خود امريکہ کے اندر لوگوں حتيٰ بچوں ميں بھي مختلف قسم کي اخلاقي اور جنسي برائيوں اور جرائم و غيرہ کے بڑھنے کي شرح بہت زيادہ ہے۔ مغرب کے مطبوعات اور دانشمند حضرات فرياد بلند کر رہے ہيں، مقالے تحرير کر رہے ہيں، گفتگو کا سلسلہ جاري ہے اور (لوگوں اور حکومت کو) خبردار کيا جا رہا ہے۔ ليکن کسي کے کان پر جوں تک نہيں رينگتي، گويا ان تمام مسائل کا کوئي علاج نہيں ہے! جب صورتحال يہ ہو کہ بنياد ہي خراب کر دي جائے اور اسي حالت ميں تيس، چاليس يا پچاس سال گزر جائيں تو لوگوں کو خبردار کرنے، ايسي صورتحال کے خلاف فرياد بلند کرنے اور کسي سياسي تدبير سے يہ مشکلات حل نہيں ہوں گي۔
مغربي معاشرے ميں خوش بختي رختِ سفر باندھ چکي ہے۔ يہ کوئي (بے وزن) بات نہيں ہے کہ جو ميں بيان کر رہا ہوں بلکہ يہ وہ حقائق ہيں کہ جو آج خود ان کے مفکرين، دانشمند، سينے ميں دل رکھنے والے، صاحبان فہم و فراست نہ کہ (اقتدار کے طالب) سياستدان، اور معاشرے کے اندر زندگي بسر کرنے والے (اور ان حقائق کا بغور مشاہدہ کرنے والے) افراد بيان کر رہے ہيں اور آج ان کي فرياد بلند ہو رہي ہے۔ آخر کيوں؟ اس لئے کہ اس معاشرے ميں سعادت مند زندگي گزارنے کے کوئي وسائل موجود نہيں ہے۔ خوش بختي اور سعادت عبارت ہے آرام و سکون، سعادت اور امن و امان کے احساس سے (جو دور دور تک وہاں نہيں پائي جاتي)۔
جو افراد بھي بين الاقوامي صورتحال اور افکارِ عالم سے واقف ہيں وہ جانتے ہيں کہ تمام ممالک خصوصاً امريکہ سے البتہ يورپي ممالک بھي اس ميں شامل ہيں، خير خواہ مصلح اور فہم و ادراک رکھنے والے افراد کي فرياد بلند ہو گئي ہے کہ آو مل کر کوئي چارہ جوئي کرتے ہيں۔ البتہ اتني آساني سے وہ کوئي فکر و تدبير اور چارہ جوئي نہيں کر سکتے اور اگر فکر کرنے ميں انہيں کاميابي حاصل ہو بھي جائے تو بھي وہ اتني آساني سے علاج ميں کامياب نہيں ہو سکتے ہيں۔