شیعوں کے کچھ عقائد ایسے ہیں جن پر اہل سنت محض اس تعصب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں جو امویوں اور عباسیوں نے اس لیے پھیلایا تھا کیونکہ وہ امام علی ع سے بغض اور کینہ رکھتے تھے یہاں تک کہ امویوں نے علی الاعلان 80 برس تک منبروں سے افتخار ہر نبی وہر ولی حضرت علی ع پر لعنت کی (1)
اس لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ لوگ ہر اس شخص کو گالیاں دیتے تھے اور اس پر ہر طرح کے بہتان باندھتے تھے جس کا ذرا بھی علی ع کی جماعت سے تعلق ہو ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی مگر کسی کو یہ کہا جاتا تھا کہ تو یہودی ہے تو وہ اس کا اتنا برا نہیں مانتا تھا جتنا اگر اس کو یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ تو شیعہ ہے ۔ ان کے حامیوں اور پیروکاروں کا بھی ہر زمانے میں اور ہرملک میں یہی طریقہ رہا۔یہاں تک کہ اہل سنت کے لیے لفظ شیعہ ایک گالی بن گیا ۔ کیونکہ شیعوں کے عقائد مختلف تھے اور سنیوں کی جماعت سے باہر تھے ، اس لیے سنی ان پر جو چاہتے الزام لگادیتے تھے ، جس طرح چاہتے نام دھرتے تھے اور ہر بات میں ان کے طریقے کے خلاف کرتے تھے ۔(2)
آپ کو شاید علم ہو کہ علمائے اہل سنت میں سے ایک مشہور عالم(3) کا کہنا ہے تھا کہ "اگر چہ دائیں ہاتھ میں انگھوٹھی پہننا سنت رسول ہے ، لیکن چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے اس لیے اس کا تر ک واجب ہے"۔
اور سنئے حجۃ الاسلام ابو حامد غزالی کہتے ہیں کہ " قبر کی سطح کو ہموار کرنا اسلام میں مشروع ہے مگر رافضیوں نے اسے اپنا شعار بنالیا ہے ،اس لیے ہم اسے چھوڑ کے قبروں کو اونٹ کے کوہان کی شکل دے دی "۔اور ابن تیمیہ(4) کہتے ہیں :
بعض فقہاء کیا خیال یہ ہے کہ اگر کوئی مستحب شیعوں کا شعار بن جائے تو اس مستحب کو ترک کردینا بہتر ہے گو ترک کرنا واجب نہیں ۔کیونکہ اس مستحب پر عمل میں بہ ظاہر شیعوں سے مشابہت ہے ۔ سنیوں اور رافضیوں میں فرق کی مصلحت مستحب پر عمل کی مصلحت سے زیادہ قوی ہے ۔ (5)
حافظ عراقی سے جب یہ پوچھ گیا کہ تحت الحنک کس طرف کیاجائے ؟ تو انھوں نے کہا کہ
مجھے کوئی ایسی دلیل نہیں ملی جس سے داہنی طرف کی تعیین ہوتی ہو ، سوائے اس کے طبرانی کے یہاں ایک ضعیف حدیث ضرور ہے ، لیکن اگر یہ ثابت بھی ہو تو شاید آپ داہنی طرف لٹکا کر بائیں طرف لپیٹ لیتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں مگر چونکہ یہ شیعوں کا شعار بن گیا ہے ، اس لیے تشبہ سے بچنے کے لیے اس سے احتراز ہی مناسب ہے (6)
سبحان اللہ ! یہ اندھا تعصب ملاحظہ ہو ۔یہ علماء کیسے سنت رسول ص کی مخالفت کی اجازت صرف اس بنا پر دیتے ہیں کہ اس پر شیعوں نے پابندی سے عمل کرنا شروع کردیا ہے اور وہ ان کا شعار بن گئی ہے ۔ پھر دیدہ دلیری دیکھیے کہ اس بات کا علانیہ اعتراف کرتے ہوئے بھی ذرا نہیں شرماتے ،میں تو کہتاہوں کہ شکر خدا کہ ہر صاحب بصیرت اور جویائے حقیقت پر حق واضح ہوگیا ۔ سنت کا نام لینے والو ! دیکھ سنت کا دامن کسے نے تھاما ہوا ہے ۔
الحمداللہ کہ ظاہر ہوگیا کہ یہ شیعہ ہی ہیں جو سنت رسول ص کااتباع کرتے ہیں جس کی گواہی تم خود دے رہے ہو ۔ اور تم خود ہی اس کے بھی اقراری مجرم ہو کہ تم نے سنت رسول ص کو عمدا اور دیدہ ودانستہ محض اس لیے چھوڑدیا تاکہ تم اہل بیت ع اور ان کے شیعیان با اخلاص کی روش کی مخالفت کرسکو ۔ تم نے معاویہ بن ابی سفیان کی سنت اختیار کرلی جن کے شاہد عادل امام زمخشری ہیں جو کہتے ہیں کہ سنت رسول ص کے برخلاف سب سے پہلے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی معاویہ ابن ابی سفیان نے پہنی تھی ۔ تم نے باجماعت تراویح کی بدعت میں سنت عمر کی پیروی کی ۔حالانکہ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے مسلمانوں کو نافلہ نمازیں گھر میں فرادی پڑھنے کا حکم دیا گیا تھا (7)۔ حضرت عمر نے خود اعتراف کیا تھا کہ یہ نماز بدعت ہے :
بخاری میں عبدالرحمان بن عبدالقاری سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ماہ رمضان میں ایک دن رات کے وقت ،میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی طرف گیا تو وہاں دیکھا کہ لوگ متفرق طور پر نماز پڑھ رہے ہیں ۔ کہیں کوئی اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا اور کہیں چند لوگ مل کر ۔ عمر نے کہا کہ میرے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ میں ایسا انتظام کردوں کہ یہ سب ایک قاری کے پیچھے نماز پڑھیں ۔چنانچہ عمر نے ایسا ہی کیا اور ابی بن کعب کوامام مقرر کردیا ایک رات پھر مین عمر کے ساتھ گیا ۔ اس وقت سب لوگ جماعت سے نماز پڑھ رہے تھے ۔ انھیں دیکھ کر عمر نے کہا : کتنی اچھی بدعت ہے یہ (8)۔عمر ، جب آپ نے یہ بدعت شروع کی تھی تو آپ خود کیوں اس میں شریک نہیں ہوئے ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب آپ ان کے امیر تھے تو آپ بھی ان کے ساتھ نماز پڑھتے ۔ یہ کیا کہ آپ ان کا تماشا دیکھنے نکل کھڑے ہوئے ؟ آپ کہتے ہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے ۔یہ اچھی کیسے ہوسکتی ہے جب رسول اللہ ص نے اس سے اس وقت منع کردیا تھا جب لوگوں نے آپ کے دروازے پر جمع ہوکر شور مچایا تھا کہ آپ آکر نافلہ رمضان پڑھادیں ۔ اس پر رسول اللہ ص غصّے میں بھرے ہوئے نکلے اورآپ نے فرمایا ۔
"مجھے اندیشہ تھا کہ یہ نماز تم پر فرض ہوجائے گی ۔ جاؤ اپنے گھروں میں جاکر نماز پڑھو۔ فرض نمازوں کے علاوہ ہر نماز آدمی کے لیے گھر میں پڑھنا ہی بہتر ہے "۔ تم نے سفر کی حالت میں پوری نماز پرھنے کی بدعت میں عثمان بن عفان کی سنت کی پیروی کی ہے ۔ تمھارا یہ عمل سنت رسول کے خلاف ہے ۔کیونکہ رسول اللہ ص تو سفر میں قصر نماز پڑھا کرتے تھے (9)۔ اگر میں وہ سب مثالیں گنانے لگوں جہاں تم نے سنت رسول کے خلاف طریقہ اختیار کیا ہے تو اس کے لیے ایک پوری کتاب کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن تمھارے خلاف تو تمھاری اپنی شہادت ہی کافی ہے جو تمھارے اپنے اقرار پر مبنی ہے ۔تم نے یہ بھی اقرارکیا ہے کہ یہ شیعہ رافضی ہیں جو سنت رسول کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں !
کیا اس کے بعد بھی ان جاہلوں کی تردید کرے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ شیعہ علی بن ابی طالب ع کا اتباع کرتے ہیں اور اہل سنت رسول اکرم ص کا ؟ کیا یہ لوگ یہ ثابت کرناچاہتے ہیں کہ علی ع رسول اللہ ص کے مخالف تھے اور انھوں نے کوئی نیا دین ایجاد کیا تھا ؟ کیسی سخت بات ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ علی ع تو سرتاپا سنت رسول ص تھے ۔ وہ سنت رسول ص کے شارح تھے اور سنت پر سختی سے قائم تھے ۔ ان کےمتعلق رسول اللہ ص نے فرمایا تھا کہ
"عليٌّ مّنّي بمنزلتي من رّبي."(10)
"علی ص کا مجھ سے وہی تعلق ہے جو میرا میرے پروردگار سے ہے " یمنی جس طرح کہ تنہا محمد ص ہی وہ شخص تھے جو اللہ تعالی کا پیغام پہنچاتے تھے ایسے ہی تنہا علی ص وہ شخص تھے جو رسول اللہ ص کا پیغام پہنچاتے تھے ۔ علی ع کا قصور یہ تھا کہ انھوں نے اپنے سے سابق خلفاء کی خلافت تسلیم نہیں کی اور شیعوں کا قصور یہ ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں علی ع کی پیروی کی اور ابوبکر ، عمر اور عثمان کے جھنڈے تلے جمع ہونے سے انکار کردیا ۔ اسی لیے اہل سنت انھیں "رافضی م"یعنی منکر کہنے لگے ۔
اگر اہل سنت شیعہ عقائد اور شیعہ اقوال کا انکار کرتے ہیں تو اس کے دو سبب ہیں :
پہلا سبب تو وہ دشمنی ہےجس کی آگ اموی حکمرانوں نے جھوٹے پروپیگنڈے اور منگھڑت روایات کے ذریعے سے بھڑکائی تھی ۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ اہل سنت جو خلفاء کی تائید کرتے ہیں اور ان کی غلطیوں اور ان کے اجتھادات کو صحیح ٹھہراتے ہیں ، خصوصا اموی حکمرانوں کی غلطیوں کو جن میں معاویہ کا نام سر فہرست ہے ۔شیعہ عقائد ان کے اس طرز عمل کے منافی ہیں ۔جو شخص واقعات کا متتبع کرے گا ۔ اس پر واضح ہوجائے گا کہ شیعہ ،سنی اختلافات کی داغ بیل تو سقیفہ کے دن ہی پڑگئی تھی ۔ اس کے بعد اختلافات کی خلیج برابر وسیع ہوتی چلی گئی ۔ بعد میں جو بھی اختلاف پیدا ہوا اس کی اصل سقیفہ کا واقعہ ہی تھا ۔اس کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ شیعوں کے وہ سب عقائد جن پر اہل سنت اعتراض کرتے ہیں ، ان کا خلافت کے معاملے سے گہرا تعلق ہے اور ان سب کی جڑ خلافت ہے ۔مثلا ۔ ائمہ کی تعداد ، امام کا منصوص ہونا ، ائمہ کی عصمت ، ا ن کا علم ،بدا ، تقیہ ، مہدی منتظر وغیرہ ۔
اگر ہم طرفین کے اقوال پر غیر جذباتی ہو کر غور کریں تو ہمیں طرفین کے عقائد میں بہت زیادہ بعدنظر نہیں آئے گا اور نہ ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا کوئی جواز ملیگا کیونکہ جب آپ اہل سنت کی وہ کتابیں پڑھتے ہیں جن میں شیعوں کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ کو ذرا دیر کے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے گویا شیعہ اسلامی اصولوں اور اسلامی احکام کے مخالف ہیں اور انھوں نے کوئی نیا دین گھڑا ہوا ہے ۔ حالانکہ جو بھی منصف مزاج شخص شیعہ عقائد پر غور کرےگا وہ ان کی اصل قرآن وسنت میں پائیگا حتی کہ جو مخالفین ان عقائد پر اعتراض کرتے ہیں خود ان کی کتابوں سے بھی ان ہی عقائد کی تایید ہوتی ہے ۔ پھر ان عقائد میں کوئی بات خلاف عقل ونقل اورمنافی اخلاق نہیں ہے!
آیئے ان عقائد پر ایک نظر ڈالیں تاکہ میرے دعوے کی صحت ظاہر ہوجاتے اور آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ مخالفین کے اعتراضات دھوکے کی ٹٹی کے سواکچھ نہیں !
ائمہ کی عصمت
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ نبی کی طرحی امام کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ تمام ظاہری اور باطنی برائیوں سے بچپن سے لے کر موت تک محفوظ رہے ۔ اس سے عمدا یا سہوا کوئی گناہ سرزد نہ ہو اور بھول چوک اور خطا سے محفوظ ہو ۔ کیونکہ ائمہ شریعت کے نگراں اور محافظ ہیں اور اس لحاظ سے ان کی حیثیت وہی ہے جو نبی کی ہے ۔جس کی دلیل کی رو سے ہمارے لیے ائمہ کے معصوم ہونے کا عقیدہ بھی ضروری ہے ۔ اس معاملے میں دونوں میں کوئی فرق نہیں (11)
یہ عصمت کے باے میں شیعوں کی رائے ہے ۔لیکن کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے جو قرآن وسنت کے منافی ہو یا عقلا محال ہو یا جس سے اسلام پر حرف آتا ہو اور اس کے شایان شان نہ ہو یا جس سے کسی نبی یا امام کی قدرومنزلت میں فرق آتا ہو؟ ہر گز نہیں !
بلکہ اس عقیدے سے تو کتاب وسنت کی تائید ہوتی ہے ۔ یہ عقیدہ عقل سلیم کے عین مطابق ہے اور اس سے نبی اور امام کی شان میں اضافہ ہوتا ہے احمقانہ اور غلط بات تو یہ ہے کہ یہ کہاجائے کہ نبی غلطی کرتا ہے اور اس کی اصلاح دوسرے لوگ کرتے ہیں ۔
عصمت ازروئے قرآن
اللہ تعالی کاارشاد ہے :
" إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً "
اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ اسے اہل بیت ع تم سے رجس کو دور رکھے اور تمھیں خوب پاک وپاکیزہ رکھے ۔(سورہ احزاب ۔آیت 33)
اگر رجس سے دور رکھنے کے معنی سب برائیوں اور گناہوں سے حفاظت ہے تو کیا اس کا مطلب عصمت نہیں ؟ ورنہ پھر اس کا مطلب اور کیا ہے؟
اللہ تعالی کا ارشادہے :
"إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ"
جو لوگ متقی ہیں ، جب انھیں کوئی شیطانی خیال ستاتا ہے تو وہ اللہ کویادہ کرتے ہیں جس سے انھیں یکایک صحیح راستہ سمجھائی دینے لگتاہے (سورہ اعراف ۔ آیت 201)
جب شیطان کسی متقی شخص کو بہکانا اور گمراہ کرنا چاہتا ہے تو اگر وہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ اسے شیطان کے دام فریب سے بچالیتا ہے اور اسے راہ حق دکھادیتا ہے جس پر و ہ چل پڑتا ہے جب عام مومن کی یہ صورت ہے تو ان لوگوں کا کیا کہنا جو اللہ کے چنیدہ بندے ہیں جنھیں اللہ نے ہر آلودگی سے پاک رکھا ہے " ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا "
پھر ہم نے وارث بنادیا کتاب کا ان کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا ۔ (سورہ فاطر ۔آیت 32)
جسے اللہ چنے گا وہ بلاشک معصوم عن الخطاء ہوگا ۔ خاص اسی آیت سے امام رضا ع نے ان علما کے سامنے استدلال کیا تھا جنھیں عباسی خلیفہ مامون نے جمع کیا تھا ۔ امام رضا ع نے یہ ثابت کیا تھا کہ اس آیت میں چنیدہ بندوں سے مراد ائمہ اہل بیت ہی ہین جنھیں اللہ نے کتاب کا وارث بنایا ہے ۔جو علماء وہاں موجود تھے انھوں نے امام کی یہ بات تسلیم کرلی تھی (12)
یہ قرآن کریم سے بعض مثالیں ہیں ۔ ان کے علاوہ اوربھی آیات ہیں جن سے ائمہ کی عصمت ثابت ہوتی ہے ۔جیسے مثلا "أﺋﻤﺔ ﯾﮭﺪون ﺑﺄﻣﺮﻧﺎ" وغیرہ لیکن ہم بہ اختصار اتنے ہی پر اکتفاء کرتے ہیں
عصمت ازروئے حدیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"لوگو! میں تمھارے درمیان وہ چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ جب تک تم ان سے جڑے رہوگے ، ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ، اور وہ ہیں اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت ع(13)۔
جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، یہ حدیث ائمہ اہل بیت ع کے معصوم ہونے کے بارےمیں صریح شہادت ہے :
اولا:- اس لیے اللہ کی کتاب معصوم ہے ، اس میں باطل کا کسی طرف سے کوئی دخل نہیں کیونکہ وہ اللہ کا کلام ہے اور جو اس میں شک کرے ،وہ کافر ہے ۔
ثانیا :- اس لیے کہ جو کتاب اور عترت کو تھامے رہے ، وہ گمراہی سے محفوظ ومامون رہتا ہے ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب وعترت میں غلطی کی گنجائش نہیں ۔ایک اور حدیث میں رسول اللہ ص نے فرمایا :"میرے اہل بیت ع کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس پرسوار ہوگیا نجات پاگیا اور جس نے گریز کیا وہ ڈوب گیا "(14)
جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ، اس حدیث میں تصریح ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام معصوم ہیں ۔ اس وجہ سے جو ان کی کشتی میں سوار ہو جائے گا وہ نجات پاجائے گا اور جو پیچھے رہ جائے گا ،گمراہی کے سمندر میں ڈوب جائے گا ۔
رسول اللہ ص نے فرمایا :
جو میری طریح کی زندگی چاہتا ہے اور میری طرح مرناچاہتا ہے اور اس جنت الخلد میں جانا چاہتا ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا ہے ،تو وہ علی ع سے اور ان کے بعد ان کی اولاد سے دوستی رکھے ،اس لیے کہ وہ تمھیں ہدایت کے دروازے سے باہر نکلنے نہیں دیں گے اور گمراہی کے دروازے میں گھسنے نہیں دیں گے ۔(15)
اس حدیث میں تصریح ہے کہ ائمہ اہل بیت ع جو علی اور اولاد علی ہیں ہو معصوم عن الخطا ہیں کیونکہ جو لوگ ان کا اتباع کریں گے وہ انھیں گمراہی کے دروازے میں داخل نہیں ہونے دیں گے ۔ ظاہر ہے کہ جو خود غلطی کرسکتا ہے وہ دوسروں کو ہدایت کیسے کرےگا ۔
رسول اللہ ص نے فرمایا :
" أنا المنذر وعليٌّ الهادي وبك يا علي يهتدي المهتدون من بعدي".
میں ڈرانے والا ہوں اور علی ہدایت دینے والے ہیں ۔ اے علی ع ! ہدایت کے طالب میرے بعد تم سے ہدایت حاصل کریں گے (16)
اہل نظر پر مخفی نہیں کہ اس حدیث میں بھی عصمت امام کی تصریحج ہے ۔ امام علی ع نے خود بھی اپنے معصوم ہونے اور اپنی اولاد میں سے دوسرے ائمہ کے معصوم ہونے کی تصرح کی ہے آپ نے کہا:
"تم کہا ں جارہے ہو اور تمھیں کدھر موڑا جارہا ہے ؟ حالانکہ ہدایت کے پرچم اڑرہے ہیں ، نشانیاں صاف اور واضح ہیں ، منارہ نور ایستادہ ہے تم کہاں بھٹک رہے ہو اور کیوں بہک رہے ہو ؟ نبی کی عترت تمھارے درمیان موجود ہے ،جو حق کی باگ ڈور ہیں ، دین کے نشان ہیں اور سچائی کی زبان ہیں ۔ جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو ، وہیں ان کو بھی جگہ دو ۔ ان کی طرف اس طرح دوڑ و جیسے پیاسے پانی کی طرف دوڑتے ہیں ۔
اے لوگو! خاتم النبییں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشادکو سنوکہ (انھوں نے فرمایا ):
ہم میں سے جو مرتا ہے وہ مرتوجاتا ہے مگر مردہ (17)نہیں ہوتا ۔ ہم میں سے جو بظاہر مرکربوسیدہ ہوجاتا ہے ،وہ درحقیقت کبھی بوسیدہ نہیں ہوتا ۔ تم وہ بات نہ کہو جو تمھیں معلوم نہیں ۔ کیونکہ اکثر وہی بات صحیح ہوتی ہے جس کا تم انکار کرتے ہو ۔جس کے خلاف تمھارے پاس کوئی دلیل نہ ہو اسے معذور سمجھو ۔اورمیں ایسا ہی شخص ہوں ۔ کیا میں نے تمھارے درمیان ثقل اکبر (قرآن )پر عمل نہیں کیا ؟ اب میں تمھارے درمیان ثقل اصغر چھوڑرہا ہوں میں نے تمھارے درمیان ایمان کا جھنڈا گاڑدیا ہے ۔" (18)
کیا ان تمام آیات قرآنی ،احادیث نبوی اور اقوال علی ع کے بعد بھی عقل ان ائمہ کی عصمت کاا نکار کرسکتی ہے جنھیں اللہ نے چنیدہ وبرگزیدہ قراردیا ہے ۔ جواب یہ ہے کہ نہیں ،ہرگز نہیں ۔ بلکہ عقل تو یہ کہتی ہے کہ ان کی عصمت ایک حتمی اور لابدی امر ہے ۔ اس لیے کہ انسانوں کی قیادت وہدایت کامنصب جن کے سپرد کیا گیا ہو ممکن نہیں کہ وہ معمولی انسان ہوں ، جو بھول چوک اور غلطی کاشکار ہوتے ہوں اور جس کی پیٹھ پر گناہوں کی گٹھڑی لدی ہوئی ہو جن پر لوگ نکتہ چینی کرتے ہوں ، عیب لگاتے ہوں اور کیڑے نکالتے ہوں ،بلکہ عقل کا تقاضا تو یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے مین سب سے زیادہ سب سے زیادہ عالم ، سب سے زیادہ نیک ، سب سے بہادر اور سب سے بڑھ کر متقی اور پرہیز گارہون کہ
یہی ہےرخت سفر میر کارواں کے لیے
یہی وہ صفات ہیں جن سے قائد کی شان بڑھتی ہے لوگوں کی نگاہ اس کی عزت وعظمت میں اضافہ ہوتا ہے ، سب اس کا احترام کرتے ہیں اور پھر دل وجان سے کسی ہچکچاہٹ اور خوشامد کے بغیر کے بغیر ، اس کی اطاعت کرنے لگتے ہیں ۔ جب یہ بات ہے تو پھر اس کے ماننے والوں کے خلاف یہ طعن وتشنیع کیوں اور یہ شوروغوغا کیسا ؟
اس سلسلے میں اہلسنت نے شیعوں پر جو تنقید کی ہے اگر وہ آپ سنیں اور پڑھیں تو آپ کو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا شیعہ جس کو چاہتے ہیں تمغہ عصمت پہنا دیتے ہیں ۔ یا جو عصمت کا قائل ہے ہو کوئی کلمہ کفر منہ سے نکال رہا ہے یا گویا وہ معصوم کے متعلق کہہ ہے کہ یہ ایسا دیوتا ہے کہ نہ اس کو اونگھ آتی ہے نہ نیند درحقیقت ایسی کوئی بھی بات نہیں ۔
عصمت ائمہ نہ کوئی عجیب وغریب بات ہے نہ محال وناممکن ۔شیعوں کے نزدیک عصمت کے معنی فقط یہ ہیں کہ معصوم اللہ تعالی کی خاص رحمت وحفاظت میں ہوتا ہے کہ شیطان اس کو ورغلا نہیں سکتا اور نفس امارہ اس پر غلبہ پا نہیں سکتا کہ اسے معصیت کی طرف لے جائے ۔ یہ وو بات ہے جس سے اللہ کے دوسرے متقی بندے بھی محروم نہیں ۔ ابھی یہ آیت گزرچکی ہے "إِنَّ الَّذينَ اتَّقَوا إِذا مَسَّهُم طائِفٌ مِنَ الشَّيطانِ تَذَکَّروا فَإِذا هُم مُبصِرونَ"مگر عام اہل تقوی کی یہ عصمت وقتی اور عارضی ہوتی ہے اور اسکا تعلق ایک خاص حالت سے ہوتا ہے ۔اگر بندہ تقوی کی کیفیت سے دور ہٹ جائے تو اللہ تعالی پھر اسے گناہوں سے محفوظ نہیں رکھتا مگر امام جسے اللہ منتخب کرتا ہے کسی حالت میں بھی تقوی اور خوف خدا کی راہ سے بال برابر بھی نہیں سرکتا ۔ ہمیشہ گناہوں اور خطاؤں سے محفوظ رہتا ہے
قرآن حکیم میں حضرت یوسف کے قصے میں ہے :
" وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلا أَن رَّأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاء إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ "
اس عورت نے ان کا قصد کیا اور وہ بھی اگر اپنے پروردگار کی دلیل نہ دیکھ چکے ہوتے تو قصد کربیٹھتے ۔ پس ہم نے انھیں بچالیا تاکہ ہم ان سے برائی اور بے حیائی کو دور رکھیں ۔ بیشک وہ ہمارے خاص بندوں میں سے تھے ۔(سورہ یوسف ۔آیت 24)
واضح رہے کہ حضرت یوسف ع نے ہرگز زنا کا قصد نہیں کیا تھا ، کیونکہ معاذاللہ اس قبیح فعل کا قصد انبیاء کی شان نہیں ہے ۔ البتہ آپ نے اس عورت کوروکنے ، دھکادینے اور ضرورت ہو تو اس کو مارنے کاقصد ضرو رکیا تھا ۔ لیکن اللہ تعالی نے ایسی غلطی کے ارتکاب سے آپ کو بچالیا ۔کیونکہ اگر یہ غلطی ہوجاتی تو آپ پر زنا کی کوشش کا الزام لگ جاتا اور ان لوگوں سے آپ کو نقصان پہنچتا ۔
قرآن شریف میں ایا ہے :
" وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ'
میں اپنے نفس کی برائت کااظہار نہیں کرتا ۔کیونکہ نفس تو برائی ہی سکھا تار ہتا ہے مگر یہ کہ جس پر پر وردگار رحم کرے ۔(سورہ یوسف ۔آیت 53)
جب اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے اپنے دوستوں کو چن لیتا ہے تو پھران کو سکھاتا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے ۔اور ان کو برائی اور گندی باتوں سے بچاتا ہےاور جب ان پر کرتا ہے ، تو انھیں کسی برائی میں ملوث نہیں ہونے دیتا ۔یہ سب اس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے ہر معنی میں خاص بندے ہوتے ہیں۔لیکن اگر کوئی یہ تسلیم کرنا ہی چاہتا کہ اللہ تعالی اپنے خاص الخاص بندوں کو برائیوں سےبچاتا اور گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے تو وہ آزاد ہے ، اس پر کوئی زبردستی نہیں ۔ ہم اس کی را ئے کا بھی احترام کرتے ہیں ۔ لیکن ان کا بھی فرض ہے کہ دوسروں کی رائے کا احترام کرے جو عصمت ائمہ کے قائل ہیں اور جن کے پاس اپنے دلائل ہیں ۔ خواہ مخواہ انھیں بدنام کرنے کی کوشش نہ کرے ۔جیسا کہ ایک شخص نے کی تھی جو پیرس میں لکچر دینے آیا تھا، یا جیسا کہ افسوس سےکہنا پڑتا ہے کہ اکثر علمائے اہل سنت کرتے ہیں ۔جب وہ اپنی تحریروں میں اس موضوع کا مذاق اڑاتے ہیں ۔
ائمہ کی تعداد
شیعہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد ائمہ معصومین کی تعداد بارہ ہے ۔ یہ تعداد نہ کم ہوسکتی ہے نہ زیادہ ۔ رسول اللہ ص نے ان ائمہ کی تعداد کے ساتھ ان کے نام بھی گنوائے ہیں (19) ان کے نام یہ ہیں :
(1):- امام علی بن ابی طالب ع
(2):-حسن بن علی ع
(3):-حسین بن علی ع
(4):-علی بن الحسین ع (زین العابدین)
(5):- امام محمد بن علی ع (باقر)
(6):-امام جعفربن محمد ع(صادق)
(7):- امام موسی بن جعفر ع(کاظم)
(8):- امام علی بن موسی ع (رضا)
(9):- امام محمد بن علی ع (تقی)
(10):- امام علی بن محمد ع (نقی)
(11):-امام حسن بن علی ع(عسکری)
(12):- امام محمد بن حسن ع(مہدی منتظر)
یہ ہیں ائمہ اثناعشر ! جن کی عصمت کے شیعہ قائل ہیں ۔بعض افترا پرداز یہ کہہ کر کچھ مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ شیعہ اہل بیت کی عصمت کے قائل ہیں اور دیکھو شاحسین بادشاہ اردن بھی اہل بیت ع میں سے ہیں اور اسی طرح شاہ حسن ثانی بادشاہ مراکش بھی اہل بیت ع میں سے ہیں ۔ اب تو کچھ لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ شیعہ امام خمینی کو بھی معصوم مانتے ہیں ۔
یہ ہے مسخرا پن ، افتراء اور سفید جھوٹ ،شیعہ علماء اور اعلی تعلیم یافتہ تو درکنار ، ایسی بات تو شیعہ عوام بھی نہیں کہتے ، ان مسخروں کی جب اور کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی تو وہ سوچتے ہیں کہ شاید اسی طرح وہ لوگوں کو خصوصا توجوانوں کو جو اس قسم کے پروپیگنڈے پر آسانی سا یقین کرلیتے ہیں ، شیعوں سے متنفر کرسکیں ۔ شیعہ پہلے بھی اور آج بھی فقط ان ہی ائمہ کے معصوم ہونے کے قائل ہیں جن کے نام رسول اللہ نے اس وقت بتلادیے تھے جب وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ جیسا کہ ہو پہلے ذکر کرچکے ہیں ، خود بعض علمائے اہل سنت نے ایسی روایات نقل کی ہیں ۔بخاری ومسلم نے اپنی صحیحین میں ائمہ کی تعداد سے متعلق حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق ائمہ بارہ ہیں اور وہ سب قریش میں سے ہیں (20)ان احادیث کا مطلب اسی وقت ٹھیک بیٹھتا ہے جب ہم بارہ اماموں سے مراد ائمہ اہلبیت ع لین جن کے شیعہ قائل ہیں ۔ ورنہ اہل سنت بتلائیں کہ
اس چیستان کا حل کیا ہے؟
اہل سنت نے اپنی صحاح میں ائمہ اثناعشرو الی احادیث تو نقل کی ہیں لیکن یہ آج تک معماہے کہ ان مراد کون سے بارہ امام ہیں ۔مگر پھر بھی سنیوں کو یہ توفیق کہاں کہ وہ اس بات کو مان لیں جس کے شیعہ قائل ہیں ۔
ائمہ کاعلم
اہل سنت کا ایک اوراعتراض یہ ہے کہ شیعہ یہ کہتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت ع سلام اللہ علیھم کو اللہ تعالی نے ایسا خصوصی علم عطا کیا ہے جس میں کوئی ان کا شریک وسہیم نہیں ہے ۔ اور یہ کہ امام اپنے زمانے کاسب سے بڑا عالم ہوتا ہے اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص امام سے کوئی سوال کرے اور امام سے اس کا جواب بن نہ پڑے
تو کیا شیعوں کے پاس اس کی کوئی دلیل ہے ؟؟؟
ہم حسب معمول اپنی اس بحث کا آغاز بھی قرآن کریم سے کرتے ہیں ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :" ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا "
پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے ان کو کتاب کا وارث بنایا جن کو ہم نے چن لیا۔
اس آیت سے واضح طور پ ر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سبحانہ نے اپنے کچھ بندوں کو چن لیا ہے اور انھیں کتاب کا وارث بنادیا ہے ۔کیا معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ چنیدہ بندے کون ہیں ؟
ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ امام علی رضا ع نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آیت ائمہ اہل بیت ع کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ یہ اس موقع کی بات ہے جب مامون نے چالیس مشہور قاضیوں کو جمع کیا تھا اور اس میں سے ہر قاضی نے 40 سوال امام ثامن کے لیے تیار کیے تھے ۔امام نے ان سب سوالوں کے مسکت جواب دیے اور بالآخر سب قاضیوں کو ان کی اعلمیت کا اعتراف کرنا پڑا (21)
جس وقت ان قاضیوں اور امام کے درمیان یہ مناظرہ ہوا اور قاضیوں نے ان کی اعلمیت کا اقرار کیا ، اس وقت امام کی عمر چودہ سال سے بھی کم تھی ۔پھر اگر شیعہ ان ائمہ کی اعلمیت کے قائل ہیں تو اس میں حیرت کای کیا بات ہیے جبکہ خود اہل سنت علماء بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں ۔
اگر ہم قرآن کی تفسیر سے کریں گے تو ہم دیکھیں گے کہ متعدد آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ سبحانہ نے اپنی حکمت بالغہ سے ائمہ اہل بیت کو ہو علم لدنی عطا کیا تھا جو ان ہی سے مختص تھا اور یہ ائمہ واقعی ہادیوں کے پیشوا اور اندھیروں کے چراغ تھے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
" يُؤتِي الْحِكْمَةَ مَن يَشَاءُ وَمَن يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْراً كَثِيراً وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ"
ہو جسے چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت عطا ہوگئی اسے بڑی نعمت عطا ہوگئی ۔ اور نصیحت تو صاحبان عقل وفہم ہی قبول کرتے ہیں (سورہ بقرہ ۔آیت 269)
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
" فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ () وَإِنَّهُ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُونَ عَظِيمٌ ()إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ () فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ () لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ "
پس میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کی جگہ کی اور اگر تم سجھوں تو یہ ایک بڑی قسم ہے ۔واقعی یہ قابل احترام قرآن ہے ایک محفوض کتاب میں جسے کوئی مس نہیں کرسکتا بجز ان کے جو پاک کیے گئے ہیں "۔
اس آیت میں اللہ نے ایک بڑی قسم کھا کر کہا ہے کہ قرآن کریم میں ایسے باطنی اسرار ہیں جن کی حقیقت صرف ان کو معلوم ہے جو پاک کیے گئے ہیں ۔یہ پاکیزہ حضرات اہل بیت ع ہیں جن سے اللہ نے ہر طرح کی آلودگی کو دور رکھا ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قران سے متعلق کچھ باطنی علوم ہیں ، جن کو سبحانہ نے صرف ائمہ اہل بیت سےمختص کیا ہے ۔کسی دوسرے کو اگر ان علوم سے آگہی حاصل کرنا ہو تو فقط ان ائمہ کے واسطے سے ہوسکتی ہے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
"هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاء الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاء تَأْوِيلِهِ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلاَّ اللّهُ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ"
وہ اللہ ہی ہے جس نے آپ پرکتاب اتاری ۔اس کی بعض آیتیں محکم ہیں اور جو اس کتاب کامدار ہیں اور بعض متشابہ ہیں ۔ توجن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ اس حصہ کے پیچھے ہولیتے ہیں جو متشابہ ہے تاکہ فتنہ برپا کریں اور غلط مطلب نکالیں ،جبکہ اس کا صحیح کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور ان لوگوں کے جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے ۔ یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہے ۔ اور نصیحت تو عقل والے ہی قبول کرتے ہیں (سورہ آل عمران ۔آیت 7)
اس آیہ کریمہ سے معلوم ہوتا ہے، اللہ سبحانہ نے قرآن میں ایسے اسرار ورموز رکھے ہیں جن کی تاویل یا وہ خود جانتا ہے یا وہ لوگ جو علم میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں جیسا کہ ان آیات سے معلوم ہوتا ہے جو گزشتہ اوراق میں نقل کی جاچکی ہیں ، علم میں دستگاہ رکھنے والے یعنی راسخوں فی العلم سے مراد اہل بیت رسول ع ہیں ۔
اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اللہ ص نے فرمایا ہے :" ان سےآگے نہ بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاؤ
گے اور ان سے پیچھے بھی نہ رہو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے اور انھیں پڑھانے کی کوشش نہ کرو کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں "(22) امام علی ع نے خود بھی کہا تھا :
"کہاں ہیں وہ جو یہ جھوٹا دعوی کرتے ہیں کہ راسخون فی العلم ہم نہیں وہ ہیں ، وہ ہماری مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ اللہ نے ہمیں اونچا درجہ دیا ہے اور ان کو ادنی درجہ ۔ ہمیں اللہ نے منصب امامت دیا اور ان کو محروم رکھا ۔ ہمیں (زمرہ خواص میں )داخل کیا اور ان کو باہر نکال دیا ۔ہم ہی ہیں جن سے ہدایت طلب کی جاسکتی ہے اور جن سے بے بصیر تی دور کرنے کے لیے روشنی مانگی جاسکتی ہے ۔ بلاشبہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلے کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے ۔ نہ امامت کسی کو زیب دیتی ہے اور نہ کوئی اس کا اہل ہوسکتا ہے (23)"
اگر ائمہ اہل بیت راسخوں فی العلم نہیں ، تو پھر کون ہے ؟ میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ امت میں سے آج تک ان سے بڑھ کر عالم ہونے کا دعوی کسی نے نہیں کیا ۔
اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
"فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ "
اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والوں سے پوچھ لو ۔یہ آیت بھی اہل بیت ع کی شان میں نازل ہوئی تھی ۔ (24)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد امت کے لیے ضروری ہے کہ وہ حقائق معلوم کرنے کے لیے اہل بیت سے رجوع کرے ۔ چنانچہ صحابہ کو جب کوئی بات مشکل معلوم ہوتی تھی تو وہ اس کی وضاحت کے لیے امام علی ع سے رجوع کرتے تھے ۔ اسی طرح عوام مدتوں ائمہ اہل بیت ع سے حلال وحرام معلوم کرنے کے لیے رجوع کرتے رہے اور ان کے علوم ومعارف کے چشموں سے فیض یاب ہوتے رہے ۔
ابو حنیفہ کہا کرتے تھے ۔" اگر وہ دوسال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوگا ہوتا "(25)
یہ ان دوسالوں کی طرف اشارہ تھا جن کے دوران میں انھوں نے امام جعفر صادق سے تعلیم حاصل کی تھی ۔
امام مالک کہتے تھے کہ :
"علم وفضل ، عبادت اور زہد ،تقوی کے لحاظ سے جعفر صادق ع سے بہتر کوئی شخص نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے تصور میں آیا "۔(26)
جب ائمہ اہل سنت کے اعتراف کے بموجب یہ صورت ہو تو ان تمام دلائل کے باوجود شیعوں پر طعن وتشنیع کیوں ؟ جب اسلامی تاریخ سے ثابت ہے کہ ائمہ اہل بیت اپنے زمانے میں علم میں سب سے برتر تھے،تو پھر اس میں حیرت کی کیا بات ہے کہ اللہ سبحانہ ، نے اپنے اولیاء کو جنھیں اس نے چن لیا تھا مخصوص حکمت اور علم لدنی سے نوازا اور انھیں مومنین کا پیشوا اور مسلمانوں کا امام مقرر کردیا ۔اگر مسلمان ایک دوسرے کے دلائل سنیں تووہ ضرور اللہ اور رسول ص کے فرمان کو تسلیم کرلیں اور ایسی امت واحدہ بن جائیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہو ۔ پھر نہ کوئی اختلاف رہے نہ تفرقہ ، نہ مختلف نظریات ومذاہب ، نہ مسالک یہ سب ہوگا اور ضرور ہوگا اور جو ہونے والا ہے اس کے مطابق اللہ اپنا فیصلہ ضرور دےگا ۔
" تاکہ جسے برباد ہونا ہو وہ کھلی نشانیاں آنے کے بعد برباد ہو اور جسے زندہ رہنا ہو وہ بھی کھلی نشانیاں آنے کے بعد زندہ رہے "۔(سورہ انفال ۔آیت 48)
بداء
اس کے معنی ہیں کہ اللہ کے سامنے کوئی بات جس کو کرنے کا اس کا ارادہ ہو پھر اس کی رائے بدل جائے اور پہلے جس کام کا ارادہ تھا ، وہ اس کے بجائے کچھ اور کرلے ۔
اہل سنت شیعوں کو مطعون کرنے کے لیے بداء کا مطلب اس طرح لیتے ہیں گویا یہ نتیجہ ہے اللہ تعالی کی ذات میں جہل یا نقص کا ۔ اور کہتے ہیں کہ "شیعہ اللہ تعالی کے جہل قائل ہیں "۔
دراصل بداء کا یہ مطلب بالکل غلط ہے ۔ شیعہ اس کے کبھی قائل نہیں رہے ۔ اور جو شخص اس طرح کاعقیدہ ان سے منسوب کرتا ہے ۔ وہ افتراء پردازی کرتا ہے ۔قدیم وجدید شیعہ علماء کے اقوال اس کے گواہ ہیں ۔
شیح محمد رضا مظفر اپنی کتاب عقائد الامامیہ میں کہتے ہیں :
اس معنی میں اللہ تعالی کے لیے بداء محال ہے کیونکہ یہ نقص ہے اور اللہ تعالی کی لاعلمی ظاہر کرتا ہے ۔ شیعہ اس معنی بداء کے ہرگزقائل نہیں ۔ "
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
"جو شخص یہ کہتا ہے کہ بداء کے معنی " ابداء ندامہ کے ہیں ،یعنی اللہ تعالی اپنی کسی رائے کو غلط پاکر اور اس پر نادم ہوکر اپنی وہ ر ائے بدل دیتا ہے تو ایسا شخص کافر ہے "۔ امام صادق ہی نے فرمایا ہے کہ
"جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالی کے بداء کی وجہ سے اس کی لاعلمی ہے ،تو میرا اس سے کوئی تعلق نہیں " بالفاظ دیگر شیعہ جس بداء کے قائل ہیں وہ اس قرآنی آیت کے حدود کے اندر ہے:
"يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ" اور اللہ جس حکم کو چاہتا ہے مٹا دیتاہے ۔ اور جس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور اصل کتاب اس کے پاس ہے ۔(سورہ رعد ۔آیت 39)
اس بات کے اہل سنت بھی اسی طرح قائل ہیں جس طرح شیعہ ۔ پھر شیعوں ہی پر اعتراض کیوں کیاجاتا ہے سنیوں پرکیوں نہیں ۔ وہ بھی تو یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالی احکام میں تغییر کردیتا ہے ۔ موت کا وقت بدل دیتا ہے اور رزق گھٹا بڑھا دیتا ہے ۔
کیا کوئی پوچھنے والا اہل سنت سے پوچھ سکتا ہے کہ جب سب کچھ ازل سے ام الکتاب میں لکھا ہوا ہے تو پھر اللہ تعالی اپنی مرضی کے مطابق یہ تغیر وتبدل کیوں کرتا رہتا ہے ؟
ابن مردویہ اور ابن عساکر نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ :
حضرت علی ع نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے "يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ" کے بارے میں دریافت کیا تو رسول اللہ نے فرمایا : میں اس کا ایسا مطلب بیان کروں گا کہ خوش ہوجاؤگے اور میرے بعد میری امت کی آنکھیں بھی اس سے ٹھنڈی ہوں گی ۔ اگر صدقہ صحیح طریقے سے دیا جائے ، والدین کے ساتھ نیکی کی جائے ، کسی پر احسان کیا جائے ، تو یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ان سے بدبختی خوش بختی میں بدل جاتی ہے ، عمر بڑھتی ہے اور بری موت سے حفاظت رہتی ہے "
ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے شعب الایمان یمں قیس بن عبّاد رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ
"رسول اللہ نے فرمایا کہ اشہر حرم میں سے ہر مہینے کی دسویں تاریخ کی رات کو اللہ تعالی کا ایک خاص معاملہ ہوتاہے رجب کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی کا ایک خاص معاملہ ہوتا ہے ۔رجب کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جو چاہتا باقی رکھتا ہے "۔
عبد بن حمید ، ابن جدیر اور ابن منذر نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ
"عمر بن خطاب بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورکہتے جاتے تھےکہ "یا الہی! اگر تونے میری قسمت میں کوئی برائی یا گناہ لکھا ہو تو اسے مٹادے اور اسے سعادت ومغفرت سے بدل دے ۔کیونکہ تو جو چاہتا ہے مٹادیتا ہے اور جو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اور تیرے ہی پاس ام الکتاب ہے "۔ (27)
بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عجیب وغریب قصہ بیان کیا ہے ۔معراج النبی کے دوران اپنے پرودرگار سے ملاقات کا واقعہ بیان کرتے ہو ئے رسول اکرم ص فرماتے ہیں :
"اس کے بعد مجھ پر پچاس نمازیں فرض کردی گئیں ۔ میں چلتا ہوا موسی ع کے پاس آیا ۔ انھوں نے پوچھا کیا گزری ؟ میں نے کہا : مجھ پر پچاس نمازیں فرض کردی گئی ہیں۔ موسی ع نے کہا : مجھے لوگوں کی حالت کا آپ سے زیادہ علم ہے ۔ مجھے بنی اسرائیل کو قابو میں لانے میں بڑی دشواری کا سامنا کرناپڑا تھا ۔ مناسب یہ ہے کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس دوبارہ جائیے اور اس سے کچھ تخفیف کی درخواست کیجیے۔
چنانچہ میں نے واپس جاکر تخفیف کی درخواست کی ۔ اللہ تعالی نے چالیس نمازیں کردیں ۔ میں پھر موسی کے پاس پہنچا تو انھوں نے پھروہی بات کہی ۔ میں نے واپس جاکر پھر درخواست کی تو تیس نمازیں ہوگیئیں ۔پھر یہی کچھ ہوا تو بیس ہوگئیں پھر دس ہوئیں ۔ میں موسی کے پاس گیا تو انھوں نے پھروہی بات کہی اب کے پانچ ہوگئیں ۔ میں پھر موسی کے پاس پہنچا ، انھوں نے پوچھا کہ کیا کیا ؟میں نے کہا : اللہ تعالی نے پانچ نمازیں کردیں موسی نے پھر وہی بات کہی ۔ اس مرتبہ جو میں نے سلام کیا تو آواز آئی :" اب میں نے اپنے فریضہ کے بارے میں پختہ حکم دے دیا ہے ۔میں نے اپنے بندوں کا بوجھ کرم کردیا ہے اور میں نیکی کا دس گنا اجر دوں گا "(28)
بخاری ہی میں ایک اور روایت ہے ۔ اس میں ہے کہ : کئی مرتبہ کی مراجعت کے بعد جب پانچ نمازیں فرض رہ گئیں تو حضرت موسی نے رسول اکر م ص سے ایک بار پھر مراجعت کرنے کےلیے کہا۔ اور یہ بھی کہا کہ آپ کی امت پانچ نمازوں کی بھی طاقت نہیں رکھتی ۔لیکن رسول اکرم ص نے فرمایا : اب مجھے اپنے رب سے کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔(30)
جی ہاں پڑھیے ا ور علمائے اہل سنت کے ان عقائد پر سردھنیے ، اس پر بھی وہ ائمہ اہل بیت ع کے پیروکار شیعوں پر اس لیے اعتراض کرتے ہیں کہ وہ بداء کے قائل ہیں ۔
اس قصے میں اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے محمد ص اور امت محمدیہ پر اول پچاس نمازیں فرض کی تھیں پھر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مراجعت کرنے پر اسے یہ مناسب معلوم ہوا کہ نمازوں کی تعداد چالیس کردے ۔ پھر دوسری دفعہ مراجعت کرنے پر یہ مناسب معلوم ہوا کہ نمازوں کی تعداد تیس کردے ۔ تیسری دفعہ مراجعت کرنے پر یہ مناسب معلوم ہوا کہ اس تعداد کو گھٹا کر بیس کردے ۔ پھر چوتھی دفعہ مراجعت کرنے پر مناسب معلوم ہوا کہ دس کردے ۔پانچویں دفعہ مراجعت کرنے پر مناسب معلوم ہوا کہ پانچ کردے ۔
اور کون جانتا ہے کہ اگر محمد ص اپنے رب سے شرما نہ جاتے تو وہ یہ تعداد ایک ہی کردیتا یا بالکل معاف کردیتا ۔
استغفراللہ ۔کیسی شرمناک بات ہے !
میرا اعتراض اس پر نہیں کہ اس قصے میں بداء کیوں ہے ؟ نہیں ، بالکل نہیں ۔ "يمْحُوالله ما يشاءُ وَ يثْبِتُ وَ عِنْدَهُ اُمُّ الْکِتابِ"
ہم پہلے اہل سنت کا یہ عقیدہ بیان کرچکے ہیں کہ والدین سے حسن سلوک صدقات اور دوسروں کے ساتھ بھلائی اور احسان سے بدبختی ،نیک بختی میں بدل جاتی ہے ، عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور برے طریقے سے موت سے حفاظت ہوجاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ اسلامی اصولوں اور قرآن کی روح کے عین مطابق ہے ۔ قرآن میں ہے کہ :
"إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسهم"
اللہ تعالی کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت نہ بدلیں ۔
اگر ہمارا سب کا یعنی شیعہ اور سنی دونوں کا یہ عقیدہ نہ ہوتا کہ اللہ تعالی تغیر وتبدل کرتا رہتا ہے ، تو ہماری یہ نمازیں او ردعائیں سب بیکار تھیں ۔ ان کا نہ کوئی فائدہ تھا اور نہ کوئی مقصد۔
ہم سب اس کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی احکام تبدیل کرتا ہے ۔ اسی لیےہر نبی کی شریعت جداہے بلکہ خود ہمارے نبی کی شریعت میں بھی ناسخ ومنسوخ کا سلسلہ رہا ہے ، ایسی صورت میں بداء کاعقیدہ نہ کفر ہے نہ دین سے بغاوت ، اہلسنت کوکوئی حق نہیں کہ اس عقیدے کی وجہ سے شیعون کو طعنے دیں ۔ اسی طرح شیعوں کو بھی حق نہیں کہ اہل سنت پن اعتراض کریں ۔
لیکن مجھے مذکورہ بالا قصے پر ضرور اعتراض ہے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں اپنے پروردگار سے سودے بازی پر ۔ کیونکہ اس میں اللہ جل شانہ ، کی طرف جہل کی نسبت لازم آتی ہے اور تاریخ بشریت کے سب سے بڑے انسان یعنی ہمارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت کی توہین ہوتی ہے ۔ اس روایت میں جناب موسی ع حضرت محمد ص سے کہتے ہیں کہ
" أنا أعلم بالنّاس منك"
میں لوگوں کے حالات اور مزاج سے تمھاری نسبت زیادہ واقف ہوں ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ موسی ع زیادہ افضل ہیں اور اگر وہ نہ ہوتے تو امت محمدیہ کی عیادت کے بوجھ میں تخفیف نہ ہوتی۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت موسی ع کو کیسے معلوم ہوا کہ امت محمدیہ پانچ نمازوں کا بھی بوجھ برداشت نہیں کرسکے گی جبکہ خود اللہ تعالی کو یہ بات معلوم نہیں تھی ، کیونکہ اس نے ناقابل برداشت عبادت کا بو جھ اپنے بندوں پر ڈال دیا تھا اور پچاس نمازیں ان پر فرض کردی تھیں ۔
میرے بھائی ذرا تصور کیجیے !پچاس نمازیں ایک دن میں کیسے ادا کی جاسکتی ہیں ؟ ایسا ہوا تو پھر نہ کوئی مشغلہ ہوگا ، نہ کوئی کام ، نہ تعلیم نہ کمائی ، نہ کوشش نہ ذمہ داری ۔ سب آدمی فرشتے بن جائیں گے ، جن کا کام صرف نمازیں پڑھنا اور عبادت کرنا ہوگا ۔ آپ معمولی حساب لگائیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ روایت صحیح نہیں ہوسکتی ۔ اگر ایک نماز میں دس منٹ بھی لگیں اور یہ ایک باجماعت نماز کے وقت کا معقول اندازہ ہے ، تو دس منٹ کو پچاس سے ضرب دس لیجیے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچاس نمازیں ادا کرنے میں تقریبا دس گھنٹے لگیں گے ۔ اب یا تو آپ اس افتاد پر صبر کریں یا اس دین کا ہی انکار کردیں جو اپنے ماننے والوں پر یہ ناقابل برداشت بوجھ ڈالتا ہے ۔
ہوسکتا ہے یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس حضرت موسی اور حضرت عیسی ع کے خلاف سرکشی کی کوئی قابل قبول وجہ ہو ۔ لیکن اب تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا بوجھ اتار دیا ہے اور ان کی سب زنجیریں کاٹ دی ہیں ۔ اب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اتباع نہ کرنے کا ان کےپاس کیا بہانہ ہے ۔
اگر اہل سنت شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ شیعہ بداء کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ جیسے مناسب سمجھتا ہے تغیّر تبدل کرلیتا ہے تو وہ اپنے اوپر کیوں اعتراض نہیں کرتے جب وہ خود یہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ نے جب مناسب سمجھا تو ایک ہی حکم ایک ہی رات یعنی شب معراج میں پانچ دفعہ بدل دیا ۔
براہو اندھے تعصب اور عناد کاجو حقائق کو چھپاتا اور الٹا کرکے پیش کرتا ہے ۔ متعصب اپنے مخالف پر حملہ کرنے کے لیے صاف اور واضح امور کا انکار کرگزرتا ہے اور بات بے بات مخالف پر اعتراض کرتا ہے ، اس کے خلاف افواہیں پھیلاتا ہے اور ذراسی بات کا بتنگز بنادیتا ہے جبکہ خود بہت زیادہ قابل اعتراض باتیں کہتا ہے ۔ یہاں تک مجھے وہ بات یادآگئی جو حضرت عیسی علیہ السلام نے یہود سے کہی تھی ۔ آپ نے کہا تھا:
"تم دوسروں کی آنکھ کا تنکادیکھتے ہو اور اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھتے " ایک مثال ہے کہ :
بیماری تو اسے تھی مگر وہ مجھ سے یہ کہہ کر کہ یہ بیماری تمھیں ہے خود کھسک گئی "۔
شاید کوئی یہ کہے کہ اہل سنت کے یہاں بداء کا لفظ نہیں آیا ، گو اس کے معنی تو حکم بدلنے ہی کے ہیں لیکن پھر بھی بدا للہ کے الفاظ اہل سنت کے یہاں نہیں ۔
میں اکثر دلیل کے طور پر کہ بداء اہل سنت کے یہاں بھی ہے ۔ معراج کا قصہ پیش کیا کرتا تھا ۔ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیاکہ اس میں بداء کا لفظ نہیں ہے ۔لیکن بعد میں جب میں نے انھیں صحیح بخاری کی ایک راویت رکھائی جس میں صراحت کے ساتھ بداء کا لفظ ہے اور اس میں کسی شک کی گنجائش بھی نہیں ، تو وہ مان گئے ۔
روایت حسب ذیل ہے :
بخاری نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
" بنی اسرائیل میں تین آدمی تھے : ایک کے جسم پربرص کے سفید داغ تھے ، دوسرا نابینا تھا اور تیسرا گنجا تھا ۔ بد ا للہ ان یبتلیھم " اللہ کویہ (مناسب )معلوم ہوا کہ ان کا امتحان لے ۔چنانچہ ایک فرشتے کو بھیجا ، جو پہلے مبروص کے پاس آیا اور اس سے پوچھا : تمھیں سب سے زیادہ کیاچیز پسند ہے؟ اس نے کہا : صاف ستھری جلد اوراچھا رنگ ، کیونکہ لوگ مجھ سے گھن کرتے ہیں ۔ فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا تو اس کی بیماری جاتی رہی اور خوبصورت رنگ نکل آیا ۔ پھر فرشتے نے پوچھا ۔ تمھیں کس قسم کا مال پسند ہے ؟ اس نے کہا :اونٹ فرشتے نے اسے ایک دس مہینے کی گیا بھن اونٹنی دے دی ۔
اس کے بعد فرشتہ گنجے کے پاس آیا ۔اس سے پوچھا : تمھیں سب سے زیادہ کیا چیز پسند ہے؟ اس نے کہا : خوبصورت بال اور میری یہ بیماری جاتی رہے ، مجھ سے لوگ گھن کرتے ہیں ۔ فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس کاگنج جاتا رہا اور عمدہ بال نکل آئے ۔ اس کے بعد فرشتے نے اس سے پوچھا کہ تمھیں کون سا مال سب سے زیادہ پسند ہے ؟ اس شخص نے کہا: گائیں فرشتے نے اسے ایک گیا بھن گائے دے دی ۔
اس کے بعد فرشتہ اندھے کے پاس آیا ۔ اس سے پوچھا !تمھیں کون سی چیز سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس نے کہا: میں تو بس یہی چاہتا ہون کہ اللہ میری بینائی لوٹادے ۔ فرشتے نے ہاتھ پھیرا تو بینائی وآپس آگئی۔فرشتے نے پوچھا تمھیں کونسا مال پسند ہے؟ اس شخص نے کہا: بھڑیں ۔ فرشتے نے اسے ایک بچوں والی بھیڑ دے دی ۔
ایک مدت کے بعد جب ان لوگوں کے پاس اونٹ گائیں اور بھیڑیں خوب ہوگئیں اور ہر ایک کے پاس پورا گلہ ہوگیا تو وہ فرشتہ اسی شکل میں پھر آیا اور مبروص ،گنجے اور نابینا میں سے ہر ایک کے پاس جاکر ان کے پاس جو جانور تھے ان میں سے کچھ جانور مانگے ،مبروص اورگنجے نے انکار کردیا ۔ اس پر اللہ تعالی نے ان کو پھر ان کی شکل پرلوٹا دیا ۔ نابینا نے جانور دیدیے تو حق تعالی نے اس کے مال میں اور برکت دی اور اسی کی بینائی بھی بحال رکھی (31)"
اس لیے میں اپنے بھائیوں کو یہ ارشاد ربانی یاد دلاتا ہوں :
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَى أَن يَكُونُوا خَيْراً مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاء مِّن نِّسَاء عَسَى أَن يَكُنَّ خَيْراً مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ"
اے ایمان والو ! نہ مرد مردوں کا مذاق اڑائیں ، کیا عجب کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا ،کیا عجب کہ ہو ان سے بہتر ہوں اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کا نام رکھو ۔ ایمان کے بعد گناہ کا نام ہی برا ہے اور جو اب بھی توبہ نہ کریں گے ، وہی ظالم ٹھہریں گے ۔ !(سورہ حجرات ۔آیت 11)
میری ولی خواہش ہے کہ کاش مسلمانوں کو عقل آجائے ، وہ تعصب کو چھوڑیں دیں اور دشمن کے مقابلے میں بھی جذبات سے کام نہ لیں تاکہ ہر بحث میں فیصلہ جذبات کے بجائے عقل سے ہو ۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ ہو بحث وجدال میں قرآن کریم کا اسلوب اختیار کریں۔ اللہ تعالی نے اپنے رسول پر وحی نازل کی تھی کہ وہ مخالفین سے کہہ دیں کہ :
"َإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُّبِين"
کہہ دیجیے :یا ہم راہ راست پر ہیں یا تم ، اسی طرح یا ہم گمراہی میں ہیں یا تم ۔(سورہ سبا ۔آیت 24)
یہ کہہ کر رسول اللہ نے مشترکین کی قدر منزلت بڑھادی اور خود ان کی سطح پر آنا منظور کرلیا تاکہ مشرکین کے ساتھ انصاف ہو اور اگر ہو سچے ہوں تو انھیں بھی اپنے دلائل پیش کرنے کا موقع مل سکے۔
اب ہمیں اپنا جائزہ لینا چالینا چاہیے کہ ہم ان اعلی اخلاق پر کہاں تک عمل پیرا ہیں !
تقیّہ
ہم گزشتہ بحث میں کہہ چکے ہیں کہ اہل سنت کے نزدیک "بداء" بہت ہی قابل اعتراض اور مکروہ عقیدہ ہے ، اسی طرح تقیہ کو بھی وہ برا سمجھتے ہیں اور اس پر شیعہ بھائیوں کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ شیعوں کو منافق سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شیعوں کہ دل میں کچھ اور ہوتا ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں ۔
میں نے اکثر اہل سنت سے گفتگو کرکے انھیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ تقیہ نفاق نہیں ہے لیکن انھیں تو کسی بات کا یقین ہی نہیں آتا سوائے اس کے جو انھیں ان کی مذہبی عصبیت نے سکھادیا ہے ۔یا جو ان کے بڑوں بزرگوں نے ان کے دل میں بٹھا دیا ہے ۔
یہ بڑے پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان انصاف پسند اور تحقیق کے طالب لوگوں سے جو شیعوں اور شیعہ عقائد کے متعلق معلومات حاصل کرناچاہتے ہیں ۔ حقائق کو چھپائیں اور یہ کہہ کر انھیں شیعوں سے متنفر کرنے کی کوشش کریں کہ یہ عبداللہ بن سبایہودی کا فرقہ ہے جو رجعت ، بدا، تقیہ ، عصمت اور متعہ کا قائل ہے اور اس کے عقائد میں بہت سے خرافات اور فرضی باتین شامل ہیں جیسے مثلا مہدی منتظر وغیرہ کا عقیدہ ۔جو شخص ان کی باتوں کو سنتا ہے وہ کبھی اظہار نفرت کرتا ہے اور کبھی اظہار حیرت ۔ اور یہی سمجھتا ہے کہ ان خیالات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ، یہ سب شیعوں کی منگھڑت اور فرضی باتیں ہیں ۔ مگر جب کوئی شخص تحقیق کرتا ہے اور انصاف سے کام لیتا ہے تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ان سب عقائد کا اسلام سے گہرا تعلق ہے اور یہ قرآن وسنت کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں سچ تو یہ ہے کہ اسلامی عقائد وتصورات ان کے بغیر اپنی صحیح شکل اختیار ہی نہیں کرسکتے۔
اہل سنت میں عجیب بات یہ ہے کہ جن عقائد کو وہ با سمجھتے ہیں ، ان ہی عقائد سے ان کی کتابیں اور احادیث کے معتبر مجموعے بھرے ہوئے ہیں ۔ اب ایسے لوگوں کا کیا علاج جو کہتے ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ۔ اور جو خود اپنے عقائد کی اس لیے ہنسی اڑاتے ہیں کیونکہ شیعہ ان پر عامل ہیں ۔
ہم بداء کی بحث میں ثابت کرچکے ہیں کہ اہل سنت خود بداء کے قائل ہیں لیکن اگر دوسرے بداء کے قائل ہوں تو ان پر اعتراض کرنے سے نہیں چوکتے ۔اب آئیے دیکھیں تقیہ کے مسئلہ میں اہل سنت والجماعت کیا کہتے ہیں ؟
اس کی بنا پر تو وہ شیعوں پر منافق ہونے کا الزام لگاتے ہیں ۔
ابن جریر طبری اور ابن ابی حاتم نے عوفی کے واسطے سے ابن عباس سے روایت بیا ن کی ہے کہ اس آیت "إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" کے بارے میں ابن عباس کہتے تھے :"تقیہ" زبان سے ہوتاہے ۔ اس کی صورت یہ ہے کہ کوئی کسی شخص کو ایسی بات کہنے پر مجبور کرے جو اصل میں مصیت ہے تو وہ اگر لوگوں کے ڈر کے مارے وہ بات کہہ دے جب کہ اس کا دل پوری طرح ایمان پر قائم ہو تو اسے کچھ نقصان نہیں ہوگا یہ بھی یاد رکھو کہ تقیہ محض زبان سے ہوتا ہے "(32)
یہ روایت حاکم نے نقل کی ہے اور اسے صحیح کہا ہے ۔ بیہقی نے بھی اپنی سنن میں عطا عن ابن عباس کے حوالے سے "إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" (مگر ہاں ایسی صورت میں کہ تم کو ان سے کچھ اندیشہ ضرر ہو)(سورہ آل عمران ۔آیت 28)۔کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہاہے کہ ابن عباس کہتے تھے کہ "تقۃ " کا تعلق زبان سے کہنے سے ہے بشرطیکہ دل ایمان پر قائم ہو "۔عبد بن حمید نے حسن بصری سے روایت بیان کی ہے کہ
"حسن بصری کہتے تھے کہ تقیہ روزقیامت تک جائز ہے "(33)
عبد بن ابی رجاء نے نقل کیا ہے کہ حسن بصری اس آیت کو اس طرح پڑھتے تھے : "إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقيةً" (34)
عبدالرزاق ، ابن سعد ، ابن جریر طبری ، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے مندرجہ ذیل روایت بیان کی ہے ، حاکم نے مستدر ک میں اسے صحیح کہا ہے ، بیہقی نے دلائل میں اس کو نقل کیا ہے ،روایت یہ ہے: مشرکین نے عمّار یاسر کو پکڑلیا اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک عمّار نے نبی اکرم کو گالی نہ دی اور مشرکین کے معبودوں کی تعریف نہ کی۔
آخر جب عمار کو مشرکین نے چھوڑدیا تو وہ رسول اللہ ص کے پاس آئے ۔رسول اللہ نے پوچھا : کہو کیا گزری ؟ عمارکے کہا : بہت بری گزری ، انھوں نے مجھے اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک جب تک میں نے آپ کی شان میں گستاخی نہ کی اور ان کے معبودوں کی تعریف نہ کی ۔ رسول اکرم ص نے پوچھا : تمھارا دل کیا کہتا ہے ؟ عمار نے کہا : میرا دل تو ایمان پر پختہ اور قائم ہے ۔ رسول اللہ ص نے فرمایا : اگر وہ لوگ تم پر پھر زبردستی کریں تو پھر ایسے ہی کہہ دینا ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی :
"مَن كَفَرَ بِاللّهِ مِن بَعْدِ إيمَانِهِ إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ " یعنی جو شخص ایمان لانے کے خداکے ساتھ کفر کرے مگر وہ نہیں جو کفر پر زبردستی مجبورکردیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطئمن ہو ۔(سورہ نحل ۔ آیت 106)
ابن سعد نے محمد بن سیرین سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ نے دیکھا کہ عمار روہ رہے ہیں ۔ آپ نے ان کے آنسو پونچھے اور کہا : (مجھے معلوم ہے کہ ) کفار نے تمھیں پانی ڈبودیا تھا تب تم نے ایسا کہا ۔اگر ہو پھر تمھارے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں ، تو پھر یہی کہہ دینا ۔(35)
ابن جریر ، ابن منذر ، ابن ابی حاتم نے اور بیہقی نے اپنی سنن میں عن علی عن ابن عباس کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ
ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں کہتے تھے " من کفر با لله" کہ اللہ نے خبر دی ہے کہ جس نے ایمان کے بعد کفر کیا ، اس پر اللہ کا غضب نازل ہوگا اور اس کے لیے سخت عذاب ہے مگر جسے مجبور کیاگیا اور اس نے دشمن سے بچنے کے لیے زبان سے کچھ کہہ دیا مگر اس کے دل میں ایمان ہے اور اس کا دل اس کی زبان کے ساتھ نہیں ، تو کوئی بات نہیں کیونکہ اللہ اپنے بندوں سے صرے اس بات کا مواخذہ کرتا ہے جس پر ان کا دل جم جائے (36)
ابن ابی شیبہ ، ابن جریر طبری ، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد سے روایت بیان کی ہے کہ یہ آیت مکے کے کچھ لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔ ہوا یوں کہ یہ لوگ ایمان لے آئے تو انھیں بعض صحابہ نے مدینے سے لکھا کہ ہجرت کرکے یہاں آجاؤ ۔جب تک تم ہجرت کرکے یہاں نہیں آؤگے ، ہم تمھیں اپنا ساتھی نہیں سمجھیں گے ۔ اس پر وہ مدینہ کے اردے سے نکلے ۔راستے میں انھیں قریش نے پکڑ لیا اور ان پر سختی کی ۔مجبورا انھیں کچھ کلمات کفر کہہنے پڑے ۔ان کے بارے میں آیت نازل ہوئی : " إِلاَّ مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالإِيمَانِ " (37)۔
بخاری نے اپنی صحیح میں باب المداراۃ مع الناس میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق ابو لدرداء کہتے تھے ۔
کچھ لوگ ہیں جن سے ہم بڑی خندہ پیشانی سے ملتے ہیں ،لیکن ہمارے دل ان پر لعنت بھیجتے ہیں ۔(38)
حلبی نے اپنی سیرت میں یہ روایت بیان کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ "جب رسول اللہ ص نے شہر خیبر فتح کیا تو حجاج بن علاط نے آپ سے عرض کیا: یا رسول اللہ ص ! مکے میں میرا کچھ سامان ہے اور وہاں میرے گھر والے بھی ہیں ، میں انھیں لانا چاہتا ہوں ، کیا مجھے اجازت ہے اگر میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جو آپ کی شان میں گستاخی ہو ؟ رسول اللہ ص نے اجازت دے دی اور کہا : جو چاہے کہو " (39)
امام غزالی کی کتاب احیاء العلوم میں ہے کہ :
" مسلمان کی جان بچانا واجب ہے ۔اگر کوئی ظالم کسی مسلمان کو قتل کرناچاہتا ہو اور وہ شخص چھپ جائے تو ایسے موقع پر جھوٹ بول دینا واجب ہے "۔(40)
جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الاشباہ والنظائر میں ایک راویت بیان کی ہے ۔ اس میں لکھا ہے :
"فاقہ کشی کی حالت میں مردار کھانا ،شراب میں لقمہ ڈبونا اور کفر کاکلمہ زبان سے نکالنا جائز ہے ۔اگر کسی جگہ حرام ہی حرام ہو اور حلال شاذ ونادر ہی ملتا ہو تو حسب ضرورت حرام کاا ستعمال جائز ہے ۔"
ابو بکر رازی نے اپنی کتاب احکام القرآن میں اس آیت "إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
مطلب یہ ہے کہ تمھیں جان جانے یا کسی عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو تو تم کفار سے بہ ظاہر دوستی کا اظہار کرکے اپنی جان بچاسکتے ہو ۔آیت اللہ کے الفاظ سے یہی معنی نکلتے ہیں اور اکثر اہل علمی اسی کے قائل ہیں ۔ قتادہ نے بھی"لا يتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکافِرينَ أَوْلِباءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنينَ" کی تفسیر کرتے ہوئے یہی کہا ہے کہ مومن کے لیے جائز نہیں کہ کسی کافر کادین کے معاملے میں اپنا دوست یا سرپرست بنائے سوائے اس کے ضرر کااندیشہ ہو ۔ قتادہ نے مزید کہا ہے کہ "إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقاةً" سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقیہ کی صورت میں زبانی کفر کا اظہار جائز ہے "(41)
صحیح بخاری میں عروہ بن زبیر سے روایت ہےکہ حضرت عائشہ نے انھیں بتلایا کہ
ایک دفعہ ایک شخص نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہون ےکی اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا : لغو آدمی ہے ، خیر آنے دو ، جب وہ شخص آیا تو آپ نے بڑی نرمی سے اس سے بات چیت کی ۔میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! ابھی تو آپ نے کیا فرمایا تھا پھر آپ نے اس سے گفتگو اتنی خوش اخلاقی سے کی ؟ آپ نے جواب دیا : عائشہ ! اللہ کے نزدیک وہ بدترین آدمی ہے جس سے لوگ اس کی بد زبانی کی وجہ سے بچیں یا اس کی بد زبانی کی وجہ سے چھوڑدیں (42)۔
اس قدر تبصرہ یہ دکھانے کے لیے کافی ہے کہ اہل سنت تقیہ کے جواز کے پوری طرح قائل ہیں ۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ تقیہ قیامت تک جائز رہے گا اور ۔ جیسا کہ غزالی نے کہا ہے ، ان کے نزدیک بعض صورتوں میں جھوٹ بولنا واجب
ہے اور بقول رازی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ بعض صورتوں میں اظہار کفر بھی جائز ہے اور ۔ جیسا کہ بخاری اعتراف کرتے ہیں بہ ظاہر مسکرانا اور دل میں لعنت کرنا بھی جائز ہے اور ۔ جیسا کہ صاحب سیرۃ حلبیۃ نےلکھا ہے ، اپنے مال کے ضائع ہوجانے کے خوف سے رسول اللہ ص کی شان میں گستاخی کرنا بلکہ کچھ بھی کہہ دینا روا ہے اور ۔جیسا کہ سیوطی نے اعتراف کیا ہے لوگوں کے خوف سے ایسی باتیں کہنا بھی جائز ہے جو گناہ ہیں ۔
اب اہل سنت کے لیے اس کاقطعا جواز نہیں کہ وہ شیعوں پر ایک ایسے عقیدے کی وجہ سے اعتراض کریں جس کے وہ خود بھی قائل ہیں اور جس کی روایات ان کی مستند حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں جو تقیہ کو نہ صرف جائز بلکہ واجب بتلاتی ہی جن باتوں کے اہل سنت قائل ہیں ، شیعہ ان سے زیادہ کچھ نہیں کہتے ۔ یہ بات البتہ ہے کہ وہ تقیہ پر عمل کرنے میں دوسروں سے زیادہ مشہور ہوگئے ہیں ۔ اوروجہ اس کی وہ ظلم وتشدد ہے جس سے شیعوں کو اموی اور عباسی دور میں سابقہ پڑا ۔اس دور میں کسی شخص کے قتل کردیے جانے کے لیے کسی کا اتنا کہہ دینا تھا کہ "یہ بھی شیعیان اہل بیت ع میں سے ہے"۔
ایسی صورت میں شیعوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کارہی نہیں تھا کہ وہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام کی تعلیمات کی روشنی میں تقیہ پر عمل کریں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :"
"التقية دبنی ودبن آبائی "
تقیہ میرا اور میرے آباء واجداد کا دین ہے ۔ اور یہ بھی فرمایا کہ " من لا تقية له لا دين له"
جو تقیہ نہیں کرتا ، اس کا دین ہی نہیں ۔
تقیہ خود ائمہ اہل بیت ع کا شعار تھا ، اور اس کامقصد اپنےآپ کو اور اپنے پیروکاروں اور دوستوں کو ضرر سے محفوظ رکھنا ،ان کی جانیں بچانا اور ان مسلمانوں کی بہتری کا سامان کرنا تھا جو اپنے معتقدات کی وجہ سے تشدد کا شکار ہورہے تھے ،جیسے مثلا عمار بن یاسر ۔بعض کو تو عمار بن یاسر سے بھی زیادہ تکلیف اٹھانی پڑی ۔ اہل سنت ان مصائب سے محفوظ تھے کیونکہ ان کا ظالم حکمرانوں کے ساتھ مکمل اتحاد تھا ۔ اس لیے انھیں نہ قتل کا سامنا کرنا پڑا ، نہ لوٹ کھسوٹ کا ، نہ ظلم وستم کا ۔ اس لیے یہ قدرتی امر ہے کہ وہ نہ صرف تقیہ کا انکار کرتے ہیں بلکہ تقیہ کرنے والوں کی بنا پر شیعوں کو بدنام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے ۔ ان ہی کی پیروی اہل سنت والجماعت نے کی ہے ۔
جب اللہ تعالی نے قرآن میں تقیہ کا حکم نازل فرمایا ہے اورجب خود رسول اللہ نے اس پر عمل کیا ہے ، جیسا کہ بخاری کی روایت میں آپ پڑھ چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ص نے عمار بن یاسر کو اجازت دی کہ اگر کفار پھر ان پر تشدد کریں اور اذیت دیں تو جو کلمات کفر کفار کہلوانا چاہیں وہ کہہ دیں ۔ نیز یہ کہ قرآن وسنت پر عمل کرتے ہوئے علماء نے بھی تقیہ کی اجازت دی ہے تو پھر آپ ہی انصاف سے بتائیں کہ کیا اس کے بعد بھی شیعوں پر طعن کرنا اور ان پر اعتراض کرنا درست ہے ؟
صحابہ کرام نے ظالم حمکرانوں کے عہد میں تقیہ پر عمل کیا ہے ۔ اس وقت جبکہ ہرشخص کو جو علی بن ابی طالب پر لعنت کرنے سے انکار کرتا ہے تھا قتل کردیا جاتا تھا حجر بن عدی کندی اور ان کے ساتھیوں کاقصہ تو مشہور ہے ۔اگر میں صحابہ کے تقیہ کی مثالیں جمع کروں تو ایک الگ کتاب کی ضرورت ہوگی ۔ لیکن میں نے اہل سنت کے حوالوں سے جو دلائل پیش کیسے ہیں وہ بحمداللہ کافی ہیں ۔
لیکن اس موقع پر ایک دلچسپ واقعہ ضروربیان کروں گا جو خود میرے ساتھ پیش آیا ۔ ایک دفعہ ہوائی جہاز میں میری ملاقات اہل سنت کے ایک عالم سے ہوگئی ہم دونوں برطانیہ میں منعقد ہونے والی ایک اسلامی کانفرنس میں مدعوتھے ۔ دوگھنٹے تک ہم شیعہ سنی مسئلے پر گفتگو کرتے رہے ۔ یہ صاحب اسلامی اتحاد کے داعی اور حامی تھے ۔ مجھے بھی ان میں دلچسپی پیدا ہوگئی تھی کہ لیکن اس وقت مجھے برا معلوم ہوا جب انھوں نے یہ کہا شیعوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بعض ایسے عقائد چھوڑدیں جو مسلمانوں میں پھوٹ ڈالتے اور ایک دوسرے پر طعن وتشنیع کا سبب بنتے ہیں ۔ میں نے پوچھا : مثلا؟
انھوں نے بے دھڑک جواب دیا : مثلا متعہ اور تقیہ ۔
میں نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ متعہ تو جائز ہے اور قانونی نکاح کی ایک صورت ہے اور تقیہ اللہ کی طرف سے ایک رعایت اور اجازت ہے۔لیکن وہ حضرت اپنی بات پر اڑے رہے اور میری ایک نہ مانے ، نہ ہی میرے دلائل انھیں قائل کرسکے ۔
کہنے لگے : جو کچھ آپ نے کہا ہے ، ممکن ہے کہ وہ صحیح ہو ،لیکن مصلحت یہی ہے کہ مسلمانوں کی وحدت کی خاطر ان چیزوں کو ترک کردیا جائے ۔
مجھے ان کی منطق عجیب معلوم ہوئی ، کیونکہ وہ مسلمانوں کی وحدت کی خاطر اللہ کے احکام کو ترکرنے کامشورہ دے رہے تھے ۔ پھر بھی میں نے ان کا دل رکھنے کو کہا : اگر مسلمانوں کا اتحاد اسی پر موقوف ہوتا تو میں پہلا شخص ہوتا جو یہ بات مان جاتا ۔
ہم لندن ایرپورٹ پر اترے تومیں ان کے پیچھے چل رہاتھا ۔ جب ہم ائر پورٹ پولیس کے پاس پہنچے تو ہم سے برطانیہ آنے کی وجہ پوچھی گئی ۔
ان صاحب نے کہا: میں علاج کے لیے آیا ہوں ۔ میں نے کہا کہ میں اپنے دوستوں سے ملنے آیا ہوں ۔ اس طرح ہم دونوں کسی وقت کے بغیر وہاں سے گزر کر اس ہال میں پہنچ گئے جہاں سامان وصول کرنا تھا ۔ اس وقت میں نے چپکے سے ان کے کان میں کہا کہ :آپ نے دیکھا کہ کیسے تقیہ (نظریہ ضرورت) ہر زمانے میں کارآمد ہے ؟ کہنے لگے : کیسے ؟
میں نے کہا: ہم دونوں نے پولیس سے جھوٹ بولا ۔میں نے کہا میں دوستوں سے ملاقات کے لیے آیا ہوں ، اور آپ نے کہا کہ میں علاج کے لیے آیا ہوں ۔ حالانکہ ہم دونوں کا نفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہیں ۔
وہ صاحب کچھ دیر مسکرائے ۔سمجھ گئے تھے کہ میں نے ان کا جھوٹ سن لیا ۔پھر کہنے لگے :کیا اسلامی کانفرنسوں میں ہمارا روحانی علاج نہیں ہوتا ؟
میں نے ہنس کر کہا : تو کیا اس کانفرنسوں میں ہماری اپنے دوستوں سے ملاقات نہیں ہوتی ؟
اب میں پھر اپنے موضوع پر واپس آتا ہوں ۔میں کہتا ہوں کہ اہل سنت کیا یہ کہنا غلط ہے کہ تقیہ نفاق کی کوئی شکل ہے بلکہ بات اس کی الٹ ہے کیونکہ نفاق کے معنی ہیں : ظاہر میں ایمان اور باطن میں کفر ۔ اور تقیہ کے معنی ہیں ظاہر میں کفر اور باطن میں ایمان ۔ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ نفاق کے متعلق اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے :
"وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ "جب وہ منوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی مومن ہیں اور جب اپنے شیطان کے ساتھ تنہائی میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں ۔ ہم تو مذاق کررہے تھے (سورہ بقرہ ۔آیت 14)
اس کا مطلب ہوا: ایمان ظاہر + کفر باطن = نفاق
تقیہ کے بار ے میں اللہ سبحانہ وتعالی نے کہا ہے :
"وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ"
فرعون کی قوم میں سے ایک مومن شخص نے جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہا ۔۔۔۔
اس کا مطلب یہ ہوا : کفر ظاہر + ایمان باطن =تقیہ
یہ مومن آل فرعون اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا جس کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں تھا ۔ وہ فرعون اور ایک دوسرے سب لوگوں کے سامنے یہی ظاہر کرتا تھا کہ وہ فرعون کے دن پر ہے ۔ اللہ تعالی نے اس کا ذکر قرآن کریم میں تعریف کرے انداز میں کیا ہے ۔
اب قارئین باتمکین آئیے دیکھیں ! خود شیعہ تقیہ کے بارے میں کیا کہتے ہیں تاکہ ان کے بارے میں جو غلط سلط باتیں مشہور ہیں ۔ جو جھوٹ بولا جاتا ہ اور طوفان اٹھایا جاتا ہے ، ہم اس سے دھوکا نہ کھانے پائیں ۔
شیخ محمد رضا مظفّر اپنی کتاب عقائد الامامیہ میں لکھتے ہیں :
تقیہ بعض موقعوں پر واجب ہے اور بعض موقعوں پر واجب نہیں ۔ اس کا دارومدار اس پر ہے کہ ضرر کا کتنا خوف ہے تقیہ کے احکام فقہی کتابوں کے مختلف ابواب میں علماء نے لکھے ہیں ۔ ہر حالت میں تقیہ واجب نہیں ۔ صرف بعض صورتوں میں تقیہ کرنا جائز ہے ۔ بعض صورتوں میں تو تقیہ نہ کرنا واجب ہے ۔ مثلا اس صورت میں جب کہ حق کا اظہار ، دین کی مدد ، اسلام کی خدمت اور جہاد ہو ۔ ایسے موقع پر جان ومال کی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاتا بعض صورتوں میں تقیہ حرام ہے یعنی ان صورتوں میں جب تقیہ کا نتیجہ خون ناحق ، باطل کا رواج یا دین میں بگاڑ ہو یا تقیہ کے باعث مسلمانوں کا سخت نقصان ہونے مسلمانوں میں گمراہی پھیلنے یا ظلم وجور کے فروغ پانے کا اندیشہ ہو۔
بہر حال شیعوں کے نزدیک تقیہ کا جو مطلب ہے وہ ایسا نہیں کہ اس کی بنا پر شیعوں کو تخریبی مقاصد کی کوئی خفیہ پارٹی سمجھ لیا جائے ، جیسا کہ شیعوں کے بعض وہ غیر محتاط دشمن چاہتے ہیں جو صحیح بات کو سمجھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے ۔ اہم غیر محتاط شیعوں سے بھی کہیں گے کہ
اقوال غیر جو پئے اسلام ہیں مضر
اپنی زباں سے ان کی حکایت نہ کیجیئے
اسی طرح تقیہ کے یہ بھی معنی نہیں کہ اس کی وجہ سے دین اور اس کے احکام ایسا راز بن جائیں جسے شیعہ مذہب کو نہ
ماننے والوں کے سامنے ظاہر نہ کیا جاسکے ۔ اور یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ شیعہ علماء کی تصانیف خصوصا ان کی فقہ ،احکام عقائد اور علم کلام سے متعلق کتابیں مشرق ومغرب میں ہر جگہ اتنی تعداد میں پھیلی ہوئی ہیں کہ اس سے زیادہ تعداد کی کسی مذہب کے ماننے والوں سے توقع نہیں کی جاسکتی "۔
اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ دشمنوں کے خیال کے بر خلاف یہاں نہ نفاق ہے نہ مکر وفریب ، نہ دھوکا ہے نہ جھوٹ!
متعہ : معین مدت کا نکاح
جس طر ح تمام مسلمان فقہوں میں نکاح کے لیے یہ شرط ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی طرف سے ایجاب وقبول کیاجائے اور مہر معین کیا جائے ، اسی طرح سے متعہ میں بھی مہر کو معین کیاجانا ضروری ہے ۔ نیز طرفین کی طرف سے ایجاب وقبول بھی شرط ہے : مثلا :
لڑکی لڑکے سے کہے : " زوّجتك نفسي بمهرٍ قدره كذا ولمدّةٍ كذا .(43)
اس پر لڑکا کہے : قبلتُ یا کہے :رضيتُ
شریعت اسلام میں عام طور سےجتنی شرطیں نکاح کےلیے مقرر کی گئی ہیں کم وبیش وہ تمام شرطیں متعہ کے لیے بھی مقرر کی گئی ہیں ۔ مثلا جس طرح محرم سے(یا ایک ہی وقت میں دوبہنوں سے ) نکاح نہیں ہوسکتا اسی طرح متعہ بھی نہین ہوسکتا (اور جس طرح بعض فقہا کے نزدیک اہل کتاب سے نکاح جائز ہے اسی طرح متعہ بھی جائز ہے ) اور جس طرح نکاح کے بعد طلاق ہوجانے پر منکوحہ کے لیے عدت ضروری ہے جس کے بعد ہی وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے اسی طرح ممتوعہ بھی متعہ کے بعد
عدت میں بیٹھی ہے اور عدت پوری کرنے کے بعد ہی دوسرا متعہ یا نکاح کرسکتی ہے ۔ممتوعہ کی عدت دو طہر (یا پینتالیس دن) ہے لیکن شوہر کے مرجانے کی صورت میں یہ مدت چار ماہ دس دن ہے ۔
متعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ نفقہ ہے نہ میراث ، اس لیے متعہ کرنے والے مرد اور عورت ایک دوسرے سے میراث نہیں پاتے ۔
متعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ نفقہ ہے نہ میراث ، اس لیے متعہ کرنے والے مرد اور عورت ایک دوسرے سے میراث نہیں پاتے ۔ متعہ سے پیدا ہونے والے بچے نکاح سے پیدا ہونے والے بچے کی طرح حلالی ہوتے ہیں اور انھیں عام بچوں کی طرح میراث اور نفقہ (روٹی ،کپڑا ،مکان ،دوا دارو وغیرہ )کے تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں اوران کا نسب اپنے باپ سے چلتا ہے ۔ یہ ہیں متعہ کی شرائط اور حدود ۔اس کا حرام کاری سے دور کا بھی تعلق نہیں ، جیسا کہ بعض غلط الزام لگانے والے اوربیجا شورمچانے والے سمجھتے ہیں ۔ اپنے شیعہ بھائیوں کی طرح اہل سنت والجماعت کا بھی اس پر اتفاق ہے کہ سورہ نساء کی آیت 24 میں اللہ تعالی کی طرف سے متعہ کی تشریع کی گئی ہے آیت یہ ہے :
" فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيماً حَكِيماً"
پس جن عورتوں س تم نے متعہ کیا ہے تو انھیں جو مہر مقرر کیا ہے دے دو اور مہر کے مقرر ہونے کے بعد اگر آپس میں (کم وبیش پر راضی ہوجاؤ تو اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں پیشک خدا ہر چیز سے واقف اور مصلحتوں کا جاننے والا ہے ۔ اسی طرح اس پر بھی شیعہ اور سنی دونوں کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ نے متعہ کی اجازت دی تھی اورصحابہ نے عہد نبوی میں متعہ کیا تھا ۔
اختلاف صرف اس پر ہے کہ کیا متعہ کا حکم منسوخ ہوگیا یا اب بھی باقی اہل سنت اس کے منسوخ ہوجانے کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے متعہ حلال تھا پھر حرام کردیاگیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ نسخ حدیث سے ہوا ہے قرآن سے نہیں
اس کے برخلاف شیعہ کہتے ہیں کہ متعہ منسوخ ہی نہیں ہوا ۔یہ قیامت تک جائز رہے گا ۔
فریقین کے اقوال پر ایک نظر ڈالنے سے حقیقت واضح ہوجائے گی اور قارئین باتمکین کے لیے ممکن ہوگا کہ وہ تعصب اور جذبات سے بالاتر ہوکر حق کا اتباع کرسکیں ۔
شیعہ جو یہ کہتے ہیں کہ متعہ منسوخ نہیں ہوا اور یہ قیامت تک جائز رہے گا ۔ اس کے متعلق ان کے اپنی دلیل ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ نے کبھی متعہ سے منع کیا ہو۔
اس کے علاوہ ہمارے ائمہ جو عترت طاہرہ سے ہیں اسے کے حلال اور جائز ہونے کے قائل ہیں ۔ اگر متعہ منسوخ ہوگیا ہوتا تو ائمہ اہل بیت کو اور خصوصا امام علی ع کی ضرور اس کا علم ہوتا کیونکہ گھر کا حال گھر والوں سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے ۔!
ہمارے نزدیک جو بات ہے ، وہ یہ ہے کہ عمر بن خطاب نے اپنے عہد خلافت میں اسے حرام قراردیا تھا ، لیکن یہ ان کا اپنا اجتہاد تھا ۔ اس بات کو علمائے اہل سنت بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم اللہ اور اس کے رسول ص کے احکام کو عمر بن خطاب کی رائے اور اجتہاد کی بنا پر نہیں چھوڑ سکتے ۔
یہ ہے متعہ کے بارے میں شیعوں کی رائے کا خلاصہ ، جو بظاہر بالکل درست اور صحیح ہے ۔کیونکہ سب مسلمان اللہ اوراس کے رسول ص کے احکام کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں ، کسی اور کی رائے کی نہیں ، خواہ اس کا رتبہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو خصوصا اگر اس کا اجتہاد قرآن وحدیث کے نصوص کے خلاف ہو ۔
اس کے برعکس ، اہل سنت والجماعت یہ کہتے ہیں کہ متعہ پہلے حلال تھا ، اس کے متعلق قرآن میں آیت بھی اتر آئی تھی ، رسول اللہ ص نے اس کی اجازت بھی دی تھی ، صحابہ ن ےاس پر عمل بھی کیا تھا لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہوگیا کسی نے منسوخ کیا ۔ اس میں اختلاف کیا ہے :
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود انپی وفات سے قبل منسوخ کردیا تھا۔ (44)
کچھ کا کہنا ہے کہ عمر بن خطاب نے متعہ کو حرام کیا اور ان کاحرام کرنا ہمارے لیے حجت ہے ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافرمان ہے کہ " میری سنت اورمیرے بعد آنے والے خلفا ئے راشدین کی سنت پر چلو اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو۔"
اب جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ متعہ اس لیے حرام ہے کہ عمر بن خطاب نے اسے حرام کیا تھا اور سنت عمر کی پابندی اور پاسداری ضروری ہے ، توایسے لوگوں سے تو کوئی گفتگو اور بحث بیکار ہے ،کیونکہ ان کا یہ قول محض تعصب اور تکلف بے جاہے ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی مسلمان اللہ اور رسول ص کا قول چھوڑ کر اور ان کی مخالفت کرکے کسی ایسے مجتہد کی رائے پر چلنے لگے جس کی رائے بنا بر بشریت صحیح کم ہوتی ہے اور غلط زیادہ ۔ یہ صورت بھی اس وقت ہے جب اجتہاد کسی ایسے مسئلے میں ہو جس کے بارے میں قرآن وسنت میں کوئی تصریح نہ ہو ۔ لیکن اگر کوئی تصریح موجود ہو تو پھر حکم خداوندی یہ ہے :
"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُّبِيناً"
جب اللہ اور اس کا رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو پھر اس بات میں کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو کوئی اختیار نہیں ۔ اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ بالکل گمراہ ہوگیا ۔(سورہ احزاب ۔آیت 36)
جسے اس قاعدہ پر مجھ سے اتفاق نہ ہو اس کے لیے اسلامی قوانین کے بارے میں اپنی معلومات پر نظر ثانی کرنی اور قرآن وحدیث کا مطالعہ کرناضروری ہے کیونکہ قرآن خود مذکورہ بالا آیت میں بتلاتا ہے کہ جو قرآن سنت کو حجت نہیں مانتا وہ کافر اورگمراہ ہے ۔ اور ایک اسی آیت پر کیا موقوف ہے قرآن میں ایسی متعدد آیات موجود ہیں ۔ اسی طرح اس بارے میں احادیث بھی بہت ہیں ، ہم صرف ایک حدیث نبوی پر اکتفاء کریں گے ۔
رسو ل اللہ نے فرمایا : "جس چیز کو محمد ص نے حلال کیا وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اورجس چیز کو محمد ص نے حرام کیا وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے "۔
اس لیے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی ایسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں فیصلہ کرے جس کے متعلق اللہ یا اس کے رسول کا حکم موجود ہو
تکمیل دین کے بعد نہ ترمیم سوچیے
بندہ نواز ! آپ رسالت نہ کجیے
اس کے باوجود بھی جو لوگ یہ چاہتے ہیں گہ ہم یہ مان لیں کہ خلفائے راشدین کے افعال واقوال اور ان کے اجتہادات پر عمل ہمارے لیے ضروری ہے ، ہم ان سے صرف اتنا عرض کریں گے کہ :
"کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو؟ ہو تو ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی ۔ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے ۔ اور ہم تو اسی کے لیے خالص ہیں ۔ (سورہ بقرہ ۔ آیت 139)
لہذا ہماری بحث کا تعلق صرف اس گروہ سے ہے جو یہ کہتا ہے کہ رسول اللہ ص نے خود متعہ کو حرام قراردیا تھا اور یہ کہ قرآن کا حکم حدیث سے منسوخ ہوگیا (45)مگر ان لوگوں کے اقوال میں بھی تضاد ہے اور ان کی دلیل کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ۔اگر چہ ممانعت روایت صحیح مسلم میں آئی ہے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خود رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت فرمادی تھی تو اس کے علم ان صحابہ کو کیوں نہیں ہوا جنھوں ن ےعہد ابو بکر میں ان عہد عمر کے اوائل میں متعہ کیا ، جیسا کہ اس کی روایت خود صحیح مسلم میں ہے (46)
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ انصاری کے لیے آئے تو ہم ان کی قیام گاہ پر گئے ۔ لوگ ان سے ادھر ادھر کی باتیں پوچھتے رہے ۔ پھر متعہ کا ذکر چھڑ گیا ۔جابر نے کہا : ہاں ہم نے رسول اللہ کے زمانے میں بھی متعہ کیا ہے (47) اور ابو بکر اور عمر کے عہد میں بھی ۔
اگر رسول اللہ ص متعہ کی ممانعت کرچکے ہوتے تو پھر ابو بکر اور عمر کے زمانے میں صحابہ کے لیے متعہ کرنا جائز نہ ہوتا ۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ص نے نہ متعہ کی ممانعت کی تھی اور نہ اسے حرام قراردیا تھا ۔ ممانعت تو عمر بن خطاب نے کی ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں آیا ہے :
ابو رجاء ن ےعمران بن حصین سے روایت کی ہے کہ ابن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ متعہ کی آیت کتاب اللہ میں نازل ہوئی تھی چنانچہ ہم نے اس وقت متعہ کی جب ہم رسول اللہ ص کے ساتھے تھے ، قرآن میں کبھی متعہ کی حرمت نازل نہیں ہوئی ، اور نہ رسول اللہ ص نے اپنی وافات تک متعہ سے منع کیا ۔ اس کے بعد ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہا ۔
محمد کہتے ہیں کہ لوگ یہ کہتے تھے کہ ایک شخص سے مراد عمر ہیں (48)۔
اب دیکھیے ! رسول اللہ ص نے اپنی وفات تک متعہ سے منع نہیں کیا ۔جیسا کہ یہ صحابی تصریح کرتے ہیں ۔ اس سے بھی بڑھ کر وہ نہایت صاف الفاظ میں اور بغیر کسی ابہام کے متعہ کی حرمت کو عمر سے منسوب کرتے ہیں ۔اور یہ بھی کہتے ہیں کہ عمر نے جو کچھ کہا اپنی رائے سے کہا ۔
اور دیکھیے :
جابر بن عبداللہ انصاری صاف کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے زمانے میں اور ابوبکر کرے عہد خلافت میں ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے ۔ آخر عمر نے عمرو بن حریث کے قصے میں اس کی ممانعت کردی(49)۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ چند دوسرے صحابہ بھی حضرت عمر کی رائے سے متفق تھے لیکن اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ۔ بعض صحابہ تو اس وقت بھی عمر کے ساتھ تھے جب انھوں نے رسول اللہ پر ہذیان گوئی کی تہمت لگائی تھی اور کہا تھا کہ ہمارے لیے کتاب خدا کافی ہے ۔
اور سنیے ! ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں جابر کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا : ابن عباس اور ابن زبیر کے درمیان متعین کے بارےمیں اختلاف ہوگیا ہے ۔ اس پر جابر نے کہا : ہم نے رسول اللہ کے زمانے میں دونوں متعے کیے ہیں ،بعد میں عمر نے ہمیں منع کردیا تو پھر ہم نے کوئی متعہ نہیں کیا (50)۔
اس لیے ذاتی طور پر میرا خیال یہ ہے کہ بعض صحابہ ن ےجو متعہ کی ممانعت رسول اللہ سے منسوب کی ہے اس کامقصد محض عمر کی رائے کی تصویب اور تائید تھا ۔ ورنہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ ص کسی ایسی چیز کو حرام قراردیں جسے قرآن نے حلال ٹھہرایا ہو ۔ تمام اسلامی احکام میں ہمیں ایک بھی ایسا حکم معلوم نہیں کہ اللہ جل شانہ نے کسی چیز کو حلال کیا ہو اور رسول اللہ ص نے اسے حرام کردیا ہو ۔ اس کا کوئی قائل بھی نہیں ۔ البتہ معاند اور متعصب کی بات اور ہے ۔
اگر ہم برائے بحث یہ مان بھی لیں کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت فرمادی تھی ،تو امام علی ع کو کیا ہوگیا تھا کہ انھوں نے نبی اکرم ص کے خاص مقرّب ہونے کے باوجود اور اسلامی احکام کی سب سے زیادہ واقفیت رکھنے کے باوصف فرمادیا کہ
"متعہ تو اللہ کی رحمت اور بندوں پر اس کا خاص احسان ہے اگر عمر اس کی ممانعت نہ کردیتے تو کوئی بدبخت ہی زناکرتا "(51)
اس کے علاوہ خود عمر بن خطاب نے بھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی ممانعت کردی تھی بلکہ صاف صاف یہ کہا تھا کہ " متعتان كانتا على عهدرسول الله وأنا أنهى عنهما وأعاقب عليهما: متعة الحج ومتعة النساء."
دو متعے رسول اللہ ص کے زمانے میں تھے ۔ اب میں ان کی ممانعت کرتاہوں اور جو یہ متعے کرے گا اسے سزادوں گا ۔ان میں ایک متعہ حج ہے اور دوسرا عورتوں کے ساتھ متعہ ہے ۔ (52)حضرت عمر کا ییہ قول مشہور ہے ۔
مسند امام احمد بن حنبل اس بات کی بہترین گواہ ہے کہ اہل سنت والجماعت میں متعہ کے بارے میں سخت اختلاف ہے : کچھ لوگ رسول اللہ کا اتباع کرتے ہوئے اس کے حلال ہونے کے قائل ہیں اور کچھ لوگ عمربن خطاب کی پیروی میں اسے حرام کہتے ہیں ۔امام احمد نے روایت کی ہے :
ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انھوں نے کہہ دیا کہ رسول اللہ نے متعہ کرنے کو کہا ہے ، تو عروہ بن زبیر نے کہا : متعہ سے تو ابوبکر اور عمر نے منع کردیا تھا ۔ ابن عباس بولے : یہ عروہ کا بچہ کیا کہتا ہے ؟ کسی نے کہا : یہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر نے متعہ سے منع کردیا تھا ۔ابن عباس نے کہا :مجھے تو ایسا نظر آرہا ہے کہ یہ لوگ جلد ہی ہلاک ہوجائیں گے ۔ میں کہتا ہوں : رسول اللہ ص نے کہا: اور یہ کہتے ہیں کہ ابو بکر اور عمر نے منع کردیا ۔(53)
جامع ترمذی میں ہے کہ :عبداللہ بن عمر سے حج کے متعہ کے بارےمیں کسی نے سوال کیا تو انھوں نے کہا: جائز ہے ۔ پوچھنے والے نے کہا :آپ کے والد نے تو اس سے منع کیا تھا ۔ ابن عمر نے کہا: کیا خیال ہے ، اگر میرے والد تمتع سے منع کریں اور رسول اللہ نے خود تمتع کیا ہو تو میں اپنے والد کی پیروی کروں یا رسول اللہ ص ے حکم کی ؟ اس نے کہا: ظاہر ہے ،رسول اللہ ص کے حکم کی (54):
اہل سنت والجماعت نے عورتوں کے متعہ کے بارےمیں تو عمر کی بات مان لی لیکن متعہ حج کے بارے میں ان کی بات نہ مانی ۔حالانکہ عمر نے ان دونوں سے ایک ہی موقع پر منع کیا تھا ۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں ۔
اس پورے قصے میں اہم بات یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت ع اور ان کے شیعوں نے عمر کی بات کو غلط بتایا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ دونوں متعے قیامت تک حلال اور جائز رہیں گے کچھ علمائے اہلسنت نے بھی اس بارے میں ائمہ اہل بیت کا اتباع کیا ہے ۔ میں ان میں سے تیونس کے مشہور عالم اور زیتونیہ یونیورسٹی سربراہ شیخ طاہر بن عاشور رحمۃ اللہ علیہ کا ذکر کروں گا ۔ انھوں نے اپنی مشہور تفسیر التحریر والتنویر میں آیت " فمااستمتعتم به منهن" کی تفسیر کے ذیل میں متعہ کو حلال کہا ہے (55)۔
علماء کو اسی طرح اپنے عقیدے میں آزاد ہونا چاہیے اور جذبات اورعصبیت سے متائثر نہیں ہونا چاہیے اور نہ کسی کی مخالفت کی پروا کرنی چاہیے ۔ اس معاملے میں فیصلہ کن اورناقابل تردید دلائل شیعوں کی تایید میں موجود ہیں اور جن کے سامنے انصاف پسند اور ضدی طبیت دونوں کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے " الحق يعلو ولايعلی عليه"
حق ہی غالب رہتا ہے ، کوئی اسے مغلوب نہیں کرسکتا ! مسلمانوں کو تو امام علی ع کا یہ قول یادرکھنا چاہیے کہ " متعہ رحمت ہے اور یہ اللہ کا احسان ہے جو اس نے اپنے بندوں پر کیا ہے"۔
اور واقعی اس سے بڑی رحمت کیا ہوسکتی ہے کہ متعہ شہوت کی بھڑکتی ہوئی آگ کو بجھا تا ہے جو کبھی کبھی انسان کو مرد ہویا عورت اس طرح بے بس کردیتی ہے کہ وہ درندہ بن جاتا ہے ۔کتنی ہی عورتوں کو مرد اپنی شہوت کی آگ بجھانے کے بعد قتل کردیتے ہیں !! مسلمانوں خصوصا نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ سبحانہ نے زانی اور زانیہ کے لیے اگر شادی شدہ ہوں تو سنگسار کیےجانے کی سزا مقررکی ہے ، اس لیے ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے محروم رکھے جبکہ اسی نے ان کو اور ان کی فطری خواہشات کو پیدا کیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ ان کی بہتری کسی چیز میں ہے ۔ جب خدائے غفور الرحیم ن ےاپنے بندوں کو اپنےفضل وکرم سے متعہ کی اجازت دے دی ہے تو اب زنا وہی کرے گا جو بالکل ہی بدبخت ہوگا ۔ یہی صورت چوری کی ہے ۔ چور کی سزا قطع ید ہے لیکن اگر مفلسوں اور محتاجوں کے لیے بیت المال موجود ہے تو کوئی بدبخت ہی چوری کرےگا ۔
الہی ! میں معافی کا طلبگار ہوں اور توبہ کرتاہوں کیونکہ میں نوجوانی میں دین اسلام سے سخت خفا تھا اور اپنے دل میں کہتا تھا کہ "اسلام کے احکام بہت سخت اورظالمانہ ہیں جو مرد عورت دونوں کے لیے جنسی عمل پر سزائے موت تجویز کرتے ہیں ،حالانکہ ہوسکتاہے کہ یہ جنسی عمل طرفین کی ایک دوسرے سے محبت کا نتیجہ ہو ۔ پھر سزائے موت بھی کیسی ؟ بدترین موت ! سنگسار کرنے کی سزا ! اور وہ بھی مجمع عام میں کہ کل عالم دیکھے "
اس طرح کا احساس اکثر مسلمان نوجوانوں میں پایا جاتا ہے ، خصوصا آجکل کے زمانے میں ، جبکہ مخلوط سوسائٹی ،بے پردگی اور بے ہودہ طور طریقوں کی وجہ سے ان نوجوانوں کی لڑکیوں سے مڈبھیڑ ہوتی ہے ، اسکول کالج میں ، سڑک پر اور ہرجگہ ۔
یہ کوئی معقول بات نہیں ہوگی اگر ہم ایسے مسلمان کا موازنہ جس نے قدیم طرز کے اسلامی معاشرے میں تربیت پائی ہو اس مسلمان سے کریں جو نسبتا ترقی یافتہ ملک میں رہتا ہو جہاں ہر معاملے میں مغرب کی تقلید کی جاتی ہو ۔
اکثر نوجوانوں کی طرح میری بھی جوانی مغربی تہذیب اور دین کے درمیان یوں کہہ لیجیے کہ جنسی جبلت اور خواہش اورخوف خدا وآخرت کے درمیان مستقل اور دائمی کشمکش میں گزری ہے ۔ ہمارے ملکوں میں خوف خدا ہی رہ گیا ہے ، زنا کی دنیوی سزا غائب ہوچکی ہے اس لیے مسلمان صرف اپنے ضمیر کو جواب دہ ہے ۔اب یا تو وہ گھٹن میں وقت گزارے جس سے ایسے نفسیاتی امراض کا اندیشہ ہوتاہے جو خطرناک ہوسکتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو اوراپنے پرودگار کودھوکا دیکر وقتا فوقتا بدکاری کے گڑھے میں گرتا رہے ۔
سچ تویہ ہے کہ اسلام اور اسلامی شریعت کے اسرار جب ہی میری سمجھ میں آئے جب مجھے تشیع سے واقفیت ہوئی ۔
میں نے شیعہ عقائد کو ایک رحمت جانا اور ان عقائد میں سماجی ، اقتصادی ، اور سیاسی مشکلات کا حل پایا ، ان ہی عقائد کے ذریعے سے مجھے معلوم ہوا کہ اللہ کے دین میں آسانی ہی آسانی ہے مشکل کانام نہیں ۔ اللہ نے ہمارے لیے دین میں تنگی نہیں رکھی ۔ امامت رحمت ہے ۔عصمت ائمہ کا عقیدہ رحمت ہے ۔بداء رحمت ہے ،قضا وقدر سے متعلق شیعہ جو کچھ کہتے ہیں رحمت ہے ۔ تقیہ رحمت ہے ۔ نکاح متعہ رحمت ہے ۔ مختصر بات یہ کہ یہ سب کچھ وہ حق ہے جس کی تعلیم خاتم النبیین حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی جو رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے ۔
----------------------
(1):- تفصیلات کے لیے دیکھیے تاریخ عاشورا ،مطبوعہ تعلیمات اسلامی ۔کراچی پاکستان
(2):- آج بھی بعض اتنہا پسند حلقے یہ پروپیگنڈے کرتےہیں کہ " شیعہ کافر ہیں ، سبائی ہیں اور ان کی جان اور ان کا مال محترم نہیں ہے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے "۔اس طرح انھوں نے نفرت اور افتراق کا پنڈورا بکس کھول دیا ہے ۔ لیکن ہمارے علماء ہمیشہ ملت کی وحدت ویگانگت کے داعی رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ جو کوئی " لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ "کہہ دے وہ مسلمان ہے اور اس کی جان اور املاک محترم ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے کہ جمال الدین افغانی سے لے کر آیت اللہ خمینی تک ہمارے علماء نے اتحاد اسلامی کیلئے بھر پور کوشش کی ہیں ۔ہمارے ان ہی علماء میں سے ایک آیت اللہ کاشف الغطاء ہیں جنھوں نے قابل قدر سیاسی وسماجی خدمات انجام دی نہیں ۔ سنہ 1350 ھ میں جب آیت اللہ کاشف الغطاء موتمر اسلامی میں شرکت کے لیے القدس الشریف پہنچے تو موتمر کے بیشتر مندوبین نے آپ ہی کی اقتدا میں مسجد اقصی میں نماز پڑھی تھی ۔(ناشر)
(3):-یہ الھدایہ کے مولف شیخ الاسلام براہانن الدین علی بن ابی بکر المرغینانی (593ھ)ہیں ۔
زمخشری نے اپنی کتاب ربیع الابراء میں لکھا ہے کہ
" معاویہ بن ابی سفیان نے سب سے پہلے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا شروع کی جو خلاف سنت ہے "۔
لہذا ہم معاویہ کے طرفدار سے اتنا ہی عرض کریں گے کہ
اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بند قبادیکھ
(4):-کہا جاتا ہے کہ برطانوی سامراج نے جب سرزمین حجاز میں "وہابی تحریک "کا آغاز کیا تو انھوں نے ۔مستشرقین کی تجویز کے بموجب جو اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں ۔ اس تحریک کے ذریعہ ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم المعروف بہ اب تیمیہ حرّانی کے افکار ونظریات کو فروغ دیا کہ کیونکہ وہ اپنے افکار ونظریات کی بنا پر مطعون تھالیکن بیسویں صدی کے لوگوں نے اسے "مجدد "اور" مصلح" کاخطاب دے دیا ۔(ناشر)
(5):- منہاج السنۃ النبویہ ، ابن تیمیہ
(6):-شرح المواہب ،زرقانی ۔
(7):- صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 99 باب مایجوز من الغضب والشدۃ لامراللہ عزوجل ۔
(8):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 252 کتاب صلاۃ التراویح
(9):-صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 35 "وکذالک تاوّلت عائشۃ فصلّت اربعا صفحہ 36
(10):- ابن حجر عسقلانی ، لسان المیزان جلد 5 صفحہ 161 ۔ محب طبری ،ذخائر العقبی صفحہ 64 نور اللہ حسینی مرعشی ۔ احقاق الحق جلد 7 صفحہ 217
(11):- شیخ محمد رضا مظفر ،عقائد الامامیہ صفحہ 67 ۔یہ کتاب جامعہ تعلمیات اسلامی نے مکتب تشیع کرے نام سے شایع کردی ہے ۔
(12):- ابن عبدربہ اندلسی العقد الفرید جلد 3 صفحہ 42
(13):- محمدبن عیسی ترمذی جامع الترمذی جلد 5 صفحہ 328
(14):- مستدرک حاکم جلد 2 صفحہ 243 ۔کنز العمال جلد 5 صفحہ 95 ۔صواعق محرقہ صفحہ 184
(15):-کنز العمال جلد 6 صفحہ 155 ۔ مجمع الزوائد جلد 9 صفحہ 108 ۔ تاریخ دمشق جلد 2 صفحہ 99۔ مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ128 ۔حلیۃ الاولیاء جلد 4 صفحہ 359 ۔ احقاق الحق جلد 5 صفحہ 108
(16):- طبری ،جامع البیان فی تفسیر القرآن جلد 13 صفحہ 108 ۔رازی ،تفسیر کبیر جلد 5 صفحہ 271 ۔ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم جلد 3 صفحہ 503 ۔شوکانی ،تفسیر فتح القدیر جلد 3 صفحہ 70 ۔سیوطی تفسیر درمنثور جلد 4 صفحہ 45 ۔حسکانی شواہد التنزیل جلد 1 صفحہ 293۔
(17):- فرشتہ موت کا چھوتا ہے گوبدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دوررہتا ہے (اقبال
(18):-نہج البلاغہ خطبہ 85
(19):-سلیمان قندوزی حنفی ینابیع المودۃ جزو3 صفحہ 99
(20):- صحیح بخاری جلد 8 صفحہ 127 ۔صحیح مسلم جلد6 صفحہ 3
(21):-ابن عبد ربّہ اندلسی عقد الفرید جلد 3 صفحہ 42۔
(22):- صواعق محرقہ صفحہ 148 ۔ درمنثور جلد 2 صفحہ 60 ۔ کنزالعمال جلد ا صفحہ 168 ۔ اسد الغابہ فی معرفۃ ۔الصحابہ جلد3 صفحہ 137۔
(23):- نہج البلاغہ خطبہ 142
(24):-تفسیر طبری جلد 14 صفحہ 134 ۔ تفسیر ابن کثیر جلد 2صفحہ 540 ۔تفسیر قرطبی جلد 11 صفحہ 272۔
(25):- شبلی نعمانی ،سیرت نعمان ۔
(26):-علامہ ابن شہر آشوب ۔مناقب آل ابی طالب ۔ حالات صادق ع
(27):- سیوطی ،درمنثور جلد 4 صفحہ 661
(28):-صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 78 کباب بدء الخلق باب ذکر الملائکہ ۔
(29):- صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 250 باب المعراج ۔صحیح مسلم جلد1 صفحہ 101 باب الاسراء برسول اللہ وفرض الصلوات
(30):-صحیح بخاری جلد 4 باب ماذکر عن بنی اسرائیل
(31):-سیوطی ،تفسیر درمنثور
(32):- سنن بہیقی۔مستدرک حاکم
(33):-سیوطی ، درمنثور
(34):-ابن سعد ، طبقات الکبری
(35):-ابن سعد ،طبقات الکبری
(36):- حافظ احمد بن حسین بیہقی ، سنن الکبری
(37):- سیوطی ، تفسیر درمنثور جلد 2 صفحہ 178
(38):-صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 102
(39):- علی بن برہان الدین شافعی ، انسان العیون المعروف بہ سیرت حلبیہ جلد3 صفحہ 61
(40):-حجۃ الاسلام ابو حامد غزالی ، احیاء علوم الدین ،
(41):- ابوبکر رازی ، احکام القرآن جلد 2 صفحہ 10
(42):-صحیح بخاری جلد 7 ،باب " لم یکن النبی فاحشا ولا متفحشا"
(43):- کذا وکذا کی بجائے رقم اور متعہ کی مدت بولے ۔
(44):-یہ بات وثوق سے معلوم نہیں کہ رسول اللہ ص نےکب منسوخ کیا تھا: کچھ لوگ کہتے ہیں کہ روزخیبر اور کچھ کہتے ہیں کہ روزفتح مکہ اور کچھ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں اور کچھ کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع میں اور کچھ کہتے ہیں عمرۃ القضا میں رسول اللہ ص نے منسوخ کیا تھا (ناشر)
(45):- واضح رہے کہ حدیث سے قرآن کا حکم منسوخ نہیں ہوتا کیونکہ قانون سازی انبیاء کا کام نہیں ہے ، ان کا کام تو بس یہ ہے کہ اللہ کے بنائے ہوئے قانون اسے کے بندوں تک پہنچادیں " وما علی الرّسول الّا البلاغ المبين" (ناشر)
(46):-صحیح مسلم جلد 4 صفحہ 158
(47):- مثلا زبیر بن العوام نے حضرت ابوبکر کی بیٹی اسماء سے متعہ کیا تھا ۔ اس متعہ کے نتیجے میں عبداللہ بن زبیر اور عروہ بن زبیر پیداہوئے تھے ۔ جیسا کہ امام اہلسنت راغب اصفہانی نے محاضرات الادباء میں لکھا ہے (ناشر)
(48):-صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 158
(49)(50):- صحیح مسلم جلد 4 صفحہ 131
(51):- تفسیر ثعلبی ۔ تفسیر طبری۔
(52):- فخر الدین رازی ، تفسیر کبیر " فمااستمتعتم به منهن" کی تفسیر کے ذیل میں ۔
(53):- مسند امام احمد بن حنبل جلد 11 صفحہ 337
(54):- جامع ترمذی جلد اول صفحہ 157
(55):-التحریر والتنویر جلد 3 صفحہ