حضرت محمد(ص) بن عبداللہ بن عبدالمطلب(ص) پیغمبر آخر الزمان ہیں کہ جنہیں اللہ نے انسان کی ھدایت اور رہنمائی کیلۓ منتخب کیا ہے ۔
نام مبارک:
محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
بعض آسمانی کتابوں میں آنحضرت کا نام احمد آیا ہےاور آنحضرت کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ بنت وھب نے جناب عبد المطلب کے نام رکھنے سے پہلے آنحضرت کا نام احمد رکھا تھا (1)
کنیت:
" ابو القاسم" اور " ابوا براھیم"
القاب شریف:
رسول اللہ ، نبی اللہ ، مصطفی ، محمود ، امین ، امی ، خاتم اور ـ ـ ـ ـ ـ
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) شیعہ روایت کے مطابق 17 ربیع الا ول اور سنی روایت کے مطابق 12 ربیع الاول عام الفیل میں پیدا ہوے(2)۔
( انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رہ) کے فتوے سے پورے عالم اسلام میں 12 سے 17 ربیع الاول تک " ھفتہ وحدت " کے نام سے ایک ساتھ منایا جارہا ہے )۔
آنحضرت کے والد گرامی (حضرت عبداللہ) حضورۖ کی ولارت سے دو مہینے پہلے وفات پاچکے تھے اور والدہ ماجدہ آمنہ بنت وھب بن عبدمناف ولادت کے دو سال اور چار مہینے بعد اور دوسری روایت کے مطابق 6 سال کے بعد وفات پا گئی تھیں ۔(3)
حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی کفالت اور پرورش کی ذمہ داری آپکے دادا جناب عبدالمطلب پر آن پڑی اور جناب عبد المطلب کی رحلت کے بعد جناب ابو طالب آنحضرت کے کفیل اور سرپرست بنے(4)
بہر حال حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) 27 رجب سن 40 عام الفیل مطابق 610 عیسوی ، چالیس سال کی عمر میں ظاہری طور پر پیغمبری کے عہدے پر مبعوث ہوے، اس دن جب حضرت غار حرا میں عبادت میں مصروف تھے تو اس دوران حضرت جبرئیل امین نازل ہوے،اور حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر قرآن کی چند آیتیں(5) تلاوت کرکے خبر دی کہ آپ اللہ کے برگزیدہ پیغمبر آخر الزمان ہیں اور کہا کہ پڑو:
بسْمِ اللہ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ. اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذی خَلَقَ. خَلَقَ الْاِنسانَ مِنْ عَلَقَ. اِقْرَا وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ. اَلَّذی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ …
ایک روایت میں آیا ہے کہ اس وقت جبرئیل امین 70 ہزار فرشتوں اور میکائیل 70 ہزار فرشتوں کے ہمراہ آئے اور آنحضرت کیلۓ عزت و کر امت کی کرسی لائی اور نبوت کا تاج سرور دو عالم کے سر مبارک پر رکھا لواحی حمد انکے ہاتھوں میں دیا اور کہا اس پر چڑھ کر اللہ کا شکرانہ بجا لائیں،
دوسری روایت میں آیا ہے کرسی سرخ یاقوت کی تھی جس کے پایے زبر جد اور موتیوں کے تھے اور جب فرشتے آسمان کی طرف صعود کرنے لگے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) غار حرا سے نیچے آۓ انوار جلال نے ان کے چہرے کو کچھ اس طرح مجلل بنالیا تھا کہ کسی کو آنحضرت ۖ کے چہرے کی طرف دیکھنے کی جرءت نہیں ہوتی تھی۔جن درختوں اور پودوں سے گزرتے آنحضرت ۖ کا سجدہ کرتے اور فصیح زبان میں کہتے تھے " السلام علیک یا نبی الله السلام علیک یا رسول الله
جب گھر میں داخل ہوئے تو آپکے چہرہ مبارک کے نور نے حضرت خدیجہ کبری(س) کے گھر کو منور کردیا اور اس خاتون معظم نے سوال کیا: اے محمدۖ تمہارے چہرے پر میں یہ کیسا نور دیکھ رہی ہوں؟ آنحضرت نے فرمایا یہ میری رسالت کا نور ہے کہو لا اله الا الله محمد رسول الله
خدیجہ کبری(س) نے کہا میں تو کئ سالوں سے آپکو پیغمبر مانتی ہوں اور اب شھادت دیتی ہوں کہ خدای واحد کے سوا کوئی خدا نہیں ہے اور تم خدا کے رسول اور پیغمبر ہو،
اس طرح حضرت خدیجہ (س) سب سے پہلے پیغمبر اسلام ۖ پر ایمان لائیں(6)
اسی طرح مردوں میں جب حضرت علی (ع) نے آنحضرت ۖ کا نورانی چہرہ دیکھا تو ان پر ایمان لے آۓ اور زبان پر شہادتین جاری کیا،
اسکے بعد آنحضرت ۖ گھر میں نماز پڑتے تھے اور حضرت خدیجہ کبری(س) اور حضرت علی (ع) انکے پیچہے اقتدا کرتے تھے(7)ان تین شخصیتوں نے اپنے جان و مال و حیثیت سے اسلام کی پرورش اور اسے عالمگیر بنایا۔
خدا کا یہ عظیم تحفہ ھدایت عالم بشریت کو مبارک ہو۔
---------
1- فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام(ص) (جعفر سبحانی)، ص 59
2- کشف الغمہ (علی بن عیسی اربلی)، ج1، ص 10
3- کشف الغمہ، ج1، ص 17؛ منتهی الآمال (شیخ عباس قمی)، ج1، ص 13؛ تاریخ ابن خلدون، ج1، ص 383؛ فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام، ص 59
4- منتہی الآمال، ج1، ص 44؛ فرازہای از تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص 67
5- ہمان و تاریخ ابن خلدون، ج1، ص 384
6- فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص 93؛ تاریخ ابن خلدون، ج1، ص 385
7- منتہی الآمال، ج1، ص 47 ، فرازہایی از تاریخ پیامبر اسلام(ص)، ص