اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

قرآن رہتي دنيا تک کے ليۓ رہنما ہے

چناچہ يہ کفار کي بدبختي تھي کہ يہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپني ضد اور مادي فوائد کے لالچ ميں اسلام کي دولت سے محروم رہے- حضورصلي اللہ عليہ وآلہ وسلم چونکہ اللہ تعاليٰ کے آخري نبي ہيں جن کي نبوت قيامت تک قائم رہے گي ' چنانچہ ان کو معجزہ بھي ايسا ديا گيا جو قيامت تک رہے گا اور اس کو نہ صرف آج بلکہ قيامت تک ہر دور ميں پرکھا جا سکتا ہے-
قرآن رہتي دنيا تک کے ليۓ رہنما ہے

چناچہ يہ کفار کي بدبختي تھي کہ يہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپني ضد اور مادي فوائد کے لالچ ميں اسلام کي دولت سے محروم رہے- حضورصلي اللہ عليہ وآلہ  وسلم چونکہ اللہ تعاليٰ کے آخري نبي ہيں جن کي نبوت قيامت تک قائم  رہے گي ' چنانچہ ان کو معجزہ بھي ايسا ديا گيا جو قيامت تک رہے گا اور اس کو  نہ صرف آج بلکہ قيامت تک ہر دور ميں پرکھا جا سکتا ہے-

يہ حقيقت ہے کہ جوں جوں زمانے نے ترقي کي ہے ويسے ہي قرآن مجيد کي حقانيت واضح ہوتي چلي گئي ہے، تمام مفسرين نے اپنے اپنے زمانے کے علم اور ترقي کے اعتبار سے قرآن مجيد کو سمجھا اور اس کي تفسير لکھي کيونکہ علم اللہ تعاليٰ کي دين ہے وہ انسان کو جس قدر چاہتاہے کسي چيز کے بارے ميں علم عطافرماتا ہے'جيسے کہ فرمان باري تعاليٰ ہے:

( وَلاَيُحِيطُوْنَ بِشَيْئٍ مِّنْ عِلْمِہ اِلَّابِمَا شَآءَ )

'' وہ اس کي معلومات ميں سے کسي چيز پر دسترس حاصل نہيں کر سکتے ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسي قدر معلوم کرا ديتا ہے )''

بے شک قرآن سائنس کي کتاب نہيں ہے ،مگر کئي سائنسي حقائق جو اس کي آيا ت ميں بعض مقامات پر انتہائي جامع اور کہیں اشارةً بيان کيے گئے ہيں صر ف بيسويں صدي کي ٹيکنالوجي اور سائنسي علوم کے فروغ کي مدد ہي سے ان کا مفہوم) کسي حد تک( واضح ہو سکا ہے- قرا ن حکيم کے نزول کے وقت ان کے اصل معاني متعين کرنا ناممکن تھا' يہ مزيد ايک ثبوت ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے-قرآن حکيم کو بطور ايک سائنسي معجزہ 'سمجھنے کے ليے ہميں نزول ِ قرآن کے وقت کي سائنسي حالت پر نگاہ ڈالني ہو گي-

ساتويں صدي عيسوي ميں جب قرآن کا نزول ہوا ،عرب معاشرے ميں سائنسي معلومات کے حوالے سے بہت سارے توہماتي اور بے بنياد خيالات رائج تھے-ٹيکنالوجي اتني ترقي يافتہ نہيں تھي کہ يہ لوگ کائنات اور قدرت کے اسرار کو پرکھ سکيں لہٰذا عرب اپنے آباۆاجداد سے وراثت ميں ملے قصے کہانيوں پر يقين رکھتے تھے- مثال کے طور پر ان کا خيال تھا کہ زمين ہموار ہے اور اس کے دونوں کناروں پر اونچے پہاڑ واقع ہيں- يہ خيال کيا جاتا تھا کہ يہ پہاڑ ايسے ستون ہيں جنھوں نے آسمان کے قبے يا گنبد کو تھاما ہوا ہے-قرآن کے نزول کے ساتھ ہي عرب معاشرے کے ان تما م توہماتي خيالات کا قلع قمع ہو گيا-

سورة الر عد کي آيت 2ميں کہا گيا:

( اَللّٰہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَِيْرَعَمَدٍ تَرَوْنَھَا…)

''اللہ وہي تو ہے جس نے ستونوں کے بغير آسمان جيسا کہ تم ديکھتے ہو (اتنے)اُونچے بنائے....''

اس آيت نے اس خيال کي نفي کر دي کہ آسمان پہاڑوں کي وجہ سے بلندي پر قائم ہيں- قرآن اس وقت نازل ہوا جب لوگ فلکيا ت (Astronomy) طبيعيات (Physics) يا حياتيات (Biology) کے متعلق بہت کم جانتے تھے- يہ وہ مضامين ہيں جن سے کائنات کي تخليق ،انسان کي تخليق،فضا کي ساخت ،زمين پر زندگي کو ممکن بنانے والے نازک تناسب جيسے موضوعات کے بارے ميں بنيادي معلومات ملتي ہيں- ( جاري ہے )


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا
دینی معاشرہ قرآن و سنت کی نظر میں
سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۳۳ اور سورہ احقاف کی آیت ...

 
user comment