اردو
Wednesday 25th of December 2024
0
نفر 0

نبی(ص) کی احادیث میں تناقض

محقق کو بہت سی ایسی احادیث ملیں گی جو نبی(ص) کی طرف منسوب کی جاتی ہیں در حقیقت انھیں آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے گھڑلیا تھا اور لوگوں کو ان کا پابند بنادیا تھا اور زبردستی ان پر عمل کرواتے تھے یہاں تک کہ ان بے چاروں کا یہ اعتقاد بن گیا تھا کہ یہ نبی(ص) افعال اور ان کے اقوال ہیں۔
اسی وجہ سے ان گھڑی ہوئی حدیثوں میں تناقض ہے اور قرآن کے خلاف ہیں ، اس لئے اہلِ سنت کے علماء تاویل پر مجبور ہوئے اور کہا ایک مرتبہ رسول(ص) نے یہ فعل انجام دیا اور دوسری مرتبہ وہ فعل انجام دیا ۔ مثلا علمائے اہل سنت کہتے ہیں :ایک مرتبہ رسول(ص) نے نماز میں بسم اللہ ۔۔۔پڑھی اور ایک مرتبہ بغیر بسم اللہ ۔۔۔ کے نماز پڑھی اور ایک مرتبہ وضو میں پیروں کا مسح کیا اور ایک مرتبہ دوںوں پیروں کو دھویا ۔ اک مرتبہ نماز میں دونوں ہاتھ باندھے ، ایک مرتبہ دوںوں ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھی۔ یہاں تک کہ بعض علمائے اہل سنت نے تو یہ بھی کہدیا کہ رسول(ص) نے ایسا امّت کی آسانی کے لئے کیا تھا کہ وہ جس کو چاہئے انجام دے۔
یہ سفید جھوٹ ہے اور اسلام اس کی تردید کرتا ہے جس کے عقائد کی اساس کلمہ توحید اور عبادی توحید پر استوار ہے۔ یہاں تک کہ ظاہری چیزوں اور لباس میں بھی توحید و اتحاد ہے  چننچہ حج کے زمانہ میں محرِم (احرام باندھنے والے) کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ جیسا چاہئے مخصوص شکل رنگ کا لباس پہنے اسی طرح ماموم کو بھی الگ سے کوئی فعل انجام دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اسے حرکات و سکنات ، قیام ورکوع اور سجود وجلوس میں اپنے امام  کا اتباع کرتا ہے۔
اس لئے بھی یہ بات جھوٹی ہے کہ اہل سنت میں سے ائمہ طاہرین(ع) نے ان روایات کا انکار  کیا ہے اور وہ عبادات می شکل و  مضمون کے اختلاف کو قبول نہیں  کرتے تھے۔

جب ہم اہل سنت والجماعت  کی متناقض احادیث کی تحقیق کریں گے تو بہت ملیں گی ۔ انشاء اللہ ہم عبقریب انھیں ایک کتاب  کی صورت  میں پیش کریں گے۔
اور جیسا کہ ہماری عادت ہے یہاں بھی ہم ختصار کے ساتھ بعض حدیثوں کو مثال طور پر پیش کررہے ہیں تاکہ قاری و  محقق کو  یہ معلوم ہوجائے کہ اہل سنت والجماعت کے عقیدہ اور مذہب کی بنیاد کس چیز پر ہے۔
صحیح مسلم  اور جلال الدیں سیوطی کی شرح موطا میں انس بن مالک سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے رسول اللہ ۔ ابوبکر ، عمر اور عثمان کی اقتدا میں نماز پڑھی ہے لیکن میں نے  ان میں سے کسی کو نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے نہیں دیکھا۔
ایک روایت  میںہے کہ رسول اللہ بلند آواز سے بسم اللہ ۔۔۔۔نہیں پڑھتے تھے اور یہ حدیث انس قتادہ اور ثابت السنبانی وغیرہ سے مروی ہے اورہر ایک نے اس کی نسبت رسول (ص) کی طرف دی ہے مگر یہ کہ آپ(ص) کے لفظ کے سلسلہ میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ حیرانی اور دفاع کی صورت میں ان میںسے کوئی کہتا ہے کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہی نہیں تھے ،کوئی کہتا ہے  بلند آواز  سے نہیں پڑھتے تھے ، کوئی کہتا ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور بلند آواز سے پڑھتے تھے، کوئی کہتا ہے وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کبھی ترک نہیں کرتے تھے ، کوئی کہتا ہے وہ قرائت کی ابتداء الحمد للہ ربَ العالمین سے کرتے تھے۔
کہتے ہیں : ان  پراکندہ اقوال کے ہوتے ہوئے کوئی فقیہ کسی چیز پر حجت قائم نہیں کرسکتا ہے ۔ ( تنویر الحوالک ، شرح علی موطاء مالک ج۱، ص۱۰۳، ہم کہتے ہیں شکر خدا کہ انہی میں سے ایک نے گواہی دے دی کہا انکی احادیث میں اضطراب اور تناقض ہے اور اسی طرح یہ اعتراف بھی کیا کہ اس اضطراب کے ہوتے ہوئے کسی فقیہہ  کے لئے حجت قائم نہیں ہوسکتی ۔ حجت تو صرف ائمہ اطہار(ع) کے پاس ہے  کہ جنہوں نے کسی چیز میں اختلاف نہیں کیا۔)
لیکن جب آپ اسی کے راوی یعنی انس بن مالک جو کہ رسول(ص) کے ساتھ رہتے تھے کیونکہ

 آپ کے حجب تھے کی احادیث میں تناقض و اضطراب کی معرفت کا راز حاصل کرنا چاہیں گے تو دیکھیں گے کہ وہ ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ وہ ۔۔۔۔ رسول اللہ اور خلفائے ثلاثہ ۔۔۔ بسم اللہ الرّحمن الرّحیم نہیں پڑھتے تھے اور ایک مرتبہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اسے چھوڑا نہیں ۔
جیہاں ! یہ ایکغم انگریز حقیقت ہے کہ نقل حدیث میں اکثر صحابہ نے ان ہی کا اتباع کیا اور ہر ایک نے سیاسی مصلحت کے اقتضا ےکے مطابق اورا مراء کی مرضی کے موافق حدیثیں بیان کی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انس جنے بسم اللہ الرّحمن الرحیم نہ پڑھنے والی روایت اس وقت بیا ن کی جب بنی امیہ اور ان کے حکام و کارندے  ہر اس سنت کو محو کررہے تھے جس پر علی(ع) گامزن  تھے اور اسے زندہ رکھے ہوئے تھے۔
بنی امیہ کی سیاست کی بنیاد ہی علی(ع) کی مخالفت اور ان کے برخلاف عمل کرنے پر قائم تھی۔حضرت علی(ع)  کے بارے میں مشہور تھا کہ آپ(ع)  نمازوں میں یہاں تک اخفاتی نمازوں  می باآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھتے تھے۔
یہ ہمارا  یا شیعوں  کا دعوی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہم نے اہل سنت والجماعت کی کتابوں نے تصریحات سے لکھا ہے۔
امام نیشابوری نے انس بن مالک کی متناقض روایات بیان کر نے کے بعد، غرائب القرآن میں لکھا ہے کہ ان ( روایات)  پر ایک دوسری بھی تہمت ہے اور وہ یہ کہ علی( رضی اللہ عنہ) بآواز بلند بسم اللہ۔۔۔ پرھتے تھے جب بنی امیہ کا دور آیا تو انھوں علی ابن ابی طالب(ع) کے آثار کو مٹانے میں ایڑی چوٹیکا زور لگا دیا، شاید انس بن ملک ان سے ڈر گئے اور اس لئے ان ے اقوال پراگندہ ہوگئے ۔ ( تفسیر غرائب القرآن ، نیشاپوری، جو کہ تفسیر طبری کی ج۱، ص۷۷، کے حاشیہ پر  مرقوم ہے۔)
اسی سے ملتی جلتی بات شیخ ابوزہرہ نے کہی ہے: کہتے ہیں اموی حکومت نے علی(ع) کے

آثار میں سے قضاوت اور فتوؤں کو ضرور چھپایا ہے لیکن یہ ات معقول نہیں ہے کہ وہ منبروں سے علی پر لعنت کرتے اور یہ بھی معقول نہیں ہے کہ علماء کو آزاد چھوڑدیتے  کہ وہ لوگوں میں آپ(ع) کے علم اور اقوال و فتاوی نقل کریں خصوصا وہ چیزیں جو کہ اسلامی حکم کی اساس سے متصل ہوں۔
الحمد للہ کہ اس نے اہل سنت ہی کے بعض علما کی زبان سے حق کا اظہار کرادیا ہے اور انہون نے یہ اعترافکر لیا ہے کہ علی(ع) بآواز بلند بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنے کی کوشش کرتے تھے ۔
اس چیز سے ہم یہ  نتیجہ نکالتے ہیں کہ جس چیز نے علی(ع) کو بآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھنے پر ابھارا وہ یہ ہے کہ خلفا نے عمدا یا سہوا اسے چھوڑ دیا تھا اور اس سلسلہ میں لوگوں نے ان ( خلفا) کی اقتداء کر لی تھی اور یہ فعل ایک ایسی سنت بن گیا تھا جس کا اتباع ہورہا تھا۔ بے شک اخفاتی نماز میں بھی بآواز بلند بسم اللہ ۔۔۔ پڑھنے کی کوشش کیوں کی۔
پھر ہمیں انس بن مالک کی روایات سے چاپلوسی اور بنی امیہ کو راضی کرنے کی بو محسوس ہوتی ہے کہ جنہوں نے انس کو اموال میں ڈوبا دیا تھا اوران کے لئے عظم الشان محل تعمیر کرا دیا تھا ۔ انھیں بھی علی(ع)  سے دشمنی بھی ۔ طیر مشوی کے واقعہ سے ان کا بغض  ظاہر ہوگیا تھا چنانچہ جب نبی(ص) نے فرمایا : پروردگارا میرے پاس اسے بھیجدے جو تیرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے، تاکہ وہ اس پرندہ کو میرے ساتھ تناول کرے۔ علی(ع) تشریف لائے تو انس  نے آپ کو تین مرتبہ واپس کیا چوتھی بار رسول(ص)  کو معلوم ہوگیا تو انس سے فرمایا : تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ؟ اس نے کہا: میں چاہتا تھا کہ کوئی انصار میں سے آئے۔( حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے اور شیخیں کی شرط پر اسے صحیح  قرار دیا ہے ۔ ترمذی ج۲، ص۲۹۹، ریاض النفرہ ج۲، ص۱۶۰،  تاریخ بغداد ج۳، ص۱۷۱، کنز العمال ج۶، ص۴۰۶، خصائص نسائی ص۵، اسد الغابہ ج۴، ص۳۰)
اس صحابی کے لئے  تو اتنا ہی کافی ہے کہ نبی(ص) اپنے رب سے دعا کرتا ہے کہ میرے پاس اسے بھیجدے جو تجھے پوری مخلوق سے زیادہ محبوب ہے اور خدا اپنے رسول(ص) کی دعا قبول کرتا ہے اور علی(ع) کو

 بھیجدیتا ہے لیکن انس کو جو آپ سے بغض تھا اس نے انس کو جھوٹ بولنے پر ابھارا اور انھوں نے علی(ع) کو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ نبی(ص) اس وقت مشغول ہیں اور یہی پے درپے تین بار دھرایا کیونکہ انس نہیں چاہتے تھے کہ نبی(ص) کے بعد خدا کے نزدیک علی(ع) سب سے زیادہ محبوب قرار پائیں لیکن علی(ع) نے چوتھی بار بمشکل دروازہ کھولا اور داخل ہوگئے۔ نبی(ص) نے دریافت کیا اے علی(ع) تمہیں مجھ تک پہنچنے  سے کس نے روکا؟ عرض کی میں آپ کے پاس آنا چاہتا تھا لیکن انس نے مجھے تین بار واپس کیا : رسول(ص) نے فرمایا: اے انس اس کام پر تمہیں کس چیز نے مجبور کیا؟ انس کے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میں نے آپ کی دعا سن لی تھی اس لئے میں چاہتا تھا کہ وہ شخص میری قوم سے ہو۔
اس کے بعد بھی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہےکہ پوری زندگی انس کے دل میں علی(ع) کا بغض باقی رہا چنانچہ جب رحبہ کے دن علی(ع) نے ان سے فرمایا : حدیث غدیر بیان کرو تو انہوں نے اس سے پہلو تہی کی اور آپ نے انس کے لئے بد دعا کی تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ بھی نہیں پائے تھے کہ برص کے مرض میں مبتلا ہوگئے پھر انس علی(ع)  کے دشمن کیوں نہ ہوتے جب کہ انھیں آپ کی ذات سے شدید نفرت تھی اور آپ کے دشمنوں کا تقرب ڈھونڈتے تھے اور آپ سے بیزاری کا اظہارکرتے تھے۔
ان ہی تما چیزوں کی وجہ سے ان کی روایت جو خصوصا بسم اللہ کے سلسلہ میں نقل ہوئی ہے وہ انہوں نے معاویہ بن سفیان کی محبت میں بیان  کی تھی۔ کہتے ہیں : میں نے نبی(ص) ابوبکر، عمر اور عثمان کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ یعنی اس طرح  وہ یہ قبول نہیں کرتے ہیں کہ میں نے علی(ع) کے پیچھے نماز پڑھی ہے اور یہ بالکل وہی چیز ے جو معاویہ اور اس کے ہمنوا چاہتے تھے کہ خلفائے ثلاثہ کا ذکر بلند ہو  اور علی(ع) کا ذکر مٹ جائے اور ان کانام تک نہ لیا جائے۔
اورجو کچھ ائمہ اطہار(ع) اور ان کے شیعوں کے طریق سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ علی(ع) سورہ فاتحہ اور اس کے بعد والے سورہ کی بسم اللہ ۔۔۔ کو بآواز بلند پڑھتے تھے جیسا کہ اہل سنت والجماعت کے طریق سے بھی ثابت ہوچکا ہے کہ آپ(ص) بسم اللہ۔۔۔ کو بلند آواز سے  پڑھتے تھے ۔ یہاں تک کہ اخفاتی نمازوں میں بھی ۔ پس اس سے یہ ثابتہوگیا یہی نبی(ص) کی صحیح سنت ہے۔ جس نے بسم اللہ۔۔۔ ترک

 کی اس نے ایک واجب ترک کردیا اور اپنی نماز کو باطل کردیا۔کیوں کہ سنت کی مخالفت وضلالت و گمراہی ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: رسول(ص) جو تمہارے پاس لائیں اسے لے لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو۔
اس کے علاوہ ہمارے پاس چند ایسے ماخذ موجود ہیں جن سے صحابہ کی روایات کا سنت نبی(ص) کے خلاف ہونا آشکار ہےان میں سے چند مثالیں ہم گذشتہ بحثوں میں بیان کرچکے ہیں اور بعض کو آنے والی بحثوں میں ذکر کریں گے۔ ان تمام  چیزوں میں اہم بات یہ ہے کہ: اہل سنت والجماعت  صحابہ کے اقوال و افعال کا اتباع کرتے ہیں۔
        اولا :ان کا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ کے اقوال و افعال لازمی طور پر سنت ہیں۔
        ثاینا : وہ اس شبہ میں مبتلا ہیں کہ جو کچھ صحابہ نے کہا ہے وہ سنت نبی(ص) کے خلاف نہیں ہے ۔ جبکہ صحابہ اپنی رائے سے فیصلہ کرتے تھے اور اسے نبی(ص) کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں ان کا اثر ورسوخ ہوگیا اور اعتراض کرنے والوں سے محفوظ ہوگئے۔
پھر علی(ع) ابن ابی طالب ہی ایک مخالف تھے کہ جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانہ میں اپنے اقوال و افعال اور قضاوت کے ذریعہ لوگوں کو سنت نبوی(ص) کی طرف پلٹانے کی پوری کوشش کی لیکن آپ اس میں کامیاب نہ ہوسکے کیوں کہ مخالفین نے آپ(ع) کوجنگوں میں مشغول کردیا، ایک جنگ ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ دوسری جب کی آگ بھڑکادیتے تھے۔ جنگِ جمل ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے جنگِ صفیں کی آگ بھڑکادی اور ابھی جنگ صفین تمام نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے جنگِ نہروان کے شعلوں کو  ہوا دی۔ ابھی وہ ختم نہیں ہوئی تھی کہ آپ(ع) کو محراب عبادت میں شہید کردیا۔
جب معاویہ تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس کی پوری کوشش نور خدا کو بجھانے میں صرف ہوتی چنانچہ وہ پوری طاقت و توان کے ساتھ اس سنت نبوی(ص) کو برباد کرنے میں مشغول ہوگیا کہ جس کو امام علی(ع)  زندہ رکھے ہوئے تھے اور لوگوں کو خلفائے ثلاثہ کی اس طاعت کی طرف پلٹانے کی تگ و دو کرنے لگا کہ جس کو لوگوں کے لئے دستور العمل بنا چکا تھا اور دوسری طرف حضرت علی(ع) پر لعنت

 کا آغاز کیا اور اس  فعل شنیع کو اس قدر اہمیت دی کہ ہر ایک ذاکر برائی  ہی سے آپ(ع) کا ذکر کرتا تھا ۔ اور تمام برائیاں آپ کی طرف منسوب کرتا تھا۔
مدائنی کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ کے پاس گئے اور کہا: اے امیرالمؤمنین ! علی(ع) مرگئے اور اب تمہارے لئے کوئی خوف نہیں ہے بس اب یہ لعنت کا سلسلہ بند کرو، معاویہ نے کہا: قسم خدا کی یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب بوڑھا بالکل ضعیف اور بچہ جوان ہوجائے گا۔
مدائنی کہتے  ہیں: ایک زمانہ تک بنی امیہ اسی نہج پر باقی رہے اور یہی چیز انہوں نے اپنے بچوں ، عورتوں، خدمت گاروں اور غلاموں کو سکھائی چنانچہ معاویہ کو  اپنے مقصد میں بڑی کامیابی ملی کیوںکہ اس نے پوری ملت اسلامیہ کو ( چند کو چھوڑ کر ) اس کے حقیقی قائد و ولی سے  دور کردیا تھا اور اسے اپنے قائد کی دشمنی اور اس سے بیزاری پر پوری طرح تیار کردیا تھا اور ملت اسلامیہ کے سامنے باطل کو حق کے لباس میں پیش کیا تھا اور اسے اس بات کامعتقد بنا دیا تھا کہ وہی ( اہل سنت ہیں  اور جو علی(ع) سے دوستی رکھتا ہے اور ان کا اتباع کرتا ہے وہ بدعتی اور خارجی ہے۔
اور جب  امیر المؤمنین امام علی(ع)  پر منبروں سے لعنت کی جاتی تھی اور فآپ پر لعنت کر کے خدا کا تقرب ڈھوںڈا جاتا تھا۔ آپ کا اتباع کرنے والے شیعوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہوگا۔ان کے عطا کو روک دیا گیا تھا، ان کے شہر و دیار کو جلادیا گیا تھا اور انھیں کھجور کی شاخوں پر سولی دی جاتی تھی، زندہ دفنا دیا جاتا تھا، لاحول و لاقوّۃ الا باللہ العلی العظیم۔
میری نظر میں معاویہ ایک عظیم سازش کے سلسلہ کی کڑی ہے لیکن حقائق کو چھپانے اور انھیں الٹ کر پیش کرنے اور امت کو اسلام کے لباس میں ملبوس جاہلیت کی طرف لوٹانے  میں اس کو دوسروں سے زیادہ کامیابی ملی۔
اس بات کی طرف اشارہ کردینا بھی مناسب ہے کہ معاویہ گذشتہ خلفا سے زیادہ زیرک تھا ۔ بہر و پیہ موقع و محل کے لحاظ سے روپ دھار لیتا تھا، کبھی اتنا روتا تھا کہ حاضرین متاثر ہوجاتے

 تھا اور وہ معاویہ کو مخلص بندوں  میں سے بہت بڑا زاہد سمجھنے  لگتے تھا اور کبھی قساوت قلبی اور جبر کا اظہار کرتا تھا ، یہاں تک کہ حاضرین یہ سمجھنے لگتے تھے کہ وہ ملحد ہے  اور بدو تو اسے رسول اللہ(ص) سمجھتے تھے۔
بحث کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ محمد ابن ابی بکر اور معاویہ کے درمیان ہونے والی  خط وکتابت کو پیش کیا جائے ۔ ان دونوں کے خطوط میں ایسے حقائق موجود ہیں جن سے محققین کا آگاہ ہونا ضروری ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عظمت امام حسین علیہ السلام
مومن کی اپنے دینی بھائیوں کے لئے غائبانہ دعا
جو شاخ نازک پر آشيانہ بنے گا ناپائدار ہو گا
كربلا اور حائر حسینی
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
واقعہ کربلا کے پس پردہ عوامل
قرآن کا سیاسی نظام
غدیر اور اخوت اسلامی
اسلامی جہاد کا مقصد
عوام کی رائے عامہ میں تبدیلی تل ابیب کے لیے اہم ...

 
user comment