اس کے برعکس الله کے بہت سے بندوں کو اس حال ميں بھي ديکھا جاتا ہے ، کہ وہ بيچارے بڑي پرہيز گاري اورپارسائي کي زندگي گزارتے ہيں ، کسي پر ظلم نہيں کرتے ، کسي کے ساتھ دغا اور دھوکا نہيں کرتے، کسي کا حق نہيں مارتے ، الله کي عبادت بھي کرتے ہيں اس کي مخلوق کي خدمت بھي کرتے ہيں، اس کے باوجود طرح طرح کي تکليفوں اور پريشانيوں ميں مبتلا رہتے ہيں ، غربت وافلاس اور بيماريوں کا سلسلہ رہتا ہے اور اسي حال ميں زندگي کے دن پورے کرکے، بيچارے اس دنيا سے چلے بھي جاتے ہيں اورنہيں ديکھا جاتا کہ ان کي اس نيکي او رپارسائي کا کوئي بھي صلہ اس دنيا ميں ان کو ملا ، تو اگر اس دنيوي زندگي کے بعد بھي کوئي اور ايسا عالم اور ايسي زندگي نہ ہو ، جہاں ان نيکوکاروں اور بد کرداروں کو اپنے اپنے کيے کي جزا اور سزا ملے تو يقينا خدا پر الزام آئے گا کہ اس کے يہاں دنيا کے بے انصاف حکومتوں سے بھي زيادہ اندھير ہے اور ظاہر ہے کہ کوئي سليم عقل اس کو قبول نہيں کرسکتي-
الله کي ہستي تو بہت بلند ہے، وہ تو مالک الملک اور احکم الحاکمين ہے- يہ طرز عمل تو کسي بھلے آدمي کے بھي شايان شان نہيں کہ وہ شريفوں اور شريروں اور پرہيز گاروں اور پيشہ ور مجرموں کو ايک نظر سے ديکھے اور سب کے ساتھ يکساں برتاؤ کرے ، قرآن مجيد نے اسي بات کو اپنے بليغ معجزانہ انداز اور نہايت مختصر الفاظ ميں اس طرح کہا ہے-
(افنجعل المسلمين کالمجرمين مالکم کيف تحکمون)”¤ ( القلم:35-36)
کيا ہم اپنے فرماں بردار بندوں کو مجرموں نافرمانوں کي طرح کرديں گے اور دونوں گروہوں کے ساتھ يکساں معاملہ کريں گے؟
ايک دوسري جگہ ارشاد ہے :(ام نجعل الذين اٰمنوا وعملوا الصلحت کالمفسدين في الارض ام نجعل المتقين کالفجار)”¤ ( ص:28)
کيا ہم ان لوگوں کو جو ايمان لائے اور جنہوں نے نيک اعمال کيے ان لوگوں کے برابر کر ديں گے ، جو دنيا ميں فساد برپا کرتے پھرتے ہيں ، کيا ہم پرہيز گاروں اور بدکاروں کے ساتھ يکساں برتاؤ کريں گے( ايسا ہر گز نہيں ہو گا)-
source : tebyan