خواتین کے بارے میں اسلام نے جو احکامات دیے ہیں انہیں سمجھنے میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم اپنے اس مضمون میں ان غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکیں اور ان سوالوں کا جواب دے سکیں جو ان غلط فہمیوں کا باعث بنے۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات کا تعین کرنا ہے کہ سوسائٹی میں عورت کی حیثیت اور کردار کیا ہے ، بہت سے مذہبی علماء اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ عورت کا دائرہ کار صرف اور صرف اس کا گھر ہے اسے گھر میں رہ کر اپنے شوہر اور بچوں کی خدمت کرنی چاہیے جبکہ مغربی دانشوروں کا کہنا ہے کہ مشرقی سوسائٹی میں رہنے والی عورت گھر کی چار دیواری میں محدود ہوکر اپنی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کو ضائع کر رہی ہے۔ ہم جب لڑکوں کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمارے پیش نظر ان کا اچھا اور کامیاب مستقبل ہوتا ہے لیکن لڑکیوں کے بارے میں ہماری گفتگو ان کی شادی پر آ کر ختم ہوجاتی ہے۔ اسلام کے نزدیک سوسائٹی میں خواتین کے کردار کو ہم بڑی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اگر ہم مندرجہ ذیل باتوں کو پیش نظر رکھیں۔
1۔ اللہ تعالی کی طرف سے جو شریعت نازل ہوئی ہے وہ بہت مختصر اور جامع ہے ، حقیقت یہ ہے کہ انسانی عقل خود بہت سے معاملات کو حل کر سکتی ہے بہت کم ایسے معاملات ہوتے ہیں جہاں اسلام کو راہنمائی کرنی پڑتی ہے۔ مرد اور عورت کا دائرہ اختیار ، مرد كي قوامیت ، اور باہمی میل جول کے مواقع پر ان سب کے بارے میں اسلام نے چند اصولی احکامات دیے ۔
2۔ جب ان معاملات میں شریعت کی بات کی جاتی ہے تو قرآن مجید اپنے شاندار اسلوب میں کچھ ہدایات دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ بعض معاملات کا تعلق تہذیبی روایات سے ہے۔ چند لفظوں میں حقوق و فرائض کا یہ تعین اپنے اندر حکمت و دانشمندی کا خزانہ سمیٹے ہوئے ہے ، ان ہدایات نے معاشرے میں خواتین کی حیثیت کی بحث کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ہے۔ عورت کے حقوق و فرائض کا تعین سوسائٹی کی مروجہ روایات کے مطابق کیا جائے گا دوسرے لفظوں میں سوسائٹی کے باشعور اور حکیم لوگ ان کا تعین کریں گے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ہر سوسائٹی کے رسوم ورواج دوسری سوسائٹی سے الگ ہوسکتے ہیں ، کيسے بچوں کی پرورش کرنی چاہیے اور کيسے گھر کی دیکھ بھال کرنی چاہیے ، کون کھانا پکائے گا اور کون گھر کی دیکھ بھال کرے گا یہ سب معاملات سوسائٹی کے معروف کے مطابق طے پائیں گے ، لیکن یہاں یہ بات ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ روایات شریعت کی ہدایات اور کائنات کے بنیادی اصولوں کے خلاف نہیں ہوني چاہییں۔
3۔ ضمنا یہ بات بھی بتانی بہت ضروری ہے کہ خواتین کے سامنے سرگرمیوں کا ایک وسیع دائرہ ہے وہ ہر وہ کام کرسکتی ہیں جو سوسائٹی کے مجموعی مفاد کے خلاف نہ ہو۔ انھیں چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو وہ تعلیم حاصل کریں اور اپنی قابلیت اور صلاحیتوں سے معاشرے کی خدمت کریں۔ اپنی ضروریات کے لیے کمانا ان کے لیے ممنوع نہیں ہے۔ مردوں کی طرح وہ بھی اپنا کیرئیر بنا سکتی ہیں لیکن ان تمام معاملات میں انھیں شریعت کی ہدایات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ اب ہم اسلام اور خواتین کے متعلق ان چند غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں گے جو عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں پائی جاتی ہیں۔
source : tebyan