اردو
Thursday 14th of November 2024
0
نفر 0

حج معصومین [ع] کی زبان سے-حصہ اول

حج معصومین [ع] کی زبان سے-حصہ اول

حج کا واجب ھونا

 قَالَ عَلِی (ع:(فَرَضَعَلَیْکُمْ حَجَّ بَیْتِه الْحَرَامِ الَّذِی جَعَلَه قِبْلَةً لِلْا نَٔامِ ”۔[ 1
حضرت علی (ع)نے فرمایا:
”خداوند عالم نے اپنے اس محترم گھر کے حج کو تم پر واجب قرار دیا ھے جسے اس نے لوگوں کا قبلہ بنای
ھے”۔

قال علی (ع:(”فَرَضَحَجَّه وَا ؤَجَبَ حَقَّه وَکَتَبَ عَلَیْکُمْ وِفَادَتَه فَقَالَ سُبْحَانَه> وَلِلّٰه عَلَی النَّاسِ حجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطاٰعَ إِلَیْه سَبِیلاً وَمَنْ کَفَرَ فَإِنَّ اللّٰه غَنِیٌّ عَنِ الْعٰالَمِینَ[ 2
حضرت علی (ع)نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو واجب ،اس کے حق کی ادائیگی کو لاز م اور اس کی زیارت کو تم پر مقرر کیا ھے پس وہ فرماتا ھے:“لوگوں پر خدا کا حق یہ ھے کہ جو بھی خدا کے گھر تک جانے کی استطاعت رکھتا ھے وہ بیت الله کی زیارت کے لئے جائے اور وہ
شخص جو کفر اختیار کرتا ھے (یعنی حج انجام نھیں دیتا )تو خدا عالمین سے بے نیاز ھے

 
حج کا فلسفہ

 قال علی (ع:(”جَعَلَه سُبْحَانَه عَلاٰمَةً لِتَوَاضُعِهمْ لِعَظَمَتِه و اَذعانَهمْ لِعِزَّتِه”۔[ 3
حضرت علی (ع)نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے کعبہ کے حج کو علامت قرار دیا ھے تاکہ لوگ اس کی عظمت کے سامنے فروتنی کا اظھارکریں اور پروردگار عالم کے غلبہ نیز اس کی عظمت و بزرگواری کا اعتراف کریں ”۔

قال علی (ع:([ ”جَعَلَه سُبْحَانَه لِلْإِسْلاٰمِ عَلَماًوَلِلْعَائِذِینَ حَرَماً”۔[ 4
حضرت علی (ع)نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے حج اور کعبہ کو اسلام کا نشان اور پرچم قرار دیا ھے اور پناہ لینے والے کے لئے اس جگہ کو جائے امن بنایا ھے”۔دین کی تقویت کا سبب

قال علی (ع:(۔۔۔وَالْحَجَّ تَقْوِیَةً لِلدِّینِ[ 5
حضرت علی (ع)نے فرمایا:
”۔۔۔اورحج کو دین کی تقویت کا سبب قرار دیاھے”۔

 
دلوں کا سکون

 قال الباقر (ع:(الحَجُّ تَسْکِین القُلُوبُ[ 6
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”حج دلوں کی راحت وسکون کا سبب ھے”۔

 
حج ترک کرنے والا

 قال رسول الله (ص:(مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَحُجَّ فَلْیَمُتْ إِنْ شَاءَ یَهودِیّاً وَإِنْ شَاءَ نَصْرَانِیّاً”۔[ 8
پیغمبر اسلام (ص)نے فرمایا:
”جو شخصحج انجام دیئے بغیر مر جائے (اس سے کھا جائے گا کہ ) تو چاھے یہودی مرے یا نصرانی ”۔
یھی مضمو ن ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادق (ع) سے بھی نقلھواھے۔[ 9

حج و کامیابی

لوگوں نے امام محمد باقر (ع)سے دریافت کیا کہ حج کا نام حج کیوں رکھا گیاھے ؟تو آپ نے فرمایا:
[ ” قَالَ حَجَّ فُلاٰنٌ ا یَٔ ا فَٔلَحَ فُلاٰنٌ”۔[ 10
”فلاں شخص نے حج کیا یعنی وہ کامیاب ھوا ”۔

حج کی اھمیت

محمد بن مسلم کھتے ھیں کہ:
امام محمد باقر (ع)یا امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
[ ”وَدَّ مَنْ فی الْقُبُورِ لَوْ ا نَّٔ لَه حَجَّةً وَاحِدَةً بِالدُّنْیَا وَمَا فِیها”۔[ 11
”مُردے اپنی قبروں میں یہ آرزو کرتے ھیں کہ اے کاش!وہ دنیا،اور دنیا میں جو کچھ بھی ھے دیدیتے اور اس کے عوضانھیں ایک حج کا ثواب مل جاتا ”۔

 
حج کا حق

 قال الإمام زَیْنُ العابِدِین(ع) فِی رسالَةِ الحُقُوق: “حَقُّ الْحَجِّ ا نَْٔ تَعْلَمَ ا نََّٔه وِفَادَةٌ إِلَی رَبِّکَ وَفِرَارٌ إِلَیْه مِنْ ذُنُوبِکَ وَفِیه قَبُولُ تَوْبَتِکَ وَقَضَاءُ الْفَرْضِالَّذِی ا ؤَْجَبَه اللّٰه تَعَالیَ عَلَیْکَ”۔[ 12
امام زین العابدین (ع) اپنے رسالہ حٔقوق میں فرماتے ھیں:
”حج کا حق تم پر یہ ھے کہ جان لو حج اپنے پروردگار کے حضو رمیں تمھاری حاضری ھے اوراپنے گناہوں سے اس کی جانب فرار ھے حج میں تمھاری توبہ قبول ھوتی ھے اوریہ ایک ایسا فریضہ ھے جسے خدا وند عالم نے تم پر واجب کیا ھے”۔

 
خد اجوئی

 قال الصادق (ع:(“.[ ”مَنْ حَجَّ یُرِیدُ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ لاٰ یُرِیدُ بِه رِیَاءً وَلاٰ سُمْعَةً غَفَرَ اللّٰه لَه اَلْبَتَّةَ[ 13
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”جو شخصحج کی انجام دھی میں خدا کا ارادہ رکھتاھواور ریاکاری و شھرت کا خیال نہ رکھتاھو خدا وند عالم
یقینا اسے بخش دے گا”۔

 
حج کا ثواب

قالَ رَسُولُ اللّٰه (ص:([ ”لَیْسَ لِلْحِجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوابٌ إِلاَّ الجَنَّةَ ”۔[ 14
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حج مقبول کا ثواب جنت کے سوا کچھ اور نھیں ھے”۔

حج کی تاثیر

ہشام بن حکم کھتے ھیں:
امام جعفر صادق (ع) نے فر مایا:
[ ”مَامِن سَفَرٍا بَٔلَغَ فِی لَحْمٍ وَلاٰدَمٍ وَلاٰجِلْدٍ وَلاٰ شَعْرٍ مِنْ سَفَرِ مَکَّةً وَمَا ا حََٔدٌ یَبْلُغُه حَتَّی تَنَالَه الْمَشَقَّةُ”۔[ 15
”مکہ کے سفر کی طرح کوئی سفر بھی انسان کے گوشت، خون، جلد، اور بالوں کوکا متاثر نھیں کرتا اور کوئیشخص سختی اور مشقت کے بغیر وہاں تک نھیں پہنچتا ”۔

حج میں نیت کی اھمیت

 قال الصادق(ع:(”لَمَّا حَجَّ مُوسَی(ع)نَزَلَ عَلَیْه جَبْرَئِیلُ فَقَالَ لَه مُوسَی یَا جَبْرَئِیلُ ۔۔۔مٰا لِمَنْ حَجَّ هذَا الْبَیْتَ بَنِیَّه صَادِقَةٍ وَنَفَقَةٍ طَیِّبَةٍ؟قَالَ:فَرَجَعَ إِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ،فَا ؤَْحَی اللّٰه تَعَالیٰ إِلَیْه؛قُلْ لَه:ا جَْٔعَلُه فِی الرَّفِیقِ الْا عَٔلَی مَعَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّهدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنْ ا ؤُلَئِکَ رَفِیقاً”۔[ 16
”جس وقت جناب موسیٰ نے حج کے اعمال انجام دیئے تو جبرئیل (ع) ان پر نازلھوئے جناب موسیٰ نے ان سےپوچھا:
اے جبرئیل (ع!(
جو شخصاس گھر کا حج سچی نیت اور پاک خرچ سے بجا لائے اس کی جزا کیا مقررھوئی ھے جبرئیل کچھجواب دیئے بغیر خدا وند عالم کی بارگاہ میں واپس گئے (اور اس کا جواب دریافت کیا)خداوند عالم نے ان پر وحی کی اور فرمایا:موسیٰ سے کہو کہ میں ایسے شخص کو ملکوت اعلیٰ میں پیغمبروں صدیقوں ،شھدا اور صالحین کا ھم نشین قرا ر دوں گااور وہ بھترین رفیق اور دوست ھیں”۔


نور میں واردھونا

عبد الرحمان بن سمرة کھتے ھیں:ایک روز میں حضرت پیغمبر اکرم(ص) کی خدمت میں تھا کہ آنحضرت(ص)نے فرمایا:
”إِنِّی رَا یَٔتُ الْبَارِحَةَ عَجَائِبَ”۔
میں نے گذشتہ رات عجائبات کا مشاھدہ کیا ۔
ھم نے عرض کی کہ اے رسو ل خدا (ص)!ھماری جان ھمارا خاندان اور ھماری اولاد آپ(ص)پر فداھوں آپ نے کیا دیکھا ھم سے بھی بیان فرمایئے:
فقال۔۔۔رَا یَٔتُ رَجُلاً مِنْ ا مُّٔتِی مِنْ بَیْنِ یَدَیْه ظُلُمَةٌ وَمِنْ خَلْفِه ظُلْمَةٌ وَعَنْ __________یَمِینِہِ ظُلَمَةٌ وَعَنْ شِمَالِه ظُلْمَةٌ وَمِنْ تَحْتِہِ ظُلْمَةٌ مُسْتَنْقِعاً فِی الظُّلْمَةِ فَجَاءَ ه حَجُّه وَعُمْرَتُه فَا خَٔرَجَاه مِنَ الظُّلْمَةِ وَا دَٔخَلاٰه فِی النُّورِ۔۔۔۔[ 17
”فرمایا:میں نے اپنی امت میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے سامنے سے، پشت سے ، دائیں اور بائیںسے،اور قدموں کے نیچے سے ، اسے تاریکی نے گھیر رکھا تھا اور وہ ظلمت میں غرق تھا اس کا حج اور اس کا عمرہ اس کے پاس آئے اور انھوں نے اسے تاریکی سے نکال کر نور میں داخل کردیا ”۔

 
حق کے حضور حاضری

 قالَ عَلِیٌّ (ع:(اَلْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُاللّٰه،وَحَقٌّ عَلَی اللّٰه ا نَْٔ یُکْرِمَ وَفْدَه وَیَحْبُوَه بِالْمَغْفِرَةِ۔[ 18
حضرت علی(ع) فرماتے ھیں:
”حج اور عمرہ انجام دینے والا خدا کی بارگا ہ میں حاضرھونے والوں میں سے اور خدا پر ھے کہ اپنی بارگاہ میں آنے والے کا اکرام کرے اور اسے اپنی مغفرت و بخشش میںشامل قرار دے ’ ’۔

 
خدا وند عالم کی میزبانی

 قال الصّادق (ع:(إِنَّ ضَیْفَ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ رَجُلٌ حَجَّ وَ اعْتَمَرَ فَهوَ ضَیْفُ اللّٰه حَتَّی یَرْجِعَ إِلَی مَنْزِلِه۔[ 19
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جو شخص حج یا عمرہ بجالائے وہ خدا کا مھمان ھے اور جب تک وہ اپنے گھر واپس نہھو جائے ا س کا مھمان باقی رھتا ھے ’ ’ ۔


حج اور جھاد

 قال رسول الله(ص:(جِهادُ الْکَبیرِ وَالصَّغیرِ وَالضَّعیفِ وَالْمَرا ةَِٔ الْحَجُّ وَالْعُمْرَةُ۔[ 20
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”عورتوںاور کمزور لوگوں کا حج اور عمرہ بڑا جھاد اور چھوٹا جھاد ھے”۔

 
حج عمرہ سے بھتر ھے

 قال رسول الله (ص:(اِعْلَمْ اَنَّ الُعُمْرَةَ هیَ الْحَجُّ الاصُٔغَرُ،وَاَنَّ عُمْرَةً خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیٰا وَمٰا فیها وَحَجَّةً خَیْرٌ مِنْ عُمْرَةٍ۔[ 21
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے عثمان بن ابی العاصسے فرمایا:
”جان لو کہ عمرہ حج اصغر ھے اور بلا شہ عمرہ دنیا اور جو کچھ اس کے اندر ھے ان سب سے بھتر ھے
،نیز یہ بھی جان لو کہ حج عمرہ سے بھتر ھے” ۔

 
گناہ دُھل جاتے ھیں

 قال رسول الله (ص:(اَیُّ رَجُلٍ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِه حٰاجاًاَوْ مُعْتَمِراً، فَکُلَّمٰا رَفَعَ قَدَماًوَ وَضَعَ قَدَماً،تَنٰاثَرَتِ الذُّنُوبُ مِنْ بَدَنِه کَمٰایَتَنٰا ثَرُ الْوَرَقُ مِنَالشَّجَرِ،فَاِذَا وَرَدَ الْمَدِیْنَةَ وَصٰافَحَنی بِالسَّلاٰمِ،صٰافَحَتْه الْمَلاٰئِکَةُ بِالسَّلاٰمِ،فَاِذَا وَرَدَ ذَالْحُلَیْفَةَ وَاغْتَسَلَ،طَهرَه اللّٰه مِنَالذُّنُوبِ،وَاِذَا لَبِسَ ثَوْبَیْنِ جَدیدَیْنِ،جَدَّدَ اللّٰه لَه الْحَسَنٰاتِ و اَِذَا قَالَ:اللّٰهمَّ لَبَّیْکَ، ا جَٰٔابَه الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ:“لَبَّیْکَ وسَعْدَیْکَ،اَسْمَعُ کَلاٰمَکَ وَاَنْظُرُ اِلَیْکَ،فَاِذَا دَخَلَ مَکَّةَ وَ طٰافَ وَسَعٰی بَیْنَ الصَّفٰاوَالْمَرْوَةَ وَصَلَ اللّٰه لَه الْخَیْراتِ۔۔۔۔[ 22
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص حج وعمرہ کے لئے اپنے گھر سے باھر نکلتا ھے پس جو قدم بھی وہ اٹھاتا اور زمین پر رکھتا ھے اس کے بدن سے گناہ یوں گرتے جاتے ھیں جیسے درختوں سے پتے چھڑتے ھیں، پس جب وہ شخصمدینہ میں واردھوتا ھے اور سلام کے ذریعہ مجھ سے مصافحہ کرتا ھے تو فرشتے بھی سلام کے ذریعہ اس سے ھاتھ ملاتے ھیں اور مصافحہ کرتے ھیں اور جب وہ ذولحلیفہ (مسجد شجرہ) میںواردھو کر غسل کرتا ھے تو خدا وند عالم اسے گناہوں سے پاک کردیتا ھے۔ جب وہ احرام کے دو جامہ اپنے تن پر لپٹتا ھے تو خدا وند عالم اسے نئے حسنات اور ثواب عطا کرتا ھے جب وہ “لبیک اللھم لبیک ”کھتا ھے تو خداوند عزوجل اسے جواب دیتےھوئے فرماتا ھے “لیبک و سعدیک” میں نے تیرا کلام اور تیری آواز سنی اور (عنایت کی نظر )تجھ پر ڈال رھاھوں اور جب وہ مکہ میں واردھوتاھے اور طواف نیز صفا ومروہ کے درمیان سعی انجام دیتا ھے تو خد اوند عالم ھمیشہ کی نیکیاں اور
خیرات اس کے شامل حال کر دیتا ھے”۔

 
دعا کی قبولیت

 قالَ رَسُولُ اللّٰه (ص:(اَرْبَعَةٌ لا تُرَدُّ لَهمْ دَعُوَةٌ حَتّٰی تُفْتَحَ لَهمْ اَبْوٰابُ السَّمٰاءِ وَتَصیرَ إِلَی الْعَرْشِ:[ اَلْوٰالِدُ لِوَلَدِه،وَالْمَظْلُومُ عَلٰی مَنْ ظَلَمَه، وَالْمُعْتَمِرُحَتّی یَرْجِعَ ، والصّٰائِمُ حَتّٰی یُفْطِرَ۔[ 23
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”چار لوگ ایسے ھیں جن کی دعا رد نھیںھوتی یھاں تک کہ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھو ل دیئے جاتے ھیں اور دعائیں عرش الٰھی تک پہنچ جاتی ھیں:
١۔باپ کی دعا اولاد کے لئے ،
٢۔مظلوم کی دعا ظالم کے خلاف،
٣۔عمرہ کرنے والے کی دعا جب تک کہ وہ اپنے گھر واپس آجائے ۔
۴۔روزہ دار کی دعا یھاں تک کہ وہ افطار کر لے ۔

 
دنیا بھی اور آخرت بھی

 قالَ رَسُولُ اللّٰه (ص:(مَنْ اَرَادَا لدُّنْیٰاوَالآخِرَةَ فَلْیَو مُّٔ هذَاالبَیْتَ،فَمٰا ا تٰٔاه عَبْدٌ یَسْا لَٔ اللّٰه دُنْیٰا اِلاَّ ا عَٔطٰاه اللّٰه مِنْها،وَلایَسْا لَٔه آخِرَةً اِلاَّادَّخَرَلَهمِنْها۔[ 24
رسو ل خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخصدنیا اور آخرت کو چاھتا ھے وہ اس گھر کی طرف آنے کا ارادہ کرے بلاشبہ جوبھی اس جگہ پر آیا اور اس نے خدا سے دنیا مانگی تو خداوند عالم نے اس کی حاجت پوری کردی نیز یہ کہ اگر خدا وند عالم سے اس نے آخرت طلب کی تو خدا وند عالم نے اس کی یہ دعا بھی قبول کی اور اسے اس کے لئے ذخیرہ کردیا”۔

 
آگاھی کے ساتھ حج

 قالَ رَسُولُ اللّٰه (ص):فی خُطْبَتِه یَوْمَ الْغَدِیر :مَعٰاشِرَ النّٰاسِ، حُجُّواالْبَیْتَ بِکَمٰالِ الدّینِ وَالتَّفَقُّه، وَلا تَنْصَرِفُواعَنِ[ الْمَشٰاهدِ اِلاَّ بِتَوْبَةٍ واِقْلاٰعٍ۔[ 25
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے یوم غد یر کے خطبہ میں فرمایا:
”اے لوگو! خانہ خٔدا کا حج پوری آگاھی اور دینداری سے کرو ، اوران متبرک مقامات سے توبہ اور گناہوں کی بخشش کے بغیر واپس نہ لوٹو ”۔

 
شرط حضور

 قَالَ ا بَٔو عَبْدِاللّٰه (ع)کاَنَ ا بَٔی یَقُولُ:[ مَنْ ا مَّٔ هذَاالْبَیْتَ حَاجّاً ا ؤَمُعْتَمِراًمُبَرَّا مًٔنَ الْکِبْرِ رَجَعَ مِنْ ذُنُوبِه کَهیْئَةِ یَوْمَ وَلَدَتْه ا مُّٔه۔[ 26
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”میرے پدر بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص حج یا عمرہ کے لئے اس گھر کی طرف روانہ ھو اور خود کو کبر و خود پسندی سے دور رکھے تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاکھو جاتا ھے جیسے اسے اس کی ماں نے ابھی پیدا کیاھو”۔

 
حج کی برکتیں

عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ:قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ) ع:(حَجُّوا وَاعْتَمِرُوا،تَصِحَّ ا بَٔدَانُکُمْ،وَتَتَّسعَ ا رَٔزَاقُکُمْ،وَتُکْفَوْا مَو ؤُنٰاتِ عِیَالِکُمْ،وَقَالَ:الْحَاجُّ مَغْفُورٌ لَه وَمَوْجُوبٌ لَه الْجَنَّةُ،وَمُسْتَا نْٔفٌ لَه الْعَمَلُ،وَمَحْفُوظٌ فِی ا هلِه وَمَالِه۔[ 27
امام جعفر صادق (ع)سے روایت ھے کہ آپ نے فرمایا:
”علی بن الحسین علیھما السلام فرماتے تھے کہ:حج اور عمرہ بجالاو تٔاکہ تمھارے جسم سالم،تمھاری روزیاںزیادہ اور تمھار ے خانوادہ اور زندگی کا خرچ پوراھو آپ مزید فرماتے تھے:حاجی بخش دیا جاتا ھے جنت اس پر واجبھو جاتی ھے ، اس کا نامۂ عمل پاک کر کے پھر سے لکھا جاتا ھے اور اس کا مال اور خاندان امان میں رھتے ھیں”۔

 
جو حج قبول نھیں

 عَنْ ا بَٔی جَعْفَرٍ الْبَاقِرِ(ع)قَالَ:مَنْ اصَٔابَ مَالاً مِنْ ا رَٔبَعٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْه فِی ا رَٔبَعٍ: مَنْ اصَٔابَ مَالاً مِنْ غُلُولٍ ا ؤَ رِبًا ا ؤَ خِیَانَةٍا ؤَ سَرِقَةٍ لَمْ یُقْبَلْ مِنْه فِیزَکَاةٍ وَلاٰ صَدَقَةٍ وَلاٰحَجٍّ وَلاٰ عُمْرَةٍ۔[ 28
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں:
”جو شخصچار طریقوں سے مال اور پیسہ حاصل کرے اس کا خرچ کرنا چار چیزوں میں قبول نھیں ھے:
جو شخصآلودگی اور فریب کی راہ سے،سودکے ذریعہ، خیانت کے ذریعہ اور چوری کے ذریعہ پیسہ حاصل کرے تو اس کی زکات ، صدقہ،حج اور عمرہ کرنا قبول نھیں ھے ’ ’ ۔

 
مال حرام کے ذریعہ حج

 قال ا بٔو جعفر(ع:(لا یَقْبَلُ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ حَجّاًوَلاٰعُمْرَةً مِنْ مالٍ حَرامٍ۔[ 29
امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں :
”خدا وند عالم حرام مال کے ذریعہ کئے جانے والے حج و عمرہ کو قبول نھیں کرتا ”۔

 
حاجی کا اخلاق

عَنْ ا بَٔی جَعْفَرٍ(ع) قَالَ:مَا یُعْبا مُٔنْ یَسْلُکُ هذَا الطَّرِیقَ اِذَا لَمْ یَکُنْ فِیْه ثَلاٰثُ خِصَالٍ: وَرَعٌ یَحْجُزُه عَنْ مَعَاصِی اللّٰه،وَحِلْمٌ یَمْلِکُ بِه غَضَبَه،وَ حُسْنُ الصُّحْبَةِ لِمَنْ صَحِبَه۔[ 30
امام محمد باقر (ع)نے فرمایا:
”جو شخص حج کے لئے اس راہ کو طے کرتا ھے اگر اس میں تین خصلتیں نہھوں تو وہ خدا کی توجہ کا مرکز نھیں بنتا:
١۔تقویٰ وپرھیز گاری جو اسے گناہ سے دور رکھے۔
٢۔صبر وتحمل جس کے ذریعہ وہ اپنے غصہ پر قابو رکھے۔
٣۔اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا سلوک ۔

 
کامیاب حج

 قال رسول الله (ص:([ مَنْ حَجَّ ا ؤَ اعْتَمَرَ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ یَرْجِعُ کَهیْئَةِ یَومٍ وَلَدَتْه ا مُّٔه۔[ 31
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جس نے حج یا عمرہ کیا اورکوئی فسق وفجور انجام نہ دیا تو وہ اس شخص کی طرح پاک واپس ھوتا ھےجیسے اس کی ماں نے اسے ابھی پیدا کیا ھے”۔

 
حج کی قسمیں

عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ:الْحَجُّ حَجَّانِ:حَجُّ اللّٰه،وَحَجُّ لِلنَّاسِ،فَمَنْ حَجَّ لِلّٰه کَانَ ثَوَابُه عَلَی اللّٰه الْجَنَّةَ،وَمَنْ حَجَّ لِلنَّاسِ کاَنَ ثَوَابُه عَلَی النَّاسِ یَوْمَالْقِیَامَةِ۔[ 32
امام جعفر صادق (ٍع)فرماتے ھیں:
حج کی دو قسمیں ھیں:
”خدا کے لئے حج اور لوگوں کے لئے حج،پس جو شخص خداکے لئے حج بجالایا اس کی جزا وہ خدا سے جنت کی شکل میں حاصل کرے گا اور جو شخص لوگوں کے دکھانے کے لئے حج کرتا ھے اس کی جزا قیامت کے دن لوگوں کے ذمہ ھے ”۔

 
حاجیوں کی قسمیں

معاویہ ابن عمار کھتے کہ امام صادق (ع)نے فرمایا:
الْحَاجُّ یَصْدُرُونَ عَلَی ثَلاٰثَةِ اصَٔنَافٍ:فَصِنْفٌ یَعْتِقُونَ مِنَ النَّارِ،وَصِنْفٌ یَخْرُجُ مِنْ ذُنُوبِه کَیَوْمٍ وَلَدَتْه ا مُّٔه،وَصِنْفٌ یُحْفَظُ فِی ا هلِه وَمَالِه،فَذَلِکَ ا دَٔنَی مَا یَرْجِعُ بِه الْحَاجُّ۔[ 33
”حاجی تین قسم کےھوتے ھیں:
ایک گروہ جہنم کی آگ سے رھائی پاتا ھے ،دوسرا گروہ گناہوں سے اس طرح پاکھوتا ھے جیسے وہ ابھی اپنی ماں کے بطن سے پیداھواھو، اور تیسرا گروہ وہ ھے کہ اس کا خاندان اور اس کا مال محفوظھوجاتا ھے اوریہ وہ کمترین جزا ھے جس کے ساتھ حاجی واپسھوتے ھیں”۔

 
ناکام حاجی

 قال رسول الله (ص:(یَا تٔی عَلَی النَّاسِ زَمانٌ یَحُجُّ ا غٔنِیاءُ ا مَٔتِّی لِلنُّزهةِ،وَا ؤَساطُهمْ لِلْتِجارةِ،وَقُرّاو همْ للریّاءِ وَالسَّمْعَةِ وَفُقَرائُهم لِلمسا لٔةِ۔( ١
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ میری امت کے دولت مندلوگ سیرو تفریح کے لئے اور درمیانی طبقہ کے لوگتجارت کے لئے قاری حضرات ریاکاری اور شھرت کے لئے اور فقرا مانگنے کے لئے حج کو جائیں گے ”۔

 
اپنے ھمراھیوں کے ساتھ سلوک

قَالَ ا بَٔو عَبْدِ اللّٰه(ع :(وَطِّنْ نَفْسَکَ عَلَی حُسْنِ الصِّحَابَةِ لِمَنْ صَحِبْتَ فِی حُسْنِ خُلْقِکَ،وَکُفَّ لِسَانَکَ،وَاکْظِمْ غَیْظَکَ،وَا قَٔلَّ لَغْوَکَ،وَتَفْرُشُ عَفْوَکَ، وَتَسْخُو نَفْسَکَ۔[ 34
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”خود کو آمادہ کرو تاکہ جس شخص کے بھی ھمراہ سفر کرو اچھے اور خوش اخلاق ساتھی رہو اور اپنی زبان کو قابو میں رکھو ،اپنے غصہ کو پی جاو ،ٔبیہودہ وبے فائدہ کام کم کرو ،اپنی بخشش کو دوسروں کے لئے وسیعکرو،اور سخا وت کرنے والے رہو”۔

 
راہ کی اذیت

عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه (ع)قَالَ:مَنْ ا مَٔاطَ ا ذَٔی عَنْ طَرِیقِ مَکَّةَ کَتَبَ اللّٰه لَه حَسَنَةً وَمَنْ کَتَبَ لَه حَسَنَةً لَمْ یُعَذِّبْه۔[ 35
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جو شخص مکہ کی راہ میں اذیت و تکلیف اٹھا ئے خدا وند عالم اس کے لئے نیکی لکھتا ھے اور جس شخصکے لئے خداوند عالم نیکی لکھتا ھے اسے عذاب نھیں دیتا ”۔

 
حج کی راہ میں موت

 قال الصادق(ع:(عَنْ عَبْدِ اللّٰه بْنِ سِنَانٍ عَنْ ا بَٔی عَبْدِ اللّٰه(ع (قَالَ: مَنْ مَاتَ فِی طَرِیقِ مَکَّةَ ذَاهباًاَّوُ جَائِیاً ا مَٔنَ مِنَ الّفَزَعِ الّا کَٔبَرِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔[ 36
عبد الله ابن سنان سے روایت ھے کہ امام جعفر صادق (ٍع)نے فرمایا:
”جو شخص مکہ کی راہ میں جاتے وقت یا واپسھوتے وقت مرجائے وہ قیامت کے دن کے عظیم خوف ھراس سے امان میں ر ھے گا ”۔

 
حج میں انفاق کرنا

 قال الصادق (ع:(دِرْهمٌ فِی الْحَجِّ ا فَٔضَلُ مِنْ ا لَٔفِیْ ا لَٔفٍ فِیمَا سِوَی ذَلِکَ مِنْ سَبِیلِ اللّٰه ”۔[ 37
امام جعفر صادق (ع)فرماتے ھیں:
”حج کی راہ میں ایک درھم خرچ کرنا حج کے علاوہ کسی اور دینی راہ میں بیس لاکھ درھم خرچ کرنے سے
بھتر ھے”۔

 
احرام کا فلسفہ

 عَنِ الرِّضَا(ع:(فَاِنْ قَالَ:فَلِمَ اُمِرُوا بِالإحْرٰامٍ؟قیل:لِاَ ن یَتَخَشَّعُوا قَبْلَ دُخُولِ حَرَمَ اللّٰه عَزَّوَجَلَّ وَاَمْنِه وَلِئَلاّ یَٰلْهوا وَیَشْتَغِلُوا بِشَیْءٍ مِنْا مُٔرِ الدُّنْیَا وَزِینَتِها وَالَذَّاتِها وَیَکُونُوا جَادِّینَ فِیمَا همْ فِیه قَاصِدِینَ نَحْوَه،مُقْبِلِینَ عَلَیْه بِکُلِّیِّتِهمْ،مَعَ مَا فِیه مِنَ التَّعْظیمِ لِلّٰهتعٰالی وَلِبَیْتِه،وَالتَّذَلُّلِ لِا نَٔفُسِهمْ عِنْدَ قَصْدِ همْ إِلَی اللّٰه تَعٰالیٰ وَوِفَادَتِهمْ إِلَیْه، رَاجِینَ ثَوَابَه،رَاهبِینَ مِنْ عِقَابِه،مَاضِینَ نَحْوَه مُقْبِلِینَ إِلَیْه بِالذُّلِّ وَالِاسْتِکَانَةِ وَالْخُضُوعِ۔[ 38
امام علی رضا (ع)نے فرمایا:
”اگر یہ کھا جائے کہ لوگوں کواحرام پہننے کا حکم کیوں دیا گیا ھے ؟ تو یہ کھا جائے گا کہ :اس لئے کہ لوگ الله کے حرم اور امن وامان کی جگہ میں واردھونے سے پھلے خاشع اور منکسر مزاجھوں ، امور دنیا ،اس کیلذتوںاور زینتوں میں سے کسی بھی چیز میں خودکو مشغول نہ کریں جس کام کے لئے آئے ھیںاور جس کاارادہ رکھتے ھیں اس پر صابر رھیں اور پورے وجود سے اس پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ احرام میں خدااور اس کے گھر کی تعظیم۔ اپنی فروتنی اور باطنی ذلت وحقارت ، خدا کی طرف قصد اور اس کے حضور واردھونا ھے،جب کہ وہ اس سے جزا کی امید رکھتے ھیں اس کے عقاب اور سزا سے
خوف زدہ ھیں اور انکسار وفروتنی اور ذلت خوا ری کی حالت میں اس کی طرف رخ کئےھوئے ھیں”۔

 
احرام کا ادب

قَالَ ا بَٔو عَبْدِ اللّٰه(ع:(إِذَا ا حَٔرَمْتَ فَعَلَیْکَ بِتَقْوَی اللّٰه،وَذِکْرِ اللّٰه کَثِیراً،وَقِلَّةِ الْکَلاٰمِ إِلاَّ بِخَیْرٍ،فَإِنَّ مِنْ تَمَامٍ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ ا نَٔ یَحْفَظَ الْمَرْءُ لِسَانَه إِلاَّ مِنْ خَیْرٍ۔[ 39
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”جب محرمھو جاو تٔو تم پر لازم ھے کہ باتقویٰ رہو ،خدا کو بھت یاد کرو ،نیکی کے علاوہ کوئی بات نہ کرو کہ بلا شبہ حج اور عمرہ کا کاملھونا یہ ھے کہ انسان اپنی زبان کو نیکی کے علاوہ کسی اور امر میں نہ کھولے ”۔

 
حقیقی لبیک

قَالَ رَسُولُ اللّٰه (ص): مَا مِنْ مُلَبٍّ یُلَبّی اِلاَّ لَبّٰی مَا عَنْ یَمینِه وَشِمٰالِه مِنْ حَجَرٍا ؤَ شَجَرٍا ؤَمَدَرٍحَتّٰی تَنْقَطِعَ الاَرْضُمِنْ ها هنَا وَهاهنَا۔[ 40
رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”کوئی شخ-ص لبیک نھیں کھتا مگر یہ کہ اس کے دائیں بائیں ،پتھر درخت ،ڈھیلے اس کے ساتھ لبیک کھتےھیں یھاں تک کہ وہ زمین کو یھاں سے وھاں تک طے کر لے ”۔

 


:1]نھج البلاغہ خ ١۔ ]
١١ ۔نھج البلاغہ :خ ١۔ / 2]وسائل الشیعہ : ١۵ ]
3]نھج البلاغہ :خ ١ ]
١١ ۔نھج البلاغہ:خ ١۔ / 4]وسائل الشیعہ: ١۵ ]
5]نھج البلاغہ :خ ١۔ ]
٧۵ ۔ / 6]بحار الانوار : ١٨٣ ]
١۔ / ١١ ۔علل الشرایع : ۴١١ / 7]وسائل الشیعہ : ١٠٣ ]
٢۔ / ١١ ۔ثواب الاعمال: ٧٠ / 8]وسائل الشیعہ : ١٠٩ ]
١۔ / ١١ ۔علل الشرایع : ۴١١ / 9]وسائل الشیعہ : ١٠٣ ]
١۔ / ١١ ۔علل الشرایع : ۴١١ / 10 ]وسائل الشیعہ : ١٠٣ ]
۵۔ / ١١ ۔تھذیب الاحکام : ٢٣ / 11 ]وسائل الشیعہ : ١١٠ ]
٢۔ /۶٢٠/ 12 ]من لایحضرہ الفقیہ: ٣٢١۴ ]
٢۔ / ٨۔،محجة البیضاء: ١۴۵ / 13 ]مستدرک الوسائل : ١٨ ]
٢۔ / ٣۔ محجة البیضاء: ١۴۵ /١٧۵/ 14 ]سنن ترمذی: ٨١٩٠ ]
۴۔ /٢۶٢/ 15 ]الکافی : ۴١ ]
٢۔ /٢٣۵/ 16 ]من لایحضرہ الفقیہ: ٢٨٧ ]
٨۔ / ٣٠١ ۔مستدرک الوسائل : ٣٩ / 17 ]امالی صدوق: ٣۴٢ ]
۴۔تحف العقول : ١٢٣ ۔ / 18 ]وسائل الشیعہ: ١١۶ ]
١۴ ۔ / 19 ]خصال : ١٢٧ /۔وسائل الشیعہ: ۵٨۶ ]
۵۔ / 20 ]سنن نسائی: ١١۴ ]
٩۔ /۴۴/ 21 ]معجم الکبیر طبرانی: ٨٣٣۶ ]
١۴٨ ۔ / 22 ]الحج العمرة فی القرآن والحدیث : ٣٢۵ ]
٢/۵١٠/ 23 ]کافی : ۶ ]
24 ]مسند الامام زید: ١٩٧ ۔ ]
٢۵٧ ۔ / 25 ]الحج العمرة فی القرآن والحدیث: ٧١٨ ]
۴۔ /٢۵٢/ 26 ]کافی: ٢ ]
۴۔ /٢۵٢/ 27 ]کافی: ١ ]
١١ ۔ / 28 ]امالی صدوق: ۴۴٢ ۔وسائل الشیعہ: ١۴۵ ]
٩٣ ۔ / 29 ]بحار الانوار: ١٢٠ ]
۴۔ /٢٨۶/ 30 ]کافی: ٢ ]
٢۔ / 31 ]سنن دار قطنی: ٢٨۴ ]
٧۴ ۔ / 32 ]ثواب الاعمال : ١۶ ]
۵۔ /٢١/ 33 ]تھذیب الاحکام : ۵٩ ]
۴۔ /٢٨۶/ 34 ]کافی: ٣ ]
۴۔ /۵۴٧/ 35 ]کافی: ٣۴ ]
۵۔ /٢٣/ 36 ]تھذیب الاحکام : ۶٨ ]
۵۔ / 37 ]تھذیب الاحکام : ٢٢ ]
٢۔ / ٢۔وسائل الشیعہ: ٣١۴ / 38 ]عیون اخبار الرضا: ٢۵٨ ]
۴۔ /٣٣٧/ 39 ]کافی: ٣ ]
٢۔ /٩٧۵/ 40 ]سنن ابن ماجہ: ٢٩٢١ ]

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

وحی کی حقیقت اور اہمیت (پیغام الہی)
خلقت انسان اور قرآن
غدیر میںمنافقین کے عکس العمل کے واضح نمونے
قرآن کریم ایک عظیم معجزہ
دين ميں عقل، فلسفہ اور دليل کا اپنا مقام ہے اور ...
استاد شہید مرتضی مطہری کی زندگی کے مختصر حالات
ولایت فقیہ عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں
کربلا اور اصلاح معاشرہ
قرآن، کائنات اور انسان
نظم و ضبط

 
user comment