امام زین العابدین علیہ السلام روحانیت و معنویت کے سرخیل ہیں۔ ان کی زیارت گویا حقیقتِ اسلام کی زیارت ہے۔ آپٴ کی نمازیں‘ روح کی پرواز ہوتی تھی اور آپٴ پورے خضوع و خشوع کے ساتھ بارگاہِ پروردگار میں کھڑے ہوتے تھے۔ آپٴ محبت کے پیغام بر تھے۔ جب کبھی کوئی ایسا غریب و بے کس نظر آتا جو دوسروں کی توجہ سے محروم ہوتا تو اس کی دلجوئی کرتے اور اسے اپنے گھر لے جاتے۔
ایک دن آپٴ نے چند لوگوں کو دیکھا جو جذام کے مرض میں مبتلا تھے اور لوگ انہیں دھتکار رہے تھے، آپٴ انہیں اپنے گھر لے گئے اور ان کا خیال رکھا۔ امامٴ کا شریعت کدہ غریبوں، یتیموں اور بے کسوں کے لئے پناہ گاہ تھا۔ (سیری در سیرہ ائمہ اطہار، شہید مطہری) مدینہ منورہ میں شورش کرنے والوں نے جب بنو امیہ کو وہاں سے نکال باہر کیا تو مروان، جو کہ امامٴ کا جانی دشمن تھا، اس نے امامٴ سے درخواست کی کہ اس کے خاندان کو اپنے گھر میں پناہ دے دیں۔ امامٴ نے اپنی بزرگواری سے اس کی درخواست کو قبول کرلیا۔ چنانچہ جس دور میں مدینہ منورہ قتل و غارت کا گڑھ بنا ہوا تھا، امامٴ کا گھر بے پناہوں کی پناہ گاہ تھا اور متعدد خاندان آپٴ کی پناہ میں آئے ہوئے تھے اور امامٴ نے شورش ختم ہونے تک ان کی مہمان نوازی فرمائی۔ (اعیان الشیعہ، محسن الامین جلد ١)
امامٴ کے القاب:
سید العابدین، زین العابدین، سید المتقین، امام المومنین، سجاد اور زین الصالحین، یہ چوتھے امامٴ کے چند القاب ہیں، جن میں سے زین العابدین اور سجاد کو زیادہ شہرت ملی۔ یہ ایسے القاب نہیں ہیں جو تمام عرب اپنے بچوں کو ولادت کے وقت ہی یا بچپن میں دے دیا کرتے تھے۔ بلکہ یہ القاب قدر شناس جوہریوں اور انسان کی تلاش میں سرگرداں لوگوں نے آپٴ کو دیئے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو اس تاریک دور میں ظالموں کے ہاتھوں پریشان تھے اور امامٴ کی ذات میں ان کو ایک ایسا شخص دکھائی دیتا تھا جسے بڑے بڑے دانشور بھی روزِ روشن میں ڈھونڈ نہیں سکتے تھے۔
یہ القاب دینے والے اکثر لوگ نہ شیعہ تھے اور نہ وہ آپٴ کو خدا کی جانب سے برگزیدہ امام مانتے تھے۔ اس کے باوجود جو صفات انہیں آپٴ کے اندر دکھائی دیتی تھیں، وہ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے ہر لقب مرتبہ کمال، درجہ ایمان، مرحلہ اخلاص و تقوی کی نشاندہی کرتا ہے نیز صاحبِ لقب پر لوگوں کے ایمان اور اعتماد کا بھی مظہر ہے کہ آپٴ ان خصوصیات کا حقیقی مظہر تھے اور اس بات پر سب متفق ہیں۔
امام زین العابدینٴ کے دور کے حالات اور ذمہ داریاں:
امام زین العابدینٴ کا دور بہت سخت اور دشوار تھا۔ یہاں تک کہ آپٴ خود فرماتے ہیں: ’’اگر کسی پر کفر کی تہمت لگائی جاتی تو یہ اس سے بہتر تھا کہ اس پر تشیع کا الزام لگایا جاتا۔‘‘ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج ٢) نیز فرمایا: ’’مکہ او ر مدینہ میں بیس لوگ ایسے نہیں ہیں جو ہم سے محبت کرتے ہوں۔‘‘ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد ٤)
آپٴ کے دور میں اموی خاندان لوگوں پر پوری طرح سے غالب تھا کہ لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنے کے علاوہ ان کے دین کی تحریف پر بھی تُل گئے تھے۔ چنانچہ صحابی رسول۰، جناب انس بن مالک گریہ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: ’’جو باتیں زمانِ رسول۰ میں موجود تھیں، ان میں سے کچھ بھی نہیں ملتا۔ جو چیزیں ہم نے رسول اللہ ۰ سے سیکھی ہیں ان میں سے صرف نماز بچی ہے کہ اس میں بھی بدعتیں پیدا ہوگئی ہیں۔‘‘ (امام سجاد قہرمان مبارزہ با تہاجم فرہنگی جلد ١) مشہور مورخ مسعودی کہتا ہے: ’’علیٴ بن الحسینٴ نے خفیہ طور پر تقیہ کے ساتھ اور انتہائی کٹھن دور میں امامت کی ذمہ داری سنبھالی۔‘‘ (اثبات الوصیہ، مسعودی جلد ٤) امامٴ نے دوراندیشی اور اعلی تدبیر اختیار کرتے ہوئے بہترین انداز سے کام کیا اور وحی کے روشن چراغ کو بجھنے سے بچایا۔ آپٴ نے آسمان سے نازل ہونے والے خالص دین کو طوفانِ حوادث کے درمیان سے صحیح سلامت نکال کر اگلی نسلوں کے حوالے کیا اور اہلبیتٴ کے نام کو زندہ رکھا۔ مناسب حالات فراہم نہ ہونے کی وجہ سے قیام سے پرہیز، دعا کے قالب میں عظیم ثقافتی کام کا بیڑہ اٹھانا، ہر مناسب موقع پر شعور کو جھنجھوڑنا، عزائے سید الشہدائٴ میں زار و قطار رونا ۔۔ حصولِ مقصد میں آپٴ کے کامیاب اقدامات کا ایک حصہ ہے۔
تہذیبی حملے کا زبردست مقابلہ اور امام سجادٴ:
دینِ اسلام کسی بھی دور میں تہذیبی حملوں سے محفوظ نہیں رہا اور نہ ہے۔ بعض اوقات بعض معصومین کے دور میں یہ حملے عروج پر پہنچ جاتے تھے اور ایسے ہی خطروں کا مقابلہ کرتے ہوئے عاشورا جیسا خونی معرکہ درپیش آجاتا تھا۔ امام سجادٴ بھی ایک ایسے دور میں زندگی گزار رہے تھے کہ جب اخلاقی اقدار اور خالص اسلامی تہذیب کو طاقِ فراموشی کے سپرد کیا جارہا تھا اور پست اقدار اور اخلاقی کمزوریاں جابجاپھیلی ہوئی تھی۔ امامٴ نے ان ناگوار حالات میں بھی دشمن کے لئے میدان کو خالی نہ چھوڑا۔ امامٴ نے علی الاعلان قیام سے پرہیز کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ دشمن ان کی جانب متوجہ نہ ہو جائے۔ اس کے بجائے، دھیمے اور خفیہ طریقے سے نیک انسانوں کی تربیت اور ان کو درست نظریات کی تعلیم نیز ان کو آنکھیں کھولنے کا پیغام دیتے ہوئے تہذیبی و ثقافتی حملے کا مقابلہ کیا اور اس تہذیبی حملے کے میدان میں کامیاب و کامران رہے۔ اس بارے میں ہم صرف ایک حوالہ پیش کریں گے یعنی صحیفہ کاملہ، جو کہ خدا مخالف اور غیراسلامی تہذیبوں کے حملوں کے مقابل صدیوں سے ہدایت کی تشنہ اور تکامل کی خواہاں روحوں کے لئے آبِ گوارا کی مانند ہے۔
امام کے قیام نہ کرنے کا سبب
عظیم لوگوں کی کامیابی کا ایک راز حالات سے آگاہی اور اپنے زمانے کی پہچان ہے۔ یہ حضرات اپنے اردگرد ہونے والے حالات و واقعات کا درست جائزہ لینے کے بعد اپنے رویے کا انتخاب کرتے ہیں۔ لہذا نہ ہمیشہ تحریک چلاتے ہیں اور نہ ہمیشہ صلح کی حالت میں رہتے ہیں۔ بلکہ زمانے کی مصلحت اور حالات کے تقاضے ان کے لئے جنگ یا صلح کومعین کرتی ہے۔
امام سجادٴ بھی اس قاعدے سے مستثنی نہیں تھے۔ آپٴ نے درست طور پر اور قابلِ ستائش انداز سے مصلحت کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ دین کی استقامت و پائداری کے لئے اب مقابلے کا انداز بدلنا ہوگا۔ درحقیقت معاشرے میں حکمفرما سخت وحشت انگیز اور آمرانہ فضا اور ظالم اموی حکومت کے سخت کنٹرول اور تسلط کی وجہ سے ہر قسم کی مسلحانہ تحریک کی شکست پہلے ہی سے واضح تھی اور کوئی معمولی سی بھی حرکت حکومتی جاسوسوں سے چھپ نہیں سکتی تھی۔
اسی بنا پر امامٴ یہ دیکھ رہے تھے کہ درست اور عاقلانہ طریقہ کار یہی ہے کہ مقابلہ کا انداز بدل دیا جائے اور دعا کے قالب میں ظالم کا مقابلہ کر کے اگلی نسلوں تک اپنا پیغام پہنچایا جائے۔ گویا امام سجادٴ اسی دردناک حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دعا کے قالب میں خدائے متعال سے عرض کرتے ہیں: (خدایا!) کتنے ہی ایسے دشمن تھے جنہوں نے شمشیر عداوت کو مجھ پر بے نیام کیا اور میرے لئے اپنی چھری کی دھا ر کو باریک اور اپنی تندی و سختی کی باڑ کو تیز کیا اور پانی میں میرے لئے مہلک زہروں کی آمیزش کی اور کمانوں میں تیروں کو جوڑ کر مجھے نشانہ کی زد پر رکھ لیا اور ان کی تعاقب کرنے والی نگاہیں مجھ سے ذرا غافل نہ ہوئیں اور دل میں میری ایذا رسانی کے منصوبے باندھتے اور تلخ جرعوں کی تلخی سے مجھے پیہم تلخ کام بناتے رہے۔‘‘ (صحیفہ کاملہ دعائے ٤٩)
امام سجادٴ نے آزادی کے ساتھ تحریک چلانے کے لئے حالات کو نامناسب دیکھتے ہوئے بالواسطہ مقابلہ کیا اور حقیقی اسلام کی ترویج اور استحکام کے لئے حکیمانہ سیاست اختیار کی جس کے بعض نکات درج ذیل ہیں:
١۔ عاشورائ کی یاد کو زندہ رکھنا:
امام حسینٴ اور ان کے اصحاب کی شہادت اموی حکومت کے لئے بہت مہنگی ثابت ہوئی تھی۔ رائے عامہ ان کے خلاف ہو گئی تھی اور اموی حکومت کا جواز خطرے میں پڑ گیا تھا۔ چنانچہ اس اندوہناک واقعے کی یاد کو تازہ رکھنے اور اس کے عظیم اثرات کے حصول کے لئے امامٴ شہدائے کربلا پر گریہ کرتے رہے اور ان کی یاد کو زندہ رکھتے ہوئے، گریہ کی صورت میں منفی مقابلہ جاری رکھا۔ اگرچہ یہ بہتے آنسو جذباتی بنیادوں پر استوار تھے لیکن اس کی اجتماعی برکات اور سیاسی آثار بھی بے نظیر تھے۔ یہاں تک کہ عاشورائ کے نام کی جاودانگی کا راز امام زین العابدینٴ کی اسی گریہ و زاری اور عزاداری کو قرار دیا جاسکتا ہے۔
٢۔ وعظ و نصیحت:
اگرچہ امام سجادٴ اپنے دور کے گھٹن آلود ماحول کی وجہ سے اپنے افکار و نظریات کو کھل کر بیان نہ کرسکے، لیکن ان ہی باتوں کو وعظ و نصیحت کی زبان سے ادا کر دیا کرتے تھے۔ ان مواعظ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ امامٴ حکمت کے ساتھ، لوگوں کو موعظہ کرتے ہوئے جو چیز چاہتے ان کو سکھا دیا کرتے تھے۔ اور اس دور میں درست اسلامی نظریات کی تعلیم کا بہترین انداز یہی تھا۔
٣۔ درباری علمائ کا سامنا اور ان سے مقابلہ:
درباری علمائ عوام الناس کے اذہان اور ان کے افکار کو فاسق و فاجر حکمرانوں کی جانب راغب کرتے تھے تاکہ حکومت کو قبول کرنے کے لئے رائے عامہ کو ہموار کیا جائے اور حکمران اس سے اپنے مفادات حاصل کر سکیں۔ بنابریں، امام سجادٴ گمراہی اور بربادی کی جڑوں سے مقابلہ کرتے ہوئے بنیادی سطح پر حقیقی اسلامی ثقافت کی ترویج کے لئے کوششیں کرتے تھے اور لوگوں کو ان جڑوں کے بارے میں خبردار کیا کرتے تھے جن سے ان ظالموں کو روحانی غذا ملتی تھی۔
٤۔ انکشافات کے لئے ہر مناسب موقع سے فائدہ اٹھانا:
امام سجادٴ کے دور میں تحریک کے لئے حالات مناسب نہ تھے، لیکن حالات کی سختی آپ کو مناسب مواقع پر حقائق کے انکشاف سے بازنہ رکھ سکے۔ بطورِ مثال اپنی اسیری کے دوران جب دربارِ یزید میں آپٴ کو کچھ دیر گفتگو کا موقع ملا، تو منبر پر جاکر فرمایا:
’’اے لوگو! جو مجھے نہیں پہچانتا میں اس سے اپنا تعارف کرواتا ہوں،میں مکہ و منی کا بیٹا ہوں، میں صفا و مروہ کا فرزند ہوں، میں فرزندِ محمد مصطفی ہوں کہ جن کا مقام سب پر واضح اور جس کی پہنچ آسمانوں تک ہے۔ میں علی مرتضی اور فاطمہ زہراٴ کا بیٹا ہوں۔۔ میں اس کا بیٹا ہوں جس نے تشنہ لب جان دی اور اس کا بدن خاکِ کربلا پر گرا۔
اے لوگو! خدائے متعال نے ہم اہلبیت کی خوب آزمائش کی ۔ کامیابی، عدالت اور تقوی کو ہماری ذات میں قرار دیا۔ ہمیں چھ خصوصیات سے برتری اور دوسرے لوگوں پر سرداری عطا فرمائی۔ حلم و علم، شجاعت اور سخاوت عنایت کی اور مومنین کے قلوب کو ہماری دوستی اور عظمت کا مقام اور ہمارے گھر کو فرشتوں کی رفت و آمد کا مرکز قرار دیا۔ ‘‘
(مناقب آل ابیطالبٴ، ابن شہر آشوب جلد ٤)