ایک دن امام حسین علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کی جانب آ رہے تھے کہ آنحضرت نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا ،انہیں اپنی آغوش میں بٹھایا اور فرمایا: بیشک حسین کاقتل مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا کر دے گاجو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی۔
بعد از آں، امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: میرے بابا قربان ہوں اس پر جو کشتہ اشک ہائے جاری ہیں۔
کہا: اے فرزند رسول خدا! کشتہ اشک ہائے جاری کا کیا مطلب ہے؟
فرمایا: کوئی مومن انہیں یاد نہیں کرے گا مگر اس کے آنسوں جاری ہو جائیں گے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: ہر قرن وصدی میں عادل لوگ دین کی پاسداری و حفاظت کی ذمہ داری کو اپنے کاندھوں پر لیتے ہیں اور اہل باطل کی تاویل، غلو کرنے والوں کی تحریف اور نادانوں کے کذب و افتراء کو اس طرح دین سے دور کرتے ہیں، جس طرح لوہار کی دھونکنی لوہے سے فالتو مواد کو جلا کر دور کردیتی ہے۔
ائمہ طاہرین علیہم السلام کی عزاداری کا قیام حیات بخش اکسیر کی طرح مکتب اہل بیت علیہم السلام کے تحفظ کا ایک بنیادی اور اہم ترین عامل ہے۔
اسی وجہ سے بزرگ علماء ان مجالس کے تحفظ کے لیے مکمل اہتمام کرتے اور کوشش کرتے رہے ہیں کہ انہیں انحرافات اور انتہا پسندی کے گزند سے دور رکھیں۔
قائد انقلاب اسلامی فرماتے ہیں: ’’بعض امور ایسے ہیں جن کی انجام دہی، لوگوں کو خدا اور دین سے قریب کرتی ہے۔ ان امور میں سے ایک یہی سنتی عزاداری ہے جو لوگوں کے دین سے زیادہ تقرب کا باعث بنتی ہے۔ یہ جو امام (خمینی) فرماتے تھے :’’ سنتی طریقے سے عزاداری منائیں‘‘ اسی تقرب کی وجہ سے ہے۔ عزاداری کی مجالس میں بیٹھنا، مصائب پڑھنا، رونا، سر و سینہ پیٹنا، جلوس اور ماتمی دستے نکالنا، ان امور میں سے ہے جو اہل بیت پیغمبر(ص) کے تئیں عام جذبات کو ابھارتے ہیں اور یہ بہت اچھی چیز ہے‘‘۔
سید الشہداء (ع)کی عزاداری کے درخشاں گوہر کے تحفظ اور اس کی اشاعت کی ذمہ داری ہمیشہ سے حوزہ ہائے علمیہ کے زعماء اور بزرگ علماء کے دوش پر رہی ہے۔ اسی وجہ سے روشن فکر علماء ہمیشہ اس سعی و تلاش میں رہے ہیں کہ آفتوں کو عزاداری کی مجالس سے دور کریں جو عوام کی جہالت یا دشمنوں کے پروپیگنڈوں کی وجہ سے ان گرانقدر مجلسوں کے دامن گیر ہوئی ہیں۔
قدیمی منابع کے مطابق، اسلامی سرزمین میں اس طرح کے اعمال پہلی بار بعض عثمانی علاقے کے صوفیوں کے ذریعے رائج ہوئے جو مکے سے واپسی پر کربلا ٹھہرے،۔ وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے وقت اپنی مخصوص تلواروں سے اپنے سروں پر ماتم کرتے تھے۔
لیکن ان سے قبل آرتھوڈوکس کے درمیان اس طرح کے افعال ہزاروں سال سے رائج تھے۔ شہید مطہری ایران میں قمہ زنی کے وارد ہونے کے حوالے سے لکھتے ہیں: قمہ زنی اور طبل و شیپور (ڈھول و باجے) قفقاز کے آرتھوڈوکس سے ایران میں داخل ہوئے اور چونکہ عوام کے احساسات و جذبات بھی ان چیزوں کو قبول کرنے کے لیے تیار تھے تو بجلی کے کرنٹ کی طرح یہ چیزیں ہر جگہ پھیل گئیں۔ عزاداری امام حسین علیہ السلام میں ان اعمال کے داخل ہونے اور پھیلنے کے مقابلے میں بزرگ علماء کا رد عمل شروع ہو گیا۔ علمائے ربانی کی تلاش و کوشش اس بات پر تھی کہ لوگوں کو اس طرح کے اعمال کے خرافات اور ان کے مکتب اہل بیت(ع) کے اصول و مبانی کے منافی ہونے کی نسبت آشنا کریں۔
تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات طے شدہ ہے کہ ایران میں قمہ زنی صفویہ دور سے پہلے بالکل رائج نہیں تھی شک و ترید صرف اس بات میں ہے کہ کیا قمہ زنی صفویہ دور حکومت میں شروع ہوئی یا صفویہ دور کے بعد قاجاریہ دور حکومت میں رائج ہوئی۔
اہل تشیع کے بزرگ عالم دین اور گرانقدر کتاب اعیان الشیعہ کے مولف ،مرحوم علامہ سید محسن امین اپنے رسالہ ''التنزیہ لاعمال الشبیہ'' میں شرعی منابع اور محکم دلائل سے استناد کرتے ہوئے استدلال و برہان سے ثابت کرتے ہیں کہ قمہ لگانا اور کچھ دوسرے اعمال جو عزاداری امام حسین علیہ السلام میں رائج ہیں نہ صرف یہ کہ ان کا کوئی ثواب نہیں بلکہ شریعت مقدسہ میں یہ اعمال بدعت اور خرافات کا مصداق ہیں۔
اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد کہ جس کا مقصد مذہبی اجتماعات کو غلط رسوم اور ناشائستہ اعمال، بدعتوں اور گمراہیوں سے پاک کرنا تھا جاہل لوگوں کا ایک گروہ بعض جانے پہچانے عناصر کے اکسانے پر اس قدر ان کے مخالف ہو گیا یہاں تک کہ ان کے بعض دوستوں نے علامہ کو عوامی انقلاب کے خطرے سے آگاہ کیا۔
آپ اس سلسلے میں کہتے ہیں: اس رسالے کے مقابلے میں بعض لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور شور شرابا مچا رہے ہیں اور جاہل عوام کو بھڑکا رہے ہیں انہوں نے سماج کے ناآشنا لوگوں کی اکثریت کے درمیان یہ شائع کر دیا ہے کہ فلاں شخص نے امام حسین(ع) کی عزاداری کو حرام کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مجھ پر دین سے خارج ہونے کی تہمت لگا دی۔
یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا یہاں تک کہ آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی ''قدس سرہ'' جو اس زمانے میں مذہبی ریاست اور مرجعیت تامہ کے مقام پر فائز تھے انہوں نے علامہ امین عاملی اور انکی بیدار کن کتاب کی حمایت میں فتویٰ صادر کیا اور کھل کر فرمایا: تلوار، زنجیر، طبل اور شیپور اور اس طرح کی چیزوں سے استفادہ کرنا کہ جو اجکل یوم عاشور کی عزاداری میں رائج ہو چکی ہیں قطعا حرام اور غیر شرعی ہے۔
اس فتوے نے نجف کو دوحصوں میں تقسیم کر دیا ،ایک ٹولے نے ان پر جو علامہ امین کے حامی تھے طعنہ زنی کرتے ہوئے انہیں بنی امیہ سے جوڑ دیا اور خود کو علویین کا نام دے کر مخالفت شروع کر دی۔ ان مخالفتوں کے ایک سال کے بعد علامہ امین نے عراق کا عزم کیا اور اس کے باوجود کہ ان کے بہت سارے دوستوں نے انہیں نجف اشرف جانے سے روکا لیکن آپ نجف اشرف چلے گئے۔ جعفر الخلیلی اپنی کتاب ’’ھکذا عرفتھم‘‘ میں لکھتے ہیں: نجف کے لوگ انکے استقبال کے لیے شہر سے باہر پہنچ گئے اس حال میں کہ سید ابو الحسن اصفہانی آگے آگے استقبال کے لیے جا رہے تھے۔
اسلامی ممالک میں غیر اسلامی ملکوں کے سفارتخانوں کی سرگرمیوں سے متعلق ہاتھ لگی بعض دستاویزات میں معمولی تحقیق کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ کے تہران اور بغداد میں سفارتخانے ہمیشہ عزاداری کی ان انجمنوں کی مالی امداد کرتے تھے جو قمہ زنی کے لئے تیار ہو جاتی تھی اور نفرت انگیز کیفیت کے ساتھ گلی کوچوں میں ظاہر ہوتی تھی ۔
ان رسومات کی ترویج کی راہ میں حمایت سے کم سے کم استعماری سیاست کا مقصد، علاقے میں استعماریت کے حضور کے لیے کوئی معقول وجہ فراہم کرنا تھا۔ حالیہ سالوں میں امریکہ میں ایک کتاب ’’ الہی مکاتب میں افتراق کا منصوبہ‘‘ کے عنوان سے سامنے آئی جس میں امریکہ کی خفیہ جاسوسی ایجنسی کے سابق رکن مائل برانٹ کے ساتھ تفصیلی گفتگو چھپی ہے وہ اس سلسلے میں کہتا ہے: طولانی عرصے کی تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شیعہ لوگ دیگر اسلامی مذاہب و مکاتب سے کئی گنا زیادہ فعال اور اپڈیٹ ہیں، اور نیز اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایران کے مذہبی لیڈر کی طاقت شہادت کے عنصر کی بدولت ایرانی انقلاب میں انتہائی موثر رہی ہے لہذا یہ طے پایا کہ شیعہ مذہب پر زیادہ ریسرچ کی جائے ۔اسی وجہ سے چالیس ملین ڈالر بجٹ اس کام کے لئے مخصوص کیا گیا۔ ایک اور مورد جس پر ہمیں کام کرنا تھا وہ عاشورائی ثقافت اور شہادت طلبی کا موضوع تھا کہ ہر سال شیعہ محرم کی عزاداری کا انعقاد کر کے ثقافت عاشورہ کو زندہ رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ طے کیا کہ بعض ان ذاکروں، نوحہ خوانوں اور مجالس منعقد کروانے والوں میں سے جو شہرت طلب اور مفاد پرست لوگ ہیں ان کی مالی حمایت کر کے شیعت کے عقائد، اس کی بنیادوں اور شہادت طلبی کی ثقافت کو ان کے درمیان کمزور کریں اور انحرافی چیزوں کو ان میں پیدا کریں اس طرح سے کہ شیعہ ایک جاہل اور خرافاتی ٹولہ دکھائی دے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد روشن فکری سے متاثر ایک قسم کی نہضت وجود میں آئی جس نے سنتی طریقے سے امام حسین (ع) کی عزاداری کے ساتھ مخالفت شروع کر دی۔ انقلاب اسلامی کے بانی امام خمینی(رہ) اس طرز تفکر کے مقابلے میں سختی سے کھڑے ہوئے اور اپنی کئی تقریروں میں مکتب اہل بیت(ع) کے تحفظ اور اس کی نشر و اشاعت میں عزاداری حسینی کی مجالس کے کردار کو واضح کیا اور اسی سنتی طریقے سے عزاداری امام حسین (ع) کے انعقاد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا: سید الشہداء کی مجلس، مکتب سید الشہداء کے تحفظ کے لیے ہے۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ سید الشہداء کے مصائب نہ پڑھیں وہ بالکل نہیں جانتے کہ مکتب سید الشہداء کیا تھا وہ نہیں جانتے کہ یہ کیا چیز ہے؟ وہ نہیں جانتے کہ اس رونے اور ان مجالس نے اس مذہب کو مخفوظ رکھا ہے۔ چودہ سو سال سے ان مجلسوں نے، ان منبروں نے، اس آہ و بکا اور اس ماتم نے ہمیں محفوظ رکھا ہے۔ اس رونے نے مکتب سید الشہداء کو حیات دی ہے مصائب کے تذکرے نے سید الشہداء کے دین کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
عزاداری امام حسین علیہ السلام میں جسمانی اذیت و آزار کے بعض اعمال و مظاہر کے زور پکڑنے اور اس امکان کے پیدا ہو جانے کے بعد کہ دشمن اس طرح کی حرکتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے امام خمینی رحمة اللہ علیہ نے ایک حکم صادر فرما کر قمہ زنی سے بالکل روک دیا اور شبیہ خوانی کو مشروط کر دیا کہ اگر مذہب کی اہانت کا باعث نہ ہو تو جائز ہے۔
امام خمینی (رہ ) کے اس حکم کے بعد آیت اللہ شہید باقر الصدر، آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری اور دیگر بابصیرت علماء نے اس اقدام کی حمایت اور ان اعمال کی مذمت میں قدم اٹھایا۔ آیت اللہ شہید مطہری نے کتاب ''حوزہ و روحانیت ''میں اس بحث کو چھیڑا اور کہا کہ موجودہ شرائط و حالات میں قمہ زنی کے جواز پر کوئی عقلی و نقلی دلیل موجود نہیں ہے اور اس کا شمار تحریف کے کھلے اورآشکار مصادیق میں ہوتا ہے۔ کم سے کم اتنا تو ضرور ہے کہ موجودہ حالات میں یہ چیز شیعت پر انگلی اٹھائے جانے کا باعث بنتی ہے۔ وہ امور جو امام حسین علیہ السلام کے اہداف و مقاصد کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھتے جیسے بلیڈ مارنا اور تالا لگانا ہے اور قمہ لگانا بھی ایسا ہی ہے۔ یہ کام، غلط کام ہے۔ کچھ لوگ قمہ پکڑیں اور اپنے سروں پر ماریں خون نکالیں کہ کیا ہو جائے؟ یہ طریقہ کہاں عزاداری ہے؟
شہید سید عبد الکریم ہاشمی نژاد نے بھی شیعت کے چہرے کو مسخ کرنے میں قمہ زنی کے برے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
انتہائی افسوس کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں عقیدت ظاہر کرنے کے لیے کچھ ایسے کام انجام دئے جاتے ہیں جو آج کی دنیا کے سامنے شرمندگی اور حقارت کا باعث بنتے ہیں۔
امام خمینی (رح) کی رحلت کے بعد جب قمہ زنی نے پھر غیر معمولی طور پر زور پکڑ لیا اور دشمن کے میڈیا اور خبری اداروں کے لئے ان مناظر سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا راستہ ہموار ہو گیا تاکہ وہ اس طریقہ سے شیعت پر کاری ضرب لگا سکیں تو رہبر معظم انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے محرم الحرام کی آمد کے موقع پرکہکیلویہ و بویراحمد(یاسوج) کے علماء کے مجمع میں اپنی ایک تقریر میں مراسم عزاداری کو پوری شان و شوکت کے ساتھ منعقد کرنے اور قمہ زنی کے واقعہ کے گمراہ کن اور انحرافی ہونے پر زوردیا اور مطالبہ کیا کہ اس طرح کی توہین آمیز حرکات سے عزاداری کے مقدس پلیٹ فارم کو پاک کیا جائے۔
اس تقریر کے منتشر ہونے اور قمہ زنی کی حرمت پر مبنی آپ کی طرف سے حکم کے صادر ہو جانے کے بعد حوزہ علمیہ کے بعض مراجع اور فقہی شخصیتوں نے جدید فتوے صادر فرمائے اور بعض نے اپنے گذشتہ فتوے سے عدول کرتے ہوئے کہ جو قمہ زنی کے جواز یا استحباب پر تھا نیا فتوی دیا اور فرمایا کہ رہبر معظم انقلاب کے موجودہ حکم کی پیروی اور اس کا اتباع واجب و لازم ہے اور قمہ زنی حرام ہے ۔
شیخ الفقہاء و المجتہدین آیت اللہ العظمیٰ اراکی قدس سرہ جو آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی کی رحلت کے بعد عالم تشیع کے مرجع تقلید جانے جاتے تھے نے اس کے باوجود کہ اپنے پہلے فتوے میں قمہ زنی کو عزاداری حسینی کا مصداق قرار دیا ہوا تھا سے عدول کرتے ہوئے نیا فتویٰ صادر کیا اور ولی امر مسلمین کے حکم جو عزاداری محرم میں خرافات پر مبنی اعمال سے پرہیز کرنے کے لئے ہے، کی اطاعت کو لازمی قرار دے دیا۔
حضرت آیت اللہ فاضل لنکرانی نے بھی اپنے فتوے میں فرمایا: ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دنیا کے اکثر علاقوں میں اسلام اور شیعت کی طرف جو رجحان پیدا ہوا ہے اور اسلامی ایران کو عالم اسلام کا ام القریٰ پہچانا جانے لگا ہے اور ایرانی قوم کے اعمال و افعال اسلام کے حاکی اور نمونہ کے طور پر پیش کئے جاتے ہیں ان چیزوں کے پیش نظر ضروری ہے سید الشہداء ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری کے حوالے سے اس طرح عمل کیا جائے کہ آپ کے تئیں اور آپ کے مقصد کی نسبت زیادہ رجحان اور جھکاؤ پیدا ہو۔ واضح ہے کہ ایسے ماحول میں، قمہ زنی کا مسئلہ نہ صرف کوئی مثبت تاثیر نہیں رکھتا، بلکہ مخالفین کے نزدیک مورد قبول نہ ہونے اور ان کی سمجھ میں نہ آنے کی وجہ سے اس کے برے اثرات رونما ہوں گے۔ لہذا ضروری ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے دین کے پیروکار اس سے اجتناب کریں۔
آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی فرماتے ہیں: امام حسین(ع) کی عزاداری کا قیام بہترین شعائر میں سے ہے۔ لیکن وہ چیزیں جو بدن کو ضرر پہنچاتی ہیں یا مذہب کی توہین کا باعث بنتی ہیں ان سے پرہیز کیا جائے۔
آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی کی تقریر کا اقتباس:
’’وہ چیزیں جو دین کا حصہ نہیں ہیں انہیں دین کا جزء بناتے ہیں عزاداری میں مداخلت کرتے ہیں عزاداری کی شکل و صورت کو بدل دے رہے ہیں قمہ زنی کا مسئلہ جو کسی زمانے میں حتیٰ معصومین کے زمانے میں نہیں تھا اس کو لا کر رائج کیا جا رہا ہے تاکہ لوگوں کو غیروں کی نظروں میں بیہودہ ظاہر کریں قمہ زنی کے مناظر، جو بچے کے سر پر مارتا ہے، اپنے سر پر مارتا ہے، سفید لباس پورا خون سے لپ پت، کو دکھایا جا رہا ہے یہ جو میں کہہ رہا ہوں کہ غیروں کا ہاتھ اس میں ہے ایک موثق آدمی نے نقل کیا ہے۔ اس نے کہا کہ مشہد میں ایک سال ہم نے دیکھا کہ ایک بیرونی سفارتخانے کی طرف سے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے بعض عزاداروں کے درمیان نئے قمہ تقسیم کئے سب بہترین چمکدار، کیا اس غیر ملکی سفارتخانے کا دل ہمارے لیے جلا کہ ہم عزاداری کریں یا یہ دکھانا چاہ رہا ہے کہ یہ لوگ درندہ ہیں؟ سید الشہداء کی عزاداری تقرب الہی کے بہترین عمل میں سے ہے، کیمیا ہے، مشکلات کے حل ہونے کا ذریعہ ہے، لیکن اس کام سے پرہیز کریں جو لوگوں کو اسلام سے دور کرے‘‘۔
علمائے اعلام اور مراجع تقلید کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ ہر وہ عمل جو اسلام کی توہین کا باعث بنے حرام ہے اور اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ بطور مثال اس استفتاء کے بارے میں فقہاء کے جواب کہ جس میں عزاداری کے دوران بعض توہین آمیز حرکتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کی طرف توجہ کریں:
حضرت آیت اللہ بہجت نے اس استفتاء کے جواب میں جو عزاداری کے انعقاد کے طریقے اور ان کاموں کے بارے میں جو خونریزی کا باعث بنتے ہیں آپ سے پوچھا، توفرمایا:
اگر مقدسات کی توہین کا باعث بنیں تو جائز نہیں ہے۔
آیت اللہ سیستانی نے بھی ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا:
ایسے کاموں سے اجتناب کیا جائے جو عزاداری کو خدشہ دار کرتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ صافی گلپائیگانی بھی فرماتے ہیں:
وہ کام جو مذہب کی توہین کا سبب بنے اس سے پرہیز کیا جائے۔
وہ استفتاء جو آیت اللہ العظمیٰ خوئی سے شائع ہوا ہے اس میں اس طرح کے اعمال کے جواز کو عزاداری امام حسین علیہ السلام میں اس بات سے مشروط کیا ہے کہ وہ توہین اور ہتک حرمت کا باعث نہ بنیں۔ آپ ایک اور استفتاء میں ’’عزاداری میں توہین‘‘ جو اکثر مراجع کے فتووں میں بیان ہوا ہے کی تشریح میں فرماتے ہیں: توہین اور ہتک سے مراد وہ چیز ہے جو عرف میں مذہب کے ہلکا ہونے کا سبب بنے۔
آیت اللہ جوادی آملی نے عزاداری میں اس طرح کے اعمال کے ارتکاب کے حوالے سے فرمایا:
وہ چیز جو اسلام کی توہین اور عزاداری کی حرمت کو پامال کرنے کا سبب بنے جائز نہیں ہے امید کی جاتی ہے کہ قمہ زنی اور اس طرح کی چیزوں سے پرہیز کیا جائے۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ نوری ہمدانی نے بھی مقدمۃً عزاداری کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے تحریر کیا: ضروری ہے عزاداری کی رسومات میں زینبی کردار پیش کیا جائے یعنی عزاداری کو اسلامی منطق کے ساتھ جڑا ہونا چاہیے اور ہر وہ عمل جو دین مقدس کو غیر منطقی ظاہر کرے اس سے پرہیز کیا جانا چاہیے، محترم اور قابل قدر عزادار بجائے اس کے کہ چھوری کو اپنے سروں پر ماریں اس فکر میں رہیں کہ چھوری اسلام کے ان دشمنوں کے سروں پر ماریں جنہوں نے ان کی زمینوں کو غصب کیا اور انہیں کمزور بنایا ان کے مال و منال کو لوٹا اور آخر کار ہر روز ایک نئے حربے کے ساتھ ان کی اسلامی زندگی کو خطرے سے دوچار کر دیا۔
بعض مراجع تقلید جیسے آیت اللہ شیخ جواد تبریزی نے بھی عزاداری کی شرط کو اہل بیت(ع) پر ڈھائے گئے مصائب پر غم و اندوہ کا اظہار،نام دیتے ہوئے کہا: سید الشہداء اور اہل بیت(ع) و اصحاب اہل بیت (ع) کے غم میں قمہ زنی کا داخل ہونا یقینی نہیں ہے۔ لہذا سزاوار ہے مومنین ایسے امور انجام دیں جن کا عزاداری میں شامل ہونا یقینی ہے۔ جیسے گریہ کرنا، ماتم کرنا، جلوس عزا نکالنا، وغیرہ
رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی تقریر سے اقتباس :
’’خرافات کے مقابلے میں شجاعت سے کام لیں، البتہ خرافات کیا ہیں؟ یہ جاننا بھی ضروری ہے بعض لوگ ہیں جو دینی حقائق کو خرافات سمجھ کر ان کا انکار کر دیتے ہیں، ہمیں ان سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہ چیز جو قرآن اور معتبر و متقن سنت سے ثابت ہے وہ دین ہے چاہے کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے آپ کو اس کی حمایت کرنا ہے اس کا دفاع کرنا ہے وہ چیز جو معتبر دلیل سے ثابت نہیں ہے اور دین کے اصول اور مبانی کے ساتھ بھی تعارض نہیں رکھتی اس کے مقابلے میں خاموشی اختیار کریں۔ وہ چیز جو دین کے اصول سے تعارض رکھتی ہے اور اس کے پیچھے کوئی معتبر دلیل بھی نہیں ہے اس کی کاٹ کریں یہ خرافات ہیں خرافات کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہو جائیں جو چیز دین میں نہیں ہے اس کے مقابلے میں شجاعت کا مظاہرہ کریں لوگوں سے کہیں، ممکن ہے کوئی مانے ممکن ہے کوئی نہ مانے۔ شیعت میں آزاد فکری اور عقلانیت دو ایسے عناصر ہیں جو ہمارے لیے باعث افتخار ہیں، شیعت کے افکار عقلانی افکار ہیں‘‘۔
اگر آپ انٹرنٹ پر سرچ کریں اور گوگل پر لفظ شیعہ لکھیں تو سب سے پہلی تصویر جو سامنے آئے گی وہ قمہ زنی کی تصویر ہو گی۔
یہ کام ویڈیو پر بھی اور تصویر پر بھی تکرار ہوتا ہے یعنی مووی اور پکچر دونوں میں، مثال کے طور پر اگر آپ لفظ شیعہ سے ویڈیو سرچ کریں گے تو سب سے پہلی چیز جو سامنے آئے گی وہ اس فلم کی تصویر ہے جس میں آیا ہے wake up Europe (یورپ والو جاگو!)۔ اس کا مقصد یورپ والوں کو شیعوں کے خلاف بیدار کرنا ہے۔
یہ فلم جو ایک معتبر سائٹ ’’یوٹیوپ‘‘ سے دریافت کی گئی ہے اس میں یورپ کے تاریخی تمدن کی تصویر دکھانے کے بعد یہ عبارت نہایت موٹے قلم سے اسکرین پر نمودار ہوتی ہے۔ '' یورپ والوں جاگو!'' اس کلیپ کے بعد قمہ زنی کے مناظر کو جو معلوم ہوتا ہے کہ یورپ کے کسی شہر میں انجام پائے ہوں ان کو دکھایا جاتا ہے اور کلیپ کے آخر تک کہ جس میں یورپ میں قمہ زنی کے قابل نفرت مناظر دکھائے جاتے ہیں یہ جملہ دکھائی دیتا ہے Soon at your favorite city یعنی جلدی یہ مناظر آپ کے پسندیدہ شہر میں بھی دکھائی دیں گے اگر آپ بیدار نہ ہوئے تو!
بی۔بی۔سی۔ عربی میں کہ جسے بی بی سی عربیک ڈاٹ کام سے انٹرنٹ پر کھولا جاسکتا ہے مختلف ممالک میں قمہ زنی کے مناظر دکھائے جاتے ہیں ایک سائٹ میں کہ جو انگریزی کی ہے قمہ زنی کی تصویر دکھائی گئی ہے جس میں امریکی تلوار دکھائی گئی ہے جس پر لکھا ہے U.S.A.Saber اور سائٹ کے پہلے صفحہ پر ہے۔
کچھ اور تبلیغاتی سائٹیں کہ جن میں قمہ زنی کے مسئلہ کو چھیڑا گیا ہے وہابیوں کی سائیٹیں ہیں جو اس افراطی مذہب کی تبلیغ کرتی ہیں۔
شیعہ مخالف سایٹ '' الفرقان'' میں جسے وہابی چلاتے ہیں قمہ زنی کے بھیانک مناظر کو دکھانے کے بعد پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ یہ عمل عاشور کے دن شیعوں کے شعائر میں سے ہے اور اس طرح انہوں نے شیعہ مذہب پر سخت اعتراض کیا ہے۔
حضرت آیة اللہ العظمیٰ خامنہ ای حفظہ اللہ تعالیٰ کی تقریر سے اقتباس:
’’عاشورا کے واقعہ کو بازیچہ نہیں بنانا چاہیۓ کہ جس کی مرضی آئے اس میں کسی نہ کسی خرافات کا اضافہ کر دے عزاداری کے نام پر نامعقول کام کرے۔ یہ نہیں ہونا چاہیۓ ۔ یہ امام حسین علیہ السلام کی طرفداری نہیں ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی عزداری میں انسان کو ایسا موقف اختیار کرنا چاہیۓ کہ اس میں تبیین وبیان ہو، آگاہ سازی ہو لوگوں کا ایمان محکم کیا جائے ان کے اندر روح تدین کو وسیع کیا جائے۔ دینی شجاعت و غیرت کو ان کے اندر زیادہ کیا جائے، ان سے لاپرواہی، مدہوشی ،بے حالی اور بے کیفی کی حالت کو دور کیا جائے، یہ ہے قیام امام حسین کا مطلب اور عزاداری امام حسین (ع) کو منانے کا طریقہ ہمارے زمانے میں۔ لہٰذا عزاداری زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی ‘‘۔
تحقیق: دفتر فرہنگی فخر الآئمہ علیھم السلام
ترجمہ: سید افتخار علی جعفری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔