اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی سیاسی حالت

سیاسی حالت عہد جاہلیت میں سیاسی اعتبار سے کسی خاص طاقت کے مطیع اور فرمانبردار نہ تھے۔ وہ صرف اپنے ہی قبیلے کی طاقت کے بارے میں سوچتے تھے۔ دوسروں کے ساتھ ان کا وہی سلوک تھا جو شدت پسند وطن دوست اور نسل پرست روا رکھتے ہیں۔
اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی سیاسی حالت

 سیاسی حالت

عہد جاہلیت میں سیاسی اعتبار سے کسی خاص طاقت کے مطیع اور فرمانبردار نہ تھے۔ وہ صرف اپنے ہی قبیلے کی طاقت کے بارے میں سوچتے تھے۔ دوسروں کے ساتھ ان کا وہی سلوک تھا جو شدت پسند وطن دوست اور نسل پرست روا رکھتے ہیں۔

جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے جزیرہ نما عرب ایسی جگہ واقع ہے کہ جنوبی منطقے کے علاوہ اس کا باقی حصہ اس قابل نہ تھا کہ ایرانی یا رومی جیسے فاتحین اس کی جانب رخ کرتے۔ چنانچہ اس زمانے میں ان فاتحین نے اس کی طرف کم ہی توجہ دی، کیونکہ اس کے خشک و بے آب اور تپتے ریگستان ان کے لیے قطعی بے مصرف تھے۔ اس کے علاوہ عہد جاہلیت کے عربوں کو قابو میں لانا اور ان کی زندگی کو کسی نظام کے تحت منظم کرنا انتہائی سخت اور دشوار کام تھا۔

 قبیلوں کی تشکیل

عرب انفرادی اور طبعی طور پر استبداد پسند اور خود خواہ تھے، چنانچہ انہوں نے جب بیابانوں میں زندگی کی مشکلات کا مقابلہ کیا تو ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وہ تنہا رہ کر زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ اس بنا پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جن افراد کے ساتھ ان کا خونی رشتہ ہے یا حسب و نسب میں ان کے شریک ہیں ان سے اپنے گروہ کی تشکیل کریں، جن کا نام انہوں نے ”قبیلہ“ رکھا۔ قبیلہ ایسا مستقل و متحد دستہ تھا جس کے ذریعے عہد جاہلیت میں عرب قومیت کی اساس و بنیاد شکل پذیر ہوتی تھی۔ چنانچہ ہر اعتبار سے وہ خود کفیل تھے۔

دورِ جاہلیت میں عربوں کے اقتدار کا معیار قبائلی اقدار پر منحصر تھا۔ ہر فرد کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا تھا کہ قبیلے میں اس کی کیا حیثیت ہے اور اہل قبیلہ میں اس کا کس حد تک اثر و رسوخ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قدر و منزلت کے اعتبار سے قبائل کو بالاترین مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ اس کے مقابل کنیزوں اور غلاموں کو قبائل کے ادنیٰ ترین اور انتہائی پست ترین افراد میں شمار کیا جاتا تھا۔

دیگر قبائل کے مقابل جس قبیلے کے افراد کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی وہ قبیلہ اتنا ہی زیادہ فخر محسوس کرتا اور خود کو قابل قدر و منزلت سمجھتا۔ اپنے قبیلے کی قدر و منزلت کو بلند کرنے اور قبائل کے افراد کی تعداد کو زیادہ دکھانے کی غضر سے وہ اپنے قبیلے کے مردوں کی قبروں کو شامل کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ چنانچہ قرآن نے اس امر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے:

الھکم التکاثر حتی زرتم المقابر

”ایک دوسرے پر فخر جتانے کی فکر نے تمہیں قبروں تک پہنچا دیا۔“


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام اور مغربی زندگی میں فرق
الکافی
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
لالچي بوڑھا اور ہارون الرّشيد
بعثت پیغمبراسلام(ص)
اندازِ خطبہ فدک
کربلا کے متعلق تحقيقي مواد اور مدارس کي ذمہ داري
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
مجلس شوری کا تجزیہ
تيسرا سبق

 
user comment