يہ بات واضح و روشن ہے کہ بني اميہ کي حکومت خالص عربي تھي جس کي سياست يہ تھي کہ نو مسلم افراد کو دور سرحدوں کي جانب شہر بدر کرديں اور عربوں کو ان نو مسلموں پر ہر چيز ميں برتري ديں، اپنے دشمنوں پر عجم ہونے کا الزام لگاتي تھي وہ بھي نفسياتي جنگ کا ايک ايسا حربہ تھا جس کو اس حکومت نے اختيار کر رکھا تھا اور يہ ايک صدي تک استعمال کيا جاتا رہا جس کي وجہ سے عام لوگوں کے ذہنوں ميں نومسلموں عجم اور فاقد استعداد ہونے کي فکر راسخ ہوگئي-
شيعہ موجودہ حکومت کے اہم حزب مخالف تھے اوران کے عقائد کے پھيلنے کے سبب اموي حکومت خطرہ ميں پڑ رہي تھي، کيونکہ اس حکومت کے ذرائع ابلاغ نے ابن سبا کے ذريعہ شيعوں کي جانب يہودي عقائد منسوب کرنے کے الزام پر ہي اکتفا نہيں کي بلکہ انھوں نے يہ بات پھيلانے کي کوشش کي کہ درحقيقت شيعي عقائد ملک فارس کو فتح کرنے کے بعد ان کے عقائد شيعوں ميں سرايت کر گئے ہيں-
بعض معاصر مباحثين نے اس بات پر بہت زور آزمائي کي ہے بلکہ بسا اوقات حد سے بڑھ گئے اور يہودي و ايراني عقائد کے درميان جمع کرنے کي کوشش کي ہے-
احمد عطية اللہ کہتے ہيں: سبيئہ کي تعليمات شيعي عقائد سے منسوب ہوتے ہيں جن کي اصل يہوديت ہے اور يہ فارس سے متاثر ہيں اس فرقہ کا سرغنہ يمني الاصل يہودي ہے، جبکہ ايرانيوں نے جزيرة العرب کے کچھ حصہ پر قبضہ کر رکھا تھا اس وقت کچھ ايراني عقائد ان کے درميان رائج ہوئے اس وجہ سے سبيئہ فرقہ کو ايران کے ہمسايہ عراق ميں کچھ بہي خواہ مل گئے-
دوسري جگہ کہتا ہے: (الحق الالٰہي) يہ نظريہ ايران سے سبيئہ کي جانب بطور خاص اور شيعہ ميں بطور عموم سرايت کر گيا، وہ يہ ہے کہ نبي کے بعد حضرت علي ان کے وصي و خليفہ ہيں اور حضرت علي نے امامت کے مسئلہ ميں خدا کي مدد طلب کي اور يہ حق علي سے منتقل ہوکر اہل بيت تک بطور ميراث پہنچا ہے-
اس محقق نے اس بات کي کوشش کي ہے کہ اہل بيت کي ميراثي امامت اور فارس کي وہ افکار جو لوگوں ميں سرايت کر گئيں ہيں ان کے بيچ ايک ربط دے، اس لئے کہ يہ بات بالکل قطعي ہے کہ ايراني ميراثي حکومت کے قائل تھے اور اسي نظريہ کي تائيد بے شمار محققين اور بعض شرق شناسوں نے کي ہے-
حقيقت تو يہ ہے کہ اگر اس نظريہ پر غور و فکر کيا جائے تو ہم يہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ اس نظريہ پر اموي حکمرانوں نے عمل کيا ہے، اس لئے کہ انھوں نے اس بات کي کوشش کي کہ يہ خلافت ملوکيت ميں تبديل ہو جائے جس کو اولاد باپ داداوں سے ميراث ميں پائے اوراموي حکومت تو خالص عربي حکومت تھي جيسا کہ ہم کہہ چکے ہيں-
لہٰذا ان کا فارس کي تقليد کرنا بالکل ناممکن تھا اس بنا پر اس نظريہ کو شيعوں کي جانب زبردستي منسوب کرنا اور بھي نامعقول ہے، بلکہ محال ہے کيونکہ تشيع خالص عربي ہے جس کو ہم عنقريب ثابت کريں گے بعض محققين نے اس نظريہ کو تقويت دينے کي کوشش کي ہے کہ شروع کے اکثر شيعہ ايراني تھے-
شيخ محمد ابو زہرة کہتے ہيں: حق يہ ہے کہ جس کا ہم عقيدہ رکھتے ہيں کہ شيعہ ملوکيت اور اس کي وراثت کے سلسلہ ميں ايرانيوں سے متاثر ہيں ان کے مذہب ايراني ملوکيتي نظام کے درميان مشابہت بالکل واضح ہے اور اس بات پر گواہ يہ ہے کہ اس وقت اکثر ايراني شيعہ ہيں اور شروع کے سارے شيعہ ايران کے رہنے والے تھے-
يہ بات کہ اس وقت اکثر اہل ايران شيعہ ہيں تو يہ صحيح ہے ليکن ابوزہرہ شايد يہ بات بھول گئے کہ بيشتر ايراني آخري دور خاص طور سے صفوي حکومت کے دروان دائرہ تشيع ميں داخل ہوئے ہيں-
اور يہ بات کہ شروعات کے سارے شيعہ ايراني تھے تو يہ بالکل غلط ہے اس لئے کہ يہ بات تاريخ کے مطالعہ سے بالکل واضح ہو جاتي ہے کہ اس وقت کے بيشتر شيعہ خالص عرب تھے اور اس بات کو متقدمين مولفين نے قبول و ثابت کيا ہے، يہ اور بات ہے کہ ايران کے بعض علاقہ شيعہ نشين تھے اوران کي سکونت کي شروعات شہر قم سے ہوئي، جبکہ يہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ سارے شيعہ (جو کہ قم ميں سکونت پذير تھے) سب عرب تھے ان ميں سے کوئي ايراني نہيں تھا-
ياقوت حموي شہر (قم) کے بارے ميں کہتے ہيں کہ يہ اسلامي نوآبادياتي شہر ہے اس ميں پہلے سے عجم کا نام و نشان تک نہيں تھا، جس نے سب سے پھلے اس علاقہ کا رخ کيا وہ طلحہ بن احوص اشعري تھا اس کے اہل خاندان سب شيعہ تھے،حجاج بن يوسف کے زمانے 83ھء ميں اس کو بسايا تھا
جب ابن اشعث نے شکست کھائي اور شکست خوردہ حالت ميں کابل کي طرف پلٹا تو يہ ان بھائيوں کے ہمراہ تھا جن کو عبد اللہ، احوص، عبد الرحمن، اسحاق، نعيم کہا جاتا تھا يہ سب سعد بن مالک بن عامر اشعري کي اولاد تھے ان بھائيوں ميں نماياں عبد اللہ بن سعد تھا اس کا ايک بيٹا تھا جو کہ کوفہ ميں تھا اور قدري عقائد کا مالک تھا وہاں سے قم کي جانب ہجرت کر گيا يہ شيعہ تھا، اسي نے تشيع کو اہل قم تک
پہنچايا لہٰذا قم ميں کبھي کوئي بھي سني موجود نہيں رہا ہے-
جيسا کہ حموي نے ثابت کيا کہ شہر”ري“ ميں شيعيت نہيں تھي يہ معتمد عباسي کے زمانے ميں آئي ہے، وہ کہتا ہے کہ:اہل ري سب اہل سنت والجماعت تھے يہاں تک کہ احمد بن حسن مادراتي نے ري کو فتح کيا اور وہاں تشيع کو پھيلايا-
اہل ري کا اکرام کيا اوراپنے سے قريب کيا، جب تشيع کے سلسلہ ميں کتابيں لکھ دي گئيں تو لوگ اس حاکم کي طرف مائل ہوگئے-
عبد الرحمن بن الحاتم وغيرہ نے اہل بيت کے فضائل ميں کتابيں تصنيف کي اور يہ حادثہ معتمد عباسي کے زمانے ميں ہوا اور مادراتي نے شہر ري پر 275ھ ء ميں قبضہ کيا-
مقدسي اس بات پر تاکيد کرتے ہيں کہ اکثر ايراني حنفي و شافعي مذہب کے پيرو تھے، مقدسي نے ايرانيوں کے درميان تشيع کي وجود کي طرف بالکل اشارہ نہيں کيا ہے-
وہ کہتے ہيں: کہ ميں نے مسلمانوں کي اکثريت صرف ان چار مذاہب کے پيرووں ميں ديکھي-
مشرق ميں اصحاب حنيفہ، مغرب ميں اصحاب مالک، شوش و نيشاپور (ايران کے شہر) کے مراکز ميں اصحاب شافعي، شام ميں اصحاب حديث، بقيہ علاقہ خلط ملط ہيں بغداد ميں شيعيت و حنبلي کي اکثريت ہے، کوفہ ميں کناسہ کے سوا کيونکہ وہاں سني ہيں بقيہ سب شيعہ، موصل ميں حنبلي اور کچھ شيعہ-
ابن فقيہ نے ايک اہم نص کے ذريعہ محمد بن علي کي زباني جو کہ اموي حکام کے خلاف عباسي انقلاب کا قائد و سربراہ تھا ہمارے لئے ايک اہم اقتباس نقل کيا ہے وہ اپنے گورنروں کو ہدياات ديتے ہوئے اور ان کے محل حکومت کي تعيين کرتے ہوئے کہتے ہيں:
کوفہ کي اکثريت علي اوراولاد علي کے شيعوں کا مرکز ہے، بصرہ کي اکثريت عثمانيوں کا گڑھ ہے جو نماز ميں ہاتھ باندھنے کے قائل ہيں، وہ تم سے کہيں گے کہ عبد اللہ مقتول بنو قاتل نہيں-
جزيرہ عرب ميں حروريہ اور جنگجو عرب ہيں اور اخلاق نصاريٰ کي صورت مسلمان ہيں، اہل شام صرف آل ابوسفيان کو جانتے ہيں اور بني مروان کي اطاعت کرتے ہيں ان کي دشمني پکي ہے اور جہالت اپنے گھيرے ميں لئے ہے، مکہ و مدينہ ميں ابوبکر و عمر کا سکہ چلتا ہے ليکن تمہاري ذمہ داري خراسان کے حوالے سے زيادہ ہے، وہاں کي تعداد زيادہ اور سخت جان ہيں ان کے سينے مضبوط اوردل قوي ہيں ان کو خواہشات تقسيم نہيں کرسکتي، عطا و بخشش ان کو ٹکڑوں ميں بانٹ نہيں سکتي، وہ ايک مسلم فوج ہے وہ قوي جسموں کے مالک ہيں، وہ بھرے شانہ، دراز گردن، بلند ہمت، داڑھي مونچھوں والے، بھيانک آواز والے اور چوڑے دہانے کے شيرين زبان ہيں اس کے بعد ميں چراغ کائنات اور مصباح خلق يعني شرق کے بارے ميں نيک فال سمجھتا ہوں-
معاصر محققين و مستشرقين کي ايک بڑي تعداد نے اس حقيقت کا اعتراف کيا ہے، چنانچہ ڈاکٹر عبد اللہ فياض کہتے ہيں کہ عرب خصوصاً کوفہ ميں تشيع کے ظہور کي تائيد کرنے والي اہم تاريخي دليليں يہ ہيں:
1- علي کے وہ انصار جنھوں نے ان کي مدد جنگ ميں ان کے دشمنوں کے مقابلہ کي ان کي اکثريت حجاز و عراق کے لوگوں کي تھي، علي کے اہم عہددار يا سردار لشکر ميں سے کسي ايک کے نام کي اطلاع ہم کو نہ ہوسکي جو ايراني الاصل ہو-
2- 60ھء ميں جن لوگوں نے کوفہ سے امام حسين کو خطوط لکھے تھے جيسا کہ ابو مخنف نے اپني کتاب ميں ان کے اسماء کا ذکر کيا ہے اس سے تو لگتا ہے وہ سب عربي قبائل کے سردار تھے جو کوفہ ميں بسے ہوئے تھے-
3- سليمان بن صرد خزاعي اور ان کے اصحاب جو توابين کي تحريک ميں شامل تھے يہ سب کے سب عرب کے معروف قبيلوں ميں سے تھے-
فلھوزن نامي مستشرق نے اسي آخري نکتہ کي طرف اشارہ کيا ہے-
نخليہ ميں جو چار ہزار توابين جمع ہوئے تھے ان ميں عرب قبائل کے افراد شامل تھے ان ميں اکثريت قاريان قرآن کي تھي اوران ميں سے کوئي ايک بھي غير عرب نہ تھا-
ايرانيوں کے نفساني رجحانات تشيع کي جانب مائل ہونے کے سلسلہ ميں فلھوزن ہي کہتا ہے : يہ کہنا کہ شيعيت کے آراء ايرانيوں کے آراء سے موافق تھے تو يہ موافقت شيعوں کے ايراني ہونے کي دليل نہيں بلکہ تاريخي حقائق اس کے برعکس ہيں کہ تشيع شروع ہي سے دائرہ عرب ميں تھي اور يہ بات بالکل واضح ہے کہ اس کے بعد حدود عرب سے باہر آئي ہے-
عبد اللہ فياض، سنيون سے نقل کرتے ہيں کہ: ہمدان ايک عظيم اور صاحب شان و شوکت قبيلہ تھا جو تشيع کا حامي تھا-
دوسري وجہ جس کو محققين، تشيع کے ايراني ہونے کي دليل پيش کرتے ہيں وہ حضرت امام حسين کا ايک ايراني خاتون سے شادي کرنا-
ڈاکٹر مصطفي شکعہ کہتے ہيں کہ: تشيع ابتداء ميں سياسي مذہب تھا نہ کي ديني عقيدہ ان کي دليل يہ ہے کہ آج تک تمام ايراني محبت آل علي پر اجماع کئے ہيں اور اس کي دليل يہ ہے کہ ايراني اس بات کا اعتقاد رکھتے ہيں کہ وہ حسين کے برادر نسبتي ہيں اس لئے کہ انھوں نے شہر بانوں بنت يزدجرد سے شادي کي تھي، جب وہ مسلمانون کے ہاتھوں اسير ہوکر آئيں تھيں، آپ کے بطن مبارک سے علي بن الحسين پيدا ہوئے، اس لحاظ سے ايراني سب علي بن حسين کے ماموں ٹھہرے، اس طرح سے ان کي بيٹي کے بيٹے اور تشيع کے درميان گہرا ربط پيدا ہوگيا، لہٰذا ان کا شيعہ مذہب اختيار کرنا اس بات پر دلالت نہيں کرتا کہ ان لوگوں نے خالص شيعيت اختيار کي تھي، بلکہ ان کا تشيع قبول کرنا عصبيت کي بناء پر تھا عقيدتي تشيع نہيں تھا، اور تعصبي تشيع، سياسي تشيع کے مساوي ہے، لہٰذا فکر تشيع ايران کي جانب سے کم از کم خالص سياسي تشيع ہے، بلکہ بعض ايرانيوں نے علي بن الحسين زين العابدين کي مدد کا اعلان کيا جب انھوں نے ديکھا کہ ايران، امام حسين کے گھرانے سے نسبي اعتبار سے مربوط ہيں-
ڈاکٹر شکعہ کي باتوں سے يہ واضح ہوتا ہے کہ تمام شيعہ صرف ايراني نہيں تھے کہ شکعہ کي اس تحليل کو قبول کيا جاسکے کہ اگر ايرانيوں نے تشيع صرف ”ماموں“ کے رشتے کے سبب قبول کيا اس لئے کہ ان کے اور علي بن الحسين کے بيچ ايک رشتہ تھا، تو ديگر غير ايراني شيعہ حضرات کے بارے ميں کيا کہيں گے خصوصاً ان عربوں کے بارے ميں کيا کہيں گے جو ايرانيوں کے شيعہ ہونے سے پہلے شيعہ کہلاتے تھے؟
دوسري بات يہ کہ اگر حضرت امام حسين کي جناب شہربانوں سے شادي ايرانيوں کے شيعوں ہونے کا سبب تھي تو صرف امام حسين ہي نے ايراني شہزادي سے شادي نہيں کي تھي بلکہ وہاں پر دوسرے ايسے افراد بھي تھے جنھوں نے ايراني شہزاديوں سے شادي کي تھي جو کہ مدينہ اسير ہوکر آئيں تھيں-
عبد اللہ بن عمر نے سلافہ (شہر بانو) کي بہن سے شادي کي تھي اوران سے سالم پيدا ہوئے تھے اگر حسين خليفہ مسلمين کے فرزند تھے تو عبد اللہ بن عمر بھي تو فرزند خليفہ تھے جو (بظاہر) حضرت علي سے پہلے خليفہ تھے-
اسي طرح محمد بن ابي بکر نے سلافہ (شہر بانو) کي دوسري بہن سے شادي کي اور ان سے معروف فقيہ قاسم پيدا ہوئے، خود محمد بن ابي بکر بھي تو خليفہ کے بيٹے تھے اور ان کے باپ تو عبد اللہ بن عمر کے باپ سے پہلے خليفہ تھے عمر بن الخطاب کے زمانے ميں تين شادياں ہوئيں-
ہم ديکھتے ہيں کہ يہ دليل بھي باطل ہے ، لہٰذا تشيع کو ايرانيوں کے نام سے منسوب کرنا بالکل غير منطقي ہے-
source : tebyan