کر ''-(المومنون)
اس آيت قرآني ميں جوحقيقت بيان کي گئي ہے جديد علم الجنين (Embroyology)سے حرف بہ حرف اس کي تصديق ہوتي ہے او ريورپ کے بڑے بڑے اطبائ يہ جان کر حيران ہوتے ہيں کہ ان حقائق کا اظہار چودہ سوسال پہلے کس طرح کيا گيا ہے -لہٰذا بے شک يہ بھي قرآن پاک کا ايک بہت بڑا علمي اعجاز ہے جس کا مقصد اللہ کي قدرت اور شان تخليق کا اظہار ہے ليکن يہ بھي ايک بين حقيقت ہے کہ اسي بنياد پر ہم قران کو "Embroyology"کي کتاب قطعاً قرار نہيں دے سکتے ہيں اور نہ ہي اس علم کي تمام جزوي تفصيلات کو جو ابھي تکميل طلب ہيں قرآن پر مسلط کرسکتے ہيں بلکہ قرآن حکيم کي شان کتاب ہدايت کي رہے گي اور علمي اعجاز اس کي صداقت کي دليل- دراصل کسي جديد يا قديم انساني علم کي فني جزئيات سے اسي حد تک اس کا رشتہ جوڑا جا سکتا ہے جو اس کے بنيادي مقاصد سے ہم آہنگ ہو- اس کے بعد وہ قطعي اور يقيني بھي ہو -
source : tebyan