تمام پیغمبر کی نسبت قرآن میں حضرت موسیٰ(ع) کا واقعہ زیادہ آیا ھے۔ تیس سے زیادہ سورتوں میں موسیٰ(ع) و فرعون اور بنی اسرائیل کے واقعہ کی طرف سومرتبہ سے زیادہ اشارہ ہوا ھے۔
اگر ھم ان آیتوں کی الگ الگ شرح کریں ااس کے بعد ان سب کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا دیں تو بعض افراد کے اس توھم کے برخلاف کہ قرآن میں تکرار سے کام لیا گیا ھے،ھم کو معلوم ہوگا کہ قرآن میں نہ صرف تکرار نھیں ھے بلکہ ھر سورہ میں جو بحث چھیڑی گئی ھے اس کی مناسبت سے اس سرگزشت کا ایک حصہ شاہد کے طور پر پیش کیا گیا ھے۔
ضمناًیہ بات بھی ذہن میں رکھنا چائیے کہ اس زمانے میں مملکت مصر نسبتاً وسیع مملکت تھی۔وھاں کے رہنے والوں کا تمدن بھی حضرت نوح(ع)،ہود(ع)اور شعیب(ع) کی اقوام سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لہٰذا حکومت فراعنہ کی مقاومت بھی زیادہ تھی۔
اسی بناء پر حضرت موسیٰ(ع) کی تحریک اور نہضت بھی اتنی اھمیت کی حامل ہوئی کہ اس میں بہت زیادہ عبرت انگیز نکات پائے جاتے ھیں۔بنابریں اس قرآن میں حضرت موسیٰ(ع) کی زندگی اور بنی اسرائیل کے حالات کے مختلف پھلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ھے۔
کلی طور پر اس عظیم پیغمبر(ص) کی زندگی کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے پانچ ادوار
۱۔پیدائش سے لے کر آغوش فرعون میں آپ(ص) کی پرورش تک کا زمانہ۔
۲۔مصر سے آپ(ص) کا نکلنا اور شھر مدین میں حضرت شعیب(ع) کے پاس کچھ دقت گزارنا۔
۳۔آپ(ص) کی بعثت کا زمانہ اور فرعون اور اس کی حکومت والوں سے آپ(ص) کے متعدد تنازعے۔
۴۔فرعونیوں کے چنگل سے موسیٰ(ع) اور بنی اسرائیل کی نجات اور وہ حوادث جو راستہ میں اور بیت المقدس پہنچنے پر رونما ہوئے۔
۵۔حضرت موسیٰ(ع) اور بنی اسرائیل کے درمیان کشمکش کا زمانہ۔
ولادت حضرت موسیٰ علیہ السلام
حکومت فرعون نے بنی اسرئیل کے یھاں جو نومولود بیٹے ہوتے تھے انھیں قتل کرنے کا ایک وسیع پروگرام بنایا تھا۔ یھاں تک کہ فرعون کی مقرر کردہ دائیاں بنی اسرائیل کی باردار عورتوں کی نگرانی کرتی تھیں۔
ان دائیوں میں سے ایک والدہٴ موسیٰ(ع) کی دوست بن گئی تھی۔ (شکم مادر میں موسیٰ(ع) کا حمل مخفی رھا اوراس کے آثار ظاھر نہ ہوئے) جس وقت مادر موسیٰ(ع) کو یہ احساس ہوا کہ بچے کی ولادت کا وقت قریب ھے تو آپ نے کسی کے ذریعہ اپنی دوست دائی کو بلانے بھیجا۔جب وہ آگئی تو اس سے کھا:میرے پیٹ میں ایک فرزند ھے،آج مجھے تمھاری دوستی اور محبت کی ضرورت ھے۔
جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوگئے تو آپ کی آنکھوں میں ایک خاص نور چمک رھا تھا،چنانچہ اسے دیکھ کر وہ دایہ کاپنے لگی اور اس کے دل کی گھرائی میں محبت کی ایک بجلی سماگئی،جس نے اس کے دل کی تمام فضاء کو روشن کردیا۔
یہ دیکھ کر وہ دایہ، مادر موسیٰ(ع) سے مخاطب ہوکر بولی کہ میرا یہ خیال تھا کہ حکومت کے دفتر میں جاکے اس بچے کے پیدا ہونے کی خبر دوں تاکہ جلاد آئیں اور اسے قتل کردیں اور میں اپنا انعام پالوں۔ مگر میں کیا کروں کہ میں اپنے دل میں اس نوزائیدہ بچے کی شدید محبت کا احساس کرتی ہوں۔ یھاں تک کہ میں یہ نھیں چاہتی کہ اس کا بال بھی بیکا ہو۔اس کی اچھی طرح حفاظت کرو۔میرا خیال ھے کہ آخر کار یھی ھمارا دشمن ہوگا۔
جناب موسیٰ علیہ السلام تنور میں
وہ دایہ مادر موسیٰ(ع) کے گھر سے باھر نکلی۔ تو حکومت کے بعض جاسوسوں نے اسے دیکھ لیا۔ انھوںنے تھیہ کرلیا کہ وہ گھر میں داخل ہوجائیں گے۔ موسیٰ(ع) کی بہن نے اپنی ماں کو اس خطرے سے آگاہ کردیا۔ ماں یہ سن کے گھبراگئی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اب کیا کرے۔
اس شدید پریشانی کے عالم میں جب کہ وہ بالکل حواس باختہ ہورھی تھی۔اس نے بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹا او رتنور میں ڈال دیا۔ اس دوران میں حکومت کے آدمی آگئے۔مگر وھاں انھوں نے روشن تنور کے سوا کچھ نہ دیکھا۔ انھوں نے مادر موسیٰ(ع) سے تفتیش شرو ع کردی ۔ پوچھا۔دایہ یھاں کیا کررھی تھی۔؟ موسیٰ(ع) کی ماں نے کھا کہ وہ میری سھیلی ھے مجھ سے ملنے آئی تھی ۔حکومت کے کارندے مایوس ہوکے واپس ہوگئے۔
اب موسیٰ(ع) کی ماں کو ہوش آیا۔ آپ نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ بچہ کھاں ھے؟ اس نے لاعلمی کا اظھار کیا۔ ناگھاں تنور کے اندر سے بچہ کے رونے کی آواز آئی۔ اب ماں تنور کی طرف دوڑی ۔کیا دیکھتی ھے کہ خدا نے اس کے لئے آتش تنور کو ”ٹھنڈا اور سلامتی کہ جگہ“بنادیا ھے۔ وھی خدا جس نے حضرت ابراھیم(ع) کے لیے آتش نمرود کو ”برد وسلام“بنادیا تھا۔ اس نے اپنا ھاتھ بڑھایا اور بچے کو صحیح وسالم باھر نکال لیا۔
لیکن پھر بھی ماں محفوظ نہ تھی۔کیونکہ حکومت کے کارندے دائیں بائیں پھرتے رہتے اور جستجو میںلگے رہتے تھے۔ کسی بڑے خطرے کے لیے یھی کافی تھا کہ وہ ایک نوزائید بچے کے رونے کی آواز سن لیتے۔
اس حالت میں خدا کے ایک الھام نے ماں کے قلب کو روشن کردیا۔وہ الھام ایسا تھا کہ ماں کو بظاھر ایک خطرناک کام پر آمادہ کررھا تھا۔مگر پھر بھی ماں اس ارادے سے اپنے دل میں سکون محسوس کرتی تھی۔
”ھم نے موسیٰ(ع) کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا اور جب تجھے اس کے بارے میںکچھ خوف پیدا ہوتو اسے دریا میں ڈال دینا اور ڈرنا نھیں اور نہ غمگین ہونا کیونکہ ھم اسے تیرے پاس لوٹا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے قرار دیں گے۔[1]
اس نے کھا: ”خدا کی طرف سے مجھ پریہ فرض عائد ہوا ھے۔ میں اسے ضرور انجام دوں گی“۔اس نے پختہ ارادہ کرلیا کہ میںاس الھام کو ضرور عملی جامہ پہناؤں گی اور اپنے نوزائیدہ بچے کو دریائے نیل میں ڈال دوںگی۔!!
اس نے ایک مصری بڑھئی کو تلاش کیا (وہ بڑھئی قبطی اور فرعون کی قوم میںسے تھا)اس نے اس بڑھئی سے درخواست کی کہ میرے لیے ایک چھوٹا سا صندوق بنادے۔
بڑھئی نے پوچھا:جس قسم کا صندوقچہ تم بنوانا چاہتی ہو اسے کس کام میں لاؤگی؟
موسیٰ(ع) کی ماں جو دروغ گوئی کی عادی نہ تھی اس نازک مقام پر بھی سچ بولنے سے باز نہ رھی۔اس نے کھا:میں بنی اسرائیل کی ایک عورت ہوں۔میرا ایک نوزائید بچہ لڑکا ھے۔میںاس بچے کو اس صندوق میں چھپانا چاہتی ہوں۔
اس قبطی بڑھئی نے اپنے دل میں یہ پختہ ارادہ کرلیا کہ جلادوں کو یہ خبر پہنچادےگا۔وہ تلاش کرکے ان کے پاس پہنچ گیا۔ مگر جب وہ انھیں یہ خبر سنانے لگاتو اس کے دل پر ایسی وحشت طاری ہوئی کہ اس کی زبان بند ہوگئی۔ وہ صرف ھاتھوں سے اشارے کرتا تھا اور چاہتا تھا کہ ان علامتوں سے انھیں اپنا مطلب سمجھا دے۔ حکومت کے کارندوں نے اس کی حرکات دیکھ کر یہ سمجھا کہ یہ شخص ھم سے مذاق کررھا ھے۔اس لیے اسے مارا اور باھر نکال دیا۔
جیسے ھی وہ اس دفتر سے باھر نکلا اس کے ہوش و حواس یکجاہوگئے، وہ پھر جلادوں کے پاس گیا اور اپنی حرکات سے پھر مارکھائی۔
آخر اس نے یہ سمجھا کہ اس واقعے میں ضرور کوئی الٰھی راز پوشیدہ ھے۔چنانچہ اس نے صندوق بناکے حضرت موسیٰ(ع) کی والدہ کو دےدیا۔
دریا کی موجیں گہوارے سے بہتر
غالباًصبح کا وقت تھا۔ابھی اھل مصر محو خواب تھے۔مشرق سے پو پھٹ رھی تھی۔ماںنے نوزائیدہ بچے اور صندوق کو دریائے نیل کے کنارے لائی،بچے کو آخری مرتبہ دودھ پلایا۔پھر اسے،مخصوص صندوق میں رکھا(جس میں یہ خصوصیت تھی کہ ایک چھوٹی کشتی کی طرح پانی پر تیرسکے)پھر اس صندوق کو نیل کی موجوں کے سپرد کردیا۔
نیل کی پر شور موجوںنے اس صندوق کوجلدھی ساحل سے دور کردیا۔ماں کنارے کھڑی دیکھ رھی تھی ۔ معاًاسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کا دل سینے سے نکل کر موجوںکے اوپر تیررھاھے۔اس دقت،اگر الطاف الٰھی اس کے دل کو سکون و قرار نہ بخشتا تو یقینا وہ زور زور سے رونے لگتی اور پھر سارا راز فاش ہو جاتا،کسی آدمی میں یہ قدرت نھیں ھے کہ ان حساس لمحات میں ماںپر جو گزررھی تھی۔الفاظ میں اس کا نقشہ کھینچ سکے مگر ۔ ایک فارسی شاعرہ نے کسی حد تک اس منظر کو اپنے فصیح اور پر از جذبات اشعار میں مجسم کیا ھے۔
۱۔مادر موسیٰ چو موسیٰ (ع)رابہ نیل
درفگند از گفتہٴ رب جلیل
۲۔خودز ساحل کرد باحسرت نگاہ
گفت کای فرزند خرد بی گناہ!
۳۔گر فراموشت کند لطف خدای
چون رھی زین کشتی بی ناخدای
۴۔وحی آمد کاین چہ فکر باطل است
رھرو ما اینک اندر منزل است
۵۔ماگرفتیم آنچہ را انداختی
دست حق را دیدی ونشاختی
۶۔سطح آب از گاہوارش خوشتراست
دایہ اش سیلاب و موجش مادراست
۷۔رودھا از خودنہ طغیان می کنند
آنچہ می گوئیم ما آن می کنند
۸۔ما بہ دریا حکم طوفان می دھیم
ما بہ سیل وموج فرماں می دھیم
۹۔نقش ہستی نقشی از ایوان ما است
خاک وباد وآب سرگردان ماست
۱۰۔بہ کہ برگردی بہ ما بسپاریش
کی تو از ما دوسترمی داریش؟[2]
۱۔جب موسیٰ(ع) کی ماںنے حکم الٰھی کے مطابق موسیٰ(ع) کو دریائے نیل میں ڈال دیا۔
۲۔وہ ساحل پرکھڑی ہوئی حسرت سے دیکھ رھی تھی اور کہہ رھی تھی کہ اے میرے بے گناہ ننھے بیٹے!
۳۔اگر لطف الٰھی تیرے شامل حال نہ ہو تو ،تو اس کشتی میںکیسے سلامت رہ سکتا ھے جس کا کوئی نا خدا نھیں ھے۔
۴۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماںکو اس وقت وحی ہوئی کہ تیری یہ کیا خام خیالی ھے۔ ھمارا مسافر تو سوئے منزل رواںھے۔
۵۔تونے جب اس بچے کو دریا میں ڈالاتھا تو ھم نے اسے اسی وقت سنبھال لیا تھا ۔ تو نے خدا کا ھاتھ دیکھا مگر اسے پہچانا نھیں۔
۶۔اس وقت پانی کی سطح(اس کے لیے)اس کے گہوارے سے زیادہ راحت بخش ھے۔دریا کا سیلاب اس کی دایہ گیری کررھا ھے اور اس کی موجیں آغوش مادر بنی ہوئی ھیں۔
۷۔دیکھوں! دریاؤں میں ان کے ارادہ و اختیار سے طغیانی نھیں آتی۔وہ ھمارے حکم کے مطیع ھیں وہ وھی کرتے ھیں جو ھمارا امر ہوتا ھے۔
۸۔ھم ھی سمندروں کو طوفانی ہونے کاحکم دیتے ھیں اور ھم ھی سیل دریا کو روانی اور امواج بحر کو تلاطم کا فرمان بھیجتے ھیں۔
۹۔ہستی کا نقش ھمارے ایوان کے نقوش میں سے ایک نقش ھے جو کچھ ھے،یہ کائنات تو اس کامشتے ازخرواری نمونہ ھے۔ اور خاک،پانی،ہوا اور آتش ھمارے ھی اشارے سے متحرک ھیں۔
۱۰۔بہتر یھی ھے کہ تو بچے کو ھمارے سپرد کردے اور خود واپس چلی جا۔ کیونکہ تو اس سے ھم سے زیادہ محبت نھیں کرتی۔
دلوں میں حضرت مو سیٰ علیہ السلام کی محبت
اب دیکھناچاہئیے کہ فرعون کے محل میں کیا ہورھا تھا؟
روایات میں مذکور ھے کہ فرعون کی ایک اکلوتی بیٹی تھی۔وہ ایک سخت بیماری سے شدید تکلیف میں تھی۔فرعون نے اس کا بہت کچھ علاج کرایا مگر بے سود۔اس نے کاہنوں سے پوچھا۔ انھوں نے کھا:”اے فرعون ھم پیشن گوئی کرتے ھیں کہ اس دریا میں سے ایک آدمی تیرے محل میں داخل ہوگا۔اگر اس کے منہ کی رال اس بیمار کے جسم پر ملی جائے گی تو اسے شفا ہوجائیگی۔
چنانچہ فرعون اور اس کی ملکہ آسیہ ایسے واقعے کے انتظار میں تھے کہ ناگھاں ایک روز انھیں ایک صندوق نظر آیا جو موجوں کی سطح پر تیر رھا تھا۔فرعون نے حکم دیا کہ سرکاری ملازمین فوراً دیکھیں کہ یہ صندوق کیسا ھے اور اسے پانی میں سے نکال لیں۔دیکھیں کہ اس میں کیا ھے؟
نوکروں نے وہ عجیب صندوق فرعون کے سامنے لاکے رکھ دیا۔ کسی کو اس کا ڈھکنا کھولنے کی ھمت نہ ہوئی۔ مطابق مشیت الٰھی،یہ لازمی تھا کہ حضرت موسیٰ(ع) کی نجات کے لیے صندوق کا ڈھکنا فرعون ھی کے ھاتھ سے کھولا جائے،چنانچہ ایسا ھی ہوا۔
جس وقت فرعون کی ملکہ نے اس بچے کو دیکھا تو اسے یوں محسوس ہواکہ ایک بجلی چمکی ھے جس نے اس کے دل کو منور کردیا ھے۔
ان دونوں بالخصوص فرعون کی ملکہ کے دل میں اس بچے کی محبت نے گھر بنالیا اور جب اس بچے کا آب دہن اس کے لیے موجب شفا ہوگیا تو یہ محبت اور بھی زیادہ ہوگئی ۔
قرآن میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ھے کہ:۔فرعون کے اھل خانہ نے موسیٰ(ع) کو نیل کی موجوں کے اوپر سے پکڑ لیا۔ تا کہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے باعث اندوہ ہوجائے۔[3]
”یہ امر بدیھی ھے کہ فرعون کے اھل خانہ نے اس بچے کے قنداقہ(وہ کپڑاجس میں بچہ کو لپیٹتے ھیں)کو اس نیت سے دریا سے نھیں نکالا تھا کہ اپنے جانی دشمن کو اپنی گود میں پالیں ،بلکہ وہ لوگ بقول ملکہ فرعون،اپنے لیے ایک نور چشم حاصل کرناچاہتے تھے۔
لیکن انجام کار ایسا ھی ہوا،اس معنیٰ و مراد کی تعبیر میںلطافت یھی ھے کہ خدا اپنی قدرت کا اظھار کرنا چاہتا ھے کہ وہ کس طرح اس گروہ کو جنھوں نے اپنی تمام قوتیں اور وسائل،بنی اسرائیل کی اولاد ذکور کو قتل کرنے کے لیے وقف کردیا تھا،اس خدمت پر مامور کرے کہ جس بچے کو نابود کرنے کے لیے انھوں نے یہ پروگرام بنایا تھا،اسی کوو وہ اپنی جان کی طرح عزیز رکھیں اور اسی کی پرورش کریں۔
قرآن کی آیات سے یہ معلوم ہوتاھے کہ اس بچے کی بابت فرعون،اس کی ملکہ اور دیگر اھل خاندان میں باھم نزاع اور اختلاف بھی ہوا تھا،کیونکہ قرآن شریف میں یوں بیان ھے:فرعون کی بیوی نے کھا کہ یہ بچہ میری اور تیری آنکھوں کا نور ھے۔ اسے قتل نہ کرو۔ ممکن ھے یہ ھمارے لیے نفع بخش ہو یا ھم اسے ھم اپنا بیٹابنا لیں۔[4]
ایسا معلوم ہوتا ھے کہ فرعون بچے کے چھرے اور ددیگر علامات سے،من جملہ ان کے اسے صندوق میں رکھنے اور دریائے نیل میںبھادینے سے یہ سمجھ گیا تھا کہ یہ بنی اسرائیل میں سے کسی کا بچہ ھے۔
یہ سمجھ کر ناگھاں،بنی اسرائیل میں سے ایک آدمی کی بغاوت اور اس کی سلطنت کے زوال کا کابوس اس کی روح پر مسلط ہوگیا اور وہ اس امر کا خواھاں ہوا کہ اس کا وہ ظالمانہ قانون،جو بنی اسرائیل کے تمام نوزاد اطفال کے لیے جاری کیا گیا تھا اس بچے پر بھی نافذ ہو۔
فرعون کے خوشامدی درباریوں او ررشتہ داروں نے بھی اس امر میں فرعون کی تائید و حمایت کی اور کھا اس کی کوئی دلیل نھیں ھے کہ یہ بچہ قانون سے مستثنیٰ رھے۔
لیکن فرعون کی بیوی آسیہ جس کے بطن سے کوئی لڑکا نہ تھا اور اس کا پاک دل فرعون کے درباریوں کی مانند نہ تھا،اس بچے کے لیے محبت کا کان بن گیا تھا۔ چنانچہ وہ ان سب کی مخالفت پرآمادہ ہوگئی اور چونکہ اس قسم کے گھریلو اختلافات میں فتح ھمیشہ عورتوں کی ہوتی ھے،وہ بھی جیت گئی۔
اگر اس گھریلو جھگڑے پر،دختر فرعون کی شفایابی کے واقعے کا بھی اضافہ کرلیا جائے تواس اختلاف باھمی میں آسیہ کی فتح کا امکان روشن تر ہو جاتا ھے۔
قرآن میںایک بہت ھی پر معنیٰ فقرہ ھے:”وہ نھیںجانتے تھے کہ کیا کررھے ھیں:“[5]
البتہ وہ بالکل بے خبر تھے کہ خدا کا واجب النفوذ فرمان اور اس کی شکست ناپذیر مشیت نے یہ تھیہ کرلیا ھے کہ یہ طفل نوزاد انتھائی خطرات میں پرورش پائے۔ اور کسی آدمی میں بھی ارادہ و مشیت الٰھی سے سرتابی کی جراٴت اور طاقت نھیں ھے“۔
اللہ کی عجیب قدرت
اس چیز کانام قدرت نمائی نھیں ھے کہ خداآسمان و زمین کے لشکروں کو مامور کرکے کسی پُرقوت اور ظالم قوم کو نیست و نابود کردے۔
بلکہ قدرت نمائی یہ ھے کہ ان ھی جباران مستکبر سے یہ کا م لے کر وہ اپنے آپ کو خود ھی نیست و نابود کرلیں اور ان کے دل و دماغ میں ایسے خیالات پیدا ہوجائیں کہ بڑے شوق سے لکڑیاں جمع کریں اور اس کی آگ میں جل مریں،اپنے لیے خودھی قیدخانہ بنائیں اور اسمیںاسیر ہوکے جان دے دیں، اپنے لیے خود ھی صلیب کھڑی کریں اور اس پر چڑھ مرجائیں۔
فرعون اوراسکے زور منداور ظالم ساتھیوں کے ساتھ بھی یھی پیش آیا۔ چنانچہ تمام مراحل میںحضرت موسیٰ(ع) کی نجات اور پرورش انھی کے ھاتھوں سے ہوئی،حضرت موسیٰ(ع) کی دایہ قبطیوں میںسے تھی،صندوق موسیٰ(ع) کو امواج نیل سے نکالنے اور نجات دینے والے متعلقین فرعون تھے،صندوق کا ڈھکنا کھولنے والا خود فرعون یا اس کی اھلیہ تھی،اور آخر کا ر فرعون شکن اور مالک غلبہ و اقتدار موسیٰ(ع) کے لیے امن و آرام اور پرورش کی جگہ خود فرعون کا محل قرار پایا۔
یہ ھے پروردگار عالم خدا کی قدرت!۔
موسیٰ علیہ السلام پھر آغوش مادر میں
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے اس طرح سے جیسا کہ ھم نے پیشتر بیان کیا ھے،اپنے فرزند کو دریائے نیل کی لھروں کے سپرد کردیا۔ مگر اس عمل کے بعد اس کے دل میں جذبات کا یکایک شدید طوفان اٹھنے لگا،نوزائیدہ بیٹے کی یاد،جس کے سوا اس کے دل میں کچھ نہ تھا،اس کے احساسات پر غالب آگئی تھی،قریب تھا کہ وہ دھاڑیں مار کر رونے لگے اور اپنا راز فاش کردے،قریب تھا کہ چیخ مارے اور اپنے بیٹے کی جدائی میں نالے کرے۔
لیکن عنایت خداوندی اس کے شامل حال رھی جیسا کہ قرآن میں مذکور ھے:”موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا دل اپنے فرزند کی یاد کے سوا ھر چیز سے خالی ہوگیا،اگر ھم نے اس کا دل ایمان اور امید کے نور سے روشن نہ کیا ہوتا تو قریب تھا کہ وہ راز فاش کردیتی۔ لیکن ھم نے یہ اس لیے کیا تاکہ وہ اھل ایمان میں سے رھے“۔[6]
یہ قطعی فطری امر ھے کہ: ایک ماں جو اپنے بچے کو اس صورت حال سے اپنے پاس سے جدا کرے وہ اپنی اولاد کے سوا ھر شے کو بھول جائے گی۔ اور اس کے حواس ایسے باختہ ہو جائیںگے کہ ان خطرات کا لحاظ
کیے بغیر جو اس کے اور اس کے بیٹے دونوں کے سر پر منڈلارھے تھے فریاد کرے اور اپنے دل کا راز فاش کردے۔
لیکن وہ خدا جس نے اس ماں کے سپرد یہ اھم فریضہ کیا تھا،اسی نے اس کے دل کو ایسا حوصلہ بھی بخشا کہ وعدہٴ الٰھی پر اس کا ایمان ثابت رھے اور اسے یہ یقین رھے کہ اس کا بچہ خدا کے ھاتھ میں ھے آخر کار وہ پھر اسی کے پاس آجائے گا اور پیغمبر بنے گا۔
اس لطف خداوندی کے طفیل ماںکے دل کا سکون لوٹ آیامگر اسے آرزورھی کہ وہ اپنے فرزندکے حال سے باخبر رھے” اس لئے اس نے موسیٰ علیہ السلام کی بہن سے کھاکہ جا تو دیکھتی رہ کہ اس پر کیا گزرتی ھے“۔[7]
موسیٰ علیہ السلام کی بہن ماں کا حکم بجالائی اور اتنے فاصلہ سے جھاں سے سب کچھ نظر آتا تھا دیکھتی رھی ۔ اس نے دور سے دیکھا کہ فرعون کے عمال اس کے بھائی کے صندوق کو پانی میں سے نکال رھے ھیں اور موسیٰ علیہ السلام کو صندوق میں سے نکال کر گود میں لے رھے ھیں۔
”مگر وہ لوگ اس بہن کی ا س کیفیت حال سے بے خبر تھے۔“۔[8]
بھر حال ارادہ الٰھی یہ تھا کہ یہ طفل نوزاد جلد اپنی ماںکے پاس واپس جائے اور اس کے دل کو قرار آئے۔اس لیے فرمایا گیا ھے :”ھم نے تمام دودھ پلانے والی عورتوں کو اس پر حرام کردیا تھا“۔[9]
یہ طبیعی ھے کہ شیر خوار نوزاد چندگھنٹے گزرتے ھی بھوک سے رونے لگتا ھے اور بے تاب ہوجاتا ھے۔ درین حال لازم تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو دودھ پلانے کے لیے کسی عورت کی تلاش کی جاتی۔ خصوصاً جبکہ ملکہ مصر اس بچے سے نھایت دل بستگی رکھتی تھی اور اسے اپنی جان کے برابر عزیز رکھتی تھی۔
محل کے تمام خدام حرکت میں آگئے اور دربدر کسی دودھ پلانے والی کو تلاش کرنے لگے۔مگر یہ عجیب بات تھی کہ وہ کسی کا دودھ پیتا ھی نہ تھا۔
ممکن ھے کہ وہ بچہ ان عورتوں کی صورت ھی سے ڈرتا ہو اور ان کے دودھ کا مزہ(جس سے وہ آشنا نہ تھا) اسے اس کا ذائقہ ناگوار اور تلخ محسوس ہوتا ہو۔اس بچے کا طور کچھ اس طرح کا تھا گویا کہ ان (دودھ پلانے والی)عورتوں کی گود سے اچھل کے دورجاگرے در اصل یہ خدا کی طرف سے”تحریم تکوینی“تھی کہ اس نے تمام عورتوںکو اس پر حرام کردیا تھا۔
بچہ لحظہ بہ لحظہ زیادہ بھوکا اور زیادہ بیتاب ہوتا جاتا تھا۔ بار بار رورھا تھا اور اس کی آواز سے فرعون کے محل میں شور ہورھا تھا۔ اور ملکہ کا دل لرز رھا تھا۔
خدمت پرمامور لوگوں نے اپنی تلاش کو تیز تر کردیا۔ ناگھاں قریب ھی انھیں ایک لڑکی مل جاتی ھے۔ وہ ان سے یہ کہتی ھے:میںایک ایسے خاندان کو جانتی ہوں جو اس بچے کی کفالت کرسکتا ھے۔ وہ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔
”کیا تم لوگ یہ پسند کروگے کہ میں تمھیں وھاں لے چلوں“؟[10]
میں بنی اسرائیل میں سے ایک عورت کو جانتی ہوں جس کی چھاتیوں میں دودھ ھے اور اس کا دل محبت سے بھرا ہوا ھے۔ اس کا ایک بچہ تھا وہ اسے کھو چکی ھے۔ وہ ضرور اس بچے کو جو محل میں پیدا ہوا ھے،دودھ پلانے پر آمادہ ہوجائے گی۔
وہ تلاش کرنے والے خدام یہ سن کر خوش ہوگئے اور موسیٰ علیہ السلام کی ماں کو فرعون کے محل میں لے گئے۔ اس بچے نے جونھی اپنی ماں کی خوشبو سونگھی اس کا دودھ پینے لگا۔ اور اپنی ماں کا روحانی رس چوس کر اس میں جان تازہ آگئی۔اسکی آنکھوں میں خوشی کا نور چمکنے لگا۔
اس وقت وہ خدام جو ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گئے تھے۔ بہت ھی زیادہ خوش و خرم تھے۔ فرعون کی بیوی بھی اس وقت اپنی خوشی کو نہ چھپا سکی۔ممکن ھے اس وقت لوگوں نے کھا ہوکہ تو کھاں چلی گئی تھی۔ھم تجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گئے ۔ تجھ پر اورتیرے شیر مشکل کشا پر آفرین ھے۔
صرف تیرا ھی دودھ کیوں پیا
جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام ماں کا دودھ پینے لگے،فرعون کے وزیر ھامان نے کھا: مجھے لگتا ھے کہ تو ھی اسکی ماں ھے۔ بچے نے ان تمام عورتوں میں سے صرف تیرا ھی دودھ کیوں قبول کرلیا؟
ماں نے کھا:اس کی وجہ یہ ھے کہ میں ایسی عورت ہوں جس کے دودھ میں سے خوشبو آتی ھے۔ میرا دودھ نھایت شیریں ھے۔ اب تک جو بچہ بھی مجھے سپرد کیا گیا ھے۔ وہ فوراً ھی میرا دودھ پینے لگتا ھے۔
حاضرین دربار نے اس قول کی صداقت کو تسلیم کرلیا اور ھر ایک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماںکو گراں بھا ہدیے اور تحفے دیے۔
ایک حدیث جو امام باقر علیہ السلام سے مروی ھے اس میں منقول ھے کہ: ”تین دن سے زیادہ کا عرصہ نہ گزرا تھا کہ خدانے کے بچے کواس کی ماں کے پاس لوٹا دیا“۔
بعض اھل دانش کا قول ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے یہ”تحریم تکوینی“(یعنی دوسری عورتوں کا حرام کیا جانا)اس سبب سے تھاکہ خدا یہ نھیں چاہتا تھا کہ میرا فرستادہ پیغمبر ایسا دودھ پیئے جو حرام سے آلودہ ہو اور ایسا مال کھاکے بنا ہو جو چوری،نا جائز ذرائع،رشوت اور حق الناس کو غصب کرکے حاصل کیا گیا ہو۔
خدا کی مشیت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی صالحہ ماں کے پاک دودھ سے غذا حاصل کریں۔تاکہ وہ اھل دنیا کے شر کے خلاف ڈٹ جائیں اور اھل شروفساد سے نبردآزمائی کرسکیں۔
”ھم نے اس طرح موسیٰ علیہ السلام کو اس کی ماں کے پاس لوٹا دیا۔تاکہ اس کی آنکھیں روشن ہوجائیں اور اس کے دل میں غم واندوہ باقی نہ رھے اور وہ یہ جان لے کہ خدا کا وعدہ حق ھے۔ اگر چہ اکثر لوگ یہ نھیں جانتے“۔[11]
اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ھے اور وہ یہ ھے کہ:کیا وابستگان فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو پورے طور سے ماں کے سپرد کردیا تھا کہ وہ اسے گھر لے جائے اور دودھ پلایا کرے اور دوران رضاعت روزانہ یا کبھی کبھی بچے کو محل میں لایا کرے تا کہ ملکہ مصر اسے دیکھ لیا کرے یا یہ کہ بچہ محل ھی میں رہتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کی ماں معین اوقات میں آکر اسے دودھ پلاجاتی تھی؟
مذکورہ بالا دونوں احتمالات کے لیے ھمارے پاس کوئی واضح دلیا نھیں ھے۔ لیکن احتمال اول زیادہ قرین قیاس ھے۔
ایک اور سوال یہ ھے کہ:
آیا عرصہٴ شیر خوارگی کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل میں چلے گئے یا ان کا تعلق اپنی ماں اور خاندان کے ساتھ باقی رھا اور محل سے وھاں آتے جاتے رھے؟
اس مسئلے کے متعلق بعض صاحبان نے یہ کھا ھے کہ شیر خوار گی کے بعد آپ کی ماں نے انھیں فرعون اور اس کی بیوی آسیہ کے سپرد کردیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام ان دونوں کے پاس پرورش پاتے رھے۔
اس ضمن میں راویوںنے فرعون کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طفلانہ(مگر با معنیٰ)باتوں کا ذکر کیا ھے کہ اس مقام پر ھم ان کو بعذر طول کلام کے پیش نظر قلم انداز کرتے ھیں۔ لیکن فرعون کا یہ جملہ جے اس نے بعثت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کھا:
”کیا ھم نے تجھے بچپن میں پرورش نھیں کیا اور کیا تو برسوں تک ھمارے درمیان نھیں رھا“۔[12]
اس جملے سے معلوم ہوتا ھے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام چند سال تک فرعون کے محل میں رہتے تھے۔
علی ابن ابراھیم کی تفسیر سے استفادہ ہوتا ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تازمانہٴ بلوغ فرعون کے محل میں نھایت احترام کے ساتھ رھے۔مگر ان کی توحید کے بارے میں واضح باتیں فرعون کو سخت ناگوار ہوتی تھیں۔
یھاں تک کہ اس نے انھیں قتل کرنے کا ارادہ کرلیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس خطرے کو بھاپ گئے اوربھاگ کر شھر میں آگئے۔ یھاں وہ اس واقعے سے دوچار ہوئے کہ دو آدمی لڑرھے تھے جن میں سے ایک قبطی اور ایک سبطی تھا۔[13]
موسیٰ علیہ السلام مظلوموںکے مددگار کے طورپر
اب ھم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نشیب و فراز سے بھرپور زندگی کے تیسرے دور کو ملاحظہ کر تے ھیں۔
اس دور میں ان کے وہ واقعات ھیں جو انھیں دوران بلوغ اور مصر سے مدین کو سفر کرنے سے پھلے پیش آئے اور یہ وہ اسباب ھیں جو ان کی ہجرت کا باعث ہوئے۔
”بھر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام شھر میں اس وقت داخل ہوئے جب تمام اھل شھر غافل تھے“۔[14]
یہ واضح نھیں ھے کہ یہ کونسا شھر تھا۔لیکن احتمال قوی یہ ھے کہ یہ مصر کا پایہٴ تخت تھا۔ بعض لوگوں کا قول ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس مخالفت کی وجہ سے جو ان میں فوعون اور اس کے وزراء میں تھی اور بڑھتی جارھی تھی،مصر کے پایہٴ تخت سے نکال دیا گیا تھا۔ مگر جب لوگ غفلت میں تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کو موقع مل گیا اور وہ شھر میں آگئے۔
اس احتمال کی بھی گنجائش ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے محل سے نکل کر شھر میں آئے ہوں کیونکہ عام طور پر فرعونیوں کے محلات شھر کے ایک کنارے پر ایسی جگہ بنائے جاتے تھے جھاں سے وہ شھر کی طرف آمدورفت کے راستوں کی نگرانی کرسکیں۔
شھر کے لوگ اپنے مشاغل معمول سے فارغ ہوچکے تھے اور کوئی بھی شھر کی حالت کی طرف متوجہ نہ تھا۔ مگر یہ کہ وہ وقت کونسا تھا؟بعض کا خیال ھے کہ”ابتدائے شب“تھی،جب کہ لوگ اپنے کاروبار سے فارغ ہوجاتے ھیں،ایسے میں کچھ تو اپنے اپنے گھروں کی راہ لیتے ھیں۔کچھ تفریح اور رات کوبیٹھ کے باتیں کرنے لگتے ھیں۔
بھر کیف حضرت موسیٰ علیہ السلام شھر میں آئے اور وھاںایک ماجرے سے دوچار ہوئے دیکھا :” دو آدمی آپس میں بھڑے ہوئے ھیں اور ایک دوسرے کو مار رھے ھیں۔ان میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام کا طرف دار اور ان کا پیرو تھا اور دوسراان کا دشمن تھا“۔[15]
کلمہ ”شیعتہ“ اس امر کا غماز ھے کہ جناب موسی (ع)اور بنی اسرائیل میں اسی زمانے سے مراسم ہوگئے تھے اور کچھ لوگ ان کے پیرو بھی تھے احتمال یہ ہوتا ھے کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنے مقلدین اور شیعوں کی روح کو فرعون کی جابرانہ حکومت کے خلاف لڑنے کے لئے بطور ایک مرکزی طاقت کے تیار کررھے تھے ۔
جس وقت بنی اسرائیل کے اس آدمی نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا:” تو ان سے اپنے ،دشمن کے مقابلے میں امداد چاھی“۔ [16]
حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کی مدد کرنے کےلئے تیار ہوگئے تاکہ اسے اس ظالم دشمن کے ھاتھ سے نجات دلائیں بعض علماء کا خیال ھے کہ وہ قبطی فرعون کا ایک باورچی تھا اور چاہتاتھا کہ اس بنی اسرائیل کو بیکار میں پکڑکے اس سے لکڑیاں اٹھوائے” حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس فرعونی کے سینے پر ایک مکامارا وہ ایک ھی مکے میں مرگیا اور زمین پر گر پڑا “۔[17]
اس میں شک نھیںکہ حضرت موسی کا اس فرعونی کو جان سے ماردینے کا ارادہ نہ تھا قرآن سے بھی یہ خوب واضح ہوجاتاھے ایسا اس لئے نہ تھا کہ وہ لوگ مستحق قتل نہ تھے بلکہ انھیں ان نتائج کا خیال تھا جو خود حضرت موسی اور بنی اسرائیل کو پیش آسکتے تھے ۔
لہٰذا حضرت موسٰی علیہ السلام نے فوراً کھا:” کہ یہ کام شیطان نے کرایا ھے کیونکہ وہ انسانوں کا دشمن اور واضح گمراہ کرنے والاھے “۔[18]
اس واقعے کی دوسری تعبیر یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چاہتے تھے کہ بنی اسرئیلی کا گریبان اس فرعونی کے ھاتھ سے چھڑا دیں ھر چند کہ وابستگان فرعون اس سے زیادہ سخت سلوک کے مستحق تھے لیکن ان حالات میں ایسا کام کر بیٹھنا قرین مصلحت نہ تھا اور جیسا کہ ھم آگے دیکھیں گے کہ حضرت موسی اسی عمل کے نتیجے میں پھر مصر میں نہ ٹھھرسکے اور مدین چلے گئے ۔
پھر قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ھے اس نے کھا:”پروردگار ا!میں نے اپنے اوپر ظلم کیا تو مجھے معاف کردے ،اور خدا نے اسے بخش دیا کیونکہ وہ غفورو رحیم ھے “۔[19]
یقینا حضرت موسیٰ علیہ السلام اس معاملے میں کسی گناہ کے مرتکب نھیں ہوئے بلکہ حقیقت میں ان سے ترک اولی سرزد ہوا کیونکہ انھیں ایسی بے احتیاطی نھیں کرنی چاھیئے تھی جس کے نتیجے میں وہ زحمت میں مبتلا ہوں حضرت موسی نے اسی ترک اولی کے لئے خدا سے طلب عفو کیا اور خدا نے بھی انھیں اپنے لطف وعنایت سے بھرہ مند کیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کھا: خداوندا تیرے اس احسان کے شکرانے میں کہ تونے میرے قصور کو معاف کردیا اور دشمنوں کے پنجے میںگرفتار نہ کیا اور ان تمام نعمتوں کے شکریہ میں جو مجھے ابتداء سے اب تک مرحمت کرتا رھا،میں عہد کرتا ہوں کہ ھر گز مجرموں کی مدد نہ کروں گا اور ظالموں کا طرف دار نہ ہوں گا “۔[20]
بلکہ ھمیشہ مظلومین اور ستم دیدہ لوگوں کا مددگارر ہوں گا ۔[21]
موسیٰ علیہ السلام کی مخفیانہ مدین کی طرف روانگی
فرعونیوں میں سے ایک آدمی کے قتل کی خبر شھر میں بڑی تیزی سے پھیل گئی قرائن سے شاید لوگ یہ سمجھ گئے تھے کہ اس کا قائل ایک بنی اسرائیل ھے اور شاید اس سلسلے میں لوگ موسیٰ علیہ السلام کا نام بھی لیتے تھے۔
البتہ یہ قتل کوئی معمولی بات نہ تھی اسے انقلاب کی ایک چنگاری یا اس کا مقدمہ شمار کیا جاتاتھا اور حکومت کی مشینری اسے ایک معمولی واقعہ سمجھ کراسے چھوڑنے والی نہ تھی کہ بنی اسرائیل کے غلام اپنے آقاؤں کی جان لینے کا ارادہ کرنے لگیں۔
لہٰذا ھم قرآن میں یہ پڑھتے ھیں کہ” اس واقعے کے بعد موسی شھر میں ڈررھے تھے اور ھر لحظہ انھیں کسی حادثے کا کھٹکا تھا اور وہ نئی خبروں کی جستجو میں تھے “۔[22]
ناگھاں انھیں ایک معاملہ پیش آیا آپ نے دیکھا کہ وھی بنی اسرائیلی جس نے گزشتہ روز ان سے مدد طلب کی تھی انھیں پھر پکاررھا تھا اور مدد طلب کررھاتھا (وہ ایک اور قبطی سے لڑرھا تھا) ۔
”لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کھا کہ تو آشکارا طور پر ایک جاھل اور گمراہ شخص ھے“۔[23]
توھر روز کسی نہ کسی سے جھگڑ پڑتا ھے اور اپنے لئے مصیبت پیدا کرلیتا ھے اور ایسے کام شروع کردیتا ھے جن کا ابھی موقع ھی نھیں تھا کل جو کچھ گزری ھے میں تو ابھی اس کے عواقب کا انتظار کرھا ہوں اور تونے وھی کام از سر نو شروع کردیا ھے !۔
بھر حال وہ ایک مظلوم تھا جو ایک ظالم کے پنجے میں پھنسا ہو تھا ( حواہ ابتداء اس سے کچھ قصور ہوا ہو یانہ ہوا ہو ) اس لئے حضرت موسی کے لئے یہ ضروری ہوگیا کہ اس کی مدد کریں اور اسے اس قبطی کے رحم وکرم پر نہ چھوڑدیں لیکن جیسے ھی حضرت موسی نے یہ اراداہ کیا کہ اس قبطی آدمی کو (جو ان دونوں کا دشمن تھا )پکڑ کر اس بنی اسرائیل سے جدا کریں وہ قبطی چلایا، اس نے کھا :
اے موسیٰ : کیا تو مجھے بھی اسی طرح قتل کرنا چاہتا ھے جس طرح تو نے کل ایک شخص کو قتل کیا تھا“۔[24]”تیری حرکات سے تو ایسا ظاھر ہوتا ھے کہ تو زمین پر ایک ظالم بن کررھے گا اور یہ نھیں چاہتا کہ مصلحین میں سے ہو “۔[25]
اس جملے سے یہ معلوم ہوتا ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے محل اور اس کے باھر ھر دو جگہ اپنے مصلحانہ خیالات کا اظھار شروع کردیا تھا بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ھے کہ اس موضوع پر ان کے فرعون سے اختلافات بھی پیدا ہوگئے تھے اسی لئے تو اس قبطی آدمی نے یہ کھا :
یہ کیسی اصلاح طلبی ھے کہ تو ھر روز ایک آدمی کو قتل کرتاھے ؟
حالانکہ اگر حضرت موسی کا یہ ارادہ ہوتا کہ اس اس ظالم کو بھی قتل کردیں تو یہ بھی راہ اصلاح میں ایک قدم ہوتا ۔
بھرکیف حضرت موسی کو یہ احساس ہوا کہ گزشتہ روز کا واقعہ طشت ازبام ہوگیا ھے اور اس خوف سے کہ اور زیادہ مشکلات پیدا نہ ہوں ، انھوں نے اس معاملے میں دخل نہ دیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے سزا ئے موت
اس واقعے کی فرعون اور اس کے اھل دربار کو اطلاع پہنچ گئی انھوں نے حضرت موسی سے اس عمل کے مکرر سرزد ہونے کو اپنی شان سلطنت کے لئے ایک تہدید سمجھا ۔ وہ باھم مشورے کے لئے جمع ہوئے اور حضرت موسی کے قتل کا حکم صادر کردیا ۔
(جھاں فرعون اور اس کے اھل خانہ رہتے تھے)وھاں سے ایک شخص تیزی کے ساتھ حضرت موسی کے پاس آیا اور انھیں مطلع کیا کہ آپ کو قتل کرنے کا مشورہ ہورھا ھے ، آپ فورا شھرسے نکل جائیں ، میں آپ کا خیر خواہ ہوں۔“[26]
یہ آدمی بظاھر وھی تھا جو بعد میں ”مومن آل فرعون “کے نام سے مشہور ہوا ،کھا جاتاھے کہ اس کا نام حزقیل تھا وہ فرعون کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا اور ان لوگوں سے اس کے ایسے قریبی روابط تھے کہ ایسے مشوروں میں شریک ہوتا تھا ۔
اسے فرعون کے جرائم اور اس کی کرتوتوں سے بڑا دکھ ہوتا تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کوئی شخص اس کے خلاف بغاوت کرے اور وہ اس کار خیر میں شریک ہوجائے ۔
بظاھر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یہ آس لگائے ہوئے تھا اور ان کی پیشانی میں من جانب اللہ ایک انقلابی ہستی کی علامات دیکھ رھا تھا اسی وجہ سے جیسے ھی اسے یہ احساس ہوا کہ حضرت موسیٰ خطرے میں ھیں ، نھایت سرعت سے ان کے پاس پہنچا اور انھیں خطرے سے بچالیا ۔
ھم بعد میں دیکھیں گے کہ وہ شخص صرف اسی واقعے میں نھیں ، بلکہ دیگر خطرناک مواقع پر بھی حضرت موسی کے لئے بااعتماد اور ھمدرد ثابت ہواحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس خبر کو قطعی درست سمجھا اور اس ایماندار آدمی کی خیرخواھی کو بہ نگاہ قدر دیکھا اور اس کی نصیحت کے مطابق شھر سے نکل گئے۔”اس وقت آپ خوف زدہ تھے اور ھر گھڑی انھیں کسی حادثے کا کھٹکا تھا“۔[27]
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے نھایت خضوع قلب کے ساتھ متوجہ الی اللہ ہوکر اس بلا کو ٹالنے کےلئے اس کے لطف وکرم کی درخواست کی :”اے میرے پروردگار : تو مجھے اس ظالم قوم سے رھائی بخش [28]
میں جانتاہوں کہ وہ ظالم اور بے رحم ھیں میں تو مظلوموں کی مدافعت کررھاتھا اور ظالموں سے میرا کچھ تعلق نہ تھا اور جس طرح سے میں نے اپنی توانائی کے مطابق مظلوموں سے ظالموں کے شرکو دور کیا ھے تو بھی اے خدائے بزرگ ظالموں کے شرکو مجھ سے دور رکھ ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پختہ ارادہ کرلیا کہ وہ شھرمدین کو چلے جائیں یہ شھر شام کے جنوب اور حجاز کے شمال میں تھا اور قلم رو مصر اور فراعنہ کی حکومت میں شامل نہ تھا ۔
مدین کھاں تھا؟
”مدین “ ایک شھر کانام تھا جس میں حضرت شعیب اور ان کا قبیلہ رہتا تھا یہ شھر خلیج عقبہ کے مشرق میں
تھا (یعنی حجاز کے شمال اور شامات کے جنوب میں )وھاں کے باشندے حضرت اسماعیل (ع) کی نسل سے تھے وہ مصر، لبنان اور فلسطین سے تجارت کرتے تھے آج کل اس شھر کانام معان ھے [29]
نقشے کو غور سے دبکھیں تو معلوم ہوتا ھے کہ اس شھر کا مصر سے کچھ زبادہ فاصلہ نھیں ھے،اسی لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام چند روز میں وھاں پہنچ گئے۔
ملک اردن کے جغرافیائی نقشہ میں، جنوب غربی شھروں میں سے ایک شھر” معان “ نام کا ملتا ھے ، جس کا محل وقوع ھمارے مذکورہ بالا بیان کے مطابق ھے ۔
لیکن وہ جوان جو محل کے اندار نازو نعم میں پلا تھا ایک ایسے سفر پر روانہ ہو رھا تھا جیسے کہ سفر اسے کبھی زندگی بھر پیش نہ آیا تھا۔
اس کے پاس نہ زادراہ تھا، نہ توشہٴ سفر، نہ کوئی سواری ، نہ رفیق راہ اور نہ کوئی راستہ بتانے والا ،ھردم یہ خطرہ لاحق تھا۔
کہ حکومت کے اھلکار اس تک پہنچ جائیں اور پکڑکے قتل کردیں اس حالت میں ظاھر ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کیا حال ہوگا ۔
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ مقدر ہوچکا تھا کہ وہ سختی اور شدت کے دنوں کو پیچھے چھوڑدیں اور قصرفرعون انھیں جس جال میں پھنسانا چاہتا تھا۔
اسے توڑکر باھر نکل آئیں اور وہ کمزور اور ستم دیدہ لوگوں کے پاس رھیں ان کے درد وغم کا بہ شدت احساس کریں ور مستکبرین کے خلاف ان کی منفعت کے لئے بحکم الٰھی قیام فرمائیں۔
بعض اھل تحقیق نے اس شھر کی وجہ تسمیہ بھی لکھی ھے کہ حضرت ابراھیم (ع)کا ایک بیٹا جس کا نام ” مدین “ تھا اس شھر میں رہتا تھا۔
اس طویل ، بے زادو راحلہ اور بے رفیق ورہنما سفر میں ایک عظیم سرمایہ ان کے پاس تھا اور وہ تھا ایمان اور توکل برخدا ۔
”لہٰذا جب وہ مدین کی طرف چلے تو کھا : خدا سے امید ھے کہ وہ مجھے راہ راست کی طرف ہدایت کرے گا“۔[30]
ایک نیک عمل نے موسیٰ (ع) پر بھلائیوں کے دروازے کھول دئیے
اس مقام پر ھم اس سرگزشت کے پانچوں حصے پر پہنچ گئے ھیں اور وہ موقع یہ ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام شھرمدین میں پہنچ گئے ھیں ۔
یہ جوان پاکباز انسان کئی روز تک تنھا چلتا رھا یہ راستہ وہ تھا جو نہ کبھی اس نے دیکھا تھا نہ اسے طے کیا تھا بعض لوگوں کے قول کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام مجبور تھے کہ پابرہنہ راستہ طے کریں، بیان کیا گیا ھے کہ مسلسل آٹھ روز تک چلتے رھے یھاں تک کہ چلتے چلتے ان کے پاؤں میں چھالے پڑگئے ۔
جب بھوک لگتی تھی تو جنگل کی گھاس اور درختوں کے پتے کھالیتے تھے ان تمام مشکلات اور زحمات میں صرف ایک خیال سے ان کے دل کوراحت رہتی تھی کہ انھیں افق میں شھرمدین کا منظر نظر آنے لگا ان کے دل میں آسود گی کی ایک لھر اٹھنے لگی وہ شھر کے قریب پہنچے انہوں نے لوگوں کا ایک انبوہ دیکھا وہ فورا سمجھ گئے کہ یہ لوگ چرواھے ھیں کہ جو کنویں کے پاس اپنی بھیڑوں کو پانی پلانے آئے ھیں ۔
”جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کنویں کے قریب آئے تو انھوں نے وھاں بہت سے آمیوں کو دیکھا جو کنویں سے پانی بھر کے اپنے چوپایوں کو پلارھے تھے،انھوں نے اس کنویں کے پاس دو عورتوں کو دیکھا کہ وہ اپنی بھیڑوں کو لئے کھڑی تھیں مگر کنویں کے قریب نھیں آتی تھیں“۔ [31]
ان باعفت لڑکیوں کی حالت قابل رحم تھی جو ایک گوشے میں کھڑی تھیں اور کوئی آدمی بھی ان کےساتھ انصاف نھیں کرتا تھا چرواھے صرف اپنی بھیڑوں کی فکر میں تھے اور کسی اور کو موقع نھیں دیتے تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لڑکیوں کی یہ حالت دیکھی تو ان کے نزدیک آئے اور پوچھا :
” تم یھاں کیسے کھڑی ہو“۔[32]
تم آگے کیوں نھیں بڑھتیںاور اپنی بھیڑوں کو پانی کیوں نھیں پلاتیں ؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ حق کشی ، ظلم وستم ، بے عدالتی اور مظلوموں کے حقوق کی عدم پاسداری جو انھوں نے شھر مدین میں دیکھی، قابل برداشت نہ تھی ۔
مظلوموں کو ظالم سے بچانا ان کی فطرت تھی اسی وجہ سے انھوں نے فرعون کے محل اور اس کی نعمتوں کو ٹھکرادیا تھا اور وطن سے بے وطن ہوگئے تھے وہ اپنی اس روش حیات کو ترک نھیں کرسکتے تھے اور ظلم کو دیکھ کر خاموش نھیں رہ سکتے تھے ۔
لڑکیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جواب میں کھا :” ھم اس وقت تک اپنی بھیڑوں کو پانی نھیں پلاسکتے، جب تک تمام چرواھے اپنے حیوانات کو پانی پلاکر نکل نہ جائیں “۔[33]
ان لڑکیوںنے اس بات کی وضاحت کے لئے کہ ان باعفت لڑکیوں کے باپ نے انھیں تنھا اس کام کے لئے کیوں بھیج دیا ھے یہ بھی اضافہ کیا کہ ھمارا باپ نھایت ضعیف العمرھے ۔
نہ تو اس میں اتنی طاقت ھے کہ بھیڑوں کو پانی پلاسکے اور نہ ھمارا کوئی بھائی ھے جو یہ کام کرلے اس خیال سے کہ کسی پر بارنہ ہوں ھم خود ھی یہ کام کرتے ھیں ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ باتیں سن کر بہت کوفت ہوئی اور دل میں کھا کہ یہ کیسے بے انصاف لوگ ھیں کہ انھیں صرف اپنی فکر ھے اور کسی مظلوم کی ذرا بھی پرواہ نھیں کرتے ۔
وہ آگے آئے ،بھاری ڈول اٹھایا اور اسے کنوئیں میں ڈالا، کہتے ھیں کہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا کہ چند آدمی مل کر اسے کھینچ سکتے تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے قوی بازوؤں سے اسے اکیلے ھی کھینچ لیا اور ان دونوں عورتوں کی بھیڑوں کو پانی پلادیا “۔[34]
بیان کیا جاتاھے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کنویں کے قریب آئے اورلوگوں کو ایک طرف کیا تو ان سے کھا:” تم کیسے لوگ ہو کہ اپنے سوا کسی اور کی پرواہ ھی نھیں کرتے “۔
یہ سن کر لوگ ایک طرف ہٹ گئے اور ڈول حضرت موسی کے حوالے کرکے بولے :
” لیجئے، بسم اللہ، اگرآپ پانی کھینچ سکتے ھیں،انھوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تنھاچھوڑ دیا،لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام اس وقت اگرچہ تھکے ہوئے تھے،اور انھیں بھوک لگ رھی تھی مگر قوت ایمانی ان کی مدد گار ہوئی ، جس نے ان کی جسمانی قوت میں اضافہ کردیا اور کنویں سے ایک ھی ڈول کھینچ کر ان دنوں عورتوں کی بھیڑوںکو پانی پلادیا ۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام سائے میں آبیٹھے اور بارگاہ ایزدی میں عرض کرنے لگے :” خداوند ا!تو مجھے جو بھی خیراور نیکی بخشے ، میں اس کا محتاج ہوں “۔[35]
حضرت موسیٰ علیہ السلام ( اس وقت ) تھکے ہوئے اور بھوکے تھے اس شھر میں اجنبی اور تنھاتھے اور ان کے لیے کو ئی سرچھپانے کی جگہ بھی نہ تھی مگر پھر بھی وہ بے قرار نہ تھے آپ کا نفس ایسا مطمئن تھا کہ دعا کے وقت بھی یہ نھیں کھا کہ” خدایا تو میرے لیے ایسا یاویسا کر“ بلکہ یہ کھا کہ : تو جو خیر بھی مجھے بخشے میں اس کا محتاج ہوں “ ۔
یعنی صرف اپنی احتیاج اور نیاز کو عرض کرتے ھیں اور باقی امور الطاف خداوندی پر چھوڑدیتے ھیں ۔
لیکن دیکھو کہ کار خیر کیا قدرت نمائی کرتا ھے اور اس میں کتنی عجیب برکات ھیں صرف ”لوجہ اللہ“ ایک قدم اٹھانے اور ایک نا آشنا مظلوم کی حمایت میں کنویں سے پانی کے ایک ڈول کھیچنے سے حضرت موسی کی زندگی میں ایک نیاباب کھل گیا اور یہ عمل خیران کے لیے برکات مادی اور روحانی دنیا بطور تحفہ لایا اور وہ ناپیدا نعمت (جس کے حصول کےلئے انھیں برسوں کوشش کرنا پڑتی ) اللہ نے انھیں بخش دی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے خوش نصیبی کا دور اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے یہ دیکھا کہ ان دونوں بہنوں میں سے ایک نھایت حیاسے قدم اٹھاتی ہوئی آرھی ھے اس کی وضع سے ظاھر تھا کہ اسکوایک جوان سے باتیں کرتے ہوئے شرم آتی ھے وہ لڑکی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب آئی اور صرف ایک جمکہ کھا : میرے والد صاحب آپ کو بلاتے ھیں تاکہ آپ نے ھماری بکریوں کے لئے کنویں سے جو پانی کھینچا تھا ، اس کا معاوضہ دیں “۔[36]
یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں امید کی بجلی چمکی گویاانھیں یہ احساس ہوا کہ ان کے لئے ایک عظیم خوش نصیبی کے اسباب فراھم ہورھے ھیں وہ ایک بزرگ انسان سے ملیں گے وہ ایک ایسا حق شناس انسان معلوم ہوتا ھے جو یہ بات پسند نھیں کرتا کہ انسان کی کسی زحمت کا، یھاں تک کہ پانی کے ایک ڈول کھیچنے کا بھی معاوضہ نہ دے یہ ضرور کوئی ملکوتی اور الٰھی انسان ہوگا یا اللہ ! یہ کیسا عجیب اور نادر موقع ھے ؟
بیشک وہ پیر مرد حضرت شعیب(ع) پیغمبر تھے انہوں نے برسوں تک اس شھر کے لوگوں کو” رجوع الی اللہ“کی دعوت دی تھی وہ حق پرستی اور حق شناسی کا نمونہ تھے ۔
جب انھیں کل واقعے کا علم ہوا تو انھوں نے تھیہ کرلیا کہ اس اجنبی جوان کو اپنے دین کی تبلیغ کریں گے ۔
حضرت موسیٰ(ع) جناب شعیب(ع) کے گھر میں
چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جگہ سے حضرت شعیب کے مکان کی طرف روانہ ہوئے ۔
بعض روایات کے مطابق وہ لڑکی رہنمائی کے لئے ان کے آگے چل رھی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے چل رھے تھے اس وقت تیز ہوا سے اس لڑکی کا لباس اڑرھا تھا اور ممکن تھا کہ ہوا کی تیزی لباس کو اس کے جسم سے اٹھادے حضرت موسیٰ(ع) کی پاکیزہ طبیعت اس منظر کو دیکھنے کی اجازت نھیں دیتی تھی،اس لڑکی سے کھا:میں آگے آگے چلتا ہوں،تم راستہ بتاتے رہنا۔
جب جناب موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر پہنچ گئے ایسا گھر جس سے نور نبوت ساطع تھا اور اس کے ھر گوشے سے روحانیت نمایاں تھی انھوں نے دیکھا کہ ایک پیر مرد، جس کے بال سفید ھیں ایک گوشے میں بیٹھا ھے اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خوش آمدید کھا اور پوچھا:
” تم کون ہو ؟ کھاں سے آرھے ہو ؟ کیا مشغلہ ھے ؟ اس شھر میں کیا کرتے ہو ؟ اور آنے کا مقصد کیا ھے ؟ تنھا کیوں ہو ؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پہنچے اور انھیں اپنی سرگزشت سنائی تو حضرت شعیب علیہ السلام نے کھا مت ڈرو، تمھیں ظالموں کے گروہ سے نجات مل گئی ھے ۔“ [37]
ھماری سرزمین ان کی حدود سلطنت سے باھر ھے یھاں ان کا کوئی اختیار نھیں چلتا اپنے دل میں ذرہ بھر پریشانی کو جگہ نہ دینا تم امن وامان سے پہنچ گئے ہو مسافرت اور تنھائی کا بھی غم نہ کرو یہ تمام مشکلات خدا کے کرم سے دور ہوجائیں گی ۔ حضرت مو سیٰ علیہ السلام فورا ًسمجھ گئے کہ انھیں ایک عالی مرتبہ استاد مل گیا ھے، جس کے وجود سے روحانیت ، تقویٰ ، معرفت اور زلال عظیم کے چشمے پھوٹ رھے ھیں اور یہ استاد ان کی تشنگی تحصیل علم ومعرفت کو سیراب کرسکتا ھے ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی یہ سمجھ لیا کہ انھیں ایک لائق اور مستعد شاگرد مل گیا ھے، جسے وہ اپنے علم ودانش اور زندگی بھر کے تجربات سے فیض یاب کرسکتے ھیں ۔
یہ مسلم ھے کہ ایک شاگرد کو ایک بزرگ اور قابل استاد پاکر جتنی مسرت ہوتی ھے استاد کو بھی ایک لائق شاگرد پاکر اتنی ھی خوشی ہوتی ھے۔
جناب موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب (ع) کے داماد بن گئے
اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے چھٹے دور کا ذکر شروع ہوتا ھے حضرت موسیٰ علیہ السلام جناب شعیب علیہ السلام کے گھر آگئے یہ ایک سادہ سادیھاتی مکان تھا، مکان صاف ستھرا تھا اور روحانیت سے معمور تھا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب شعیب علیہ السلام کو اپنی سرگزشت سنائی تو ان کی ایک لڑکی نے ایک مختصر مگر پر معنی عبارت میں اپنے والد کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ موسیٰ علیہ السلام کو بھیڑوں کی حفاظت کے لئے ملازم رکھ لیں وہ الفاظ یہ تھے :
اے بابا : آپ اس جوان کو ملازم رکھ لیں کیونکہ ایک بہترین آدمی جسے آپ ملازم رکھ سکتے ھیں وہ ایسا ہونا چاہئے جو قوی اور امین ہو اور اس نے اپنی طاقت اور نیک خصلت دونوں کا امتحان دے دیا ھے“ ۔[38]
جس لڑکی نے ایک پیغمبر کے زیرسایہ تربیت پائی ہوا سے ایسی ھی موٴدبانہ اور سوچی سمجھی بات کہنی چاہئے نیز چاہئے کہ مختصر الفاظ اور تھوڑی سی عبارت میں اپنا مطلب ادا کردے ۔
اس لڑکی کو کیسے معلوم تھا کہ یہ جوان طاقتور بھی ھے اور نیک خصلت بھی کیونکہ اس نے پھلی بارکنویں پر ھی اسے دیکھا تھا اور اس کی گزشتہ زندگی کے حالات سے وہ بے خبر تھی؟
اس سوال کا جواب واضح ھے اس لڑکی نے اس جوان کی قوت کو تو اسی وقت سمجھ لیا تھا جب اس نے ان مظلوم لڑکیوں کا حق دلانے کے لئے چرواہوں کو کنویں سے ایک طرف ہٹایا تھا اور اس بھاری ڈول کو اکیلے ھی کنویں سے کھینچ لیا تھا اور اس کی امانت اور نیک چلنی اس وقت معلوم ہوگئی تھی کہ حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر کی راہ میں اس نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایک جوان لڑکی اس کے آگے آگے چلے کیونکہ ممکن تھا کہ تیز ہوا سے اس کا لباس جسم سے ہٹ جائے ۔
علاوہ بریں اس نوجوان نے اپنی جو سرگزشت سنائی تھی اس کے ضمن میں قبطیوں سے لڑائی کے ذکر میں اس کی قوت کا حال معلوم ہوگیا تھا اور اس امانت ودیانت کی یہ شھادت کافی تھی کہ اس نے ظالموں کی ھم نوائی نہ کی اور ان کی ستم رانی پر اظھار رضا مندی نہ کیا ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی بیٹی کی تجویز کو قبول کرلیا انھوں نے موسیٰ(ع) کی طرف رخ کرکے یوں کھا :”میرا ارادہ ھے کہ اپنی ان دولڑکیوں میں سے ایک کا تیرے ساتھ نکاح کردوں، اس شرط کے ساتھ کہ تو آٹھ سال تک میری خدمت کرے “۔[39]
اس کے بعد یہ اضافہ کیا:” اگر تو آٹھ سال کی بجائے یہ خدمت دس سال کردے تو یہ تیرا احسان ہوگا مگر تجھ پر واجب نھیں ھے :“[40]
بھرحال میں یہ نھیں چاہتا کہ تم سے کوئی مشکل کام لوں انشاء اللہ تم جلد دیکھو گے کہ میں صالحین میں سے ہوں ، اپنے عہدوپیمان میں وفادار ہوں تیرے ساتھ ھرگز سخت گیری نہ کروں گا اور تیرے ساتھ خیراور نیکی کا سلوک کروں گا ۔[41]
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس تجویزاور شرط سے موافقت کرتے ہوئے اور عقد کو قبول کرتے ہوئے کھا : ” میرے اور آپ کے درمیان یہ عہد ھے “ ۔ البتہ” ان دومدتوں میں سے (آٹھ سال یا دس سال ) جس مدت تک بھی خدمت کروں ، مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہوگی اور میںاس کے انتخاب میں آزاد ہوں“۔ [42]
عہد کو پختہ اور خدا کے نام سے طلب مدد کے لئے یہ اضافہ کیا : ”جو کچھ ھم کہتے ھیں خدا اس پر شاہد ھے “۔[43]
اوراس آسانی سے موسیٰ علیہ السلام داماد شعیب(ع) بن گئے حضرت شعیب علیہ السلام کی لڑکیوں کا نام ” صفورہ “( یا صفورا ) اور ” لیا “بتایا جاتاھے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شادی ” صفورہ “ سے ہوئی تھی ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بہترین ایام
کوئی آدمی بھی حقیقتاً یہ نھیں جانتا کہ ان دس سال میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کیا گزری لیکن بلاشک یہ دس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے بہترین سال تھے یہ سال دلچسپ، شیریں اور آرام بخش تھے نیز یہ دس سال ایک منصب عظیم کی ذمہ داری کے لئے تربیت اور تیاری کے تھے ۔
درحقیقت اس کی ضرورت بھی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام دس سال کا عرصہ عالم مسافرت اور ایک بزرگ پیغمبر کی صحبت میں بسر کریں اور چرواھے کاکام کریں تاکہ ان کے دل ودماغ سے محلول کی ناز پروردہ زندگی کا اثر بالکل محوہوجائے حضرت موسی کو اتنا عرصہ جھونپڑیوں میں رہنے والوں کے ساتھ گزارنا ضروری تھا تاکہ ان کی تکالیف اور مشکلات سے آگاہ ہوجائے اور ساکنان محلول کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں۔
ایک اور بات یہ بھی ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسرار آفرینش میں غور کرنے اور اپنی شخصیت کی تکمیل کے لئے بھی ایک طویل وقت کی ضرورت تھی اس مقصد کے لئے بیابان مدین اور خانہٴ شعیب سے بہتر اور کو نسی جگہ ہوسکتی تھی ۔
ایک اولوالعزم پیغمبر کی بعثت کوئی معمولی بات نھیں ھے کہ یہ مقام کسی کو نھایت آسانی سے نصیب ہوجائے بلکہ یہ کہہ سکتے ھیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے بعد تمام پیغمبروں میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذمہ داری ایک لحاظ سے سب سے زیادہ اھم تھی اس لئے کہ :
روئے زمین کے ظالم ترین لوگوں سے مقابلہ کرنا، ایک کثیر الا فراد قوم کی مدت اسیری کو ختم کرنا ۔
اور ان کے اندر سے ایام اسیری میں پیدا ہوجانے والے نقائص کو محو کرنا کوئی آسان کام نھیں ھے ۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کی مخلصانہ خدمات کی قدر شناسی کے طور پر یہ طے کرلیا تھا کہ بھیڑوں کے جو بچے ایک خاص علامت کے ساتھ پیداہوں گے، وہ موسیٰ علیہ السلام کو دیدیں گے،اتفاقاًمدت مو عود کے آخری سال میں جبکہ موسیٰ علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام سے رخصت ہو کر مصر کو جانا چاہتے تھے تو تمام یا زیادہ تر بچے اسی علامت کے پیدا ہوئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی انھیں بڑی محبت سے موسیٰ علیہ السلام کو دےدیا ۔
یہ امر بدیھی ھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ساری زندگی چرواھے بنے رہنے پر قناعت نھیں کرسکتے تھے ھر چند ان کے لئے حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس رہنا بہت ھی غنیمت تھا مگر وہ اپنا یہ فرض سمجھتے تھے کہ اپنی اس قوم کی مدد کے لئے جائیں جو غلامی کی زنجیروں میں گرفتارھے اور جھالت نادانی اور بے خبری میں غرق ھے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنا یہ فرض بھی سمجھتے تھے کہ مصر میں جو ظلم کا بازار گرم ھے اسے سرد کریں،طاغوتوںکو ذلیل کریں اور توفیق الٰھی سے مظلوموں کو عزت بخشیں ان کے قلب میں یھی احساس تھا جو انھیں مصر جانے پر آمادہ کررھا تھا ۔
آخرکار انھوں نے اپنے اھل خانہ، سامان واسباب اور اپنی بھیڑوں کو ساتھ لیا اوراس وقت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ان کی زوجہ کے علاوہ ان کا لڑکا یا کوئی اور اولاد بھی تھی، اسلامی روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ھے تو ریت کے ” سفر خروج “ میں بھی ذکر مفصل موجود ھے علاوہ ازیں اس وقت ان کی زوجہ امید سے تھی ۔
وحی کی تابش اول
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مدین سے مصر کو جارھے تھے تو راستہ بھول گئے یا غالبا ًشام کے ڈاکوؤں کے ھاتھ میں گرفتار ہوجانے کے خوف سے بوجہ احتیاط رائج راستے کو چھوڑکے سفر کررھے تھے ۔
بھرکیف قرآن شریف میں یہ بیان اس طور سے ھے کہ :”جب موسیٰ علیہ السلام اپنی مدت کو ختم کرچکے اور اپنے خاندان کو ساتھ لے کر سفر پر روانہ ہوگئے تو انھیں طور کی جانب سے شعلہ آتش نظر آیا ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے اھل خاندان سے کھا :“ تم یھیں ٹھھرو“ مجھے آگ نظر آئی ھے میں جاتاہوں شاید تمھارے لئے وھاں سے کوئی خبرلاؤں یا آگ کا ایک انگارالے آؤں تاکہ تم اس سے گرم ہوجاؤ“[44]
”خبر لاؤں“ سے یہ معلوم ہوتا ھے کہ وہ راستہ بھول گئے تھے اور ”گرم ہوجاؤ“یہ اشارہ کررھاھے کہ سرد اور تکلیف دہ رات تھی ۔
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زوجہ کی حالت کا کوئی ذکر نھیں ھے مگر تفاسیر اور روایات میں مذکورھے کہ وہ امید سے تھیں اور انھیں دروازہ ہورھا تھا اس لئے موسیٰ علیہ السلام پریشان تھے ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام جس وقت آگ کی تلاش میں نکلے تو انھوں نے دیکھا کہ آگ تو ھے مگر معمول جیسی آگ نھیں ھے، بلکہ حرارت اور سوزش سے خالی ھے وہ نور اور تابندگی کا ایک ٹکڑا معلوم ہوتی تھی ،حضرت موسیٰ علیہ السلام اس منظر سے نھایت حیران تھے کہ ناگھاں اس بلندو پُر برکت سرزمین ِمیں وادی کے دا ھنی جانب سے ایک درخت میں سے آواز آئی: ”اے موسیٰ میں اللہ رب العالمین ہوں! “۔ [45]
اس میں شک نھیں کہ یہ خدا کے اختیار میں ھے کہ جس چیز میں چاھے قوت کلام پیدا کردے یھاں اللہ نے درخت میں یہ استعداد پیدا کردی کیونکہ اللہ موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کرنا چاہتا تھا ظاھر ھے کہ موسیٰ علیہ السلام گوشت پوست کے انسان تھے، کان رکھتے تھے اور سننے کے لئے انھیں امواج صوت کی ضروت تھی البتہ انبیاء علیھم السلام پر اکثر یہ حالت بھی گزری ھے کہ وہ بطور الھام درونی پیغام الٰھی کو حاصل کرتے رھے ھیں ،اسی طرح کبھی انھیں خواب میں بھی ہدایت ہوتی رھی ھے مگر کبھی وہ وحی کو بصورت صدا بھی سنتے رھے ھیں، بھر کیف حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو آواز سنی اس سے ھم ھرگز یہ نتیجہ نھیں نکال سکتے کہ خدا جسم رکھتا ھے ۔
اے موسیٰ!جوتی اتاردو
موسیٰ علیہ السلام جب آگ کے پاس گئے اور غور کیا تودیکھا کہ درخت کی سبز شاخوں میں آگ چمک رھی ھے اور لحظہ بہ لحظہ اس کی تابش اور درخشندگی بڑھتی جاتی ھے جو عصا ان کے ھاتھ میں تھا اس کے سھارے جھکے تاکہ اس میں سے تھوڑی سی آگ لے لیں تو آگ موسیٰ علیہ السلام کی طرف بڑھی موسیٰ علیہ السلام ڈرے اور پیچھے ہٹ گئے اس وقت حالت یہ تھی کہ کبھی موسیٰ علیہ السلام آگ کی طرف بڑھتے تھے اور کبھی آگ ان کی طرف، اسی کشمکش میں ناگھاں ایک صدا بلند ہوئی ،اور انھیں وحی کی بشارت دی گئی ۔
اس طرح ناقابل انکار قرائن سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یقین ہوگیا کہ یہ آواز خدا ھی کی ھے، کسی غیر کی نھیں ھے ۔
”میں تیرا پروردگار ہوں، اپنے جوتے اتاردے کیونکہ تو مقدس سرزمین ”طویٰ“ میں ھے “۔[46]
موسیٰ علیہ السلام کو اس مقدس سرزمین کے احترام کا حکم دیا گیا کہ اپنے پاؤں سے جوتے اتاردے اور اس وادی میں نھایت عجزوانکساری کے ساتھ قدم رکھے حق کو سنے اور فرمان رسالت حاصل کرے ۔
موسیٰ علیہ السلام نے یہ آوازکہ ” میں تیرا پروردگار ہوں “ سنی تو حیران رہ گئے اور ایک ناقابل بیان پر کیف حالت ان پر طاری ہوگئی، یہ کون ھے ؟ جو مجھ سے باتیں کررھا ھے ؟ یہ میرا پروردگارھے، کہ جس نے لفظ” ربک “ کے ساتھ مجھے افتخار بخشا ھے تاکہ یہ میرے لئے اس بات کی نشاندھی کرے کہ میں نے آغاز بچپن سے لے کر اب تک اس کی آغوش رحمت میں پرورش پائی ھے اور ایک عظیم رسالت کے لئے تیارکیا گیا ہوں ۔“
حکم ملاکہ پاؤں سے اپنا جوتا اتار دو، کیونکہ تو نے مقدس سرزمین میں قدم رکھا ھے وہ سرزمین کہ جس میں نور الٰھی جلوہ گرھے ، وھاں خدا کا پیغام سننا ھے ، اور رسالت کی ذمہ داری کو قبول کرنا ھے، لہٰذا انتھائی خضوع اور انکساری کے ساتھ اس سرزمین میں قدم رکھو ،یہ ھے دلیل پاؤں سے جوتا اتارنے کی ۔
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے ،حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے اس واقعہ سے متعلق ایک عمدہ مطلب نقل ہوا ھے ،آپ فرماتے ھیں :
جن چیزوں کی تمھیں امید نھیں ھے ان کی ان چیزوں سے بھی زیادہ امید رکھو کہ جن کی تمھیں امید ھے کیونکہ موسی بن عمران ایک چنگاری لینے کے لئے گئے تھے لیکن عہدہٴ نبوت ورسالت کے ساتھ واپس پلٹے یہ اس بات کی طرف اشارہ ھے کہ اکثر ایسا ہوتا ھے کہ انسان کسی چیز کی امید رکھتا ھے مگر وہ اسے حاصل نھیں ہوتی لیکن بہت سی اھم ترین چیزیں جن کی اسے کوئی امید نھیں ہوتی لطف پروردگار سے اسے مل جاتی ھیں ۔
-----------
[1] سورہٴ قصص آیت۷۔
[2] از دیوان پروین اعتصامی۔
[3] سورہ قصص آیت ۸۔
[4] قصص آیت ۹۔
[5] سورہٴ قصص آیت ۹۔
[6] سورہٴ قصص آیت۱۰۔
[7] سورہٴ قصص آیت۱۱۔
[8] سورہٴ قصص آیت۱۱۔
[9] سورہٴ قصص آیت۱۲۔
[10] سورہٴ قصص آیت۱۲۔
[11] سورہٴ قصص آیت ۱۳۔
[12] سورہٴ شعراء آیت۱۸۔
[13] اس واقعہ کی تفصیل آئندہ آئے گی۔
[14] سورہٴ قصص آیت ۱۸۔
[15] سورہٴ قصص آیت ۱۵۔
[16] سورہ قصص آیت۱۵۔
[17] سورہ قصص آیت۱۵۔
[18] سورہ قصص آیت۱۵۔
[19] سورہ قصص آیت۱۵ ۔
[20] سورہ قصص آیت ۱۷
[21] کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ کا م مقام عصمت کے خلاف نھیں ھے ؟
مفسرین نے ، اس قبطی اور بنی اسرائیل کی باھمی نزاع اور حضرت موسی کے ھاتھ سے مرد قبطی کے مارے جانے کے بارے میں بڑی طویل بحثیں کی ھیں درحقیقت یہ معاملہ کوئی اھم اور بحث طلب تھا ھی نھیں کیونکہ ستم پسند وابستگان فرعون نھایت بے رحم اور مفسد تھے انہوں نے بنی اسرائیل کے ہزاروں بچوںکے سرقلم کیے اور بنی اسرائیل پر کسی قسم کا ظلم کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اس جہت سے یہ لوگ اس قابل نہ تھے کہ بنی اسرائیل کےلئے ان کا قتل احترام انسانیت کے خلاف ہو ۔
البتہ مفسرین کے لئے جس چیزنے دشواریاں پیدا کی ھیں وہ اس واقعے کی وہ مختلف تعبیرات ھیں جو خود حضرت موسی نے کی ھیں چنانچہ وہ ایک جگہ تو یہ کہتے ھیں:
”ھذا من عمل الشیطان “۔
”یہ شیطانی عمل ھے “۔
اور دوسری جگہ یہ فرمایا:
”رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی “۔
”خدایامیں نے اپنے نفس پر ظلم کیا تو مجھے معاف فرمادے “۔
جناب موسیٰ علیہ السلام کی یہ دونوں تعبیرات اس مسلمہ حقیقت سے کیونکر مطابقت رکھتی ھیں کہ :
عصمت انبیا ء کا مفہوم یہ ھے کہ انبیا ء ماقبل بعثت اور ما بعد عطائے رسالت ھر دو حالات میں معصوم ہوتے ھیں “ ۔
لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس عمل کی جو توضیح ھم نے آیات فوق کی روشنی میں پیش کی ھے ، اس سے ثابت ہوتا ھے کہ حضرت موسی سے جو کچھ سرزد ہوا وہ ترک اولی سے زیادہ نہ تھا انھوں نے اس عمل سے اپنے آپ کو زحمت میں مبتلاکرلیا کیونکہ حضرت موسی کے ھاتھ سے ایک قبطی کا قتل ایسی بات نہ تھی کہ وابستگان فرعون اسے آسانی سے برداشت کرلیتے۔
نیز ھم جانتے ھیںکہ ”ترک اولیٰ“کے معنی ایسا کام کرنا ھے جو بذات خود حرام نھیں ھے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ھے کہ ”عمل احسن “ترک ہوگیا بغیر اس کے کہ کوئی عمل خلاف حکم الٰھی سرزد ہوا ہو؟
[22] سورہٴ قصص آیت۱۵۔
[23] سورہٴ قصص آیت۱۶۔
[24] سورہ قصص آیت۱۹۔
[25] سورہ قصص آیت ۱۹۔
[26] سورہ قصص آیت ۱۹۔
[27] سورہ قصص آیت۲۱۔
[28] سورہ قصص آیت۲۱۔
[29] بعض لوگ کلمہ ” مدین “ کا اطلاق اس قوم پر کرتے ھیں جو خلیج عقیہ سے کوہ ٖسینا تک سکونت پذیر تھی توریت میں بھی اس قوم کو ” مدیان “کھا گیا ھے ۔
[30] سورہ قصص آیت ۲۲۔
[31] سورہ قصص آیت۲۳۔
[32] سورہ قصص آیت ۲۳۔
[33] سورہ قصص آیت ۲۴۔
[34] سورہ قصص آیت۲۴۔
[35] سورہ قصص آیت ۲۴۔
[36] سورہ قصص آیت ۲۵۔
[37] سورہٴ قصص آیت ۲۵۔
[38] سورہٴ قصص آیت ۲۶۔
[39] سورہ قصص آیت ۲۷ ۔
[40] سورہٴ قصص آیت ۲۷۔
[41] سورہٴ قصص آیت ۲۷۔
[42] سورہ قصص آیت ۲۸۔
[43] سورہ قصص آیت ۲۸۔
[44] سورہ قصص آیت۲۹۔
[45] سورہ قصص آیت ۳۰۔
[46] سورہٴ طہ آیت ۱۲۔