اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

معصوم دوم(حضرت علی علیہ السلام)


نام و نسب

حضرت علی (ع) : شیعوں کے پھلے امام
اسم گرامی : علی (ع)
لقب : امیر المومنین
کنیت : ابو الحسن
والد کا نام : عمران ( ابو طالب )
والدہ کا نام : فاطمہ بنت اسد
تاریخ ولادت : ۱۳/ رجب ۳۰ ء عام الفیل
جائے ولادت : مکّہ معظمہ خدا کے گھر میں ( خانہ کعبہ کے اندر )
مدّت امامت : ۳۰ / سال
عمر مبارک : ترسٹہ (۶۳) سال
تاریخ شھادت : ۲۱/ رمضان المبارک ۴۰ھء مسجد کوفہ میں
شھاد ت کا سبب : عبد الرحمن بن ملجم کی زھر آلودہ ضربت کا اثر
روضہٴ اقدس : عراق ( نجف اشرف )
اولاد کی تعداد : ۱۸/ بیٹے ، ۱۸/ بیٹیاں

بیٹوں کے نام :

(۱) امام حسن مجتبیٰ (ع) (۲) امام حسین (ع)(۳) محمد حنفیہ (۴) عباس اکبر (۵) عبد اللہ اکبر (۶) جعفر اکبر (۷) عثمان (۸) محمد اصغر (۹) عبد اللہ اصغر (۱۰) عبد اللہ مکنی بابی علی (۱۱) عون (۱۲) یحییٰ (۱۳) محمد اوسط (۱۴) عثمان اصغر (۱۵) عباس اصغر (۱۶) جعفر اصغر(۱۷) عمر اکبر (۱۸) عمر اصغر۔
بیٹیوں کے نام : (۱) زینب کبریٰ (۲) زینب صغریٰ بہ نام ام کلثوم (۳) رملة کبریٰ (۴) ام الحسن (۵) نفیسہ (۶) رقیہ صغریٰ (۷) رملةصغریٰ (۸) رقیہ کبریٰ (۹) میمونہ (۱۰) زینب صغریٰ (۱۱) ام ّ ھانی (۱۲) فاطمة صغریٰ (۱۳) امامہ (۱۴) خدیجہ صغریٰ (۱۵) امّ کلثوم (۱۶) ام ّ سلمہ (۱۷) حمامہ (۱۸) ام کرام ۔
بیویاں : ۱۲
انگوٹھی کے نگینے کا نقش: الملک للّہ الوٰحد القھّار
ولادت

پیغمبر خدا کی عمر تیس برس کی تھی کہ خانہ کعبہ جیسے مقدس مقام پر 13رجب30عام الفیل میں علی علیہ السّلام کی ولادت ھوئی . آپ کے والد ابو طالب علیہ السّلام اور ماں فاطمہ بنتِ اسد علیھا السلام کو جو خوشی ھونی چاھیے تھی وہ تو ھوئی ھی مگر سب سے زیادہ رسول الله اس بچے کو دیکھ کر خوش ھوئے . شاید بچّے کے خد وخال سے اسی وقت یہ اندازہ ھوتا تھا کہ یہ آئندہ چل کر رسول کاقوتِ بازواور دستِ راست ثابت ھوگا .
تربیّت

حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کے ذریعے ھوئی۔ آپ نے انتھائی محبت اور توجہ سے اپنا پورا وقت اس چھوٹے بھائی کی علمی اور اخلاقی تربیت میں صرف کیا. ذاتی جوھر اور پھر رسول جیسے بلند مربیّ کافیض تربیت، چنانچہ علی دس ھی برس کے سن میں ایسے تھے کہ پیغمبر کے دعوائے رسالت کرنے پر ان کے سب سے پھلے پیرو بلکہ ان کے دعوے کے گواہ قرار پائے .
بعثت

حضرت علی علیہ السّلام کا سن دس برس کا تھا جب حضرت محمد مصطفے(ص) عملی طور پر پیغام الٰھی کے پھنچانے پر مامور ھوئے، اسی کو بعثت کھتے ھیں . زمانہ , ماحول, شھر , اپنی قوم اور خاندان سب کے خلاف ایک ایسی مھم شروع کی جارھی تھی جس میں رسول کاساتھ دینے والا کوئی آدمی نظر نہ آتا تھا بس ایک علی تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو آپ نے سب سے پھلے اس کی تصدیق کی اور ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیجہ کبریٰ علیھا السّلام کی تھی جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام کے اس شرف کو حاصل کیا .
دور مصائب

پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ ھر ھرذرہ رسول کادشمن نظر آنے لگا . وھی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے آج آپ کو ( معاذ الله(دیوانہ , جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کھنے لگے, راستوں میں کانٹے بچھائے جاتے , پتھر مارے جاتے اور سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا . اس سخت وقت میں رسول کا ھر مصیبت میں شریک صرف ایک بچّہ تھا , وھی علی جس نے بھائی کاساتہ دینے میں کبھی ھمت نھیں ھاری , برابرمحبت ووفاداری کادم بھرتے رھے , ھر ھربات میں رسول کے سینہ سپر رھے , یھاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب مخالف گروہ نے انتھائی سختی کے ساتہ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر کااور ان کے تمام گھرانے والوں کا بائیکاٹ کیا جائے , حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے . ابو طالب علیہ السّلام نے حضرت محمد مصطفےٰ سمیت اپنے تمام ساتھیوں کو ایک پھاڑ کے دامن میں قلعہ میں محفوظ کردیا , تین برس تک یہ قید وبند کی زندگی بسر کرنا پڑی . اس میں ھر شب یہ اندیشہ تھا کہ کھیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نھیں رھنے دیتے تھے بلکہ جعفر(ع) کو رسول کے بستر پر اور رسول کو عقیل (ع)کے بستر پر اور پھر رسول کو جعفر(ع)کے بستر پرلٹا دیتے تھے اورپھر رسول کو علی علیہ السّلام کے بستر پر. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کاپتہ لگا کر حملہ کرنا چاھے تو میرا کوئی بھی بیٹا قتل ھوجائے مگر رسول کا بال بیکانہ ھو. اس طرح علی بچپن ھی سے فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دھراتے رھے.
ھجرت

اس کے بعد وہ وقت آیا کہ ابو طالب علیہ السّلام کی وفات ھوگئی جس سے اس جاں نثار چچا کی وفات سے پیغمبر کا دل ٹوٹ گیا اور آپ نے مدینہ کی طرف ھجرت کاارادہ کرلیا جس پر دشمنوں نے ارادہ کیا کہ ایک رات جمع ھو کر پیغمبر کے گھر کو گھیر لیں اور حضرت کو شھید کرڈالیں , حضرت کو اس کی اطلاع ھوئی تو آپ نے اپنے جاں نثار بھائی علی کو بلا کر اس واقعہ کی اطلاع دی اور فرمایا کہ میری جان کی حفاظت یوں ھوسکتی ھے کہ تم آج کی رات میرے بستر پر میری چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور میں مخفی طور پر مکہ سے روانہ ھوجاؤں . کوئی دوسرا ھوتاتو یہ پیغام سنتے ھی اس کا دل دھل جاتا , مگر علی نے یہ سن کر کہ میرے ذریعہ رسول کی جان کی حفاظت ھوگی خدا کاشکر ادا کیا اور بھت خوش ھوئے کہ مجھے رسول کافدیہ قرار دیا جارھا ھے , یھی ھوا کہ رسالت مآب شب کے وقت مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ھوگئے اور علی علیہ السّلام رسول کے بستر پر سوگئے , چاروں طرف خون کے پیاسے دشمن تلواریں کھینچے نیزے لئے ھوئے مکان کوگھیرے ھوئے تھے . بس اس بات کی دیر تھی کہ ذرا صبح ھو او رسب کے سب گھر میں گھس کر رسالت ماب کو شھید کر ڈالیں . علی علیہ السّلام اطمینان کے ساتہ بستر پرآرام کرتے رھے اور ذرا بھی اپنی جان کاخیال نہ کیا دشمنوں کو صبح کے وقت معلوم ھوا کہ محمد تو رات ھی چلے گئے تھے . انھوں نے آپ پر یہ دباؤ ڈالنا چاھا کہ آپ بتلادیں کہ رسول کھاں گئے ھیں ؟ مگر علی علیہ السّلام نے بڑے بھادرانہ تیوروں سے یہ بتلانے سے قطعی انکار کردیا . اس کا نتیجہ یہ تھا کہ حضرت رسول الله مکہ سے کافی دور تک بغیر کسی پریشانی اور رکاوٹ کے تشریف لے گئے۔علی علیہ السّلام تین روز تک مکہ میں رھے . جن جن کی امانتیں رسول الله کے پاس تھیں ان تک ان کی امانتیں پھنچا کر خواتین بیت رسالت کو اپنے ساتھ لے کرمدینہ کی طرف روانہ ھوگئے . کئی روز تک آپ رات دن پیدل چلے اس طرح کہ پیروں سے خون بہ رھا تھااور اسی حالت میں مدینہ میں رسول کے پاس پھنچے . اس واقعہ سے ثابت ھوتا ھے کہ علی علیہ السّلام پر رسول کو سب سے زیادہ اعتماد تھا۔ جس وفاداری , ھمت اور دلیری سے علی علیہ السّلام نے اس ذمہ داری کو پورا کیا ھے وہ بھی اپنی مثال آپ ھے .
شادی

رسول نے مدینے میں آکر سب سے پھلاکام یہ کیا کہ اپنی اکلوتی بیٹی فاطمہ زھرا علیھا السّلام کاعقد علی علیہ السّلام کے ساتہ کردیا . رسول اپنی بیٹی کو انتھائی عزیز رکھتے تھے اور اتنی عزت کرتے تھے کہ جب فاطمہ زھرا علیہ السّلام آتی تھیں تو رسول تعظیم کے لیے کھڑے ھوجاتے تھے . ھر شخص اس بات کاطلب گار تھا کہ رسول کی اس معزز بیٹی کے ساتہ منسوب ھونے کا شرف اسے حاصل ھو. دو ایک نے ھمت بھی کی کہ وہ رسول کو پیغام دیں مگر حضرت نے سب کی خواھشوں کو رد کردیا اور یہ کہاکہ فاطمہ کی شادی بغیر حکمِ خدا کے نھیں ھوسکتی۔ ھجرت کاپھلا سال تھا جب رسول نے علی علیہ السّلام کو اس عزت کے لئے منتخب کیا . یہ شادی نھایت سادگی کے ساتھ انجام پذیرھوئی . شھنشاہ دین ودنیا حضرت پیغمبر خدا کی بیٹی اور اس کو پیغمبر کی طرف سے جھیزبھی نھیں دیا گیا . خود فاطمہ کا مھر تھاجو علی علیہ السّلام سے لے کر کچھ سامان خانہ داری فاطمہ کے لیے خرید کر ساتھ کردیا گیا , وہ بھی کیا؟مٹی کے کچھ برتن , خرمے کی چھال کے تکیے . چمڑے کابستر اور چرخہ , چکی اور پانی بھرنے کی مشک . علی علیہ السّلام نے مھر ادا کرنے کے لئے اپنی زرہ فروخت کی اور فاطمہ زھرا علیھا السّلام کا مھر ادا کیا گیا جو ایک سو سترہ تولے چاندی سے زیادہ نہ تھا اس طرح مسلمانوں کے لئے ھمیشہ کے لیے ایک مثال قائم کردی گئی کہ وہ اپنی تقریبات میں فضول خرچی سے کام نہ لیں
خانہ داری

فاطمہ علیھا السّلام اور علی علیہ السّلام کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی۔مرد اور عورت آپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک حیات ثابت ھوسکتے ھیں ،آپس میں کس طرح تقسیم عمل ھونا چاھیے اور کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ھوسکتی ھے , وہ گھر دنیا کی آرائشوں سے دور , راحت طلبی اور تن آسانی سے بالکل علیحدہ تھا , محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور آپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بناھوا تھا , جھاں سے علی علیہ السّلام صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اوریھودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اور جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لے کر گھر پر آتے تھے .بازار سے جو خرید کر فاطمہ علیھا السّلام کو دیتے تھے اور فاطمہ چکی پیستی , کھانا پکاتی او رگھر میں جھاڑودیتی تھیں , فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مھم میں اپنے شوھر کاھاتہ بٹاتی تھیں
جهاد

مدینہ میں آکر پیغمبر کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا . آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں۔ بعض کو قتل کیا ، بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پھنچائیں . یھی نھیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑاھا ئی کردی , اس موقع پر رسول کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوں نے آپ کوانتھائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا , آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا کہ آپ شھر کے اندر رہ کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن آبادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے. گو آپ کے ساتھ تعدادبھت کم تھی یعنی صرف تین سو تیرہ آدمی, ھتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باھر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ اسلام کی پھلی لڑائی ھوئی. جو جنگِ بدر کے نام سے مشھور ھے . اس لڑائی میں رسول نےزیادہ تر اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب(ع) اس جنگ میں شھید ھوئے . علی کو جنگ کا یہ پھلا تجربہ تھا ۔25برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سھرا علی علیہ السّلام کے سر رھا .جتنے مشرکین قتل ھوئے تھے ان میں سے آدھے مجاھدین کے ھاتھوں قتل ھوئے تھے۔ اس کے بعد ,اُحد, خندق,خیبر,اور آخر میں حنین،یہ وہ بڑی لڑائیاں ھیں جن میں علی علیہ السّلام نے رسول کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بھادری کے جوھر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں علی علیہ السّلام کو علمداری کا عھدہ بھی حاصل رھا . اس کے علاوہ بھت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول نے علی علیہ السّلام کو تنھا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں بڑی بھادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتھائی استقلال , تحمّل اور شرافت نفس سے کام لیا،جس کااقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے ۔ خندق کی لڑائی میں دشمن کے سب سے بڑے سورماعمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چھرے پر لعاب دھن پھینک دیا . آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے سینے پر سے اتر آئے۔ صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ھوگا بلکہ خواھش نفس کے مطابق ھوگاکچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا , اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برھنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السّلام نے اس کی زرہ نھیں اُتاری اگرچہ وہ بھت قیمتی تھی . چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کھا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ھوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھے یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کاقاتل علی سا شریف انسان ھے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توھین گوارا نھیں کی , آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یابچّوں پر ھاتہ نھیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نھیں کیا.
خدمات

نہ فقط جھاد بلکہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا .یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عھد ناموں کا لکھنااور خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ھوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے- اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے لئے پیغمبر نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ھو گیا۔
جب سورہ براَت نازل ھوئی تو اس کی تبلیغ کے لئے بحکم خدا آپ ھی مقرر ھوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورۂ براَت کی آیتیں سنائیں- اس کے علاوہ بھی آپ رسالت مآب کی ھر خدمت انجام دینے پر تیار رھتے تھے- یھاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ھاتھ سے سی رھے ھیں، علی علیہ السّلام اسے اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے تھے-
اعزاز

حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول(ص) ان کی بھت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاھر کرتے رھتے تھے ۔کبھی یہ کھتے تھے کہ علی مجھ سے ھیں اور میں علی سے ھوں.کبھی یہ کھا کہ میں علم کاشھر ھوں اور علی اس کا دروازہ ھے . کبھی یہ کھاکہ تم سب میں بھترین فیصلہ کرنے والا علی ھے .,, کبھی یہ کھاکہ علی کومجھ سے وہ نسبت ھے جو ھارون کو موسیٰ سے تھی .,,کبھی یہ کھاکہ علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ھیں جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ھوتا ھے.,
کبھی یہ کھا کہ علی،خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ھیں ,, یھاں تک کہ مباھلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ھوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مھاجرین وانصار میں عقد اخوت پڑھا گیاتو علی علیہ السّلام کو پیغمبر نے اپنا دنیا وآخرت میں بھائی قرار دیااور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں لاکھوں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ھاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح تمھارا سرپرست اورحاکم میں ھوں اسی طرح علی تم سب کے سرپرست اور حاکم ھیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ھے کہ تمام مسلمانوں نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السّلام کی ولی عھدی اور جانشینی کااعلان کردیا ھے.
رسول کی وفات

ھجرت کو دس برس پورے ھوئے تھے جب پیغمبر خدا (س) اس بیماری میں مبتلا ھوئے جو مرض الموت ثابت ھوئی , یہ خاندان رسول کے لیے ایک قیامت خیز مصیبت کاوقت تھا . علی علیہ السّلام رسول کی بیماری میں برابرآپ کے پاس موجود اور تیمارداری میں مصروف رھتے تھے اور رسول بھی علی علیہ السّلام کااپنے پاس سے ھٹنا ایک لمحہ کے لیے گوارانہ کرتے تھے . آخری وقت میں آپ نے علی علیہ السّلام کو اپنے پاس بلایا اور سینے سے لگا کر بھت دیر تک آھستہ آھستہ باتیں کرتے رھے اور ضروری وصیتیں فرمائیں . اس گفتگو کے بعد بھی علی کو اپنے سے جدا نہ ھونے دیا اور ان کا ھاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا. جس وقت رسول کی روح جسم سے جداھوئی ھے اس وقت بھی علی علیہ السّلام کاھاتھ رسول کے سینے پر رکھاھوا تھا .
بعدِ رسول

جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا وہ بعد رسول آپ کی لاش کو کس طرح چھوڑتا, چنانچہ رسول کی تجھیز وتکفین اور غسل وکفن کاتمام کام علی علیہ السّلام ھی کے ھاتھوں ھوا اورقبر میں آپ ھی نے رسول کو اتارا , رسول کے دفن سے فارغ ھونے کے بعد یہ معلوم ھوا کہ اتنی دیر میں پیغمبر کی جانشینی کاانتظام ھوگیا ھے . اگر کوئی دوسرا انسان ھوتاتو جنگ آزمائی پر تیار ھوجاتا مگر علی علیہ السّلام کو اسلامی مفادات اتنے عزیز تھے کہ آپ نے اپنے حقوق کے اعلان کے باوجود اپنی طرف سے مسلمانوں میں خانہ جنگی پیدا نھیں ھونے دی , نہ صرف یہ کہ آپ نے معرکہ آرائی نھیں چاھی بلکہ جس وقت ضرورت پڑی , اس وقت اسلامی مفادات کی خاطر آپ نے امداد دینے سے دریغ بھی نھیں کی،مشکل مسائل کے فیصلہ اور ضروری مشورہ لئے جانے پر اپنی مفید رائے کااظھار کیا اور اس سے کبھی پھلو نھیں بچایا . اس کے علاوہ بطور خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رھے . قرآن کو ترتیب نزول کے مطابق ناسخ ومنسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا . مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کااور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیااور خود بھی تفسیر ، کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراھم کیا . بھت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کاکام انجام دے سکیں , زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ھوائے زمانہ مخالف بھی ھو اور اقتدار نہ بھی حاصل ھو سکے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاھیے . ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر قومی مفاد کو نقصان نہ پھنچایا جائے اور جھاں تک ممکن ھو انسان اپنی ملّت , قوم اور مذھب کی خدمت ھر حال میں کرتا رھے .
خلافت رسول

کے بعد علی علیہ السّلام نے پچیس برس تک خانہ نشینی میں زندگی بسر کی35 ھ میں مسلمانوں نے خلافت اسلامی کامنصب علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا . آپ نے پھلے انکار کیا , لیکن جب مسلمانوں کااصرار بھت بڑہ گیاتو آپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میں بالکل قران اور سنت پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا . مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص مذھبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا , آپ کے خلاف بنی امیہ اور بھت سے وہ لوگ کھڑے ھوگئے جنھیں آپ کی مذھبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ھونے کا خطرہ تھا , آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا اور جمل و صفین، اور نھروان کی خوں ریز لڑائیاں ھوئیں جن میں علی بن ابی طالب علیھما السّلام نے اسی شجاعت اور بھادری سے جنگ کی جو بدر و احد , خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسی چاہتے تھے ویسی اصلاح فرمائیں . پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی , مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے۔ آپ شھنشاہ اسلام ھونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ھاتہ سے کھجوریں بیچنا برا نھیں سمجھتے تھے , پیوند لگے ھوئے کپڑے پھنتے تھے , غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے . جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے , یھاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاھا کہ انھیں دوسرے مسلمانوں سے کچھ زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کھا کہ اگر میرا ذاتی مال ھوتا تو یہ ھو بھی سکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ھے . مجھے حق نھیں ھے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں , انتھایہ ھے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ھوئے اور کوئی ملاقات کے لیے آکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ھونا چاھیے . آپ کی کوشش یہ رھتی تھی کہ جو کچہ بیت المال میں آئے وہ جلداز جلد حق داروں تک پھنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نھیں فرماتے تھے .
شھادت

افسوس یہ ھے کہ یہ امن , مساوات اور اسلامی تمدّن کا علمبردار دنیا طلب لوگوں کی عداوت سے نہ بچااور 19ماہ رمضان 40ھجری کو صبح کے وقت خدا کے گھر یعنی مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زھر میں بجھی ھوئی تلوار سے زخمی کیا گیا . آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کی انتھا یہ تھی کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کاچھرہ زرد ھے اور آنکھوں سے آنسو جاری ھیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا اور اپنے دونوں فرزندوں حسن و حسین کو ھدایت فرمائی کہ یہ تمھارا قیدی ھے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے بھی کھلانا . اگر میں صحتیاب ھوگیا تو مجھے اختیار ھے میں چاھوں گا تو سزا دوں گا اور چاھوںگا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رھا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاھا تو اسے ایک ھی ضربت لگانا , کیونکہ اس نے مجھے ایک ھی ضربت لگائی ھے اور ھر گز اس کے ھاتہ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا , اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ھے , دو روز تک علی علیہ السّلام بستر بیماری پر انتھائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رھے آخر کار زھر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور21رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ھوئی .امام حسن وامام حسین علیھما السّلام نے تجھیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں انسانیت کاتاجدار ھمیشہ کے لیے آرام کی نیند سونے کے لئے دفن ھوگیا.

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزه
اخلاق کے اصول- اخلاقی عمل
ولایت علی ع قرآن کریم میں
موعود قرآن كی حكومت اور عالمی یكجہتی كا دور
عظمت صديقہ طاہرہ زينب کبريٰ
دعائے استقبال ماہ رمضان
تلاوت قرآن کی شرائط
توبہ'' واجب ِفور ی''ہے
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
شرک اور اس کی اقسام

 
user comment