اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

بد گمانی

زندگی کے روشن و تاریک پھلو انسان کی زندگی راحت و تکلیف سے عبارت ھے ۔ ان میں سے ھر ایک انسان کی کوتاہ و محدود زندگی پر سایہ فگن ھے ھر شخص اپنے مقسوم کے مطابق ان دونوں سے دو چار ھوتا ھے اور اسی تلخ حقیقت کے مطابق انسان راحت و الم کے درمیان اپنی پوری زندگی گزار دیتا ھے ۔
یہ تو ھمارے امکان سے باھر کی بات ھے کہ اس ناموس ابدی میں کوئی تغیر کر دیں اور اپنی مرضی کے سانچہ میں اس کو ڈھال لیں ۔ لیکن یہ بھرحال ممکن ھے کہ زندگی کی حقیقت کو جان لینے کے بعد اس زندگی کے خوبصورت موجودات کی طرف اپنی نظروں کو موڑ دیں اور اس کے بد شکل موجودات کی طرف سے اپنی نظروں کو ھٹا لیں ۔ یا اس کے بر عکس اشیاء کے روشن و درخشندہ پھلوؤں کو بھول کر ان کے سیاہ و تیرہ و تار پھلوؤں کی طرف متوجہ ھو جائیں ۔ مختصر لفظوں میں یوں سمجھئے کہ ھر شخص کے پاس اتنی قدرت ھے کہ اپنی فکر کو ان دونوں میں سے کسی ایک طرف مرکوز کر دے ۔ اور اپنی دنیا کو اسی رنگ میں رنگ لے جس کی طرف اس کا میلان ھے ۔
ھمارے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ ایسی نا ملائم چیزیں جو زندگی کے لئے سدّ راہ بنتی ھوں ان سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنی برد باری کو محفوظ کر لیں ۔ ورنہ پھر ھم ایسی خسارتوں سے دو چار ھوں گے جن کا جبران ممکن نہ ھو گا ۔ اور یہ بھی ھو سکتا ھے کہ حادثات کے مقابلہ میں ھم سر نگوں ھو جائیں ۔
بعض لوگوں کا خیال ھے کہ اگر زندگی کے حادثات اس طرح نہ ھوتے جیسے کہ ھیں تو ھم سب سعید و نیک بخت ھوتے لیکن یہ تصور غلط ھے کیونکہ ھماری بد بختیوں کا ڈنڈا حادثات زندگی سے نھیں ملتا ۔ بلکہ ھماری شقاوت و بد بختی کا دار مدار حادثات سے کس طرح نمٹنے پر موقوف ھے کیونکہ یہ ممکن ھے کہ عوامل خارجی کے اثرات کو انسان اپنے دل و جان اوراپنی روح کی طاقت سے بدل دے اور اس طرح کسب توفیق کر لے ۔
ایک مشھور رائٹر لکھتا ھے : ھمارے افکار کا دار مدار نا راضگی پر ھے ۔ ھم چاھے جس حالت میں ھوں چاھے جس صورت میں ھوں ناراض رھتے ھیں ۔ اور شکوہ بر لب رھتے ھیں ۔ یہ گریہ و رازی شکوہ و شکایت ھمارے خمیر میں ھے ۔ انسانی وجود کی تخلیق کچھ اس طرح ھوئی ھے کہ ھمیشہ روحانی و جسمانی نا مناسب چیزوں سے رنج و عذاب میں گرفتار رھتا ھے ھر روز ایک نئی آرزو کا اسیر رھتا ھے ۔ بلکہ بسا اوقات تو اس کو یہ بھی نھیں معلوم ھوتا کہ کیا چاھتا ھے ؟ اور کس چیز کی تمنا رکھتا ھے انسان خیال کرتا ھے کہ خوش بختی تو دوسروں کے پاس ھے ( میں تو بھت ھی بد بخت ھوں ) لھذا ان سے رشک کرتا ھے اور اپنے کو تکلیف میں مبتلا کرتا ھے ۔ انسانی وجود ایک ایسے بچہ کے مانند ھے جو ھمیشہ سوز و گذار میں مبتلا رھتے ھیں ۔ ھماری آزادی و آسائش صرف اسی صورت میں ممکن ھے جب اس بچہ کو حقیقت کے دیکھنے پر آمادہ کریں ۔ اور اس قسم کی بیھودہ خواھشات سے اس کو روک دیں ۔ اس بچہ کی آنکھیں جو بے حساب خواھشات کی وجہ سے برائی کے علاوہ کچھ بھی نھیں دیکہ پاتیں انکو اچھائیوں کے دیکھنے پرمجبور کریں ۔ اس بچہ کو یہ سمجھ لینا چاھئے کہ اس باغ زندگی میں ھر آنکہ والا اپنے دامن کو پھولوں سے بھر لیتا ھے اور اندھا سوائے کانٹوں کے کچھ بھی نھیں حاصل کر پاتا ۔ اگر ھم اپنی کم حوصلگی و بد گمانی ھی کے راستہ پر نہ چلیں اور نگاہ تحقیق سے دیکھیں تو ھم کو معلوم ھو گا کہ ھر زمانہ اور ھر عھد میں بلکہ اس زمانہ میں بھی جب کہ دنیا ھولناک گرداب میں پھنس چکی ھے اور ھماری زندگی ھر وقت زیر و زبر رھتی ھے اور ھر وقت اچھائی و برائی سے دو چار ھونا پڑتا ھے ھم باغ زندگی میں ھر جگہ گلھائے زیبا کو چشم بینا سے دیکہ سکتے ھیں ۔
انسان کی سعادت و نیک بختی میں اس کے افکار کو کافی دخل ھے بلکہ انسانی سعادت کا اکیلا موٴثر صرف اس کی عقل اور فکر ھے ۔بد گمان شخص کی نظر میں غیر معمولی حادثہ بھت ھی عظیم ھوتا ھے اس کی کمر کو توڑ دیتا ھے بد گمان شخص اس کو برداشت نھیں کر پاتا ۔ لیکن حسن ظن رکھنے والا شخص جو صرف زندگی کے روشن پھلوؤں کو دیکھنے کا عادی ھے اور بدی کی جگہ ھمیشہ نیکی پر عقیدہ رکھتا ھے وہ ان مصائب و آلام کے مقابلہ میں جن سے زندگی میں اجتناب ممکن نھیں ھے سر تسلیم خم کر دیتا ھے ۔ انتھا یہ ھے کہ دشوار ترین مصائب کے وقت بھی وہ مقاومت کرتا ھے اور متانت و برد باری کے راستہ سے خارج نھیں ھوتا ۔
جو لوگ یہ خیال کرتے ھیں کہ ان ھی کی ذات بد بختی کا محور ھے وہ اپنی زندگی شکنجوں سے بھری ھوئی اور تاریک گزارتے ھیں ۔ اور ضرورت سے زیادہ حساسیت کی بنا پر مصائب و آلام کے مقابلہ میں اپنی طاقت کو بیکار خرچ کر کے تباہ کر دیتے ھیں ۔ اور دنیا کی ان نعمتوں اور برکتوں سے جو لوگوں کا احاطہ کئے ھوئے ھیں بے خبر و غافل رھتے ھیں ۔
ایک دانشمند کھتا ھے : دنیا لوگوں کے داتھ وھی برتاؤ کرتی ھے جو لوگ اس کے داتھ کرتے ھیں وہ بالکل برابر کا معاملہ کرتی ھے اگر آپ اس کے سامنے ھنسیں گے تو وہ بھی ھنسے گی ۔ اور اگر آپ اس کے سامنے چیں بہ جبیں ھونگے تو وہ بھی ترش روئی سے پیش آئے گی ۔ اگر آپ فکر کریں گے تو وہ آپ کو مفکرین کی فھرست میں شامل کر دیگی ۔ اگر آپ سچے و رحم دل ھوں گے تو آپ اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جو آپ سے خلوص رکھتے ھونگے آپ سے محبت کرتے ھونگے ۔ آلام و مصائب بظاھر چاھے جتنے تلخ و ناگوار ھوں لیکن روح کو اپنے مخصوص ثمرات دیتے رھتے ھیں ۔ کیونکہ روحانی طاقتیں آلام کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں مزید روشن و متجلی ھوتی ھیں ۔ اور انھیں دار و گیر ، مصائب و آلام فدا کاری و قربانی کے مراحل سے گزرتی ھوئی انسانی کمالات کی چوٹی پر پھونچ جاتی ھیں ۔

 
بد گمانی کے نقصانات

بد گمانی ایک بھت ھی خطرناک قسم کی روحانی بیماری ھے اور بھت سی ناکامیابیوں اور ما یوسیوں کا سر چشمہ ھے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ھے جو انسان کی روح کو عذاب و الم میں مبتلا کر دیتی ھے اور اسکے برے اثرات انسانی شخصیت سے نا قابل محو ھوا کرتے ھیں ۔رنج و غم ھی وہ مرکز احساس ھے جھاں سے ممکن ھے بد گمانی کا آغاز ھوتا ھو اور احساسات و جذبات میں ایک شدید انقلاب و طوفان کا سبب بنتا ھو ، بد گمانی کا بیج جو اس راہ گزر سے مزرعھٴ قلب میں بویا جاتا ھے وہ انسانی افکار و اندیشوں پر ناگوار و تلخ اثرات مرتب کرتا ھے ۔جس کا آئینہ روح بد گمانی کے غبار سے کثیف و تاریک ھو چکا ھو اس میں محض یھی نھیں کہ آفرینش کی خوبیاں و زیبا ئیاں اجاگر نھیں ھو سکتیں بلکہ سعادت و خوش بختی اپنی صورت بدل کر ملال و نکبت بن کر ظاھر ھوتی ھے اور ایسا شخص کسی بھی شخص کے کردار و افکار کو بے غرض تصور نھیں کر سکتا ۔ اس قسم کے اشخاص کی روحانیت چونکہ منفی ھے اس لئے ان میں مثبت قوت مقصود ھوتی ھے ۔ اور ایسے لوگ اپنے افکار بد سے اپنے لئے مشکلات پیدا کر لیتے ھیں ۔ اور اپنی طاقت کو ایسے حادثات میں غور و فکر کر کے بتاہ و بر باد کر لیتے ھیں جن سے شاید ان کا زندگی میں کبھی سابقہ بھی نہ پڑے ۔
جس طرح حسن ِظن رکھنے والے شخص کی طاقت اس کے اطرافیوں میں اثر انداز ھوتی ھے اور وہ شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کی روح امید کو طاقت بخشتا ھے اسی طرح بد گمان شخص اپنے آس پاس کے لوگوں کے دلوں میں رنج و غم کی کاشت کرتا ھے اور لوگوں کے اس چراغ امید کو خاموش کر دیتا ھے جو زندگی کے پیچ و خم میں ضو فشاں رھتا ھے ۔
بد گمانی کے برے اثرات صرف روح تک ھی محدود نھیں رھتے بلکہ جسم پر بھی اس کے اثرات مرتب ھوتے ھیں ۔ اس کی بیماریوں کا علاج مشکل ھو جاتا ھے ۔ ایک عظیم طبیب کھتا ھے : جو شخص ھر ایک سے بد گمانی رکھتا ھو اورھر چیز کے بارے میں غلط نظر یہ رکھتا ھو اس کا علاج کرنا اس سے کھیں زیادہ مشکل ھے جتنا دریا میں خود کشی کی نیت سے چھلانگ لگانے والے کو بچانا مشکل ھے ۔ جو شخص ناراضگیوں اور ھیجان کے درمیان زندگی بسر کرتا ھو اس کو دوا دینا ایسا ھی ھے جیسے کھولتے ھوئے روغن زیتون میں پانی ڈالنا اس لئے کہ دوا کا اثر مرتب ھونے کے لئے یہ بھی ضروری ھے کہ روح اعتمادکی مالک ھو اور وہ اپنے سکون فکر کی حفاظت کر سکتا ھو ۔
بد گمان شخص کے اندر کنارہ کشی دوسروں کے داتھ مل جل کر رھنے سے اجتناب کے اثرات با قاعدہ مشاھدہ کئے جا سکتے ھیں اور اسی نا پسندیدہ عادت کے تحت وہ شخص اپنے اندر استعداد ترقی کو کھو بیٹھتا ھے اور اس کا نتیجہ یہ ھوتا ھے کہ وہ ناپسندیدہ زندگی بسر کرنے پر مجبور ھو جاتا ھے ۔ خود کشی کی ایک علت فکر و روح پر بد گمانی کا مسلط ھو جانا بھی ھے اور اس قسم کے نا قابل بخشائش گناہ کا ارتکاب اسی وجہ سے کیا جاتا ھے ۔
اگر آپ اپنے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو معلوم ھو گا کہ لوگ جو ایک دوسرے کے بارے میں گفتگو کیا کرتے ھیں وہ سب بغیر مطالعہ بغیر غور و فکر اور بد گمانی کی وجہ سے ھوتی ھے ۔ اور اسی کے داتھ داتھ ان کی قوت فیصلہ بھی کمزور ھوتی ھے لیکن پھر بھی صحیح و اطمینان بخش تشخیص سے پھلے اپنا حتمی فیصلہ دے دیتے ھیں ۔ ایسے لوگ بلا تصور کی تصدیق کے قائل ھوتے ھیں ۔ کبھی ان کی گفتگو میں شخصی غرض بھی نمایاں ھوتی ھے اور یھی سب سے بڑا وہ عیب ھے جس کی وجہ سے رشتہ الفت و محبت ٹوٹ جاتا ھے ۔ اتحاد قلبی ختم ھو جاتا ایک دوسرے پر اعتماد کا سلسلہ نابود ھو جاتا ھے اوران کے اخلاقیات تباہ و بر باد ھو جاتے ھیں ۔
بھت سی ایسی عداوتیں اور دشمنیاں جن کا نقصان افراد و اجتماع کے لئے نا قابل جبران ھوتا ھے وہ ان خلاف واقع بد گمانیوں کی پیدا وار ھوتی ھیں ۔ معاشرے کے مختلف طبقات میں بد گمانی رخنہ اندازی کرتی ھے ۔ انتھا یہ ھے کہ یہ بد گمانی دانشمندوں اور فلسفیوں کو بھی متاثر کر دیتی ھے ھر قوم و ملت کے مختلف ادوار میں ایسے دانشمند پیدا ھوئے ھیں کہ اسی بد گمانی کی وجہ سے ان کے طرز تفکر میں گھری تاریکی پائی جاتی ھے اور یہ حضرات علم و دانش کے سھارے ھمیشہ جامعہ ٴ بشریت کی خدمت کرنے کے بجائے نظام آفرینش میں نقد و تبصرہ کر کے اسی کی عیب جوئی کرتے رھے ھیں اور اس طرح ان لوگوں نے اپنے مسموم افکار غلط منطق کے ذریعہ معاشرے کی روح کو مسموم بنا دیا ۔ مبادی اخلاق بلکہ مبادیٴ عقائد کو بھی مورد ِ استھزا قرار دیا ۔ بعض فلسفیوں میں بد گمانی اتنی شدید ھو گئی تھی کہ انھوں نے انسانی آبادی کی بڑھتی ھوئی تعداد اور فقر و فاقہ کے خوف سے وحشت زدہ ھو کر انسانی نسل کو محدود کرنے کے لئے ھر چیز کو جائز قرار دے دیا یھاں تک کہ انسانی آبادی کو کم کرنے کے لئے وحشیانہ قتل و غارتگری خونریزی کو بھی جائز قرار دے دیا تھا ۔ ظاھر سی بات ھے کہ اگر دنیاکے لوگ ان کے زھریلے خیالات پر عمل کرتے تو آج اس روئے زمین پر علم و تمدن کا کوئی وجود بھی نہ ھوتا ۔
انھیں بد گمان فلسفیوں میں ایک شخص بنام ابو العلاء معری تھا کہ جس کے تمام تر افکار اسی بد گمانی کے محور پر گھوما کرتے تھے اور وہ زندگی کو عذاب سمجھتا تھا ۔ نسل بشر کو ختم کرنے کے لئے اس نے شادی بیاہ پیدائش اولاد کو حرام قرار دے دیا تھا ۔ کھا جاتا ھے کہ جب اس کے مرنے کا وقت قریب آیا تو اس نے وصیت کی کہ میرے لوح مزار پریہ جملہ کندہ کر دیا جائے :
”یہ قبر میرے باپ کے ان جرائم میں سے جو اس نے مجھ پر کئے ھیں ایک نشانی ھے لیکن میں نے کسی پر کوئی جرم نھیں کیا ھے “۔

 
بد گمانی سے اسلام کا مقابلہ

قرآن مجید نے بد گمانی کو بھت بڑا شمار کیا ھے اور مسلمانوں کو اس بات سے روکا ھے کہ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کریں ۔ چنانچہ ارشاد ھے : ” یاا يّھا الذین اٰمنوا اجتنبوا کثیرا من الظن ان بعض الظن اثم “ اے ایماندار و! بھت سے گمان (بد ) سے بچے رھو کیونکہ بعض بد گمانی گناہ ھے (۱)
دین اسلام نے لوگوں کو بغیر کسی قطعی دلیل کے بد گمانی کرنے سے روکا ھے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ھے : مسلمانوں کی تین چیزیں تم پر حرام ھیں ۱۔خون ۲۔ مال ۳۔ بد گمانی۔(۲) جس طرح کسی مدرک و دلیل کے بغیر کسی کے مال کو دوسرے کی طرف منتقل کرنا غیر شرعی ھے اسی طرح لوگوں کے بارے میں بد گمانی کرنا بھی حرام اور غیر شرعی فعل ھے اور اصل قضیہ کے ثابت ھونے سے پھلے کسی کو متھم کرنا جائز نھیں ھے ۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے :
صرف بد گمانی کی بنا پر کسی کے خلاف حکم لگا دینا نا انصافی ھے ( ۳) حضرت علی علیہ السلام نے بد گمانی کے نقصانات ، نفسیاتی بیماریاں روحانی مفاسد کو بھت جامع و بدیع انداز میں بیان فرمایا ھے :
خبر دار کسی سے بد گمانی نہ کرو کیونکہ بد گمانی عبادت کو فاسد اور گناہ کے بوجہ کو زیادہ کرتی ھے ( ۴)نیک لوگوں سے بد گمانی ان کے حق میں ظلم و بے انصافی ھے چنانچہ ارشاد مولائے کائنات ھے :
نیک شخص کے بارے میں بد گمانی بد ترین گناہ اور قبیح ترین ظلم ھے ( ۵) دوستوں سے بد گمانی قطع روابط اور دوستی و الفت کے ختم ھونے کا سبب ھے چنانچہ ارشاد ھے : جس کے دل پر بد گمانی کا غلبہ ھو جاتا ھے اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان صفائی کی گنجائش باقی نھیں رھتی ۔( ۶)
بد گمانی جس طرح انسان کے اخلاق و زندگی کو بر باد کرتی ھے اسی طرح دوسروں کے اخلاقیات و روح کو خراب کر دیتی ھے ۔ اور یہ بھی ممکن ھے کہ جن لوگوں کے بارے میں بد گمانی کی جائے ان کے اخلاقیات صراط مستقیم سے منحرف ھو جائیں اور وہ لوگ فساد و رذائل میں مبتلا ھو جائیں جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : بد گمانی بھت سے امور کو فاسد کر دیتی ھے اور برائیوں پر آمادہ کرتی ھے ۔(۷)
ڈاکٹر ماردن کھتا ھے : بھت سے ایسے نوکر ھیں جن کے مالک ان سے ھمیشہ بد گمان رھتے ھیں اور خیال کرتے ھیں کہ یہ ملازمین چور ھیں ایسے نوکر آخر کار چوری کرنے لگتے ھیں اور اس قسم کی بد گمانی کا چاھے ھاتہ و زبان سے اظھار بھی نہ کیا جائے پھر بھی وہ اپنی بری تاثیر چھوڑتی ھیں اور اس کی روح مسموم ھو جاتی ھے اور اس کو چوری پر ورغلانے لگتی ھے ۔ (۸)
حضرت علی علیہ السلام اسی سلسلہ میں فرماتے ھیں : کھیں تم ( اپنی بیوی سے بد گمانی کی بنا پر ) اپنی غیرت کا اظھار نہ کر بیٹھو کیونکہ یہ بات صحیح آدمی کو برائی پر اور بے گناہ کو گناہ پر آمادہ کرتی ھے ۔ ( ۹)
بد گمانی کرنے والا شخص کبھی اپنے جسم و روح کی سلامتی سے بھی ھاتہ دھو بیٹھتا ھے ۔ جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : بد گمان شخص کو تندرستی و آرام نصیب نھیں ھوتا ۔ ( ۱۰)
ڈاکٹر مارل اس سلسلہ میں کھتا ھے : ( انسان کی ) بعض عادتیں اس کی عمر کو کم کر دیتی ھیں مثلا ھر چیز پر تنقید کی عادت ھر شئی سے بد گمانی کی عادت ! ( عمر کو کم کر دیتی ھے ) کیونکہ یہ منفی نفسیاتی عادت ،اعصاب اور داخلی غدود کو متاثر کر دیتی ھے ۔ اور اس کا نتیجہ کبھی عملی اختلال کی صورت میں اور کبھی جسمانی نقصان کی صورت میں ظاھر ھوتا ھے ۔ (۱۱)
ڈاکٹر ماردن کا کھنا ھے: بد گمانی صحت کو خراب کر دیتی ھے ۔ پیدائشی قوتوں کو کمزور کر دیتی ھے اور ایک متوازن روح کسی برائی کا کبھی انتظار نھیں کرتی ۔ مثلا ھمیشہ اس کی یھی آرزو رھتی ھے کہ نیکیوں سے روبرو رھے کیونکہ اسے معلوم ھے نیکی ایک حقیقت ابدی ھے اور بد گمانی اچھی طاقتوں کے کمزور کر دینے کے سوا کچھ بھی نھیں ھے ۔ جیسے تاریکی فی نفسہ کوئی مستقل چیز نھیں ھے بلکہ عدم نور کا نام تاریکی ھے ۔ لھذا نور کی تلاش میں دوڑ و ! نور دل سے تاریکی کو ختم کر دیتا ھے (۱۲)
بد گمان شخص لوگوں سے وحشت کرتا ھے جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : جو حسن ظن نھیں رکھتا وہ ھر ایک سے وحشت کرتا ھے ۔ (۱۳)
ڈاکٹر فارمر کھتا ھے : جس مجلس میں ھر شخص اپنی رای اور اپنے نظر یہ کو بیان کر رھا ھو اس میں اگر کوئی شخص صریحی طور سے اپنی فکر و نظر کے اظھار سے ڈرتا ھو اور جو شخص وسیع و چوڑی سڑکوں کو چھوڑ کر تنگ و تاریک گلیوں میں اس خوف سے راستہ چلتا ھو کہ کھیں چوڑی سڑکوں پر یا عمومی تفریح گاھوں میں اپنے کسی رشتہ دار سے ملاقات نہ ھو جائے ،یہ سب لوگ یا تو واھمہ کے شکار ھیں یا پھر ان کی روح پر بد گمانی مسلط ھے ۔ (۱۴)
بد گمانی کی علتوں میں سے ایک علت ماضی کی تلخ یادیں بھی ھیں جو انسان کے اندر چھپی ھوتی ھیں اور انسان کو بد گمانی پر آمادہ کرتی ھیں ۔ ایک اردو کا شاعر کھتا ھے

یادِ ماضی عذاب ھے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

انھیں ماضی کی تلخ یادوں نے شاعر کو اس شعر پر آمادہ کر دیا ۔ حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ھے : انسان کے دل کی گھرائیوں میں ایسی تلخ یادیں اور برائیاں پوشیدہ ھیں جن سے عقل فرار کرتی ھے ۔( ۱۵)
ڈاکٹر ھیلن شاختر کھتا ھے : جن لوگوں کو اپنی ذات پر اطمینان و بھروسہ نھیں ھوتا وہ معمولی سے رنج سے متاثر ھو جاتے ھیں اور ان تکلیفوں کی یادیں ان کے دلوں میں غیر شعوری طور سے باقی رہ جاتی ھیں جو ان کے افعال و اقوال ، اعمال و افکار کو متاثر کر دیتی ھیں ۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ سخت مزاج ، غمگین اور بد گمان ھو جاتے ھیں اور ان کو پتہ نھیں چل پاتا کہ آخر وہ ان روحانی امراض کے کیونکر شکار ھو گئے ۔ کیونکہ تلخ یادیں ھمارے تحت الشعور میں مخفی رہ جاتی ھیں اور آسانی سے ظاھر نھیں ھوتیں ۔
دوسرے الفاظ میں یہ عرض کروں کہ انسان فطرتاً اپنی تلخ یادوں سے فرارکرتا ھے ۔ اس کو قطعاً یہ بات پسند نھیں ھوتی کہ ان یادوں کو خزانہ حافظہ سے نکال کر نظروں کے سامنے رکھے لیکن یہ پوشیدہ دشمن اپنی کینہ توزی سے دست کش نھیں ھوتا ۔ ھمارے اخلاق ارواح اعمال کو اپنے حسب منشاء ابھارتا رھتا ھے چنانچہ کبھی ایسا بھی ھوتا ھے کہ اپنے سے اور دوسروں سے ایسے اعمال سر زد ھو جاتے ھیں یا ایسی گفتگوئیں سننے میں آتی ھیں جو بظاھر بے سبب اور باعث کمال تعجب ھوتی ھیں لیکن اگر ھم ان کی کھوج میں لگ جائیں تو پتہ چلے گا کہ یہ انھیں تلخ یادوں کی دین ھے جو ھمارے تحت الشعور میں پوشیدہ تھیں ۔ (۱۶)
پست فطرت لوگ اپنی ذات کو دوسروں کی طبیعتوں کا پیمانہ سمجھتے ھیں اور اپنی برائیوں کاعکس دوسروں میں دیکھتے ھیں ۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے اس سلسلہ میں نھایت عمدہ بات فرمائی ھے۔آپ ارشاد فرماتے ھیں : بد طینت شخص کسی کے بارے میں حسن ظن نھیں رکھتاکیونکہ وہ دوسروں کا قیاس اپنی ذات پر کرتا ھے ۔ ( ۱۷)
ڈاکٹر مان اپنی کتاب ” اصول علم نفسیات “ میں کھتا ھے : اپنی ذات کے دفاع میں رد عمل کی ایک قسم یہ بھی ھے کہ ساری برائیوںاور برے خیالات کو دوسروں کے سرتھوپ دیا جائے تاکہ اپنا نفس جو قلق و اضطراب میں مبتلا ھے اس سے چھٹکارا حاصل کر لے ۔ قیاس بر نفس یہ بد ترین قسم ھے اور جب اس قسم کا دفاع اپنے آخری مرحلہ پر پھونچ جاتا ھے تو پھر وہ شخص نفسیاتی مریض ھو جاتا ھے ۔ اس قسم کا دفاع کبھی کسی جرم کا نتیجہ ھوتا ھے ۔ مثلا جب ھم کسی جرم کا ارتکاب کرتے ھیں تو ھمارے اندر یہ احساس جاگ اٹھتا ھے اور ھم اپنے نفس سے دفاع کے لئے اسی قسم کا جرم دوسروں کے لئے ثابت کرنے لگتے ھیں ۔ (۱۸)
حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مدینہ منورہ پھونچے تو مدینہ والوں میں سے ایک شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں مشرف ھو کر بولا: اے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !یھاں کے لوگ بھت اچھے اور بھت نیک ھیں یہ کتنی اچھی اور مناسب بات ھے کہ سرکار یھاں قیام پذیر ھوئے ! پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے فرمایا : تم نے صحیح بات کھی ھے ۔
تھوڑی ھی دیر کے بعد ایک دوسرا شخص ( وہ بھی مدینہ ھی کا تھا ) آیا اور اس نے کھا : اے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم !یھاں کے لوگ بھت ھی پست و فرو مایہ ھیں ۔ بڑے افسوس کی بات ھے کہ آپ جیسی عظیم شخصیت ان لوگوں کے درمیان میں سکونت اختیار کرے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس سے بھی فرمایا : تم سچ کھتے ھو !
ایک صحابی بھی وھاں پر تشریف فرماتھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دو متضاد قولوں پر تصدیق کرنے سے بھت متعجب ھوئے اور ان سے رھا نہ گیا پوچہ ھی لیا : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ نے دونوں کی تصدیق کر دی حالانکہ دونوں کے قول متضاد تھے ؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : ان دونوں نے اپنی اپنی ذات پر قیاس کرتے ھوئے کھا تھا ۔ جس کے اندر جو صفتیں تھیں اس نے اسی کے مطابق بات کی انھوں نے جیسا تصور کیا ویسا کھا ۔ یعنی ھر ایک کی بات اس کے اعتبار سے سچ تھی ۔
البتہ یہ بات ضرور ذھن میں رکھنی چاھئے کہ جس بد گمانی سے روکا گیا ھے وہ انحراف فکری اور برائی کی طرف میلان نفس اور اس پر اصرار ھے ۔ اور جو چیز حرام ھے وہ بد گمانی پر اثر مرتب کرنا ھے ۔ ورنہ ھزاروں خیالات جو دل میں پیدا ھوتے رھتے ھیں اور قلب سے عبور کرتے ھیںاور ان پر کوئی اثر مرتب نھیں کیا جاتا کیونکہ وہ سب غیر اختیاری ھیں اور ان کو روکنا انسان کی طاقت سے باھر کی چیز ھے لھذا اس کو مورد تکلیف نھیں قرار دیا جا سکتا یعنی ان سے ممانعت نھیں کی جا سکتی ۔
بھرحال چونکہ بد گمانی کرنے والوں کی تلخ زندگی کا سر چشمہ یھی بد گمانی ھے اس لئے اس بات کی تلاش و جستجو کرنی چاھئے کہ آخر یہ بیماری کیسے پیدا ھوتی ھے ؟ اور بیماری کی تشخیص کے بعد اس کے علاج و معالجہ کی طرف توجہ کرنی چاھئے !۔
--------------------------
۱۔سورہ حجرات /۱۲
۲۔ترمذی کتاب البرّ باب ۱۸ ، ابن ماجہ کتاب الفتن باب ۲ ، صحیح مسلم کتاب البرّ باب ۳۲ ، مسند احمد ج۲ ص ۲۷۷ و ج ۳ ص ۴۹۱
۳۔نھج البلاغہ مترجم ص ۱۷۴
۴۔غرر الحکم ص ۱۵۴
۵۔غرر الحکم ص ۴۳۶
۶۔غرر الحکم ص ۶۹۸
۷۔غرر الحکم ص ۴۳۳
۸۔پیروزی فکر
۹۔غرر الحکم ص ۱۵۲
۱۰۔غر ر الحکم ص ۸۳۵
۱۱۔راہ رسم زندگی
۱۲۔پیروزی فکر
۱۳۔غرر الحکم ص ۷۱۲
۱۴۔راز خوش بختی
۱۵۔غرر الحکم ص ۲۹
۱۶۔رشد شخصیت
۱۷۔غر ر الحکم ص ۸۰
۱۸۔ اصول روانشناسی

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نیک اخلاق کا صحیح مفہوم
حقيقي اور خيالي حق
لڑکیوں کی تربیت
احتضار
نماز میت
عیب تلاش کرنے والا گروہ
اسلامی تربیت ایک تحقیقی مقالہ
حدیث ثقلین کی سند
رمضان المبارک کے سترہویں دن کی دعا
۔خود شناسی

 
user comment