اردو
Sunday 24th of November 2024
0
نفر 0

امامت قرآن و حدیث کی روشنی میں

مقدمہ قارئین کرام ! ”امامت“ کے موضوع پر بہت زیادہ بحث وگفتگو ہوئی ھے یھاں کہ اس سلسلہ میں ہزاروں کتابیں لکھیں جاچکی ھیں۔ اورمتعدد موٴلفین نے اس سلسلہ میں بہت سی فروعات پر تفصیلی گفتگو کی ھے چنانچہ بعض موٴلفین نے کچھ پھلووں پر گفتگو کی ھے تو بعض دیگر موٴلفین نے دوسرے پھلو پرروشنی ڈالی ھے، کیونکہ بعض موٴلفین نے بحث امامت کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا او ربعض دیگر موٴلفین نے امامت کو حدیث کی روشنی میں، تو بعض موٴلفین نے امامت کو علم کلام کی روشنی میں بیان کیا تو کسی نے تاریخ کی روشنی میں اور کسی ن
امامت قرآن و حدیث کی روشنی میں


مقدمہ

قارئین کرام ! ”امامت“ کے موضوع پر بہت زیادہ بحث وگفتگو ہوئی ھے یھاں کہ اس سلسلہ میں ہزاروں کتابیں لکھیں جاچکی ھیں۔
اورمتعدد موٴلفین نے اس سلسلہ میں بہت سی فروعات پر تفصیلی گفتگو کی ھے چنانچہ بعض موٴلفین نے کچھ پھلووں پر گفتگو کی ھے تو بعض دیگر موٴلفین نے دوسرے پھلو پرروشنی ڈالی ھے، کیونکہ بعض موٴلفین نے بحث امامت کو قرآن کی روشنی میں بیان کیا او ربعض دیگر موٴلفین نے امامت کو حدیث کی روشنی میں، تو بعض موٴلفین نے امامت کو علم کلام کی روشنی میں بیان کیا تو کسی نے تاریخ کی روشنی میں اور کسی نے امامت کی بحث کو وقت وفات النبی سقیفہ کے حدود میں بیان کیا ھے تو بعض لوگوں نے ائمہ (ع) کی سوانح حیات اور ان کی تاریخ بیان کی ھے، چنانچہ آج تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری وساری ھے۔
چونکہ اس سلسلہ میں لکھی گئی کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ھے لیکن پھر بھی بعض لوگوں نے تعصب اور خود غرضی کے تحت اس موضوع کی حقیقت ھی کو بیان نھیں کیا، لہٰذا بہت سی کتابیں اسی تعصب اور کج فکری سے بھری پڑی ھیں چنانچہ اسی تعصب کا نتیجہ ھے کہ ان کتابوں میں ایسے مسائل بیان کئے گئے ھیں جن کو عقل ومنطق قبول نھیں کرتی۔
یھی وجہ ھے کہ ان لوگوں نے بحث امامت کو اس طرح پیش کیا ھے جس میں ہوا پرستی اور خیالی تصورات کے علاوہ کچھ نھیں پایا جاتا اور ان میں نہ تو امامت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ھے اور نا ھی ایسے نکات کو بیان کیا گیا جو بین المسلمین متفق علیہ ہوں،جبکہ ان نظریات کا سبب صرف یھی کتابیں ھیں جو اصل موضوع سے خارج ھیں۔
لہٰذا اب ھم صاف طور پر بیان کرتے ھیں :
”ھم چونکہ آج امامت کی بحث کرنا چاہتے ھیں جبکہ ”سقیفہ“ کو چودہ صدیاں گذر گئیں ھیں پس یہ کیوں کھا جاتا ھے کہ ھم اختلاف کررھے ھیں اور جب اختلاف کرتے ھیں (جیسا کہ بحث کرنے والوں کا وطیرہ رھا ھے) تو ھم پر تعصب اور زیادہ روی کی تھمت کیوں لگائی جاتی ھے ؟! جبکہ اختلاف رائے سے کسی واقعہ کی حقیقت نھیں بدلتی۔“
تو کیا اس موضوع کے بارے میں ایسے امور ھیں جن کی وجہ سے معاصر انسان مطمئن ہوجائے اور اپنے دل میں موجودہ شبھات کا حل تلاش کرلے؟۔
یا اس سلسلہ میں کچھ ایسے موارد ھیں جن کی وجہ سے انسان دھوکا کھاجاتا ھے یا جن کی وجہ سے نوع بشر کو مشکلات کا سامنا ہوتا ھے؟
آج دنیا بھر کے تمام مسلمان اس بات پر متفق ھیں کہ آج ھمارے سامنے کوئی امام حاضر نھیں ھے ، جو ان میں اختلاف کا باعث ہو مثلاً بعض لوگ اس کی بیعت کریں او ربعض اس کی بیعت سے انکار کردیں، اور اسی وجہ سے ایسا کوئی جھگڑا نھیں ھے جس سے انسان ڈرے یا اس سلسلہ میں کچھ کہنے والا کسی سے خوف کھاجائے۔
شاید کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو:
”جب باتیں کچھ اس طرح ھیں تو اس گفتگو ، بحث او رجد جہدکا کیا فائدہ“؟

جواب:

ھم اس سلسلہ میں اسلام کا حقیقی نظریہ پیش کرنا چاہتے ھیں، کیونکہ اسلام ایک ایسا دین ھے جو نظام زندگی ھے اور ھم اس اھم اور خطرناک موضوع کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات کا صاف اور واضح جواب پیش کریں، چنانچہ اس سلسلہ میں چند اھم سوال اس طرح ھیں:
۱۔اسلام کی نظر میں ”امامت“ کے کیا معنی ھیں؟
۲۔کیا”امامت“ ضروری ھے اگر ضروری ھے تو کیسے؟
۳۔کیا واضح طور پر کسی کو منصب ”امامت“ پر منصوب کیا گیا ھے یا انتخاب پر چھوڑ دیا گیا ھے؟
۴۔کیا ”امامت“ منصوص ھے؟ ٹیوقراطی ھے""،یاڈکٹاٹوری "" یاڈیموکراٹک "" ھے ؟
ان سوالات کے علاوہ اور دیگر پھلو بھی ھیں جن کے بارے میں حقیقت کو واضح کرنے کے لئے عمیق بحث کی ضرورت ھے تاکہ اس اھم مسئلہ میں اسلامی نظریہ واضح ہوجائے۔
چنانچہ ھم اس باب میں ایسی روش اختیار کریں گے جس سے ھمارے قارئین کرام اسلامی فرقوں میں موجودہ نظریات میں سے صحیح نظریہ کا انتخاب کرلیں، اور ادھر اُدھر نہ بھٹکنے پائیں۔
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد کے حالات سے بعض مسلمانوں کے احساسات کو ٹھیس پہونچ سکتی ھے لہٰذا ھم ان کو بیان نھیں کریں گے۔
ھماری ساری امید خداوندعالم کی ذات ھے کیونکہ وھی ھماری مدد کرنے والا ھے اور ھمارے لڑکھڑاتے ہوئے قدم میں ثبات پیدا کرنے والا ھے اور وھی مذکورہ باتوں کے بیان کرنے میں نصرت ومدد کرنے والا ھے خداوند ! ھمارے قلم کو سہو وخطا سے محفوظ رکھ اور ھمیں اس راستہ پر چلا جس میں تیری مرضی ہو، او رھمارا قول وفعل تیری مرضی کے مطابق ہو، انہ خیر مسدد وموفق ومعین۔

وآخر دعواناان الحمد لله رب العالمین۔

 
امامت کے عام معنی

امام کے معنی اپنی قوم کے آگے چلنے والے رھبر اور مقتدیٰ کے ھیں (جیسا کہ عربی لغت میں آیا ھے)۔[1]
لہٰذا امامت کے معنی قیادت اورریاست کے ھیں، اسی وجہ سے نماز پڑھانے والے کو بھی امام کھا جاتا ھے کیونکہ وہ دوسروں سے آگے ہوتا ھے۔
چنانچہ قرآن مجید میں اسی لغوی معنی کو استعمال کیا گیا ھے؛ ارشاد ہوتا ھے:
[2]
”خدا نے فرمایا کہ میں تم کو (لوگوں کا) پیشوا (امام) بنانے والا ہوں“
[3]
(اور اس سے قبل جناب موسیٰ کی کتاب (توریت) جو لوگوں کے لئے پیشوا اور رحمت تھی“
[4]
”اور ھم کو پرھیزگاروں کا پیشوا بنا“
[5]
”اس دن کو یاد کرو جب ھم تمام لوگوں کو ان کے پیشواوٴں کے ساتھ بلائیں گے۔“
اسی طرح قرآن مجید میں دوسری جگہ پر لفظ ”امام“ استعمال ہوا ھے۔
معنی خلیفہ: جیسا کہ عربی لغت بیان کرتی ھے : امیر، سلطان اعظم او راپنے سے ماقبل کے جانشین کو خلیفہ کھا جاتا ھے۔[6]
لہٰذا خلافت کے معنی امارت، سلطنت اور کسی کے قائم مقام کے ھیں۔
اور اسی معنی میں قرآن مجید میں لفظ ”خلیفہ“ ، ”خلائف“ اور” خلفاء“ استعمال ہوا ھے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ھے:
[7]
”میں (اپنا) ایک نائب زمین میں بنانے والا ہوں“
[8]
”اے داؤد ھم نے تم کو زمین میں (اپنا) نائب قرار دیا“
[9]
”اور وھی تو وہ (خدا) ھے جس نے زمین میں (اپنا) نائب بنایا“
[10]
”اور (وہ وقت) یاد کرو جب اس نے تم کو قوم نوح کے بعد خلیفہ (وجانشین) بنایا“
قارئین کرام ! ان کے علاوہ بھی دوسرے مقامات پر ان الفاظ کو استعمال کیا گیا ھے۔
چنانچہ علماء اھل لغت لفظ ”امامت“ او ر”خلافت“ کے مذکورہ معانی پر متفق ھیں لیکن علماء کلام نے اس سلسلہ میں اختلاف کیا ھے کہ ان دونوں الفاظ کے ایک ھی معنی ھیں یا ان کے الگ الگ معنی ھیں۔
چنانچہ بعض لوگوں نے امامت کی اس طرح تعریف کی ھے:
”امامت، نبی کی اس خلافت کو کہتے ھیں جس میں دین اور نظام دنیا کی محافظت کی جاتی ھے۔“ [11]
خلافت کے بارے میں ابن خلدون صاحب کہتے ھیں:
”خلافت کو تمام مسلمان شرعی طور پر آپس میں طے کرتے ھیں تاکہ مسلمانوں کے دینی اور دنیاوی مشکلات کا حل تلاش کیا جاسکے۔“ [12]
اور اسی بات کی تاکید کرتے ہوئے موصوف کہتے ھیں:
”خلافت وہ دینی منصب ھے جو امامتِ کبریٰ کے تحت ہوتا ھے“[13]
ایک صاحب نے اس طرح ان دونوں (خلافت وامامت) میں رابطہ بیان کرتے ہوئے کھا:
”خلافت امامت کبریٰ ھے او رامامت نماز ؛ امامت ِ صغریٰ ھے۔“ [14]
قارئین کرام ! جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ دونوں لفظ ایک ھی مقصد کی طرف اشارہ کرتے ھیں، اور شاید ”ریاست“ و ”قیادت“ مذکورہ معنی میں سب سے جامع معنی ہوں جن پر ان دونوں الفاظ کے معنی متفق ھیں۔
لیکن جب ھم دیکھتے ھیں کہ یہ قیادت وریاست میدان عمل میں کس طرح وقوع پذیر ہوئی تو ھم اس سلسلہ میں واضح فرق دیکھتے ھیں او رایک متکلم دوسرے متکلم سے الگ نظریہ پیش کرتا ھے اور اس طرح سے ان دونوں الفاظ کے معنی کرتا ھے کہ ان دونوں میں بہت زیادہ فرق دکھائی دیتا ھے۔
لہٰذا طے یہ ہوا کہ امامت کے معنی دینی ریاست کے ھیں جیسا کہ دینی نصوص بھی اس معنی کی طرف اشارہ کرتی ھیں اور خلافت کے معنی حکومت کی ریاست کے ھیں جیسا کہ اس بات پر بھی نصوصِ دینی اشارہ کرتی ھیں۔
چنانچہ شیعہ وسنی محققین کے نزدیک ”امام“ صاحب حقِّ شرعی کو کھا جاتا ھے جبکہ خلیفہ ؛ صاحبِ سلطنت کو کھا جاتا ھے۔ [15] چنانچہ اس لحاظ سے حضرت ابوبکر کی خلافت، سلطنتِ حکومت تھی ، دینی سلطنت نھیں۔ [16]
اسی وجہ سے ان دونوں الفاظ کے لئے ایک خاص میدان اور معین دائرہ ھے۔
اس اختلاف کے باوجود ھمارا یہ عقیدہ ھے کہ یہ دونوں منصب ایک شخص میں جمع ہونے چاہئےں جیسا کہ مذکورہ نصوص سے بھی یھی نتیجہ نکلتا ھے کیونکہ اسلامی نظریہ کے مطابق دین وسیاست (حکومت) میں جدائی نھیں ھے۔
اور جیسا کہ یورپی ممالک سے یہ نظریہ ( دین کا سیاست جدا ہونا) ھم تک پہونچا ھے اور بعض حکومتوں میں ”چرچ “ (گرجا گھر) لوگوں کے عام امور میں دخالت کرتا ھے کیونکہ عیسائی نظام ؛حکومت اور روش حکم کو قبول نھیں کرتی، لیکن ھم مسلمانوں کے لئے شعار کو قبول کرنے میں کوئی بھی عذر نھیں ھے کیونکہ ھمارا دین در حقیقت، رسالت دین اور نظام حکومت ھے۔[17]
لہٰذا ضروری ھے کہ دین وحکومت کی ریاست ایک ھی شخص میں جمع ہوں کیونکہ اگر دونوں جداجدا ہوں تو پھر نہ ھی نظام دین چل سکتا ھے او رنہ ھی نظام حکومت۔
لیکن مسلمانوں کے درمیان بعض لوگ ایسے بھی ھیں جن کا ماننا یہ ھے کہ امامت جدا ھے ، اور خلافت جدا، اور اس نظریہ کے لئے مسلمانوں کی تاریخ عملی کو دلیل کے طور پر پیش کیا ھے جبکہ مسلمانوں میں امامت ،خلافت سے جدا رھی ھے اور مرجع دینی رئیسِ حکومت کے علاوہ رھا ھے کیونکہ یزید بن معاویہ جو خلیفہ تھا لیکن مسلمانوں کا امام نھیں تھا او رنہ ھی مسلمان، دینی مسائل اور عقائد میں اس کی طرف رجوع کرتے تھے۔
قارئین کرام ! شیعوں کی نظر میں” امامت“ رسالت کا ایسا جز ھے جس کے ذریعہ رسالت کامل ہوتی ھے او راس کا وجود جاری وساری رہتا ھے، چنانچہ عقل بھی اس بات کا حکم کرتی ھے کیونکہ امامت لطف ھے او رھر لطف خداپر واجب ھے جیسا کہ علم کلام میں واضح طور پر بیان کیا گیا ھے۔
امامت لطف کیوں ھے؟ تو اس کے جواب میں یہ عرض کیا جائے گاکہ چونکہ لطف اس شیٴ کا نام ھے جس کے ذریعہ سے انسان خدا کی اطاعت سے قریب، اس کی نافرمانی سے دوراور راہ حق پر گامزن رہتا ھے او رحقیقت بھی یھی ھے کہ امامت کے ذریعہ مذکورہ معنی متحقق ہوتے ھیں (یعنی انسان امامت کے ذریعہ خدا کی اطاعت سے قریب اور اس کی نافرمانی سے دور ہوتا ھے)جیسا کہ ھر شخص جانتا ھے کہ اگر مبسوط الید (صاحب طاقت وقدرت) قائد جس کی لوگ اطاعت کریں تو وہ ظالم کو نابود کرنے والا، مظلوم کے ساتھ انصاف کرنے والا اور لوگوں کے امور کو اخلاص وایمان کے ذریعہ منظم کرنے والا نیز لوگوں کو ہوا وہوس او رانانیت سے باھر نکالنے والا ہوتا ھے جن کے ذریعہ سے انسان خدا کی اطاعت سے قریب، معصیت وبرائی سے دور اور اس راہ پر گامزن ہوجاتا ھے جس کو خداوندعالم نے پسندکیا ھے، اور یھی معنی ھیں ”لطف“ کے جس کو ھم نے ابھی بیان کیا ھے۔
چنانچہ اس سلسلہ میں مزید گفتگو کی ضرورت نھیں ھے کیونکہ قدیم زمانے سے آج تک تمام قوم وقبیلہ کا ایک رئیس اور سردار رھا ھے جس کے ذریعہ اس قوم کے مسائل حل ہوتے ھیں اور اپنے لئے دستور وقوانین معین کئے جاتے ھیں چنانچہ آج کا سماج بھی رئیس اور حکومت کی ضرورت کو محسوس کرتا ھے کہ کوئی ایسی حکومت ہو جو انسانی زندگی کے تمام امور مثلاً: سیاست، اقتصاد، عدالت، تربیت اور لشکری امور کو بہترین طریقہ سے انجام دے۔
چنانچہ اسلام کی نظر میں حکومت کی ریاست کے لئے وسیع نظر ھے اس لحاظ سے کہ دین او ردنیا دونوں امور میں اسی کا حکم نافذ ہونا چاہئے وہ امور جن کو شریعت اسلام نے پیش کیا ھے جن میں اسلامی مناطق میں تمام طور وطریقہ کو بیان کیا گیا ھے،چاھے وہ انسان کا خدا سے رابطہ ہو یا انسان کی اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہو۔
او رچونکہ انسانی سماج کے قوانین انسان کے بنائے ہوئے ہوتے ھیں اور زمان ومکان کے لحاظ سے قابل تبدیل ہوتے ھیں لیکن اسلام کا قانون ایسا نھیں ھے کیونکہ آسمانی دین میں تغییر وتبدیلی نھیں ہوتی، لیکن دین اسلام کے مکمل اور کامل ہونے کے ساتھ ساتھ بعض بنیادی اصول میں نصوص بہت زیادہ واضح نھیں ھیں لہٰذا ضروری ھے کہ مکمل طریقہ سے ان مسائل کی تشریح اور وضاحت کی جائے۔۔
قارئین کرام ! جو دلیل نبوت کی ضرورت پر دلالت کرتی ھے وھی دلیل امامت کی ضرورت پر بھی دلالت کرتی ھے کیونکہ نبوت کا وجود بغیر امامت کے نامکمل ہوتا ھے او راگر امامت کو نبوت سے جدا مان لیا جائے تو یہ حقیقت اسلام کے منافی ھے کیونکہ رسالت کا قیامت تک باقی رہنا ضروری ھے، پس:
زندگی کا آغازنبوت ھے ۔
اور امامت اس حیات کا برقرار رکھنا ھے۔
اگر ھم امامت کو چھوڑ کر صرف نبوت کی بات کریں تو ھم یہ کہہ سکتے ھیں کہ نبوت ورسالت کا زمانہ معین ھے اور رسول کی حیات کے بعد باقی نھیں رہ سکتی او راپنے اہداف کی تکمیل اور استمرار کے لئے کسی وصی کو بھی معین نھیں کرسکتی (جب تک خدا کی مرضی نہ ہو )
اور چونکہ اسلام کا ہدف ومقصد ایک ایسی حکومت ھے جو تمام انسانوں کو ، اختلاف ِ وطن و رنگ کے باوجود ایک پلیٹ فارم پر جمع کردے، لہٰذا ضروری ھے کہ اسلام اس ہدف کی خاطر رسول جیسی زندگی رکھنے والے شخص کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے بعد قیادت اور رھبری کا انتظام کرے۔
خلاصہ گفتگو:

در حقیقت منصب امامت، معنی نبوت کوکامل کرنے والا ھے او رنبی کا وجود بغیر امامت کے عملی طور پر مکمل نھیں ہوسکتا، اسی وجہ سے شیعوں کا عقیدہ یہ ھے کہ جس طرح نبوت ضروری ھے اسی طرح امامت بھی ضروری ھے، جس طرح خدا پر نبوت واجب ھے اسی طرح امامت بھی واجب ھے اور اس کے لئے بہترین سند اور بہترین دلیل درج ذیل مشہور ومعروف حدیث رسول ھے:
”من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتةالجاھلیة“
(جو شخص اپنے زمانہ کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے تو اس کی موت جاھلیت کی موت ہوتی ھے)
اور جب امامت کا ہونا ضروری ھے تو کیا اسلام نے مسلمانوں کو اس چیز کا اختیار دیا ھے کہ وہ اس امام کا انتخاب کریں جو اس عظیم اور اھم ذمہ داری کو سنبھالے یا منصب امامت کا انتخاب الٰھی نصوص کے ذریعہ ہوتا ھے اور نبی کے ذریعہ معین کیا جاتا ھے۔
چنانچہ شیعہ او راکثر معتزلہ کا عقیدہ ھے کہ امام کے لئے ضروری ھے کہ اس کو خود نبی منصوب کرے اور نبی بذات خود اس کو معین کرے ۔
جس کی دلیل یہ پیش کرتے ھیں:
چونکہ امامت، نبوت کا استمرار ھے لہٰذا اس میں بھی نبوت کی طرح تعین خاص کی ضرورت ھے جس سے یہ کشف ہوجائے کہ خداوندعالم نے اس منصب کو اختیار کیا ھے اور خدا اس سے راضی ھے۔
پس جس طرح نبوت بھی انتخاب اور شوریٰ سے نھیں ہوسکتی اسی طرح امامت بھی شوریٰ کے انتخاب سے نھیں ہوسکتی۔
اور یھی وہ راستہ ھے جو امامت وامام کے مسئلہ میں ثابت اور معین ھے لیکن دوسرے اسلامی فرقوں نے اس سلسلہ میں کوئی خاص راستہ نھیں اپنایا۔ [18]
بلکہ کہتے ھیں جو شخص بھی امامت کا متولی ہوگیا او راپنے کو امام تصور کرنے لگا تو وہ امام ھے چاھے اس متولی کو انتخاب کے ذریعہ بنایا گیا ہو جیسے ابوبکر ،عثمان، حضرت علی (ع) اور امام حسن (ع) کے لئے ہوا، اور تاریخ اسلام میں ان کے علاوہ کسی کا انتخاب نھیں ہوا ، یا اپنے سے ما قبل نے ان کے بارے میں وصیت کی ہو جیسا کہ عمر بن خطاب اور اکثر خلفائے اموی، عباسی اور عثمانی کے لئے ہوا ھے یا چاھے طاقت کے بل بوتہ کی بنا پر ہو جیسے معاویہ بن ابی سفیان اور ابو عباس السفاح نے کیا ھے۔
چنانچہ شیعہ حضرات تعین امام کے بارے میں نص کی ضرورت پر اس آیت سے استدلال کرتے ھیں کہ ارشاد قدرت ھے:
[19]
”اور تمھارا پروردگار جو چاہتا ھے پیدا کرتا ھے اور( جسے چاہتا ھے) منتخب کرتا ھے ۔“
کیونکہ یہ آیت واضح الفاظ میں دلالت کرتی ھے کہ دین وشریعت کے محافظ ونگھبان کی ذمہ داری خداوندعالم پر ھے، بندوں کو اس سلسلہ میں ذرابھی اختیار نھیں دیا، اور اس موضوع میں فقط وفقط خداوندعالم ھی کو اختیار ھے۔
لیکن بعض لوگوں نے اس استدلال پر اعتراض کیا کہ اس آیت میں جس اختیار کی طرف اشارہ کیاگیاھے وہ صرف نبوت سے مخصوص ھے او راگر امامت کے بارے میں بھی کوئی یھی کھے تو اس کا یہ قول قابل قبول نھیں ھے۔
لیکن جیسا کہ آپ حضرات جانتے ھیں کہ مذکورہ آیت کے صدر وذیل میں کوئی ایسا اشارہ نھیں ھے جس میں اختیار کو انبیاء (ع) سے مخصوص کردیا جائے بلکہ آیت مطلق اختیار کی بات کررھی ھے اور کسی بھی طرح کی کوئی قید او رتاویل کو قبول کرنے کے لئے تیار نھیں ھے ، اور جیسا کہ ھم نے کھا کہ امامت وھی نبوت کا استمرار ھے، اور امامت، رسالت کومکمل کرنے والی ھے لہٰذا جب نبوت کے اختیار کا حق صرف خدا کو ھے توپھر امامت میں بھی اختیار صرف خداوندعالم کی ذات ھی کو ہونا چاہئے۔
اور حق بات تو یہ ھے کہ اگر روایات واحادیث کے ذریعہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وصیت بھی ثابت نہ ہو تو صرف عقل ھی اس وصیت کو ثابت کرنے کا حکم کرتی ھے کیونکہ ھم میں سے کوئی ایک بھی اس بات پر راضی نھیں ہوگا کہ اگر موت قریب ھے تو اگرچہ مال ودولت اور اولاد کم ہو ، کہ ان کے بارے میں وصیت نہ کریں بلکہ ھر انسان ایسے موقع پر کسی کو اپنا وصی بناتا ھے تاکہ وہ اس کے بعد اس کی اولاد اور مال ودولت کا خیال رکھے۔
تو کیا پھر وہ نبی اعظم جو اتنی عظیم میراث (اسلام) کو چھوڑکر جارھا ہو تو کیا وہ اپنی اس میراث کا کسی کو وصی نھیں بنائے گا، تاکہ وہ اس کی محافظت کرے اور اس میں صحیح طریقہ سے تصرف کرسکے۔؟!
حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے وقت موجود ہ قرائن سے یہ بات واضح ہوجاتی ھے کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے وصیت فرمائی اور اپنی میراث کو لاوارث نھیں چھوڑا تاکہ وہ زمانہ کے حوادث وبلاء میں گرفتار نہ ہوجائے۔
وہ اسلام جس نے دنیا کے تمام مسائل میں احکام وقواعد معین کئے ھیں انسان کی زندگی کے ھر پھلو پر نظر رکھی ہو؛ خرید وفروخت ہو یا حوالہ وکفالہ، اجارہ ووکالت ہو یا مزارعہ ومساقاة، قرض ورہن ہو یا نکاح وطلاق، صید وذباحہ ہو یا اطعمہ واشربہ اور چاھے حدود ودیات ہو یا دیگر مسائل ، جب ان سب کو بیان کردیا تو کیا وہ اس اھم مسئلہ امامت کو نھیں بیان کرے گا؟!
کیونکہ مسئلہ امامت اتنااھم ھے جس کے ذریعہ امت اسلامی کی قیادت او ررھبری ہوتی ھے اور جس چیز کا آغاز خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا ھے اس کو پایہ تکمیل تک پہونچانا ھے۔
وہ اسلام جو اپنے احکام میں عدالت ومساوات او رمسلمانوں کے لئے اطمینان کا خیال رکھتا ھے جو ھر خوف سے امان دیتا ھے اور انسان کے اعضاء وجوارح کو ایسی طاقت عطا کردیتا ھے جس سے خیانت، فتنہ وفساد او ربرائیوں سے اپنے نفس کو روک لیتا ھے تو کیا اسلام بغیر امام کے اس عظیم ہدف تک پہونچ سکتا ھے؟!!
کیونکہ امام کی لوگوں کو گمراھی سے نجات دینے ولاتاھے اور بے عدالتی کو ختم کرتاھے کیونکہ بے عدالتی سے حاکم فاسد ہوجاتا ھے اور حاکم کے فاسد ہونے سے انسانی نظام اوردین فاسد ہوجاتا ھے لہٰذا ان تمام برائیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے امام کی ضرورت ھے جس میں تمام صفاتِ کمال موجود ہوں، ھر برائی سے پاک وپاکیزہ ہو، او راپنے قول وفعل میں ھر طرح کی خطا وغلطی سے محفوظ ہو، ھم اسی چیز کو عصمت کہتے ھیں۔
یہ بات واضح ھے کہ ان تمام صفات کے حامل شخص کا انتخاب ہونا ضروری ھے جو کسی معمولی شخص میں جمع نھیں ہوسکتیں، تو پھر نبی کے لئے ضروری ھے کہ وہ امت کے سامنے اس منصب کے بارے میں بیان دے، اور صاف طور پر لوگوں کو بتائے کہ میرے بعد فلاں امام ھے۔
اور یہ عصمت جس کے بارے میں ھم نے اشارہ کیا کوئی عجیب چیز نھیں ھے جیسا کہ بعض اسلامی فرقوں خصوصاً یورپی موٴلفین کا عقیدہ ھے بلکہ یہ تو حاکم کے شرائط میں سے ایک اھم شرط ھے ،اور وہ بھی ایسا حاکم جس کا کام قرآن کی تفسیر کرنا اور اسلام کے غیر واضح مسائل کی شرح کرنا ھے، کیونکہ عصمت کے معنی عرب میں ”منع“ کے ھیں [20]
اور اصطلاح میںیھی معنی مراد لئے جاتے ھیں یعنی عصمت ایک نفسانی ملکہ (قوت) ھے جو انسان کو فعلِ معصیت او رترک طاعت سے منع کرے اور اس کی عقل وشعور پر احاطہ رکھے تاکہ اس کو ھر طرح ہوشیار رکھے اور اس سے کوئی بھول چوک نہ ہو اوراس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے خدا ناراض ہو۔ کیونکہ معصیت کا مرتکب قرآنی اصطلاح میں ظالم ہوتاھے:
[21]
”اور جو خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے آگے بڑھتے ھےںوھی لوگ تو ظالم ھیں“
[22]
”اور جو خدا کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اس نے اپنے آپ پر ظلم کیا)
[23]
”یھی وہ لوگ ھیں جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ (بہتان) باندھا، سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی پھٹکار ھے“
[24]
”پھر ھم پرھیزگاروں کو بچائیں گے اور نافرمانوں کو اس میں چھوڑ دیں گے“
اسی طرح قرآن مجید میں دیگر مقامات پر اس مضمون کی آیات موجود ھیں۔
اور یہ عاصی (گناہگار) جس کو قرآن مجید نے ”ظالم“ کھا ھے اس کو کوئی بھی شرعی ذمہ داری جو دین وشریعت اور خداوندعالم سے متعلق ہو؛ نھیں دی جاسکتی، اور اس بات پر قرآن مجید نے واضح طور پر بیان دیا ھے، ارشاد خداوندعالم ہوتا ھے:
[25]
”(اے رسول اس وقت کو یاد کرو) جب ابراھیم کو ان کے پروردگار نے چند باتوں میں آزمایا اور (جب) انھوں نے پورا کردیا تو خدا نے فرمایا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا (امام) بنانے والا ہوں (جناب ابراھیم نے عرض کی اور میری اولاد میں سے بھی، فرمایا (ھاں مگر) میرا یہ عہدہ ظالمین تک نھیں پہونچ سکتا“
اس آیت کی تفسیر میں فخر رازی صاحب کہتے ھیں:
”یہ بات ثابت ھے کہ اس عہد سے مراد امامت ھے کیونکہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ کوئی فاسق شخص امام نھیں ہوسکتا، تو بدرجہ اولیٰ رسول نہ فاسق ہوسکتا ھے او رنہ ھی گناہ اور معصیت کرسکتا ھے۔[26]
اسی طرح یہ بات بھی واضح ھے کہ ”عصمت“ کے معنی اور شرائط امامت، عجیب وغریب نھیں ھیں بلکہ یہ وہ معنی ھیں جس کے ذریعہ شرعی نصوص اورروحِ دین مکمل ہوتی ھے۔
چنانچہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی مسئلہ ”عصمت“ پر شیعوں کے عقیدہ پر حاشیہ لگاتے ہوئے کہتے ھیں:
”تمام سیاسی فلاسفہ جس وقت کسی حکومت کی بڑی ریاست کی بات کرتے ھیں یا کسی دوسرے بڑے عہدے کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ھیں تو اس کو شبھات واعتراضات سے بالاتر قراردیتے ھیں ، اسی طرح وہ سیاسی فلاسفہ جو ”ڈکٹیٹری“ (Dictatory) اور کسی حکومت میں حاکم کی سب سے بڑی ریاست کے قائل ھیں وہ اس کے لئے بھی عصمت کے قائل ھیں اگرچہ دوسرے صفات بھی اس میں ضروری مانتے ھیں۔
اسی طرح ”ڈیموکراسی“ (Democracy)کے فلاسفہ بھی اس کے شعبوں اور قواعد وقوانین میں عصمت کے قائل ھیں اور کہتے ھیں کہ ”ان تمام ریاستوں کے لئے عصمت کا ہونا ضروری ھے تاکہ ان کا نظام قائم ہو اور ان کے ماتحت افراد ان کی تائید کریں“
”تمام سیاسی نظام میں باوجودِ اختلاف ایک ایسی ریاست کا وجود ہوتا ھے جس میں تمام احکام میں اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ھے او رکسی بھی فرد کوحاکم یا قانون گذار نھیں بنایا جاسکتا ھے جب تک کہ اس میں قداست اور عصمت نہ پائی جائے لہٰذا صرف شیعہ ھی عصمت کے قائل نھیں ھےں جس سے کسی شخص کو تعجب ہو، اگرچہ شیعہ حضرات نے ھی عصمت کے بارے میں بحث شروع کی ھے لیکن وہ اس نظریہ میں تنھا نھیں ھیں بلکہ دوسرے افراد بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ھیں“ [27]
قارئین کرام ! جیسا کہ مذکورہ باتوں سے ظاھر ہوتا ھے کہ شیعوں نے اپنے احساسات یا ھمدردی کی بنا پر کسی معین شخص کا انتخاب نھیں کیا اور نہ ھی کسی سیاست سے کام لیا بلکہ انھوں نے نص وروایات سے وہ چیزیں حاصل کی ھیں جس میں حیات صحیح اور بناء سلیم [28] کا ذریعہ پایا جاتا ھے اور وہ اس نظریہ کا دفاع کرتے ھیں جو ایمان، اسلام او راخلاص کی جان ھے اور اس سے ہدف اور شعورِ مصلحت تک پہونچا جاسکتا ھے۔
چنانچہ جو لوگ نص کی ضرورت کا دعویٰ کرتے ھیں ان کی بات کی تائید درج ذیل نکات سے واضح ہوجاتی ھے:
۱۔نص کا ہونا ،اس انسانی شعور وفطرت کے مطابق ھے جو انسان کے وجود میں موجودھے جس کے ذریعہ وہ اپنے ماورائے غیب (خدا) کے محتاج ہونے کی ضرورت کا احساس کرتا ھے کیونکہ تمام امور میں اسی ذات کی طرف رجوع کیا جاتا ھے۔( یعنی اگر ھم امام کو منصوص من اللہ قرار دیں تو ھمارا ربط ھمیشہ خدا سے برقرار رھے گا)
پس امامت (منصوص من اللہ) ھی وہ ذریعہ ھے جو انسان کو ما ورائے غیب سے متصل کرتی ھے، کیونکہ امامت کے پاس وہ شعوروادراک اور اطمنان ہوتا ھے جو انسان کو راہ ضلالت سے نکال کر راہ ہدایت پر گامزن کردیتا ھے۔
۲۔ نص ، اس علم نفس کے قاعدے سے بھی ھم آہنگ ھے جو انسان کے اندر قانون سے سرکشی اور طغیانیت کی روح کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ھے۔
کیونکہ جب امام خداوند وحدہ لاشریک کی طرف سے بلافصل معین ہوگا تو تمام لوگوں کے نزدیک موثق ، عادل، مخلص اور تمام رذائل و برائی سے پاک وپاکیزہ سمجھا جائے گا اور اس امام کے ذریعہ وہ اسباب جو انسان کے اندر سرکشی اور طغیانیت کے پائے جانے والے اسباب ختم ہوجائیں گے۔
۳۔ نص ، اس نظریہ سے بھی ھم آہنگ ھے جس کو علماء کرام دین کے لئے ضروری سمجھتے ھیں کیونکہ اجتماعی زندگی میں روابط کے لئے بہت ضروری چیز ھے جس کی وجہ سے وحدت واتحاد اور استحکام پیدا ہوتا ھے۔
لہٰذا امام منصوص ایک عظیم درجہ کانام ھے جو مبداء اعلی اور ایمان بلند درجوںپر فائز ہوتاھے۔
لیکن اھل تحقیق اس بات کو جانتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے وقت بھی خطرناک اور حسّاس حالات تھے اور چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان حالات پر مکمل طریقہ سے علم رکھتے تھے او راپنے بعد ہونے والے واقعات سے بھی باخبر تھے، چنانچہ اپنے بعد ہونے والے واقعات کی خبر بھی دی اور خداوندعالم نے بعض واقعات کی طرف اشارہ کیا ھے:[29]
”اگر (محمد) اپنی موت سے مرجائیں یا مار ڈالے جائیں توتم الٹے پاوٴں (اپنے کفر کی طرف) پلٹ جاؤ گے“پس کیوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنے بعد کے لئے نص اور وضاحت نھیں فرمائی اور کیوں دوسروں نے اس کام کو انجام دیا؟! (معاذ اللہ) کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمدوسروں سے کم درک وفھم رکھتے تھے او ر آپ میں ذمہ داری کا احساس وشعور کم تھا؟!!
چنانچہ یہ نظریہ نقصان دہ نھیں ہوتا (جبکہ قرآنی آیات او راحادیث نبوی کے ذریعہ اسلامی اصول ثابت کرنے کے بعد اور فطرت انسانی اور علمی دلائل نیز اجماع کے قیام کے بعد) کہ اس کو کوئی چھوڑنے والا چھوڑدے یا اس کو برے القاب سے یاد کرے یا اپنی مرضی سے اس پر کوئی بھی نام منطبق کرے۔
اسی طرح یہ بات بھی امامت کے لئے نقصان دہ نھیں ھے کہ اس پر ”ٹیوقراطی“ "Theocratic" کانام دیا جائے جیسا کہ بعض مولفین نے امامت پر یہ نام منطبق کیا ھے۔
کیونکہ اگر اس سے مراد ”دینی حکومت“ ہو تو اس میں کوئی حرج بھی نھیں ھے بلکہ صحیح معنی بھی یھی ھیں،اور اگر اس سے دین کے نام پر لوگوں پر حکومت کرنا مراد ہو تویہ قیاس ھے اور نظریہ امامت کے برخلاف ھے۔
اسی وجہ سے ڈاکٹر” مجید خدوری“ نے اس نظریہ کو ردّ کیا اور امامت پر یہ نام منطبق نھیں کیا کیونکہ یہ واقع پر صادق نھیں ھے بلکہ ایک دوسرا نام ”نوموقراطی“[30]رکھایعنی وہ حکومت جس میں قانون کی حکومت اور قانون کو فوقیت حاصل ہو، چنانچہ یہ وہ حقیقت ھے کہ جس میں شک کرنے والوں اور انکار کرنے والوں کے لئے شک اور انکار کی کوئی گنجائش باقی نھیں رہتی۔
اسی طرح امامت کو”ڈکٹیٹری“ "Dictaorship" کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نھیں ھے جیسا کہ بعض مولفین نے ایسا کھا بھی ھے۔
کیونکہ ”ڈکٹیٹری“ میں خاص فرد یا خاص افراد کی حکومت ہوتی ھے گویا وہ حکومت کے مالک ہوتے ھیں اور قانون ان کے ھاتھوں میں ایک کھلونا ہوتا ھے اور یہ ”ڈکٹیٹری“ واقعاً اسلامی حکومت کے برخلاف ھے کیونکہ اسلامی حکومت میں تو صرف قانون کی حکومت ہوتی ھے اور اس میں قانون کے علاوہ کچھ بھی نھیں ہوتا۔
اور یہ بات بھی مسلم ھے کہ قانون کی حکومت جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں (چاھے وہ جنگ کا زمانہ ہو یا غیر جنگ کا) قانونی حکومت کو بروئے کار لائے ھیںچنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی حکومت ”ڈکٹیٹری“سے بالکل مخالف تھی۔
اسی طریقہ سے امامت پر ”طبقاتی حکومت“ (خاص طبقہ کی حکومت) کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نھیں ھے جیسا کہ بعض لوگوں نے اس نظریہ کو پیش کیا ھے۔
کیونکہ کسی خاص طبقہ کی حکومت کامطلب یہ ھے کہ وہ طبقہ تشریعات کو مسخر کرلے اور تمام نظام سے اپنے ذاتی مفاد کو حاصل کرتا رھے، چنانچہ اس طرح کی حکومت سے بھی اسلام کا کوئی سروکار نھیں ۔
کیونکہ قانون کی حکومت میںکسی کے لئے کوئی نرمی کا خانہ نھیں ہوتا (یھاں تک کہ خود امام کے لئے) یعنی امام کو بھی یہ حق نھیں ہوتا کہ وہ احکام میں تبدیلی کرے کہ امامت اور طبقہ کے تمام افراد کے درمیان قطع تعلق کرے۔
اسی طرح امامت کو ”غیرڈیموکریٹی“ کا نام دینے میں بھی کوئی حرج نھیں ھے کیونکہ ”ڈیموکریٹی“ میں اھمیت اور بنیاد کسی خاص شعبہ کی حکومت ہوتی ھے اورشعبہ کی حکومت کا مصدر بھی دین ہوتا ھے جو حکومت کی اصل اور بنیاد ھے۔
اور چونکہ خداوندعالم مالک الملک ھے جو چاھے کرے جو چاھے نہ کرے لہٰذا اس کے لئے یہ اعتقاد رکھنا ضروری ھے کہ کائنات کے ھر نظام میں اس کا حکم اور اس کا فیصلہ آخری فیصلہ ھے، یعنی ھر حال میں اس کی اطاعت کرنا ضروری ھے۔
اور چونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلممالک الملک کے نمائندے ھیں اور اسی کی طرف سے بولتے ھیں اور اس کے امین ھیں لہٰذا ان پر امام کو منصوب اور معین کرنا ضروری ھے اور یہ کام خدا کی مرضی سے ہونا چاہئے، چنانچہ یھی بات سیاسی نظریہ سے بھی ھم آہنگ ھے کہ انتخاب میں مصدر حکومت سے مشورہ ہونا چاہئے۔
امام کے بارے میں وضاحت گذشتہ گفتگو کا خلاصہ :

۱۔ راہ اسلام کو جاری وساری رکھنے کے لئے امامت کا ہونا ضروری ھے۔
۲۔ امامت کا انتخاب بذات خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر ضروری ھے کیونکہ آپ کی ذات کی مصداق ھے اور جب بات یھاں تک آگئی ھے اور واضح خلاصہ بھی آپ حضرات نے ملاحظہ فرمالیا تو بات آگے بڑھ کرایک جدید مرحلہ تک پہونچتی ھے اوروہ یہ کہ ھم اس امام کی تلاش کریں جس کے بارے میں نص او راعلان کیا گیا ھے نیز ان واضح نصوص کو بھی ملاحظہ کریں جن کے ذریعہ سے امام کی معرفت و شناخت ہوتی ھے۔
اور چونکہ امامت سے متعلق روایات اور رایوں کی تعداد اس قدر زیادہ ھیں کہ اس کتاب میں ان کو بیان نھیں کیا جاسکتا اور راویوں کے بیان کرنے کا طریقہ بھی جداجدا ھے، لیکن ھم یھاں پر فقط تین عدد شاہد پیش کرتے ھیں اور باقی تفصیل کو تفصیلی کتابوں کی طرف حوالہ دیتے ھیں۔(مثلاً الغدیر علامہ امینیۺ ، عبقات الانوار اورالمراجعات وغیرہ)
پھلی حدیث: ” حدیث دار “

ابن جریر طبری نے اس حدیث کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ھے کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر یہ آیت نازل ہوئی :
[31]
”(اے رسول) تم اپنے قریبی رشتہ داروں کو (عذاب خدا) سے ڈراؤ“
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خاندان عبد المطلب کو دعوت کے لئے بلایا جس میں ان کے چچا جناب ابوطالب ، جناب حمزہ، جناب عباس اور ابو لھب بھی تھے اور جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
”یا بنی عبد المطلب انی واللّٰه ما اعلم شاباً فی العرب جاء قومه باٴفضل ممّا قد جئتکم به، اٴنی قد جئتکم بخیر الدنیا والآخرة، وقد امرنی اللّٰه تعالیٰ اٴن اٴدعوکم الیه، فاٴیکم یوازرنی علی هذا الامر علی اٴن یکون اخي ووصیي وخلیفتي فیکم؟“
(اے خاندان عبد المطلب ! خدا کی قسم، میں عرب میں کسی ایسے شخص کو نھیں جانتا جو اپنی قوم میں مجھ سے بہتر پیغام لایا ہو میں تم میں دنیا وآخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں ، اور خداوندعالم نے مجھے حکم دیا ھے کہ میں اس دعوت کو تمھارے سامنے پیش کردوں، پس تم میں کون شخص ھے جو اس کام میں میری مدد کرے، اور جو شخص میری مدد کرے گا وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ ہوگا۔)
چنانچہ یہ سن کر سب لوگوں نے اپنا سر جھکالیا او رکوئی جواب نہ دیا، اس وقت حضرت علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور کھا:
”انا یا نبي اللّٰہه اٴکون وزیرک علیه ، فقال (ص) ان هذا اخي ووصیي وخلیفتي فیکم، فاسمعوا له واطیعوا“
(یا رسول اللہ میں حاضر ہوں اور میں آپ کا وزیر ہوں، تب رسول اللہ نے فرمایا:
یہ میرے بھائی، میرے وصی اور تمھارے درمیان میرے خلیفہ ھیں ان کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو) یہ سن کر سب لوگ جناب ابو طالب کو یہ کہہ کر ہنستے ہوئے چلے گئے:
”اے ابو طالب تم کو حکم دیا گیا ھے کہ اپنے بیٹے کی باتوں کو سنو اور ان کی اطاعت کرو“[32]
قارئین کرام ! یہ حدیث اپنے ضمن میں حضرت علی علیہ السلام کے لئے تین صفات کی حامل ھے:

۱۔وزیرہونا۔
۲۔وصی ہونا۔
۳۔خلیفہ ہونا۔
اب ھم یہ سوال کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی علیہ السلام کو کس لئے یہ صفات عطا کئے اور کسی دوسرے کو ان صفات سے کیوں نھیں نوزا؟ اور کیوں آپ نے اس کام کے لئے بعثت کے بعد پھلے جلسہ کا انتخاب کیا؟
اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو اس کام میں اپنے لئے ایک مددگار کی ضرورت تھی تو وزارت کافی تھی لیکن ان کے ساتھ خلافت ووصایت کا کیوں اضافہ کیا؟ اور اپنے رشتہ داروں کو ڈرانے اور ان کو اسلام کی دعوت دینے اور وصایت وخلافت میں کیا ربط ھے؟ ان سوالوں کے جوابات دینے کے لئے ھم پر مندرجہ ذیل چیزوں کا بیان کرنا ضروری ھے:
قارئین کرام ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنے اس پھلے اعلان میں عہد جدید ، جدید معاشرے اورنئی حکومت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ھیں۔
کیونکہ جب کوئی اھم شخصیت اپنے ہدف کو باقی رکھنا چاہتی ھے تو اس رئیساور ایک نائب مقرر کیا جاتا ھے تاکہ اگر رئیس کو کوئی پریشانی لاحق ہوجائے تو اس کے نائب کی طرف رجوع کیا جاسکے۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمبھی اس ہدف کے تحت حاضرین کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ یہ مسئلہ (دین ودنیا) کوئی ایسا مسئلہ نھیں ھے جو فقط مادام العمر باقی رھے اور اس کے بعد ختم ہوجائے گا کیونکہ یہ ایک الٰھی رسالت ھے اور ھمیشہ باقی رہنے والی ھے اور رسول کی وفات کے بعد ختم نھیں ہوگی، بلکہ جب تک زمین باقی ھے اس وقت تک یہ دین باقی ھے او رمیرے بعد بھی اس دین کا باقی رکھنے والا ہوگا اور وہ یہ جوان ھے جس نے اس وقت میری مدد ووزارت کا اعلان کیاھے یعنی حضرت علی بن ابی طالب (علیہ السلام)
اور یہ تمام باتیں مذکورہ حدیث شریف میں دقت اور غور وفکر کرنے سے واضح ہوجاتی ھیں اور شاید یھی وجہ تھی کہ جس کی بنا پر امام رازی نے اس حدیث کی صحت اور سند دلالت کا اعتراف کیا لیکن خلافت کے معنی میں شک کیا اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماپنی وفات کے بعد خلیفہ معین کرنا چاہتے تھے تو ”خلیفتي فیکم“ نہ کہتے یعنی علی تم میں میرے خلیفہ ھیں، بلکہ ”خلیفتي فیکم من بعدی“ (یعنی تم میں میرے بعد میرے خلیفہ ہوں گے) کا اضافہ کرتے تاکہ واضح طور پر نص بن جائے۔
لیکن حقیقت یہ ھے کہ ھم دونوں الفاظ میں کوئی فرق نھیں پاتے، اور اگر یہ طے ہو کہ ”خلفتي فیکم من بعدی“ دلالت کے اعتبار سے واضح ہوتی تو پھر ”خلفیتي فیکم“بھی اسی طرح ھے کیونکہ اس کے معنی یہ ھیں کہ اگر مجھ پر کوئی پریشانی آجائے تو تمھارے درمیان علی (ع) خلیفہ ھیں اور اسی طرح کے الفاظ موت کے بعد خلافت پر واضح نص ہوتے ھیں اور اس معنی کی تاکید لفظ ”وصی“ کرتا ھے کیونکہ اسلام میں کسی کو موت کے وقت ھی وصی بنایا جاتا ھے کیونکہ موصی کی موت کے بعد وصی اس کے کاموں پر عمل کرتا ھے۔
اور اگر کسی کام کے بارے میں موت سے قبل کہنا ہو تو کھا جاتا ھے ”ہذاوکیلی“ (یہ میرا وکیل ھے)، ”وصیي“(میرا وصی) نھیں کھا جاتا کیونکہ وکالت ایک اسلامی تعبیر ھے جو اس شخص کے لئے کھی جاتی ھے جو انسان کی قید حیات میں اس کی نیابت میں کسی کام کو انجام دے۔
لہٰذا اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے روز اول ھی واضح بیان فرمایاکہ کون میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا اور کون مسلمانوں میں میرا وصی ہوگا تاکہ کشتی اسلام میری وفات کے بعد امواج زمانہ کی نذر نہ ہوجائے۔
اور یہ اسلام کا آغازجس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس محدود مجمع میں اپنا خلیفہ مقرر کیا اور ھمیشہ اس پر تاکید فرماتے رھے یھاں تک کہ آخری عمر میں بھی (غدیر خم میں)اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی۔
دوسری حدیث: ”حدیث المنزلة“

امام مسلم نے اپنی سند کے ساتھ اس حدیث کو بیان کیا ھے کہ حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا:
”انت منی بمنزلة هارون من موسیٰ الا انه لا نبی بعدی“[33]
(اے علی تم میں اور مجھ میں وھی نسبت ھے جو جناب ھارون اور جناب موسیٰ (ع) کے درمیان تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نھیں)
قارئین کرام ! اگرچہ یہ حدیث مختصر ھے لیکن پھر بھی بہت سے معنی کی طرف اشارہ کرتی ھے لیکن اگر کوئی طائرانہ نظر ڈالے گا تو اس پر حدیث کے معنی واضح نھیں ہوں گے لیکن اگر کوئی شخص اس حدیث میں غور وفکر کرے گا تو اس پر یہ معنی بہت واضح ہوجائیں گے۔
چنانچہ یہ حدیث شریف حضرت علی علیہ السلام کے لئے اشارہ کرتی ھے :
۱۔ حضرت علی علیہ السلام رسول اللہ کے وزیر ھیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے وزیر تھے:
[34]
”اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ھارون کو میرا وزیر بنادے“
۲۔آپ رسول اللہ کے بھائی ھیں کیونکہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے بھائی تھے:
[35]
”میرے بھائی ھارون“
۳۔ آپ ھی رسول اللہ کے شریک ھیں کیونکہ جناب ھارون بھی موسیٰ کے شریک تھے:
[36]
”اور میرے کام میں اس کو میرا شریک بنا“
۴۔ حضرت علی علیہ السلام خلیفہ رسول ھیں ، جیسا کہ جناب ھارون جناب موسیٰ کے خلیفہ تھے:
[37]
”(اورچلتے وقت ) موسی نے اپنے بھائی ھارون سے کھا کہ تم میری قوم میں میرے جانشین ہو“
۵۔ امامت نبوت سے مشتق ھے کیونکہ حدیث میں ضمیر ”انتَ“ امامت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور لفظ ”منّی“ نبوت کی طرف اشارہ کرتی ھے اور یھاں پر حرف ”جر “نشو ونمو اور وجود کے معنی میں ھے اور یہ نشو ونما اس بات کی طرف اشارہ کرتے ھیں کہ یہ دونوں درجہ میں برابر ھیں تب ھی تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا:
”الا انہ لا نبی بعدی“ (مگر میرے بعد کوئی نبی نھیں)
اور جب جناب موسیٰ (ع)نے خدوندعالم سے درخواست کی کہ ان کے اھل سے ان کا وزیر معین کردے (جیسا کہ مذکورہ آیت بیان کرتی ھے) تو یہ درخواستِ جناب موسیٰ اس بات پر بھی دلالت کرتی ھے کہ نبی کی خلافت ووزارت خدا کے حکم سے ہوتی ھے لوگوں کے انتخاب اور اختیار سے نھیں۔
قارئین کرام ! جب ھم ”حدیث منزلت“ کے بارے میں غور وفکر کرتے ھیں تو یہ بھی واضح ہوجاتا ھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے یہ سب کچھ فقط حضرت علی علیہ السلام کے اکرام اور تجلیل کی غرض سے نھیں بیان کیا بلکہ اس کے پسِ پردہ ایک بہت اھم مقصد تھا اور وہ یہ کہ آپ امت کو اس بات پر متوجہ کرنا چاہتے تھے کہ نبی اپنے بعد حکومت کی ریاست اور کشتی اسلام کی مھار کس کے ھاتھ میں دے کر جارھے ھیں۔
اور جیسا کہ یہ حدیث شریفہ اشارہ کرتی ھے کہ حضرت علی (ع)،نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ شریک ھیں لیکن یہ شرکت کسی تجارت، صنعت او رزراعت میں نھیں ھے بلکہ آپ کی شرکت دین اور اسلام میں ھے اور اسلام میں پیش آنے والی تمام زحمتوں کو برداشت کیا اور دین کی اھم ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی،اور چونکہ ایک معمولی انسان شرکت کے حدود کو آسانی سے نھیں سمجھ سکتا (خصوصاً جبکہ یہ بھی معلوم ہو کہ جناب ھارون نبی بھی تھے) اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے حدیث منزلت میں ایسی قید لگادی تاکہ اشکال نہ ہونے پائے اور اس شرکت کی حدود بھی معین کردی اسی وجہ سے مطلق طور پر نبوت کی نفی کردی اور نبوت کو شرکت کے حدود سے نکالتے ہوئے فرمایا:
” میرے بعد کوئی نبی نھیں“
اور شاید اس حدیث کے معنی اس وقت مزید روشن ہوجائیں جب یہ معلوم ہو کہ حدیث منزلت کو رسول اسلام نے اس وقت بیان فرمایا جب آپ مدینہ منورہ سے ”جنگ تبوک“ میں جارھے تھے اس وقت نائب اور قائم مقام بنایا ۔
لیکن شیخ ابن تیمیہ اس حدیث کے بارے میں کہتے ھیں کہ اس حدیث سے حضرت علی علیہ السلام کی کوئی بھی فضیلت ثابت نھیںہوتی کیونکہ جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمجنگ تبوک کے لئے نکلے ھیں تو آپ کے ساتھ تمام اصحاب اور تمام مومنین تھے او رمدینہ میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ کوئی نھیں تھا یا وہ لوگ جو جنگ میں نھیں گئے تھے چاھے وہ مجبور ہوں یا منافق تو ایسے لوگوں پر کسی کو خلیفہ بنانا کوئی بھی فضیلت نھیں رکھتا۔ [38]
لیکن حدیث پرغوروفکر کرنے والاشخص ابن تیمیہ کے نتیجہ سے مطمئن نھیں ہوتا بلکہ ایک دوسرا نتیجہ نکالتا ھے کہ:
اس وقت مدینہ منورہ مرکز نبوت اور دار السلطنت تھا۔
جب کسی حکومت کا رئیس اپنے دار السطنت سے کسی دوسری جگہ جاتا ھے (جیسے تبوک) اور چونکہ اس وقت کا مواصلاتی نظام بہت ھی کمزور ہوتا تھا تو گویا جانے والا ایک طویل مدت کے لئے وھاں سے غائب ہورھا تھا اور چونکہ جنگ کے مسائل ایسے ہوتے ھیں جن کے بارے میں یہ بھی معلوم نھیں ہوتا کہ کب ختم ہوگی اور کب پلٹ کر آنا ہوگا تو ایسے موقع پر کسی رئیس کا نائب بنانا اور اس کو دار السلطنت میں جانشین بناکر چھوڑنا ایک عظیم معنی رکھتا ھے اور وہ بھی ایسے ماحول میں جب دشمنان اسلام اور منافقین کی طرف سے ھر ممکن خطرہ موجود ہو اور وہ ایک ایسی فرصت کی تلاش میں ہوں کہ موقع ملنے پر اسلام اور مسلمانوں کو نابود کر ڈالیں، لہٰذایسے ماحول میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنا خلیفہ معین کرنا ایک عظیم فضیلت ھے۔
تیسری حدیث: ”حدیث غدیر“

اس حدیث کو اکثر صحابہ وتابعین نے روایت کیا ھے اور بہت سے علماء وحفاظ نے اس کو نقل کیا ھے۔ [39]
بطور اختصارھم صرف حدیث کے محل شاہد اور ان چیزوں کو بیان کرتے ھیں جو امامت وامام کی وضاحت سے متعلق ھیں۔
چنانچہ اکثر روای کہتے ھیں:
”جب ھم حجة الوداع سے واپس پلٹ رھے تھے ، اورغدیر خم میں پہونچے تو رسول اسلام نے نماز ظھر کے بعد مسلمانوں کے درمیان خطبہ دیا اورحمد باری تعالیٰ کے بعد فرمایا:
”اے لوگو ! قریب ھے کہ میں اپنے پروردگار کی دعوت پر لبیک کہوں میں بھی مسئول ہوں او رتم بھی مسئول ہو، پس تم لوگ کیا کہتے ہو؟
تب لوگوں نے کھا: ”ھم گواھی دیتے ھیں کہ آپ نے دین اسلام کی تبلیغ کی، ھم کو وعظ ونصیحت کی اورجھاد کیا ، ”فجزاک اللّٰه خیراً“
یھاں تک کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے فرمایا:
”ان اللّٰه مولای واٴنا مولی الموٴمنین ، وانا اولی بهم من انفسهم، فمن کنت مولاه فهذا علی مولاه، اللّٰهمّ وال من والاہ وعاد من عاداه وانصر من نصره، واخذل من خذله واٴدر الحق معه حیثما دار۔“
(اللہ میرا مولا ھے او رمیں مومنین کا مولا ہوں اور میں ان کے نفسوں پر اولیٰ بالتصرف ہوں پس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مولا ھیں، خدایا تو اس کو دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے، خدا یا تو اس کی نصرت فرما جو علی کی نصرت کرے، اور اس کو ذلیل کردے جو علی کو ذلیل کرنا چاھے او رجدھر علی جائیں حق کو ان کے ساتھ موڑدے)
اور جب رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا یہ کلام تمام ہوا تو سب لوگ حضرت علی علیہ السلام کی طرف مبارکباد دینے کے لئے بڑھے، چنانچہ حضرت عمر نے کھا:
”بخ بخ لک یا علی، اصبحت مولانا ومولی کل مومن ومومنة“
(مبارک ہو مبارک اے علی، آپ ھمارے اورھر مومن ومومنہ کے مولا ہوگئے)
اس کے بعد جناب جبرئیل یہ آیت لے کر نازل ہوئے:
[40]
”آج میں نے تمھارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کردیں اور تمھارے اس دین اسلام کو پسند کیا“
قارئین کرام ! یہ تھا حدیث غدیر کا خلاصہ،اور یہ تھی شان نزول اور یہ تھے الفاظ حدیث، اس حدیث شریف میں نظریہ ”امامت“ کی مکمل وضاحت کی گئی ھے اور یہ واضح کردیا گیا ھے کہ یہ امامت ، ولایت عام او رمطلقہ مسئولیت کی حامل ھے اور سول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے بعد جس امام کے بارے میں سوال کیا جارھا تھا اس کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے لوگوںکے سامنے پیش کردیا اور اس حدیث ودلیل کو سن کر لوگوں نے اپنا مقصد حاصل کرلیا جس کے نتیجہ میں تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے لگے۔
لیکن بعض لوگوں نے فلسفہ چھاڑنا شروع کیا درحالیکہ وہ حدیث کی صحت کا انکار نہ کرسکے بلکہ یہ کھا کہ یہ حدیث آپ کے مدعا کو ثابت نھیں کرتی چونکہ لغت میں لفظ” مولا“ کے بہت سے معنی ھیں جیسے ناصر، ابن عم، رفیق، وراث وغیرہ اور ھم یہ نھیں جانتے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی مراد کون سے معنی تھے اور کس معنی میں حضرت علی علیہ السلام کو مولا کھا ھے۔
لیکن یہ فلسفہ تراشی خود غرضی اور ہوا وہوس کی دین ھے اور نہ ھی معترض نے موضوع میں غور وفکر کیا ھے۔ ان اعتراضات کو ختم کرنے کے لئے درج ذیل امور رپر توجہ کرنا:
۱۔ اعلان ولایت سے قبل آیہ بلّغ کا نازل ہونا چنانچہ مورخین ومفسرین نے روایت کی ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمآخری حج سے واپس آرھے تھے تو اس وقت خداوندعالم نے وحی فرمائی:
[41]
”اے رسول جو حکم تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ھے پہونچادو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو (سمجھ لو) تم نے اس کا کوئی پیغام ھی نھیں پہونچایا اور (تم ڈرو نھیں) خدا تم کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا“
۲۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا اعلان ولایت کے لئے جنگل میں ظھر کے وقت کا انتخاب کرنا۔
۳۔کلام پیغمبر میں تینوں ولایت کا ذکر ہونا:
الف: اللّٰہ مولای۔
اللہ میرا مولا ھے۔
ب: انامولی المومنین۔
میں مومنین کا مولا ہوں۔
ج: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ۔ [42]
جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی (ع)بھی مولا ھیں۔
۴۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا حضرت علی علیہ السلام کے لئے دعا کرنا:
”اللّٰهمّ وال من والاه وعاد من عاداه واخذل من خذله وادرالحق معه حیث دار۔[43]
پروردگارا ! تو اسے دوست رکھ جو علی کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو علی کو دشمن رکھے اور ذلیل کر اس کو جو علی کو ذلیل کرنا چاھے، اور حق کو ادھر موڑ دے جدھر علی جائیں ۔
جبکہ اس دعا میں ولایت کے معنی بغیر حاکم کے مکمل نھیں ہوسکتے ھیں
۵۔ آیہ اکمال کا نازل ہونا: الیوم اکملت لکم دینکم ۔۔۔[44] جو اس بات پر دلالت کرتی ھے کہ یہ ایک اھم مسئلہ تھا جس وجہ سے خداوندعالم نے دین کو کامل کیا اور نعمتیں تمام کیں۔
۶۔ حاضرین غدیر خم کا حضرت علی علیہ السلام کا مذکورہ الفاظ میں مبارک باد پیش کرنا۔[45]
مذکورہ چھ نکات میں غور وفکر کرنے سے انسان کو یہ یقین ہوجاتا ھے کہ مسلمانوں کی نظر میں حضرت علی (ع) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے وراث ،ناصر ،دوست او رابن عم نھیں ھیں اور نہ ھی ارث ونصرت کا مسئلہ ھے اور اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمان باتوںکاقصد کرتے توپھر غدیر کے ماحول اور ان آیات جن کو خدا نے اس موقع پر نازل فرمایا اور تبریک وتہنیت کے لئے ایسے الفاظ کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اگر لفظ مولا سے مراد امامت وخلافت نہ ہو تو پھر ان سب چیزوں کا وجود کوئی معنی نھیں رکھتا۔
اور جیسا کہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی نے حقیقت کا انکشاف کیا ھے اور جو لوگ اس حدیث کا انکارکرتے ھیں ان کے لئے بہترین جواب دیا ھے، چنانچہ موصوف کہتے ھیں:
”چونکہ اھل ظاھر(حنبلیوں) اور سلفیوں( وھابیوں)کے نزدیک معاویہ سے محبت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نھیں تھا لہٰذا اس سے محبت کرنا ھی اپنا شعار بنارکھا ، اسی وجہ سے انھوں نے مذکورہ حدیث کے معنی اس لحاظ سے کئے تاکہ علی کی محبت کو ترک کرنے میں کوئی مضائقہ پیش نہ آئے۔ [46]
مذکورہ باتوں سے یہ بات ثابت ہوجاتی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنی امت کی قیادت ورھبری کے لئے امام کی معرفی کی ھے۔
اور مذکورہ حدیث (اگرچہ اس کے الفاظ او رمناسبت مختلف ھیں) امامت کے بارے میں صاف اور روشن ھے جو مکمل طریقہ سے ھمارے مقصود پر دلالت کرتی ھے۔
لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ کیا فقط امام اول کا معین ہوجانا کافی ھے اور باقی ائمہ علیھم السلام کے بارے میں تعیین کی ضرورت نھیں ھے یا ان کے لئے بھی نص اور احادیث کا ہونا ضروری ھے؟
یعنی باقی ائمہ (ع) کی امامت کیسے ثابت ہوگی؟ اور ان کو بارہ کے عدد میں محدود کرنا (نہ کم وزیاد) کیسے صحیح ھے؟
قارئین کرام ! ائمہ (ع)کی امامت کو دو طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ھے:
پھلا طریقہ:

ان احادیث کے ذریعہ جن کی تعداد بہت زیادہ اور بہت مشہور ھیں جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
”انتما الامامان ولامکما الشفاعة “ [47]
(تم دونوں امام ہو اور دونوں شفاعت کرنے والے ہو)
اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:
”ہذا امام ، ابن امام اخو امام، ابو الائمة “[48]
(یہ خود بھی امام ھیں اور امام کے بیٹے ، امام کے بھائی او رنو اماموںکے باپ ھیں)
اور اس طرح بہت سی روایات موجود ھیں جن سے کتب حدیث وتاریخ بھری پڑی ھیں اور ان میں امامت کی بحث تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ھے۔
دوسرا طریقہ:

گذشتہ امام کے ذریعہ آنے والے امام کا بیان، اورچونکہ گذشتہ امام کا بیان ،حجت اور دلیل ہوتاھے اور اس پر یقین رکھناضروری ھے جبکہ ھم گذشتہ امام کی امامت پر ایمان رکھتے ھیں اور ان کو صادق اور امین جانتے ھیں۔[49]
اب رھا ائمہ (ع) کا بارہ ہونا نہ کم نہ زیادہ تو اس سلسلہ میں بھی بہت سی روایات موجود ھیں[50] اور ھمارے لئے یھی کافی ھے کہ اس مشہور ومعروف حدیث نبوی کو مشہور ومعروف شیوخ نے بیان کیا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے ارشاد فرمایا:”لایزال الدین قائما حتی تقوم الساعة ویکون اثنا عشر خلیفة کلھم من قریش“ [51]
(دین اسلام قیامت تک باقی رھے گا او رتمھارے بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے)
ایک دوسری حدیث میں اس طرح ھے:
”ان ہذا الامر لا ینقضی حتی یمضی فیہ اثنا عشر“[52]
(بتحقیق یہ امر (دین) ختم نھیں ہوگا یھاں تک کہ اس میں بارہ (خلیفہ) ہوں گے)
اور اگر ھم اس حدیث شریف میں غور وفکر کریں (جبکہ اس حدیث کو تمام مسلمانوںنے صحیح مانا ھے) تو یہ حدیث دو چیزوں کی طرف واضح اشارہ کررھی ھے:
۱۔دین کا قیامت تک باقی رہنا۔
۲۔قیامت تک فقط بارہ خلیفہ ھی ہوں گے جو اسلام ومسلمانوں کے امور کے ذمہ دار ہوں گے۔
اور یہ بات واضح ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکا بارہ خلیفہ سے وہ حکّام مراد نھیں ھیں جو شروع کی چار صدیوں میں ہوئے ھیں کیونکہ ان کی تعداد بارہ کے کئی برابر ھے اور ان میں سے اکثر کتاب وسنت رسول کے تابع نھیں تھے لہٰذا وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے حقیقی خلیفہ نھیں ہوسکتے۔
تو پھر انکے علاوہ ہونے چاہئیں،اور وہ حضرت علی (ع) اور ان کے گیارہ فرزندوں کے علاوہ کوئی نھیں، یہ وہ ائمہ ھیں جن سے لوگ محبت کیا کرتے تھے او ران کا اکرام کیا کرتے تھے اور انھیں سے اپنے دینی احکام حاصل کیا کرتے تھے، نیز اپنی فقھی مشکلات میں انھیں کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب بھی کوئی مشکل پڑتی تھی اس کے حل کے لئے انھیں ائمہ(ع) کے پاس جایا کرتے تھے۔
اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں احادیث نبوی اور ان کے عدد کے بارے میں مزید اطلاع حاصل کرنا چاھے تو اس کو چاہئے کہ مخصوص مفصل کتابوں کا مطالعہ کرے۔(مثلاً الغدیر علامہ امینی رحمة اللہ علیہ، عبقات الانوار سید حامد حسین طاب ثراہ وغیرہ)
حضرات ائمہ علیھم السلام
سلسلہ بحث کو مکمل کرنے کے لئے ضروری ھے کہ ھم مختصر طور پر ائمہ (ع) کے اسماء گرامی اور ان کے زمانہ کے مختصر حالات بیان کریں نیز مختصر طور پر ان کی چھوڑی ہوئی میراث کے بارے میں بھی ذکر کریں او رخود ان حضرات کی مختصر طورپر سوانح حیات بیان کریں، ان تمام باتوں میں ھم اختصار کا پورا خیال رکھےں گے تاکہ ھماری کتاب بہت زیادہ ضخیم نہ ہوجائے۔
اور ھماری ساری امید خداوندعالم کی ذات پر ھے کیونکہ وھی مدد کرنے والا ھے تاکہ ھم ائمہ (ع) کی سوانح حیات کو تحریر کرسکیں اور ھر امام کے حالات بیان کریں تاکہ آج کا ھمارا زمانہ ان کی رھبری وقیادت اور ان کی چھوڑی ہوئی میراث کو پہچان لے، چنانچہ انھوں نے زمانہ کے لئے ایسی ایسی میراث چھوڑی ھیں جو عالم بشریت کے لئے بہت عظیم سرمایہ اور مایہ سرفرازی وباعث عزت ھے۔
خداوندعالم ھماری مدد ونصرت فرمائے(آمین)
پھلے امام : حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام

حضرت علی (ع)کا مشہور لقب ”امیر المومنین“ ھے آپ کو اس لقب سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے سرفراز فرمایا تھا۔[53]
آپ کی ولادت باسعادت مکہ معظمہ اورخانہ کعبہ میں ۱۳/رجب المرجب ۳۰ عام الفیل کو ہوئی۔[54]
آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بچپن ھی سے اپنے پاس رکھا تاکہ آپ کے چچا ابوطالب پر کچھ بوجھ کم ہوجائے، چنانچہ خداوندعالم نے یہ چاھا کہ آپ کی تربیت اس کا محبوب رسول کرے اور ھر طرح کی مشکلات ومصائب سے محفوظ رکھے۔جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلممبعوث بہ رسالت ہوئے تو سب سے پھلے حضرت علی علیہ السلام نے اظھار اسلام کیا۔[55]
اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنے قبیلہ والوں کو اسلام کی دعوت دی تو اسی موقع پر آپ کی وزارت ، وصایت اور خلافت کے بارے میںواضح بیان دیا (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ھے) اور جس وقت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت علی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی شبیہ بن کر آپ کے بستر پر سورھے تاکہ قریش یہ سمجھیں کہ ”محمد“(ص) ابھی بستر پر سورھے ھیں۔
اور مدینہ منورہ ہجرت کے بعد آپ نے تمام اسلامی جنگوں میں شرکت کی اور ھر جنگ میں پرچم اسلام آپ(ع) ھی کے ھاتھوں میں رھا، اور آپ(ع) ھر جنگ میں(سوائے جنگ تبوک کے)نبی کے ساتھ ساتھ رھے ، چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کو اسلام کی دار السلطنت میں احتمالی خطرے کی بنا پر مدینہ میں چھوڑدیا تھا (جیسا کہ تفصیل گذر چکی ھے)
خداوندعالم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے آپ کی تکریم کی خاطر رسول اللہ کی اکلوتی بیٹی جناب فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا سے شادی کی۔[56]
اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اپنی آخری عمر میں آپ کو امامت کے لئے منصوب کیا جیسا کہ حدیث غدیر میں گذر چکا ھے۔
اور چونکہ وفات نبی کے بعد آپ کی زندگی میں بہت سے حادثات رونما ہوئے لیکن آپ(ع) نے اپنی کوشش اور وعظ ونصیحت کو جار ی رکھا تاکہ ہدف اسلام آگے بڑھتا رھے اور اس مقدس راہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے رھے، اور مشکل حالات کو برداشت کرتے رھے۔اور جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کو خلافت قبول کرانا چاھاتو چنانچہ آپ نے کراہةً قبول کرلی لیکن اسی مناسبت سے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
”اگر حاضرین کی بھیڑ جمع ہوکر میرے پاس نہ آتی او ریہ ثابت ہوجاتا کہ ھمارے ناصر ومددگار موجود ھیں او راگر علماء سے خدا کا عہد وپیمان نہ ہوتا کہ ظالم سے دشمنی اور مظلوم سے ھمدردی کریں تو پھر میں اس خلافت کی مھار کو اس کے سوار پر ڈال دیتا اور اس کے دوسرے کو پھلے والے کے کاسہ سے سیراب کردیتا، کیونکہ میں نے اس دنیاکو بکری کے ناک سے بہتے گندے پانی سے بھی پست پایا“۔(خطبہ شقشقیہ)
آپ کی خلافت کے دوران ناکثین (اھل جمل) قاسطین (تابع معاویہ) اورمارقین (خوارج) سے جنگ ہوئی ۔[57]
آپ کی شھادت، مظلومانہ طریقہ سے شب ۲۱ / رمضان المبارک ۴۰ھ [58]کو کوفہ میں ہوئی اور آپ کو کوفہ سے باھر ”نجف“ میں دفن کردیا گیا۔
دوسرے امام : حضرت حسن بن علی علیہ السلام

آپ کے دو مشہور ومعروف لقب ”مجتبیٰ “ او ر”زکی“ تھے۔
آپ کی ولادت باسعادت شب ۱۵/ رمضان المبارک تین ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ کی تربیت آغوش پیغمبر اور قرآنی ماحول میں ہوئی۔
آپ امام ہدیٰ [59] وسیدی شباب اھل الجنة [60]میں سے ایک ھیں آپ کی ذات ان دومیں سے ایک ھے جن کے ذریعہ ذریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمباقی ھے، آپ ھی ان چار حضرات میں سے ایک ھیں جن کے ذریعہ رسول اسلام نے نصاری نجران سے مباھلہ کیا او رآپ ھی پنجتن پاک کی ایک فرد ھیں جن کی شان میں آیہ تطھیر نازل ہوئی۔
آپ نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ سات سال زندگی گذاری اور اس کے بعد اپنے پدر بزرگوار کے ساتھ تمام مشکلات ومصائب میں شریک رھے اور جب حضرت علی علیہ السلام کی وفات ہوئی تو خلافت آپ کے قدموں میں آگئی اور معاویہ اور شام کے رہنے والوں کے علاوہ پورے عالم اسلام نے آپ کی بیعت کی، آپ نے دین کی خاطر اپنے لشکر کو معاویہ اور اس کے لشکر سے مقابلہ کے لئے بھیجا لیکن اس کے بعد آپ کو مشہور ومعروف صلح کرنی پڑی آپ کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے پھلے ھی ارشاد فرمادیا تھا:
” ان ہذا سید یصلح اللّٰہ علی یدیہ بین فئتین عظیمتین“[61]
(یہ میرا بیٹا سید وسردار ھے خداوندعالم اس کے ھاتھوں پر دو عظیم گروہ کی صلح کرائے گا)
قارئین کرام ! صلح امام حسن علیہ السلام کی تفصیل یعنی اس موقع کے حالات کیا تھے امام علیہ السلام نے کس طرح ان حالات کا مقابلہ کیا،صلح کا مقصد کیا تھا ، اس صلح کے کیا کیا بند تھے، شرطیں کیاکیا تھیں، کیا معاویہ نے ان شرائط کو پورا کیا؟ ان تمام چیزوں کو اس کتاب کی ضخامت کے پیش نظر بیان نھیں کیا جاسکتا او رجو شخص ان تمام چیزوں کی تفصیل جاننا چاھے تووہ ”صلح الحسن“نامی کتاب کا مطالعہ کرے، کیونکہ مذکورہ کتاب میں مکمل طریقہ سے بحث کی گئی ھے اور اس کتاب کے متعدد ایڈیشن بھی چھپ چکے ھیں۔
بعض معترضین نے امام حسن علیہ السلام پر یہ بھی اعتراض کیا کہ آپ کی کئی بیویا ںتھیں یھاں تک کہ بعض لوگوں نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ آپ کی بیویوں کی تعداد ۳۰۰ سے ۹۰۰کے درمیان تھی۔[62]
لیکن تاریخ کی تحقیق سے یہ اعتراض بے جا ثابت ہوتا ھے اور یہ بات واضح ہوتی ھے کہ آپ کی سات یا آٹھ بیویاں تھیں۔[63] جیسا کہ یہ بات بھی کشف ہوجاتی ھے کہ آپ (ع)پنے اپنی تین بیویوں کو طلاق بھی دی ھے۔[64]
چنانچہ ڈاکٹر احمد محمود صبحی صاحب نے آپ کے مسئلہ تعدد ازواج کے بارے میں حاشیہ لگایا اور کھا:
”آپ کا تعدد ازواج سے شاید مقصد یہ رھا ہو کہ مختلف قبائل سے آپ کے سسرالی رشتہ داری ہوجائےں کیونکہ (ابن خلدون کے قول کے مطابق) حاکم وقت اپنی رشتہ داری اورخاندان کے بل بوتہ پر حکومت کرتاتھا یھی وجہ ھے کہ تمام بنی امیہ نے اس کی حکومت کی طرف داری کی، (اور اس کی حمایت میں حکومت شام کے مخالفین کا قتل وغارت کیا)
چنانچہ امام حسن علیہ السلام نے جب یہ دیکھا کہ آپ کی اولاد کو قتل کیا جارھا ھے اور آپ کی نسل کو ختم کرنا چاہتے ھیں تو آپ نے کثرت ازواج اور کثرت نسل کے علاوہ کوئی چارہ کار نھیں دیکھا۔[65]
آپ کو (معاویہ کے حکم سے) زھر دیا گیا او رآپ مدینہ منورہ میں ۲۸/ صفر سن پچاس ہجری [66] کو شھید کئے گئے اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کردیا گیا۔
تیسرے امام : حضرت حسین بن علی علیہ السلام

آپ کا مشہور ومعروف لقب ”سید الشہداء“ ھے۔
آ پ کی ولادت باسعادت ۳/ شعبان المعظم سن چار ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ کی پرورش سایہٴ نبوت، موضع رسالت، مختلف الملائکہ اور معدن علم میں ہوئی۔
آپ بھی اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے تمام بنیادی فضائل میں شریک ھیں یعنی آپ بھی امام ہدیٰ، سیدا شباب اھل الجنة میں سے ایک ھیں، آپ ھی کی ذات ان دو میں سے ایک ھے جن کے ذریعہ ذریت رسول باقی ھے آپ ھی ان چار حضرات میں سے ایک ھیں جن کے ذریعہ رسول اسلام نے نصاریٰ نجران سے مباھلہ کیا اور آپ بھی پنجتن پاک(ع) کی ایک فرد ھیں جن کی شان میں آیہٴ تطھیر نازل ہوئی۔
آپ(ع) نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے ساتھ چھ سال تک کی زندگی گذاری، او رآپ پر وہ تمام مصیبتیں پڑیں جو وفات رسول کے بعد اھل بیت (ع)پر پڑیں یھاں تک کہ آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام کو زھر سے شھید کردیا گیا او رآ پ نے اپنی زندگی میں اپنی والدہ گرامی، پدر بزرگوار اور اپنے بھائی کے غم کو برداشت کیا۔
اور جس وقت معاویہ کی موت ہوئی تو یزید اس کا وارث بنا اوراس نے سب مسلمانوں کو اپنی بیعت کے لئے بلایا، تو ان میں سے بعض لوگوں نے نالائق جوان کی بیعت کرنے سے انکار کردیا۔
چنانچہ آپ کی حکومت وقت سے مخالفت کے تین اھم اسباب تھے:
۱۔یزید کا مستحق خلافت نہ ہونا اور خلافت کی اھلیت نہ رکھنا۔
۲۔صلح امام حسن علیہ السلام میں جو معاہدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہوچکا تھا کیونکہ معاویہ کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ معاویہ کے بعد خلافت آپ (امام حسن (ع)) ھی کے پاس رھے گی او راگر امام حسن (ع) کے لئے کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آگیا تو ان کے بعد حق خلافت ان کے بھائی امام حسین علیہ السلام کو ہوگا، لہٰذا معاویہ کو اپنے بعد کسی کو خلیفہ معین کرنے کاکوئی حق نھیں تھا۔ [67]
اس کا مطلب یہ ھے کہ معاویہ کے مرتے ھی امام حسین علیہ السلام در حقیقت صاحب خلافت ہوگئے تھے کیونکہ معاویہ نے اس معاہدہ پر بھی دستخط کر رکھے تھے۔
۳۔ اس وقت کے حالات اس طرح کے تھے کہ ایسے حالات میں قیام کرنا واجب ہوجاتا ھے کیونکہ خود آپ (ع) نے ایک حدیث میں اس طرح اشارہ کیا ھے:
”انی لم اخرج بطراً و لااشراً ولامفسداً ولاظالماً وانما خرجت اطلب الصلاح فی امة جدی محمد (ص) ارید ان آمر بالمعروف وانھیٰ عن المنکر“[68]
(میں کسی فتنہ وفساد اور ظلم کے لئے نھیں نکل رھا ہوں بلکہ میں اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی امت کی اصلاح کے لئے نکل رھا ہوں اور میں امر بالمعروف او رنھی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں)
اسی طرح اپنے شیعوں کے نام ایک خط لکھتے ہوئے فرماتے ھیں:
”فلعمری ما الامام الا الحاکم بالکتاب، القائم بالقسط، الدائن بدین الحق، الحابس نفسہ علی ذات اللہ“ [69]
(خدا کی قسم امام کی ذمہ داری یہ ہوتی ھے کہ قرآن کے مطابق حکم کرے، عدالت قائم کرے، دین حق کی طرف دعوت دے اور پروردگار کے سامنے اپنے نفس کا حساب کرے)
قارئین کرام ! اس اسباب کی تحقیق وبررسی کے بعد ان لوگوں کا نظریہ باطل ہوجاتا ھے جن کی نظر میں امام حسین علیہ السلام خطاکار ھیں جیسے ابوبکر بن عربی وغیرہ ،کیونکہ وہ کہتے ھیں کہ امام حسین کے لئے یزید کی بیعت کرکے خاموش ہوجانا بہتر تھا۔[70]
قارئین کرام ! آپ حضرات غور تو کریں کہ کیسے امام حسین علیہ السلام کے لئے یہ بہتر تھا کہ یزید کی بیعت کرکے خاموش ہوجاتے جبکہ امام حسین علیہ السلام اپنے اوپر واجب دیکھ رھے تھے کہ قیام کریں اور خود معاویہ نے اس عہد نامہ پر دستخط کررکھے تھے جس میں امام حسین علیہ السلام کو بیعت نہ کرنے اور سکوت اختیار نہ کرنے کا حق تھا۔
لہٰذا حضرت امام حسین علیہ السلام تاریخ کے اوراق پر فاتح اکبر کے نام سے مشہور ھیں اگرچہ کربلا کے میدان میں ظاھری طور پر آپ کو اور آپ کے لشکر کو تہہ تیغ کردیا گیا جبکہ ان کے قاتلوں پر ھمیشہ تاریخ لعنت کرتی چلی آرھی ھے، اگرچہ انھوں نے اپنی جنگ میں غلبہ حاصل کیا،بلکہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نھیں ملتی کہ جس میں جنگ میں(ظاھری) غلبہ پانے والوں پر دنیا نے اس طرح لعنت وملامت کی ہو جس طرح قاتلین امام حسین علیہ السلام پر کی ھے[71]
آپ کی شھادت ۱۰/ محرم ۶۱ھ کو عصر کے وقت کربلا میں ہوئی [72] او رآپ کربلائے معلی میں دفن ھےں۔
چھوتھے امام: حضرت زین العابدین علیہ السلام

آپ کے دومشہور لقب ھیں ”سجاد“ اور ”زین العابدین“ ،آپ کی ولادت باسعادت مدینہ منورہ میں سن اڑتیس ہجری کو ہوئی،آپ کا اس وقت بچپن تھا جس وقت آپ کے جد امیر المومنین علیہ السلام پر مصائب پڑے اور آپ کے چچا امام حسن علیہ السلام کے ساتھ سازش کی گئی جس کے بعد آ پ کو معاویہ سے صلح کرنا پڑی، (جیسا کہ اشارہ گذر چکا ھے)
اور جس وقت واقعہ کربلا نمودار ہوا اس وقت آپ کی جوانی کا عالم تھا آپ تمام مصائب کربلا میں شریک تھے یھاں تک کہ آپ کو اسیر کرکے شام لے جایا گیا لیکن آپ اور آپ کی پھوپھی جناب زینب سلام اللہ علیھا نے یزید کے مقصد کو ناکام بنادیا کیونکہ یزید لوگوں کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ ایک خارجی نے حکومت وقت پر خروج کیا تھا لہٰذا اس کے ساتھ یہ سب کچھ کیا گیا (لیکن جناب سید سجاد اور جناب زینب (سلام اللہ علیھما) کے خطبوں کی وجہ سے یزید کا سارا ہدف کافور ہوگیا،چنانچہ امام علیہ السلام کی زندگی میں واقعہ کربلا کے بعد جب مدینہ والوں نے یزیدی ظلم وجور کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو ”واقعہ حرہ“ پیش آیا جس میں یزید نے اپنی فوج کے لئے اھل مدینہ کے مال ودولت اور ناموس کو حلال کردیا تھا اور انھوں نے ظلم وبربریت کا وہ دردناک کھیل کھیلا کہ تاریخ شرمندہ ھے، اس واقعہ میں مروان بن حکم جیسے آپ کے دشمن کو بھی سوائے آپ کے در دولت کے علاوہ کھیں پناہ نہ ملی ۔[73]
اور ان لوگوں کو اس وجہ سے امام علیہ السلام نے اپنے گھر میں پناہ دی تھی تاکہ تاریخ اور لوگوں کے لئے ایک عظیم درس مل جائے کہ الٰھی امام کا کردار کیسا ہوتا ھے۔امام علیہ السلام نے حکومت وقت کے ظلم اور اھل بیت علیھم السلام کی مظلومیت کو اپنی دعاؤں میں بیان کرنا شروع کیا اور یہ دعائیں لوگوں کو تعلیم دینا شروع کیں، چنانچہ امام علیہ السلام کی یہ دعائیں مومنین میں رائج ہوتی چلیں گئیں ان دعاؤں میں حاکم وقت کی حقیقت اور اس کے ظلم وجور کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور لوگوں کے ذہن کو ان سازشوں کی طرف متوجہ کیا کہ حکومت وقت تعلیمات دین کو ختم کرنا چاہتی ھے اور مقام اولیاء اللہ واصفیاء اللہ پر قبضہ کرنا چاہتی ھے نیز حلال وحرام میں تحریف کرناچاہتی ھے اور سنت رسول کو نابود کرنا چاہتی ھے۔ [74]
چنانچہ امام علیہ السلام نے ان سخت حالات کا مقابلہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ کیا ، امام (ع) کی ان دعاوٴں کے مجموعہ کو ”صحیفہ سجادیہ“ کھا جاتا ھے امام کی یہ عظیم میراث ھمارے بلکہ ھر زمانہ کے لئے حقیقت کو واضح کردیتی ھے، یہ عظیم کتاب مختلف تراجم کے ساتھ سیکڑوں بار چھپ چکی ھے۔
امام علیہ السلام کی عظیم میراث میں سے ”حقوق“ نامی رسالہ بھی ھے جس میں تمام خاص وعام حقوق بیان کئے گئے ھیں جس کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوجاتا ھے کہ عوام الناس کے حقوق کیا ھےں اور خدا کے حقوق کیا کیا ھےں انسان کو اپنے اعضاء وجوارح پر کیا حق ھے اور کیا حق نھیں ھے، چنانچہ یہ رسالہ بھی متعدد بارطبع ہوچکا ھے۔ امام سجاد علیہ السلام کی شھادت ۹۵ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کو ”جنت البقیع“ میں دفن کیا گیا۔ [75]
پانچویں امام : حضرت محمد باقر علیہ السلام

آپ کا مشہور ومعروف لقب ”الباقر“ ھے او رآپ کو یہ لقب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے عطا فرمایا تھا۔واقعہ کربلا میں آپ کا عہد طفولیت تھااور اپنی جوانی میں ان تمام مشکلات ومصائب میں شریک تھے جو آپ کے پدر بزرگوار امام سجاد علیہ السلام اور دوسرے علویوں پر پڑے۔جب آپ اپنے پدر بزرگوار کی وفات کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے تو آپ حکومت وقت سے بالکل جدا ہوگئے اور کسی بھی طرح کا کوئی رابطہ نہ رکھا چنانچہ آپ نے اپنا سارا وقت علوم دینی اور حقائق اسلام کو بیان کرنے میں صرف کردیا اور گذشتہ اموی حکومت کے زمانہ میں فقہ وحدیث جو اموی دور میںغبارآلود ہوگئے تھے ان کو صاف کردیا۔
در حالیکہ آپ کا حکام زمانہ سے بالکل رابطہ نھیں تھا لیکن جب بھی انھیں کوئی مشکل اور پریشانی ہوتی تھی توان مشکلات کو حل کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاصر ہوتے تھے، اور امام علیہ السلام بھی اس سلسلہ میں ذرہ برابر بھی بخل سے کام نھیں لیتے تھے بلکہ اُن کی مشکلات کو حل فرما دیا کردیتے تھے اور ان کو وعظ ونصیحت فرماتے تھے، اسلام اور ارکان اسلامی کی حفاظت فرماتے تھے۔
جیسا کہ بعض مورخین نے لکھا ھے کہ عبد الملک بن مروان کا امام علیہ السلام سے مشورہ کے بعد ان تمام ظروف او رکپڑوں کو بند کرادیاجن پر مصر کے بعض عیسائیوں نے سریانی زبان میں اپنا عقیدہ ”اب، ابن اور روح القدس“ چھاپ کر بازاروں میں روانہ کیا تھا۔
اسی طریقہ سے جب خلیفہ اور بادشاہ روم کے درمیان گفتگو ہوئی اور خلیفہ بادشاہ روم کو کوئی مستحکم جواب نہ دے سکا ، چنانچہ اس نے خلیفہ کی طرف سے بے توجھی کی خاطر سخت رویہ اختیار کیا اور اس نے درھم ودینار پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے لئے نازیبا الفاظ لکھ کر مسلمانوں کے بازار میں بھیجے کیونکہ اس زمانہ میں درھم ودینا ر روم میں بنائے جاتے تھے۔
جب عبد الملک نے یہ حال دیکھا تو امام علیہ السلام سے مشورہ کرنے پر مجبور ہوگیا اور اس سلسلہ میں آپ کوشام دعوت دی چنانچہ امام علیہ السلام نے مصلحت کے تحت اس دعوت کو قبول کیا اور آپ شام تشریف لے گئے اور جب عبد الملک نے آپ کے سامنے مشکل بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ صنعت گروں کو بلایا جائے، خلیفہ نے ان سب کو حاضر کرلیا تب امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو بتایا کہ کس طرح درھم ودینار کا سانچہ بنائیں، کس طرح ان کی مقدار معین کی جائے اور کس طرح ان پر کچھ تحریر کیا جائے،چنانچہ امام علیہ السلام نے اس طریقہ سے مسلمانوں کو رسوائی سے بچالیا اور بادشاہ روم ناکام ہوگیا[76]
امام علیہ السلام کے بے شمار شاگرد تھے آپ کی میراث وہ گرانبھا ذخیرہ ھے جس سے تفسیر، فقہ، حدیث، کلام اور تاریخی کتب بھری ھیں، آپ کی شھادت ذی الحجہ ۱۱۴ھ [77] مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کو جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
چھٹے امام : حضرت جعفر صادق علیہ السلام

آپ کا مشہور ومعروف لقب ”صادق “ھے۔
آپ کی ولادت باسعادت ۱۷/ ربیع الاول ۸۳ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ کے زمانے میں اموی سلطنت کمزور ہوگئی یھاں تک کہ بالکل ھی اس کا خاتمہ ہوگیا اس کے بعد عباسی حکومت تشکیل پائی چنانچہ عباسی حکومت اپنے نئے منصوبوں کو تیار کرنے میں مشغول تھی لہٰذا امام علیہ السلام نے موقع غنیمت شمار کیا اور وسیع پیمانہ پر تعلیم وتربیت میں مشغول ہوگئے، آپ کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ایسے ایسے شاگرد جو بعد میں اسلام کی مشہور ومعروف شخصیتیں بن گئیں۔
آپ(ع) کے شاگرد اور آپ سے احادیث روایت کرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ لوگوں کی زبان پر شیعیت کے بجائے ”مذھب جعفری“ گردش کرنے لگا، اور اس مذھب کو امام جعفر صادق علیہ السلام سے منسوب کرنے لگے جبکہ تشیع تمام اھل بیت (ع)سے منسوب ھے اور کسی ایک امام سے مخصوص نھیں ھے۔
امام علیہ السلام نے اپنے زمانہ میں کس قدر دینی خدمات انجام دیں ھیں اس کے لئے کافی ھے کہ ھم بعض تاریخوں میں آپ کے شاگردوں اور رواة کی تعداد کو ملاحظہ کریں جن کی تعدادچار ہزارا تک بتائی جاتی ھے۔[78]
اسی طرح ابو الحسن وشاء کہتے ھیں کہ :
”میں نے اس مسجد (کوفہ) میں ۹۰۰ /راویوں کو دیکھا جو کہتے تھے: ”حدثنی جعفر بن محمد(ع)“ (مجھ سے امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا) [79]
اسی طرح ھمارے لئے کافی ھے کہ ھم امام علیہ السلام کی بعض باقی باندہ علمی میراث کو دیکھیں اور امام علیہ السلام کی عظمت وبلندی کا اندازہ لگائیں۔
اگر آپ کی تفسیر قرآن، علم فقہ، فلسفہ اور علم کلام وغیرہ کو ایک ساتھ جمع کیا جائے تو ایک بے نظیر عظیم الشان دائرة المعارف بن جائے گا۔
آ پ کے علمی آثار میں سے :
طبی قوانین اور صحت سے متعلق دستور جن کو دو کتابوں میں جمع کیا گیا ھے۔
”توحید المفضل “ اور ”الاھلیلجہ “[80]
ان دونوں کتابوں میں مسئلہ ”عدوی “ (جس کے ذریعہ ”مکروب“ "Microbe" کی شناخت ہوتی ھے) کے بارے میں مکمل طریقہ سے وضاحت کی گئی ھے۔
اسی طرح علم الامراض کے بارے میں مکمل طور پروضاحت کی گئی ھے، امام علیہ السلام نے سب سے پھلے دورة الدمویة تھر ما میٹر"Thermometer"کشف کیا اس کے بعد کھیں ڈاکٹر ”ھارفی بقرون“ نے اس طرح اشارہ کیا ھے۔
آپ ھی نے جابر بن حیان کو علم کیمیا (Chemistry)کی تعلیم دی اسی وجہ سے آپ کو علم کیمیا کا موجد کھا جاتا ھے جیسا کہ ڈاکٹر محمد یحيٰ الھاشمی کہتے ھیں۔ [81]
امام علیہ السلام کے طریقہ کار کے بارے میں استاد ”ڈونالڈسن“ نے تدریس کے طریقہ کو بیا ن کرتے ہوئے کھاھے:
”آپ کی روش تدریس سقراطی تھی آپ اپنے شاگردوں کے ساتھ ھمیشہ بحث ومباحثہ کرتے تھے اور خالص او رسادہ موضوعات سے اپنی گفتگو کاآغاز فرماکر دقیق، علمی ، پیچیدہ اور مشکل موضوعات پر بحث ختم فرماتے تھے۔[82]
آپ کی شھادت ۱۴۸ھ [83]کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کوبھی جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
ساتویں امام : حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام

آپ کے دو مشہور لقب ”کاظم“ اور ”باب الحوائج“تھے ۔
آپ کی ولادت باسعادت ۱۲۸ھ کو مقام ”ابواء“ (مدینہ کے قریب ایک مقام)میں ہوئی۔
آپ کی زندگی بنی عباس سلطنت کے زیر اثر مشکلات سے دوچار رھی ھے۔
آپ کی زندگی کس قید خانہ میں گذری ھے اس کا بیان کرنا مشکل ھے ھارون الرشید آپ کا سخت مخالف تھا اس کا سبب بھی بعض مورخین نے یہ بیان کیا ھے کہ جس وقت ھارون الرشید مدینہ منورہ میں داخل ہو کرمسجد النبی میں زیارت کے لئے گیا اور چونکہ اس نے قبر نبوی پر توجہ دی تو مدینہ کے زعماء اور سردار اس کو تحفے دینے کے لئے گئے او رجب ھارون قبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمپر حاضر ہوا تو اس طرح سلام کیا:
”السلام علیک یا ابن العم“
(اے میرے چچازاد بھائی تم پر سلام ہو)
اس کا یہ سلام لوگوں کو فریب دینے کے لئے تھا تاکہ لوگ اس قریبی رشتہ داری کو دیکھ کر اس کو خلافت کا مستحق مان لیں، لیکن جب امام علیہ السلام نے اس مکر وفریب کو دیکھا تو اس کو بے نقاب کردیا اور رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکو مخاطب کرکے کھا:
”السلام علیک یا ابہ“
(اے پدر بزرگوار تم پر سلام ہو)
یہ سن کر ھارون الرشید کا سر شرم کی وجہ سے جھک گیا اور اس پر کینہ وکدورت کے آثار ظاھر ہونے لگے۔
چنانچہ اس کے بعد سے امام علیہ السلام اور ھارون الرشید میں بہت سے مناظرات ہوئے کہ کون رسول اللہ سے زیادہ قریب ھے، ھارون الرشید کی دلیل یہ تھی کہ لڑکی کی اولاد ”ذریت“ اور اس کے اولاد نھیں ہوتی۔ کیونکہ ذریت اور ابناء صرف باپ کے ذریعہ منسوب ہوتے ھیں ماں کے ذریعہ نھیں۔
لیکن امام علیہ السلام نے ھارون الرشید کو وہ دندان شکن جوابات دئے جن کی وجہ سے اس کو منھ کی کھانی پڑی، ان میں سے بعض کا خلاصہ یہ ھے:
۱۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلماب تک زندہ ہوتے تو تیری بیٹی سے نکاح کرسکتے تھے لیکن میری بیٹی سے ھر گز یہ قصد نہ کرتے۔
۲۔خداوندعالم کا ارشاد ھے:
[84]
”پھر جب تمھارے پاس علم (قرآن) آچکا اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) جناب عیسیٰ (ع) کے بارے میں حجت کرے تو کہو کہ (اچھا میدان میں) آؤ ھم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ۔۔۔۔“
اور اس بات کو تمام مسلمان جانتے ھیں کہ آپ نے مباھلہ میں بیٹوں کی جگہ امام حسن وامام حسین علیھما السلام کو لیا جو آپ کی بیٹی کی اولاد ھیں اور قرآن کریم نے ان دونوں کو ابناء (بیٹے) کھا۔
قرآن مجید نے جناب ابراھیم علیہ السلام کی زبانی نقل کیا:
[85]
”اور ان ھی (ابراھیم ) کی اولاد سے داوٴد ، سلیمان وایوب ویوسف وموسیٰ وھارون (سب کی ھم نے ہدایت کی) اور نیکوکاروں کو ھم ایسا ھی صلہ فرماتے ھیں اور زکریا اور یحيٰ اور عیسیٰ(ع)۔۔۔)
اور جناب عیسیٰ (ع)بغیر باپ کے پیدا ہوئے لیکن قرآن کریم نے ان کو ماں کی طرف سے ذریت ابراھیم علیہ السلام میں شمار کیا اس کامطلب یہ ھے کہ انسان ماں کی طرف سے ذریت میں شامل ہوتا ھے جیسا کہ قرآن کریم اس بات کو صاف طور پر بیان کیا ھے۔
یہ تمام چیزیں سن کر ھارون الرشید شرمندہ ہوگیا لیکن اس کے دل میں بھرا بغض وحسد ظاھر ہونے لگا جس کی بنا پر امام علیہ السلام پر مصائب پڑنے لگے اور آپ کو قید خانہ میں بھیج دیا گیا اور اس پر بھی ھارون کو سکون نہ ملا بلکہ امام کو ایک قید خانہ سے دوسرے قید خانہ میں بھیج دیتا تھا لہٰذا امام علیہ السلام کو تعلیم وتربیت کا موقع کم ملا ھے۔
لیکن پھر بھی آپ نے اپنی آزاد زندگی میں وہ عظیم علمی آثار چھوڑے ھیں جو اسلام کے عظیم منابع میں شمار ہوتے ھیں۔
آپ(ع) کی شھادت شب ۲۵ رجب ۱۸۳ھ [86]کو ہوئی اور آپ کو قریش کے قبرستان میں دفن کیا گیا جس کو آج کل کاظمیہ (کاظمین) کھا جاتا ھے جو امام علیہ السلام سے منسوب ھے)
آٹھویں امام : حضرت علی رضا علیہ السلام

آپ (ع)کا مشہور لقب ”رضا“ ھے۔
آ پ (ع)کی ولادت باسعادت ۱۱/ ذیقعدہ ۱۴۸ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ (ع)کے زمانہ میںسب سے پھلاعباسی خلیفہ بنا او رآپ اپنے پدربزرگوار پر پڑنے والی تمام مشکلات میں شریک تھے، جس وقت مامون کو خلافت ملی تو اسلامی علاقوں میں بہت سی اھم مشکلات پیدا ہوگئیں جن میں سے بعض یہ ھیں:
امین ومامون کے درمیان ہوئی جنگ کے نتیجہ میں حکومت کی ساکھ کمزور پڑگئی اور چونکہ مامون نے ایران کو دار السلطنت بنالیا تھا لہٰذا عباسی افراد اور ان کے طرفدار برائی کیا کرتے تھے اور اسی طرح علویوں کی طرف سے مکہ مکرمہ، یمن، کوفہ، بصرہ اور خراسان سے قیام ہوئے۔
چنانچہ ان تمام مشکلات کو حل کرنے کے لئے ھمیشہ مامون پریشان رہتا تھاچنانچہ اس کو کوئی چارہ کار دکھائی نہ دیا مگر یہ کہ امام علیہ السلام کو ”مرو“ (خراسان کا ایک علاقہ) میں بلالیا اور جب آپ سے ملاقات ہوئی تو خلافت آپ کے سپرد کرنے کی پیش کش کی، (لیکن امام علیہ السلام نے قبول نھیں کی) اس کے بعد مامون نے ولی عہدی کے لئے بہت اصرار کیا (چنانچہ امام علیہ السلام نے مجبوراً ومصلحتاً قبول کرلیا)
مامون اس کام کے ذریعہ موجودہ حالات سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا خصوصاً عالم اسلام کے بعض مناطق میں حکومت کی مخالفت میں قیام ہوچکے تھے۔لہٰذا اس حکومت میں امام رضا علیہ السلام کی شرکت (اگرچہ برائے نام ھی کیوں نہ ہو) بھڑکے ہوئے آگ کے شعلوں کو خاموش کرنے میں مددگار ثابت ہوئی، کیونکہ ان مناطق میں حب آل علی پائی جاتی تھی اور چونکہ امام علیہ السلام اولاد علی میں سے تھے لہٰذا ان کا قیام ختم ہوگیا۔
امام علیہ السلام جانتے تھے کہ مامون کا اصرار صرف ایک چال ھے کیونکہ یھی مامون مستقبل میں میرے خلاف ایک زبردست مھم چلائے گا یا بعض علویوں کے ضمیروں کو خرید کر اس تحریک کا علمدار بنادے گا۔
لیکن امام علیہ السلام اس علم کے باوجود یہ احساس کررھے تھے کہ اگر اس پیش کش (ولی عہدی) کو قبول نہ کیا تو باعث عسر وحرج ہوگا کیونکہ اگر آپ قبول نہ کرتے تو اس کے معنی یہ تھے کہ آپ اصلاً مستحق خلافت نھیں ھیں یا خلافت کی مھار سنبھالنے کی لیاقت نھیں رکھتے۔
اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے ولی عہدی کو قبول کرلیا تاکہ مامون کا امتحان لیا جاسکے اور اس کو آزماسکیں۔
چنانچہ امام علیہ السلام رسمی طور رپر ولی عہد ہوگئے۔
اس کے بعد بہت سے واقعات رونما ہوئے اور امام علیہ السلام کی وفات ایسے حالات میں ہوئی جن کو دیکھ کر انسان شک میں پڑجاتا ھے (اور وہ یہ کہ آپ کی شھادت مامون کے ذریعہ ہوئی ھے) لیکن ان تمام تفصیلات کو یھاں ذکر نھیں کیا جاسکتا۔
امام علیہ السلام کے علمی آثار وہ عظیم مجموعہ ھے جن کا اسلامی منابع میں شمار ہوتا ھے ان میں سے ایک رسالہ جس کو مامون کے لئے لکھا تھا جس کا نام ”الذھبیہ“ تھا جو طبی مسائل میں تھا اور ”طب الرضا“ کے نام سے مشہور ہوا، اس رسالہ کی شرح ڈاکٹر زینی صاحب نے کی ھے، اور اس رسالہ کے مطالب او رعلم طب کے درمیان مقایسہ کیا ھے،چند سال قبل یہ رسالہ بغداد سے شایع ہوچکا ھے۔
آپ کی شھادت صفر ۳۰۳ھ [87]کو طوس میں ہوئی اور طوس (خراسان) میں دفن ہوئے ھیں، آج آپ کے مدفن کو ”مشہد“ کھا جاتا ھے۔
نویں امام : حضرت محمدتقی علیہ السلام

آپ کے دو مشہور لقب تھے ”جواد “ اور ”تقی“ ،آپ کی ولادت باسعادت رمضان المبارک ۱۹۵ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی، آپ نے خلیفہ مامون کے زمانہ میں اپنی زندگی کا آغاز کیا وہ مامون جو اھل بیت (ع) اور ان کی ولایت کا جھوٹا مظاھرہ کررھا تھا۔
اور جس وقت امام رضا علیہ السلام کی وفات واقع ہوئی تو لوگوں کی زبان پر امام علیہ السلام کے قتل کا الزام مامون پر لگایا جارھا تھا چنانچہ مامون نے اس افواہ کو جھوٹا ثابت کرنے اور عملی طور پر دلیل قائم کرنے کی کوشش کی اور اس نے امام تقی علیہ السلام سے محبت کا اظھار کیا او راپنی بیٹی امّ الفضل سے آپ کی شادی کرنے کا ارادہ کیا تاکہ دونوں خاندانوںمیں جدید رشتہ داری کی بنا پر محبت پیدا ہوجائے، لیکن اس کام کے لئے دوسرے عباسیوں نے اپنی ناراضگی ظاھر کی اور اصرار کیا کہ اس شادی سے صرف نظر کرے او ریہ مطالبہ کیا کہ علویوں کے ساتھ گذشتہ خلفاء کا رویہ اختیار کرے یعنی ان کے ساتھ جنگ ودشمنی کی جائے،لیکن مامون نے ان کی یہ بات نہ سنی او ران کو جنگ ودشمنی سے روکا کیونکہ اسے آل علی (ع) سے قطع تعلق کی کوئی خاص وجہ نھیں دکھائی دی اور ان کے سامنے وضاحت کی کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی عاطفہ او رمحبت کی بنا پر نھیں کررھا ہوں بلکہ امام علیہ السلام کی شخصیت وفضیلت تمام علماء اور ماھرین پر واضح ھے درحالیکہ ان کاسن بھی کم ھے۔
لیکن جب ان لوگوں نے مامون کو اپنے فیصلہ پر مصمم پایا تو کھا کہ امام علیہ السلام کو مزید علم وفقہ میں مھارت حاصل کرنے دو اس وقت مامون نے کھا: ”یہ اھل بیت (ع) کی ایک فرد ھیں ان کا علم خدا کی طرف سے ہوتا ھے اور اگر تم نھیں مانتے تو ان کا امتحان کرلو تاکہ تم پر بھی حقیقت واضح ہوجائے۔“
چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ امام علیہ السلام کا امتحان لیا جائے اور ان میں سے بعض لوگ امتحان کے لئے تیار ہوگئے، اور قاضی القضاة یحيٰ بن اکثم کو آمادہ کیا کہ وہ امام علیہ السلام سے سوال کرکے شکست دیدے۔، چنانچہ امتحان کی تاریخ پہونچ گئی اور امام ویحيٰ بن اکثم کے درمیان مناظرہ ہوا جس کے نتیجہ میں یحيٰ بن اکثم کو منھ کی کھانی پڑی او رامام علیہ السلام کی شخصیت فقہ اسلامی کے میدان میں روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی،اس مناظرہ میں امام علیہ السلام کی قابلیت کو دیکھ کر مامون نے اپنی لڑکی سے شادی کردی اور امام ومامون کے درمیان تعلقات بہتر ہوگئے۔(ظاھراً)
لیکن جب مامون کے بعد معتصم کو خلافت ملی تو اس نے امام علیہ السلام کو بغداد بلالیا اور آپ کو ایک مخصوص گھر میں رکھا گیا لیکن آپ کی وفات ان مبھم حالات میں ہوئی جن کی بنا پر معتصم پر الزام لگایا جانے لگا کہ اس نے ام الفضل کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زھر پلایا۔
اور چونکہ امام علیہ السلام معتصم کے زیر نظر تھے لہٰذا بغداد کے ان حالات میں بھی امام علیہ السلام نے وہ علمی آثار چھوڑے جن سے مشہور اسلامی کتابیں منور ھیں۔
آپ کی شھادت ذی الحجہ ۲۲۰ھ [88] میں ہوئی او رآ پ کو آپ کے دادا کے پاس ”کاظمیہ“ (کاظمین) میں دفن کیا گیا۔
دسویں امام : حضرت علی نقی علیہ السلام

آپ ”نقی“ او ر”ھادی“ کے لقب سے مشہور تھے۔
آپ کی ولادت باسعادت ۱۵/ ذی الحجہ ۲۱۲ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ کی کچھ زندگی معتصم کے زمانہ میں گذری اور یھی وہ زمانہ تھا جس میں ”سرمن رائے“ تشکیل پائی کیونکہ اس زمانہ میں ترکوں او رممالک نے حکومت اسلامی کے لئے بہت سی مشکلیں ایجاد کردی تھیں لہٰذا معتصم ان مشکلوںکا مقابلہ کرنے کی تیاریوں میں مشغول تھا۔
اس کے بعد واثق کا زمانہ آیا یہ وہ زمانہ تھا جس میں امام علیہ السلام او رخلیفہ کے درمیان اچھے تعلقات رھے ھیں۔
اس کے بعد متوکل کا زمانہ آیا لیکن یہ وہ زمانہ تھا جس میں اھل بیت (ع) سے علی الاعلان دشمنی او رمقابلہ کیا جانے لگا اور لوگوں کو ان سے منحرف کیاجانے لگا۔
اور جب مدینہ میں متوکل کے والی کو امام علیہ السلام کی شان وشوکت کو دیکھ کر اپنی حکومت کے ڈگمگانے کا خوف لاحق ہوا تو اس نے متوکل کو خط لکھ کر آگاہ کیا کہ امام علیہ السلام تیری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے ھیں۔
جب ان تقاریر کا سلسلہ بڑھنے لگا تو متوکل نے امام علیہ السلام کو خط لکھ کر سرمن رائے بلایا تاکہ آپ او رآپ کے اھل بیت وھاں پر رھیں تاکہ لوگوں کا رجحان آپ کی طرف سے ہٹ جائے اور والی مدینہ کو لکھا کہ امام علیہ السلام کے ساتھ کچھ محافظین بھیجے تاکہ امام علیہ السلام کے احترام واکرام کا مزید مظاھرہ ہوسکے۔
چنانچہ امام علیہ السلام نے ان حالات کو دیکھ کر سفر کا ارادہ کرلیا اور سرمن رائے جانے کے لئے رختِ سفر باندھ لیا اور جب امام علیہ السلام متوکل کے تیار کردہ مکان میں پہونچے، چند روز رہنے کے بعد آپ نے اس کا مکان چھوڑ دیا اور اپنے مال سے ایک مکان خریدا تاکہ خلیفہ کے مھمان بن کر نہ رھیں ، یھی وہ مکان تھا جس میں آپ کو دفن بھی کیا گیا، جو آج بھی لاکھوں افراد کی زیات گاہ ھے۔
امام علیہ السلام نے مجبوراً سرمن رائے میںقیام فرمایا، یھاں تک کہ آپ کی شھادت واقع ہوئی کیونکہ ھمیشہ آپ کے خلاف سازش ہوتی رھی او رآپ کو ھر طرح کی اذیت دی جانے لگی،اس جرم میں کہ یہ ھماری حکومت کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے او رھماری حکومت کے خلاف بغاوت کرنا چاہتے تھے۔
ان تمام حالات کے بعد بھی خلیفہ کو جب بھی کوئی شرعی مشکل پیش آتی تھی تو وہ امام علیہ السلام کے پاس آکر پنا ہ لیتا تھا کیونکہ خلیفہ میں مسائل شرعی سمجھنے کی صلاحیت نہ تھی او رنہ ھی وہ شرعی سوالات کا جواب دے سکتا تھا۔
امام علیہ السلام کے علمی آثار نفیس وقیمتی ھیں جن میں ”جبر وتفویض“ کے موضوع پر بہترین رسالہ ھے جس میں مسئلہ کے ھر پھلو پر روشنی ڈالی گئی اور اس میں موجود ہ پیچیدگیوں کا مکمل حل بیان کیا گیا ھے خلاصہ یہ کہ اس مسئلہ میں مکمل وضاحت کی گئی ھے او رآپ کے جد امجد حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے قول: ”لا جبر ولا تفویض ، بل امر بین الامرین“ [89]کی مکمل شرح کی گئی ھے۔
آپ کی شھادت رجب ۲۵۴ھ[90] کو سامرہ میں ہوئی اور آپ کو اپنے ھی گھر میں دفن کیا گیا جو ہزاروں مومنین کی زیارت گاہ بنا ہوا ھے۔
گیارہویں امام : حضرت حسن عسکری علیہ السلام

آپ ”عسکری “ کے نام سے مشہور تھے ، عسکری ”عسکر“ کی طرف منسوب ھے جوسرمن رائے کے ناموں میں سے ایک نام تھا۔
آپ کی ولادت باسعا دت ربیع الاول ۲۳۲ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی۔
آپ کی حیات طیبہ میں درج ذیل حکام کا زمانہ تھا:
۱۔ خلیفہ المعتز ؛ اس زمانہ میں خلیفہ اور امام کے درمیان کوئی دشمنی یا سازش نھیں تھی کیونکہ اس زمانہ میں تُرک لشکر نے خلیفہ کے لئے بہت سی مشکلیں ایجاد کر رکھی تھیں ،اس کی حکومت میں تباہ کاری وخرابکاری کر رکھی تھی اورخلیفہ ان مشکلات سے دست وپنجہ نرم کر رھا تھا لیکن آخر کار خلیفہ کو خلافت سے معزول ہونا پڑا۔
۲۔ خلیفہ مہتدیٰ؛ اس کے امام علیہ السلام کے ساتھ اچھے روابط تھے اور اسی وجہ سے خلیفہ شراب، محفلِ رقص وسرور سے دور تھا اور نیکی وخیر کا مظاھر ہ کرتا تھا۔
۳۔ خلیفہ معتمد ؛ یہ خلیفہ اھل بیت (ع)کا سخت دشمن تھا اسی وجہ سے اس نے امام علیہ السلام کو ایک مدت تک قید خانہ میں رکھا لیکن مجبور ہوکر امام علیہ السلام کو آزاد کرنا پڑا کیونکہ اس وقت کے نصاریٰ نے خلیفہ سے کچھ علمی سوالات کر لئے تھے چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے اور نصاریٰ کے کھوٹے پن کو ظاھر کرنے کے لئے امام علیہ السلام کی مدد لی جیسا کہ تاریخی کتابیں اشارہ کرتی ھیں۔
جس وقت امام علیہ السلام کی وفات کی خبر ملی تو وہ نگران تھا کیونکہ اس وقت ”محمد“ مہدی بن امام عسکری علیھما السلام کی بحث شروع ہوچکی تھی اور اس سلسلہ میں امام مہدی علیہ السلام کے چچاحعفر بن علی میں حسد وکینہ بھرا ہوا تھا او رآپ کے مال ومنال او رآپ کے مقام کی طرف چشم طمع لگائے ہوئے تھا، اور اپنے بھتیجے (امام مہدی (ع)) کو تلاش کرنا چاہتا تھا لیکن یہ اور خلیفہ دونوں اپنے ارادوں میں ناکام ہوگئے اور امام مہدی دشمنوں کی نظروں سے مخفی رھے اور خداوندعالم نے ان کو حاسدوں کے حسد سے نجات دی۔
حالانکہ امام حسن عسکری علیہ السلام کا زمانہ پُر آشوب تھا لیکن پھر بھی راویوںنے بہت سی روایات نقل کی ھیں جو علم ومعرفت میں اپنا مقام رکھتی ھیں۔
آپ کی شھادت ۸/ربیع الاول ۲۶۰ھ [91] کو سرمن رائے میں ہوئی اور آپ کو اپنے پدر بزرگوار کے جوار میں (آپ کے ھی مکان میں)دفن کیا گیا۔
بارہویں امام :حضرت محمد بن الحسن (مہدی منتظر (عج)

آپ کے ”مہدی“ اور ”القائم المنتظر“ دو مشہور ومعروف لقب ھیں ۔
آپ کی ولادت با سعادت ۱۵/شعبان المعظم ۲۵۵ھ کو فجر کے وقت سامراء میں ہوئی۔
جب حکومت وقت نے آ پ کے پدربزرگوار کی وفات کے وقت آپ کے بارے میں سنا تو آپ کو تلاش کیا گیا، لیکن آپ ان کی نظروں سے پوشیدہ رھے۔
آپ نے غیبت صغریٰ میں کچھ مخصوص افراد منتخب کئے جو شیعوں کے مسائل او رسوالات کو امام سے جاکر بیان کرتے او ران کے جواب لاتے تھے۔
اور جب اس غیبت میں بھی خطرہ در پیش آیا تو پھر ملاقات کا یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا اور آپ مکمل طور پر پوشیدہ ہوگئے یھاں تک کہ آپ کے نائیبین بھی نہ مل سکے، (اور امام علیہ السلام آج تک مخفی ھیں)
انشاء اللہ ایک روز آئے گا جب خداوندعالم آپ کو ظہور کا حکم دے گا او ر آپ ظلم وجور سے بھری دینا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے جیسا کہ آپ کے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے بہت سی احادیث میں اس طرف اشارہ فرمایا ھے؛مثلاً:
”ان علیا وصیي ومن ولدہ القائم المنتظر المہدی الذی یملاء الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً وظلماً“
(بے شک علی میرے وصی ھیں اور ان ھی کی اولاد میں سے مہدی منتظر ہوں گے جو ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)
ایضاً
: ”ابشروا بالمہدی رجل من قریش من عترتی تخرج فی اختلاف من الناس وزلزال، فیملاٴ الارض عدلاً وقسطاً کما ملئت ظلماً وجوراً“[92]
(اے لوگو ! میں تم کو مہدی کے بارے میں بشارت دیتا ہوں جو قریش سے ہوں گے جب لوگوں میں اختلاف اور لغزشیں پائی جائیں اسی وقت ان کا ظہور ہوگا اور وہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے)
قارئین کرام ! چونکہ موضوع امام مہدی ایک اھم موضوع ھے لہٰذا اس سلسلہ میں ایک مستقل باب میں بحث کرتے ھیں اور اس باب میں تین مرحلوں میں بحث کریں گے:

۱۔ نظریہ ”مہدویت“ او راس کااسلام سے رابطہ۔
۲۔مسلمانوں کے درمیان متفقہ احادیث نبوی میں امام مہدی کی شناخت او رتعین۔
۳۔ امکانِ غیبت اور اس کے دلائل۔
لہٰذا اس سلسلہ میں تفصیلی معلومات کے لئے آئندہ باب میں رجوع فرمائیں۔
قارئین کرام ! بحث ”امامت“ عقل وروایات کی روشنی میں آپ نے ملاحظہ فرمائی اور امامت کے سلسلہ میں ”احادیث“ صاف اور واضح طور پر ملاحظہ کیں۔
نیز ائمہ (ع)کی پاک وپاکیزہ زندگی، سیرت اور علمی عظیم آثار پر بھی توجہ فرمائی۔ کیا ان سب حقائق کو پڑھنے کے بعد بھی کوئی شخص یہ کہہ سکتا ھے کہ شیعہ یہودیوں کے پیروکار ھیں اوردائرہ اسلام سے خارج ھیں؟! اسی طرح گذشتہ وضاحت کے بعد بھی کیا کوئی یہ کہنے میں حق بجانب ہوگا کہ شیعیت کا ظہور خلافت عثمان بن عفان کے زمانہ میں ہوا، اور مسلمانوں کے ایک گروہ نے قیام کیا۔
کیا عبد اللہ بن سبا کو شیعیت کا موٴسس کھا جاسکتا ھے کہ اس نے اسلام کا لبادہ پہن کر اسلام کو نابود کرنے کی کوشش کی؟!
اور کیا تاریخ میں عبد اللہ بن سبا کا وجود ھے جس کی طرف شیعیت کی ایجاد کی نسبت دی جائے؟!
اب ھم اس سلسلہ میں مورخین کے نظریات قلمبند کرتے ھیں:
۱۔ ڈاکٹر برنارڈلویس نے عبد اللہ بن سبا کا وجود صرف خیالی بتایا ھے اور اس بات کی تاکید کی ھے کہ مختلف زمانے میں ابن سبا کی طرف نسبت دینا متاخرین علماء کی من گھڑت کھانی ھے۔[93]
۲۔ڈاکٹر طٰہ حسین صاحب نے ابن سبا کی طرف منسوب تمام واقعات کو نا قابل قبول مانا ھے اور مورخین کی روایات پر حاشیہ لگاتے ہوئے کھا:
”شیعوں پر یہ سب تھمتیں ،شیعہ مخالفین اور شیعہ دشمنوں نے لگائی ھیں“۔[94]
۳۔ ڈاکٹر جواد علی صاحب نے عبد اللہ بن سبا کی تمام باتوں کو مشکوک قرار دیا ھے کیونکہ اس کی تمام روایتیں سیف بن عمرھی سے ھیں اور اس کے علاوہ کسی نے بھی بیان نھیں کی جبکہ سیف بن عمر خود بھی اور اس کی روایات بھی غیر قابل قبول ھیں۔ [95]
۴۔ ڈاکٹر علی الوردی صاحب کا نظریہ ھے کہ اموی حکّام نے جلیل القدر صحابی جناب عمار بن یاسر کو عبد اللہ بن سبا کا لقب دیا ھے اور اس پر بہت سے قرائن وشواہد ھیں۔[96]
۵ استاد احمد عباسی صالح صاحب کی نظر میں عبد اللہ بن سبا کا وجود ایک افسانہ ھے، جیسا کہ موصوف اپنی گفتگو کے دوران فرماتے ھیں:
”اس میں کوئی شک وشبہ نھیں ھے کہ عبد اللہ بن سبا ایک خرافی تصور کا نام ھے اور لوگوں نے اس خرافی شخص کا وجوداس لئے تصور کیاکہ اس کی طرف جو کچھ بھی نسبت دینا چاھیں وہ دے سکیں، چنانچہ عبد اللہ بن سبا کے جو واقعات موجود ھیں وہ سب متاخرین کی من گھڑت کھانیاں ھیں کیونکہ قدیمی منابع اور کتابوں میں اس کے وجود پر کوئی دلیل نھیں ھے چہ جائیکہ اس کے نظریات کا کوئی وجود بھی ہو“ [97]
پس خلاصہ یہ ہوا کہ عبد اللہ بن سبا صرف ایک افسانہ ھے جس کا ذکر تاریخ میں نھیں ملتا تو پھر حقیقت میں شیعیت کی بنیاد رکھنے والا کون ھے؟ اور کس نے سب سے پھلے اس لفظ کو استعمال کیا؟

جواب


: سب سے پھلے اس لفظ کو حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے استعمال کیاجیسا کہ طبری اور حافظ ابن حجر نے اپنے مشہور حفاظ سے اس روایت کو نقل کیا ھے کہ ایک روز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے اس آیہ ٴ کریمہ کی تلاوت فرمائی:
[98]
”بے شک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اچھے کام کرتے ھیں یھی لوگ بہترین خلائق ھیں“
اور اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا:
”ھم انت وشیعتک“[99] (وہ آپ او رآپ کے شیعہ ھیں)
اب جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہ سب سے پھلے اس کلمہ کا استعمال پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمنے کیا اور شیعہ سے مراد حضرت علی علیہ السلام کے پیروکاروں کو لیا تو پھر خود غرض او ر شک کرنے والوں کے بے جا اعتراضات کا خاتمہ ہوجاتا ھے۔
اَلْحَمُدْ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَاکُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَو لَا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ۔

والسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین ۔
---------
[1] لسان العرب ج۱۲ ص ۲۴ (مادہ اٴم
[2] سورہ بقرہ آیت ۱۲۴۔
[3] سورہ احقاف آیت ۱۲۔
[4] سورہ فرقان آیت ۷۴۔
[5] سورہ اسراء آیت ۷۱۔
[6] لسان العرب ج۹ص ۸۳، ۸۴، ۸۹( مادہ خلف)۔
[7] سورہ بقرہ آیت ۳۰۔
[8] سورہ ص آیت ۲۶۔
[9] سورہ انعام آیت ۱۶۵۔
[10] سورہ اعراف آیت ۶۹۔
[11] الاحکام السلطانیہ ص ۳۔
[12] مقدمہ ابن خلدون ص ۱۵۹۔
[13] مقدمہ ابن خلدون ص ۱۸۳۔
[14] نظریة الامامة ص ۲۲۔
[15] نظریة الامامة ص ۲۴۔
[16] نظریة الامامة ص ۲۰۔
[17] ھماری کتاب ”مفاھیم اسلامی“میں ”الاسلام دین ودولة“ عنوان پر رجوع فرمائیں۔
[18] ڈاکٹر احمد محمود صبحی کہتے ھیں : ابوبکر وعمر کی خلافت ایک وقتی مسئلہ تھا تاکہ احتمالی فتنہ وفساد رونما نہ ہونے پائے اور ان کی حکومت، کامل نظام کی بنیاد کے لئے نھیں تھی۔ (نظریة الامامة ص ۲۶)
[19] سورہ قصص آیت ۶۸۔
[20] لسان العرب ج۱۲ص ۴۰۳(مادہ عصم)۔
[21] سورہ بقرہ آیت ۲۲۹۔
[22] سورہ طلاق آیت ۱۔
[23] سورہ ہود آیت ۱۸۔
[24] سورہ مریم آیت ۷۲۔
[25] سورہ مریم آیت ۷۲۔
[26] سورہ بقرہ آیت ۱۲۴۔
[27] نظریة الامامة ص ۱۳۵تا ۱۳۹۔
[28] یہ بات قابل توجہ ھے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی وفات کے بعد انتخاب کے قائل تھے لیکن جناب ابوبکر نے اپنے بعد نص (جناب عمر کی خلافت کی وضاحت) کی توپھر انھوں نے بھی نص کے بارے میں کہنا شروع کردیا اور علت یہ بیان کی کہ عام حالت میں نص ھی کے ذریعہ اپنے بعد والے کو معین کرتے ھیں لیکن چونکہ اس وقت فتح کی جنگ تھی (یعنی مسلمان دوسرے شھروں کو فتح کرنا چاہتے تھے) اور سرکشی وبغاوت کرنے کا خوف تھا (لہٰذا رسول اسلام نے کسی کی خلافت پر واضح بیان نھیں دیا)
[29] سورہ آل عمران آیت ۱۴۴.
[30] نظریة الامامة ص ۶۲۔
[31] سورہ شعراء آیت ۲۱۴۔
[32] اس روایت کو خلاصہ کرکے نقل کیا ھے، تاریخ طبری ج۲ص ۳۱۹،۳۲۱۔ مطبوع دار المعارف، مصر ۱۹۶۱ء ۔ اور جیسا کہ ڈاکٹر محمد حسین ھیکل نے اپنی کتاب ”حیاة محمد“ ص۱۰۴ کے پھلے ایڈیشن میں اس حدیث کو نقل کیا لیکن دوسرے ایڈیشن میں اس حدیث کوحذف کردیا، قارئین کرام اس حدیث کے مصادر اور سندوں کو کتاب الغدیر ج۲ ص ۲۵۲تا ۲۶۰ پر ملاحظہ فرمائیں۔
[33] صحیح مسلم ج۷ص ۱۲۰، اس حدیث کی سند اور منابع کے سلسلہ میں کتاب الغدیر جلد اول ص۴۸تا ۴۹ وج۳ص ۱۷۲تا ۱۷۶ ملاحظہ فرمائیں۔
[34] سورہ طٰہ آیت ۲۹۔
[35] سورہ طٰہ آیت ۳۰۔
[36] سورہ طٰہ آیت ۳۲۔
[37] سورہ اعراف آیت۲ ۱۴۔
[38] نظریة الامامة ص ۲۲۹۔
[39] ان صحابہ، تابعین علماء ،حفاظ اور رایوں کے اسماء گرامی نیز منابع حدیث کے بارے میں کتاب الغدیر جلد اول مکمل طور پر ملاحظہ فرمائیں۔
[40] سورہ مائدہ آیت ۳
[41] سورہ مائدہ آیت ۶۷، اس آیت کی شان نزول کے بارے میں تفسیر ”الدر المنثور“ ج۲ص ۲۸۹، فتح الغدیر جلد اول ص ۶۰ اور کتاب الغدیر جلد اول ص ۱۹۶ تا ۲۰۹ میں ذکر شدہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔
[42] سد الغابہ ج ۴ص۲۸، البدایة والنھایة ج۵ص ۲۰۹، ۲۱۳، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[43] سنن ابن ماجہ جلد اول ص ۴۳ ، البدایة والنھایة ج۵ص۰ ۲۱، وفیات الاعیان ج۴ص ۳۱۸ ، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[44] اس آیت(سورہ مائدہ آیت۳) کی شان نزول کے بارے میں تاریخ بغداد ج۸ ص ۲۹۰، الدر المنثور ج۲ ص ۲۵۹، اور الغدیر کی پھلی جلدص۱۲۰تا ۲۱۷ میں بیان شدہ کتابیں۔
[45] تاریخ بغداد جلد ۸ص ۲۹۰، البدایہ والنھایة ج۵ ص ۲۱۰، اور الغدیر کی پھلی جلد میں بیان شدہ کتابیں۔
[46] نظریة الامامة ص ۲۲۱۔
[47] نزھة المجالس ج۲ص۴۷۲۔
[48] منھاج السنة ج۴ص۲۱۰۔
[49] تعیین امامت کے سلسلہ میں حدیث نبوت کوگذشتہ حوالوں کے علاوہ ارشاد مفید، المناقب شھر آشوب السروی، فصول المھمہ، ابن صباغ مالکی ،مطالب السوٴال ابن طلحہ شافعی، ینابیع المودة قندوزی حنفی وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
[50] شیخ قندوزی وغیرہ نے پیغمبر اکرم سے روایت کی ھے کہ آپ نے فرمایا:
”انا سید النبیین وعلی سید الوصیین وان اوصیاي بعدي اثنا عشر“اس حدیث اور حدیث اثنا عشر کے بارے میں کتاب ینابیع المودة ص ۴۴۷، ۴۸۶،۴۸۷، ۴۸۸، ۴۹۲، ۴۹۳ ملاحظہ فرمائیں۔
[51] صحیح بخاری ج۹ ص ۱۰۱، صحیح مسلم ج۶ص ۳، سنن ترمذی ج۴ ص ۵۰۱، وسنن ابی داوٴد ج۲ص ۴۲۱، وجامع الاصول ج۴ص ۴۴۰تا ۴۴۲۔
اس حدیث کے طُرق کے بارے میں حافظ قندوزی کہتے ھیں: صحیح بخاری میں اس حدیث کو تین طریقوں سے بیان کیا گیا ھے اور صحیح مسلم میں نو طریقوں سے، سنن ابی داؤد میں دو طریقوں سے، سنن ترمذی میں ایک طریقہ سے اور حمیدی میں تین طریقوں سے بیان کیا گیا ھے، رجوع فرمائیں ینابیع المودة ص ۴۴۴۔
اضافہ مترجم: یھاں پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم سے ایک ایک حدیث نقل کردینا بہتر ھے تاکہ قارئین کرام ان دونوں حضرات کی نقل کو بھی دیکھ لیں:
,,…عن عبد الملک؛ سمعت جابر بن سمرہ ؛قال: سمعت النبی یقول: یکون اثنیٰ عشرامیرا، فقال کلمة، لم اسمعھا،فقال ابی: انہ قال: کلھم من قریش“
صحیح بخاری جلد ۹، کتاب الاحکام، باب۵۲ ”استخلاف“ حدیث۶۷۹۶۔ صحیح مسلم جلد۶، کتاب الامارہ، باب۱۱ ” الناس تبع القریش و الخلافة فی قریش“ حدیث۱۸۲۱۔
ترجمہ :۔…عبد الملک نے جابر بن سمرہ سے نقل کیا ھے کہ: میں نے رسول خدا سے سنا کہ آپ نے فرمایا: (میرے بعد میرے) بارہ امیر و خلیفہ ہوں گے، جابر کہتے ھیں کہ: دوسرا کلمہ میں نے صحیح سے نھیں سنا جس میں آنحضرت نے ان بارہ خلفاء کے بارے میں بتلایا تھا کہ وہ کس قبیلہ سے ہوں گے، لیکن بعد میں میرے پدر بزگوار نے مجھ سے کھا کہ: وہ جملہ جو اس نے نھیں سنا وہ یہ تھا کہ وہ تمام خلفاء قریش سے ہوں گے۔
مسلم نے بھی اس حدیث کو آٹھ سندوں کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ھے، اور ا ن میں سے ایک حدیث میں اس طرح آیا ھے:
”جابر بن سمرہ؛ قال: انطلقتُ الی رسول اللّٰہ ومعی ابی، فسمعتہ، یقول: لایَزَالُ ہذَا الدین عَزِیزاً مَنِیعاً اِلیٰ اِثْنیٰ عَشَرَ خلیفة،ً قال کلمة ،صَمَّنِیْہَا الناس،ُ فقلتُ لابی ما قال؟ قال :کلھم من قریش“ ، صحیح مسلم جلد ۶ ،کتاب الامارہ ،باب۱ حدیث۱۸۲۱،کتاب الامارہ کی حدیث نمبر۹۔
ترجمہ:۔…جابر بن سمرہ کہتے ھیں کہ: ایک مرتبہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ خدمت رسول خدا سے مشرف ہوا تو میں نے رسول سے سنا کہ آپ فرما رھے تھے کہ: یہ دین الٰھی بارہ خلفاء تک عزیز اور غالب رھے گا ، اس کے بعد دوسرا جملہ میں نہ سن سکا کیو نکہ صدائے مجلس سننے سے حائل ہوگئی تھی، لیکن میرے پدر بزرگوار نے کھا :وہ جملہ یہ تھا کہ: تمام یہ بارہ خلفاء قریش سے ہوں گے۔ (مترجم)۔
[52] صحیح مسلم ج۶ص۴۔
[53] حلیة الاولیاء جلد اول ص ۶۳۔
[54] الارشاد ، شیخ مفید ص ۳۔
[55] سب سے پھلے مسلمان کو تعین کرنے کے سلسلہ میں کتاب الغدیر ج۳ ص ۱۹۲ تا ۲۰۹ پر رجوع فرمائیں کیونکہ وھاں پر ۶۶/اصحاب اور تابعین کے اقوال نقل کئے ھیں کہ حضرت علی علیہ السلام ھی سب سے پھلے مسلمان ھیں۔
[56] جناب فاطمہ زھرا (ع) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اکلوتی بیٹی تھیں اس سلسلہ میں باب نبوت ص ۲۴۳/ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیں۔
[57] چنانچہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پیشن گوئی کی تھی کہ خوارج آپ سے جنگ کریں گے ، مراجعہ کریں تاریخ بغداد ج۸ص ۳۴۰، وج۱۲ص ۱۸۷، والاستیعاب ج۳ص۵۳۔
[58] اس شب میں آپ کی شھادت کے سلسلہ میں مروج الذھب ج۲ ص ۲۹۱، الکافی جلد اول ص ۴۲۵، ارشاد ص ۶ ،اور جیسا کہ طبری نے اپنی تاریخ ج۵ص ۱۴۳ میں بیان کیا ھے کہ عبد الرحمن بن ملجم نے آپ کو ۱۷ ویںیا ۱۹ویں کی شب کو ضربت لگائی اور ضربت کے بعد آپ دو دن تک زندہ رھے لہٰذا طبری کی ایک روایت کے مطابق ۲۱ویں شب کو آپ کی شھادت واقع ہوئی۔
[59] نزہة المجالس ج۲ ص ۴۷۶۔
[60] سنن ترمذی ج۵ ص ۶۵۶۔
[61] ایضاً ج۵ ص ۶۵۸۔
[62] عقیدة الشیعہ ص ۹۰۔
[63] اھل البیت ص ۲۸۰تا ۲۸۲۔
[64] اھل البیت ص ۲۸۲۔
[65] نظریة الامامة ص ۲۸۲ تا ۳۲۸۔
[66] الولادة والوفات از ارشاد ص ۱۹۱ وص ۱۹۷۔
[67] صلح حسن، ص۲۵۹۔
[68] المناقب ج۲ ص ۲۰۸۔
[69] الارشاد ، ص ۲۱۰۔
[70] العواصم من القواصم ص ۲۳۱۔
[71] نظریة الامامة ص ۳۳۶۔
[72] تاریخ ولادت وتاریخ شھادت ماخوذ از کتاب ارشاد شیخ مفید ص ۲۰۳۔(تاریخ ولادت مولف نے ارشاد کے مطابق پانچ شعبان بیان کی تھی جبکہ مشہور ومعروف تاریخ ولادت ۳ شعبان ھے(مترجم)
[73] الکامل ج۳ ص ۳۱۱۔
[74] صحیفہ سجادیہ کے درج ذیل صفحات پر رجوع فرمائیں: ص ۲۵، ۳۸، ۵۶، ۸۲، ۱۰۷، ۱۶۹، ۱۹۶، ۲۳۶، ۲۶۱، ۲۶۲، ۳۰۴، اور ص ۳۰۸۔
[75] تاریخ ولادت وشھادت نقل از کتاب ”الارشاد“ شیخ مفید ص ۲۷۰۔
[76] اس سلسلہ میں مزید آگاھی کے لئے کتاب ”المحاسن والمساوی ،بیہقی، ص ۲۳۲تا ۲۳۶تک مراجعہ فرمائیں۔
[77] تاریخ ولادت وشھادت بنقل از الارشاد ص ۲۷۹۔
[78] المناقب ج۲ ص ۳۲۴۔
[79] الشیعة من حیاة الصادق جلد اول ص ۸۸۔
[80] یہ دونوں کتاب نجف، قاھرہ ، ایران اور بیروت سے متعد د بار چھپ چکی ھیں۔
[81] رجوع کریں کتاب ”الامام الصادق ملھم الکیمیا “ ڈاکٹر ھاشمی، طبع دوم سوریا ۱۹۵۸ء ۔
[82] مجلہ البلاغ ، سال دوم شمارہ دوم ص ۸۳۔
[83] تاریخ ولادت وشھادت بنقل از الارشاد ص ۲۸۹۔
[84] سورہ آل عمران آیت ۶۱۔
[85] سورہ انعام آیت ۸۴،۸۵ ۔
[86] ولادت وشھادت منقول از الارشاد ص ۳۰۷۔
[87] تاریخ ولادت وشھادت بنابر نقل الارشاد ص ۳۲۵۔
[88] تاریخ ولادت وشھادت نقل از الارشاد ص ۳۳۹۔
[89] یہ رسالہ مکمل طور پر تحف العقول میں نقل کیا گیا ھے ص ۳۴۱تا ۳۵۶۔
[90] تاریخ ولادت وشھادت منقول از الارشاد ۳۵۲۔
[91] تاریخ ولادت وشھادت بنقل از الارشاد ص ۳۶۰۔
[92] پھلی حدیث ینابیع المودة ص ۴۴۸، دوسری حدیث صواعق المحرقہ ص ۹۹۔ اس سلسلہ کی مزید احادیث کو سنن ابی داؤد ج۲ ص ۴۲۲ والحاوی ج۲ص ۱۲۴ تا ۱۲۵ ملاحظہ فرمائیں۔
[93] اصول الاسماعیلیہ ص ۸۶،تا ۸۷۔
[94] الفتنة الکبریٰ جلد اول ص ۱۳۱، ص ۱۳۴۔
[95] مجلة المجمع العلمی العراقی ج۳ جز اول ص ۵۳۔
[96] وعاظ السلاطین ڈاکٹر علی الوردی۔
[97] الیمین والیسار فی الاسلام ص ۹۶۔
[98] سورہ بینہ آیت ۷۔
[99] تفسیر طبری ج۳۰ ص ۲۶۵، الصواعق المحرقہ ص ۹۶، نھایہ ابن الاثیر ج۳ ص ۲۲۶، الدر المنثور سیوطی ص ۳۷۹۔


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن کے اسماء کیا کیا هیں؟
فريقين كى دو كتابيں
قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآن مجید ذریعہ نجات
امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام

 
user comment