کفار مکہ کا قائد فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگیا اور اس کے اسلام لانے کا واقعہ یہ ہے کہ جب جناب رسول خدا (ص) بھاری جمعیت لے کر مکہ سے باہر پہنچے تو اس وقت قریش کسی قسم کی مزاحمت کے قابل نہ تھے ابو سفیان نے رسولخدا(ص) کے چچا عباس کو مجبور کیا کہ وہ انہیں رسولخدا(ص) کی خدمت میں لے جائے ۔ جب عباس اسے لے کر حضور اکرم کی خدمت میں پہنچے تو رسول خدا (ص) نے فرمایا : " ابو سفیان کیا تمہارے لئے ابھی و ہ وقت نہیں آیا کہ تم اللہ کی وحدانیت کی گواہی دو؟"
ابو سفیان نے کہا ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ۔آپ کتنے شریف اور بردبار اورکریم ہیں ۔ اس چیز کے لئے میرے دل میں کچھ شک ہے ۔
عباس نے کہا : ابو سفیان اگر آج جان بچانی ہے تو مسلمان ہوجاؤ چنانچہ ابو سفیان مسلمان ہوگیا (1)۔
اسلام قبول کرنے کے بعد ابو سفیان نے اپنے کفر پر پروان چڑھنے والے اعصاب پر بظاہر کنٹرول کیا اور لوگوں کو دکھانے کے لئے بت پرستی چھوڑ ا اور نئے دین کا اعتراف کرنے لگا ۔لیکن رگوں میں رچی ہوئی بے دینی اور کفر کا گاہے گاہے اس سے اظہار بھی ہوجاتا تھا ۔
فتح مکہ کے بعد ایک کافر جس کا نام حرث بن ہشام تھا اس نے
ابو سفیان سے کہا:- اگر میں محمد (ص) کو رسول مان لیتا تو اس کی ضرور پیروی کرتا ۔
ابو سفیان نے اس سے کہا :- میں کچھ کہنا نہیں چاہتا کیونکہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں اگر آج میں کچھ کہوں گا تو یہ پتھر بھی میرے خلاف گواہی دیں گے (2)۔
عبارت بالا سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان کا اسلام منافقت پر مبنی تھا اگر وہ دل سے مسلمان ہوچکا ہوتا تو کافر کو منہ توڑ جواب دیتا
فتح مکہ کے وقت ابو سفیان کی جگر خوار بیوی ہندہ نے بھی بامر مجبوری اسلام قبول کیا تھا ۔
جب رسول خدا(ص) نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت فرمایا کہ تم میری اس بات پر بیعت کرو کہ اپنی اولاد کو قتل نہ کروگی ۔
یہ سن کر ہند نے کہا:- ہم نے تو انہیں پال کر جوان کیا تھا لیکن تم نے بدر میں انہیں قتل کردیا ۔
رسول خدا(ص) نے فرمایا :- تم میری بیعت کرو کہ تم زنا نہیں کروگی ۔
ہند نے کہا:- کیا آزاد عورت بھی زنا کرتی ہے ؟
جب رسول خدا نے اس کا ترکی بہ ترکی جواب سنا تو عباس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگے ۔
اسلام دشمنی میں بنی امیہ کی مثال ڈھونڈ نے پر بھی کہین نہیں ملتی ۔
بنی امیہ جو حضرت عثمان کا خاندان تھا اس کے پیرو جواں غرضیکہ جن پر بھی نظر پڑتی ہے وہ اسلام دشمنی سے بھرا ہوا نظر آتا ہے ۔مروان کا باپ "حکم " رسول خدا (ص) کی نقلیں اتارا کرتا تھا ۔ اسی لئے رسول خدا (ص) نے اسے مدینہ سے جلاوطن کر کے طائف بھیج دیا تھا ۔
بلاذری لکھتے ہیےں :- حکم بن عاص بن امیہ حضرت عثمان کا چچا تھا ۔دور جاہلیت میں رسول خدا کا پڑوسی تھا اور آپ کا بد ترین ہمسایہ تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی رسول خدا کو سخت اذیت پہنچایا کرتا تھا ۔ وہ بدبخت حضور کے پس پشت ان کی نقلیں اتارا کرتا تھا ۔"
ایک دفعہ رسول خدا اپنی کسی گھر والی کے حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے اس اپنی نقل کرتے ہوئے دیکھ لیا ۔آپ باہر آئے اور فرمایا کہیہ اور اسکی اولاد میرے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔ اس کے بعد آپ نے اسے اولاد سمیت طائف کی طرف جلاوطن کردیا ۔ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں بھی وہ جلا وطن ہی رہا ۔جب عثمان بنے تو انہوں نے اپنے چچا کو وہاں سے مدینہ بلالیا (3)۔
حضرت عثمان کا ایک انتہائی معتمد ابن ابی سرح تھا اور یہ وہ شخص ہے جو کتابت وحی کیا کرتا تھا۔ اس نے وحی کی کتابت میں تحریف کی تو رسول خدا نے اسے واجب القتل قرار دیا ۔ حضرت عثمان کے دور حکومت میں ان کے مادری بھائی ولید بن ابی معیط کو بڑا رتبہ حاصل تھا اور یہ وہ شخص ہے جسے رسول خدا (ص) نے بنی مصطلق سے صدقات وصول کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ موصوف جب اس خاندان کی آبادی کے قریب گئے تو ان سے ملے بغیر واپس چلے آئے اور رسول خدا کو بتایا کہ وہ لوگ تومیرے قتل کے درپے ہوگئے تھے ۔ مقدر اچھا تھا کہ میں بھاگ نکلا ۔
رسول خدا نے ان لوگوں کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرمایا ۔
اسی اثناء میں اس خاندان کے معزز افراد رسول خدا کے پاس آئے اور آکر بتایا کہ آپ کا عامل آیا تھا ۔ جب ہم نے اس کی آمد کی اطلاع سنی تو اس کے استقبال کے لئے آگے آئے لیکن آپ کا عامل ہم سے ملے بغیر واپس چلا گیا ۔
اللہ تعالی نے اس پر یہ آیت فرمائی "یا ایھا الذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ایمان والو! جب کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔"(4)
اللہ تعالی نے حضرت عثمان کے اس مادری بھائی کو قرآن مجید میں لفظ "فاسق" سے یاد فرمایا ہے ۔
ابو سفیان اور اس کے ہم نوا افراد کو دوسرے مسلمان "طلقاء" کے نام سے یاد کیا کرتے تھے ۔اور جب معاویہ کا ذکر ہوتا تو اس وقت کے مسلمان فرمایا کرتے تھے کہ معاویہ جو قائد المشرکین ابوسفیان کا بیٹا ہے اور وہ معاویہ جو ہند جگر خوار کا نور نظر ہے (5)۔
زبیر بن بکار نے "موبقات میں مغیرہ بن شعبہ کی زبانی لکھا ہے کہ :- حضرت عمر نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ کیا تم نے کبھی اپنی کانی آنکھ سے بھی کچھ دیکھا ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔
حضرت عمر نے کہا :- خدا کی قسم بنو امیہ تیری آنکھ کی طرح اسلام کو بھی کانا بنائیں گے اور پھر اسلام کو مکمل اندھا بنادیں گے کسی کو معلوم نہ ہوسکے گا کہ اسلام کہا ں سے آیا اور کہا ں چلا گیا ۔
امام بخاری اپنی صحیح میں لکھتے ہیں کہ :- ایک شخص نے رسول خدا (ص) سے پوچھا کہ کیا ہمارے ان اعمال کا بھی ہم سے محاسبہ ہوگا جو ہم نے دور جاہلیت میں سرانجام دئیے تھے ؟
آپ (ص) نے فرمایا نہیں ۔جس نے اسلام لاکر اچھے عمل کئے اس کا مواخذہ نہیں ہوگا اور جس نے اسلام لانے کے بعد بھی برےعمل کئے تو اس سے اگلے اور پچھلے اعمال کا محاسبہ ہوگا (6)۔ حضرت عثمان کی مالی پالیسی خالصتا اقربا ءپروری پر مشتمل تھی ۔ انہوں نے بنی امیہ پر بیت المال کا منہ کھول دیا ۔
بنی امیہ پر نوازشات
حضرت عثمان نے مروان بن حکم کو دولاکھ دینار عطا فرمائے اور مروان کی بیٹی عائشہ کی شادی کے موقع پر اس کی بیٹی کو بھی دو لاکھ دینار عطا فرمائے ۔ علاوہ ازیں مروان کو بھاری جاگیریں بھی عطا فرمائیں ۔
حالت یہ ہوئی کہ بیت المال کے خازن زید بن ارقم نے استعفاء دے دیا ۔ مذکورہ بالا عطا تو حضرت عثمان کی انتہائی قلیل عطاؤں میں سے ہے ۔
انہوں نے خلافت سنبھالتے ہی ابو سفیان کو ایک لاکھ درہم عطا کئے (7)۔
اپنے ایک اور رشتہ دار کو بھاری رقم لکھ کر بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا ۔خازن ایمان دار شخص تھا ۔ اس نے اتنی رقم دینے سے انکار کردیا ۔
حضرت عثمان نے خازن سے بار بار مطالبہ کیا کہ اسے مطلوبہ رقم خزانہ سے فراہم کی جائے لیکن خازن اپنی بات پرا ڑارہا ۔
حضرت عثمان نے اسے ملامت کرتے ہوئے کہا کہ تیری کیا حیثیت ہے ؟
تو بس ایک خزانچی ہے ۔لیکن اس نے کہا :- میں مسلمانوں کے بیت المال کا خزانچی ہوں ۔آپ کا ذاتی خزانچی نہیں ہوں ۔پھر اس نے خزانے کی چابیاں لاکر رسول خدا(ص) کے منبر پر رکھ دیں (8)
بلاذری اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں :-
عبداللہ بن ارقم بیت المال کے خازن تھے ۔ حضرت عثمان نے ان سے ایک لاکھ درہم کی رقم طلب کی اور ابھی رقم نکلی ہی تھی کہ مکہ سے عبداللہ بن اسید بن ابی العیص اپنے ساتھ افراد کو لے کر حضرت عثمان کے پاس آیا ۔حضرت
عثمان نے عبداللہ کے لئے تین لاکھ درہم اور اس کے تمام ساتھیوں کے لئے ایک ایک لاکھ درہم دینے کا حکم صادر فرمایا ۔
خازن ہے تجھے انکار کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔
خازن نے کہا :- جناب ! میں مسلمانوں کےبیت المال کا خازن ہوں اور آپ کا ذاتی خازن آپ کا غلام ہے ۔میں آپ کے اس رویہ کی وجہ سے استعفاء دے رہا ہوں ۔پھر اس نے چابیاں منبر رسول (ص) پر رکھ دیں اور خود ملازمت سے علیحدہ ہوگیا ۔
حضرت عثمان نے اسے منانے کے لئے اس کے پاس تین لاکھ درہم بھیجے لیکن اس نے لینے سے انکار کردیا ۔
حضرت عثمان کی سخاوت کی داستانیں لوگوں کے گوش گزار ہوئیں اس سے لوگوں میں نفرت کے جذبات پیدا ہونے لگے اور چند دنوں کے بعد لوگوں میں یہ افواہ پھیلی کہ بیت المال میں انتہائی قیمتی جواہر کا ہار موجود تھا جو حضرت عثمان نے اپنے کسی رشتہ دار کے حوالے کردیا ۔ لوگوں نے اس بات کا برا منایا اور حضرت عثمان سے شدید احتجاج کیا ۔اس احتجاج پر حضرت عثمان سخت ناراض ہوئے اور اعلان کیا ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل اس بیت المال سے کریں گے ۔اگر کسی کادل جلتا ہے تو جلتا رہے ۔اگر اس سے کسی کی ناک رگڑتی ہے تو رگڑتی رہے ۔حضرت عمار بن یاسر نے یہ سن کر کہا :- میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس اس فعل پرراضی نہیں ہوں ۔
حضرت عثمان نے کہا :- اسے گھٹیا شخص !تیری یہ جراءت کہ تو مجھ پر جسارت کرے؟ پھر پولیس کے افراد سے کہا اسے فورا پکڑلو۔
حضرت عمار کو پکڑ لیا گیا اور انہیں اتنا مارا گیا کہ وہ بے ہوش ہوگئے ۔
انہیں اٹھا کر حضرت ام سلمہ کے حجرہ میں لایا گیا ۔حضرت عمار سارا دن بے ہوش رہے اور اسی بے ہوشی کی وجہ سے ان کی ظہر ،عصر اور مغرب کی نمازیں قضا ہوگئیں جب انہیں ہوش آیا تو وضو کرکے انہوں نے نماز ادا کی اور کہا :- اللہ کا شکر ہے آج پہلی دفعہ مجھے اللہ کے دین کے لئے نہیں مارا گیا ۔
حضرت ام سلمہ یا حضرت عائشہ میں سے ایک بی بی نے رسول خدا کا لباس اور ان کی نعلین نکال کر اہل مخاطب کرکے کہا لوگو ! یہ رسول خدا کا لباس اور ان کا موئے مبارک اور نعلین ہے ۔ ابھی تک تو رسول خدا کا لباس بھی پرانا نہیں ہوا تم نے ان کی سنت کو تبدیل کردیا ۔
اس موقعہ کی وجہ سے حضرت عثمان کو خاصی شرمندگی اٹھانی پڑی اور ان سے اس کا جواب نہ بن آیا (9)
اگر یہ روایت درست ہے تو اس کا مقصد یہ ہے کہ حضرت عثمان نے بیک دوغلطیاں کیں :
1:- بنو امیہ کو مسلمانوں کا مال ناحق دیا گیا ۔
2:-رسول خدا(ص) کے ایک جلیل القدر صحابی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
حضرت عثمان کی "سخاوت "کی مثال نہیں ملتی
آپ نے مروان بن حکم کو افریقہ کا سارا خمس عطا فرمایا اور "حکم" کے دوسرے بیٹے حارث کو تین لاکھ درہم عطا فرمائے۔
عبداللہ بن خالد بن اسید اموی کو تین لاکھ درہم عطا فرمائے ۔
اس کے وفد میں شامل ہر شخص کو ایک ایک لاکھ درہم دیا گیا ۔
زبیر بن عوام کو چھ لاکھ درہم دئیے گئے
طلحہ بن عبیداللہ کو ایک لاکھ درہم دیا گیا
سعید بن عاص کو ایک لاکھ درہم ملے
سعید بن عاص نے اپنی چار صاحبزادیوں کی شادی کی تو اس کی ایک ایک بیٹی کو بیت المال سے ایک ایک لاکھ درہم دئیے گئے ۔ان واقعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بلاذری رقم طراز ہیں ۔ سنہ 27ھ میں اسلامی لشکر نے افریقہ فتح کیا اور وہاں سے بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا ۔ اس مال غنمیت کا خمس مروان بن حکم کو دیا گیا ۔علاوہ ازیں سنہ 27 ھ میں عبداللہ بن ابی سرح جو کہ حضرت عثمان کے رضاعی بھائی تھے کی زیر سرکردگی افریقہ پر حملہ کیاگیا ۔مسلمان فوج نے افریقہ فتح کرلیا ۔فوج کے سالار نے ایک لاکھ درہم کے بدلے سارا خمس خرید لیا اور بعداز اں حضرت عثمان س انہوں نے مذکورہ رقم معاف کرنے کی درخواست کی ۔حضرت عثمان نے انہیں رقم معاف کردی۔
زکواۃ کے اونٹ مدینہ لائے گئے ۔حضرت عثمان نے تمام اونٹ حارث بن حکم بن ابی العاص کو عطا کردئیے۔
حضرت عثمان نے حکم بن عاص کو بنی قضاعہ کی زکواۃ کا عامل مقرر کیا اور وہاں سے تین لاکھ درہم کی وصولی ہوئی ۔وہ ساری رقم انہیں دے دی گئ۔
حارث بن حکم بن ابی العاص کو تین لاکھ درہم دیئے گئے ۔
اور زید بن ثابت انصاری کو ایک لاکھ درہم دئیے گئے ۔
بیت المال کا یہ استحصال حضرت ابو ذر سے نہ دیکھا گیا اور انہوں نے مدینہ کے بازاروں اور گلیوں میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھنی شروع کی :-والذین یکنزون الذھب والفضۃ ۔۔۔۔۔۔الایۃ "
"جو لو گ سونا چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے آپ انہیں دردناک عذاب کی بشارت دیں ۔یہی سونا اور چاندی دوزخ کی آگ میں گرم کرکے ان کی پیشانیوں اور پہلوؤں میں داغا جائے گا اور ان
سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارا وہ خزانہ ہے جسے تم جمع کیا کرتے تھے (10)
"حضرت ابو ذر کے اس طرز عمل کی مروان نے حضرت عثمان کے پاس شکایت کی حضرت عثمان نے انہیں کہلا بھیجا کہ تم اس حرکت سے باز آجاؤ ۔
حضرت ابو ذر نے کہا: عثمان مجھے اللہ کی کتاب کی تلاوت سے باز رکھنا چاہتا ہے ؟ خدا کی قسم میں عثمان کی ناراضگی برداشت کرسکتا ہوں لیکن اللہ کی ناراضگی برادشت نہیں کرسکتا ۔
آپ نے حضرت عثمان کی مالی پالیسی ملاحظہ فرمائی ۔چند لمحات کے لئے اس مقام پر ٹھہر جائیں اور اس کے بر عکس حضرت علی (ع) کی مالی پالیسی کا بھی ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔کیونکہ ۔
بضدھا تتبین الاشیاء
حضرت علی (ع) کی مالی پالیسی
حضرت علی (ع) کے دور خلافت میں حضرت حسین (ع) کا ایک مہمان آیا ۔انہوں نے ایک درہم ادھار لے کر روٹی خریدی ۔سالن کے لئے ان کے پاس رقم موجود نہ تھی ۔انہوں نے اپنے غلام قنبر کو حکم دیا کہ یمن سے جو شہد آیا ہے اس میں سے ایک رطل کی مقداد میں شہد دیں ۔قنبر نے حکم کی تعمیل کی اور ایک رطل شہد انہیں لاکر دی ۔چند دنوں کے بعد حضرت علی نے تقسیم خاطر وہ شہد منگایا اور شہد کی مشک کو دیکھ کر فرمایا ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کچھ کمی ہوئی ہے ۔ قنبر نے عرض کی :- جی ہاں ! آپ کے فرزند حسین (ع) نے ایک مہمان کی خاطر ایک رطل شہد مجھ سے لی تھی ۔
یہ سن کر حضرت علی (ع) نا راض ہوئے اور فرمایا کہ حسین (ع) کو بلاؤ۔جب
حسین (ع) آگئے تو حضرت علی نے فرمایا :- حسین بیٹے ! تقسیم سے پہلے تم نے ایک رطل شہد بیت المال سے کیوں لی ہے ؟
حسین (ع) نے عرض کی :-بابا جان ! جب تقسیم ہوجائے گی تو میں اپنے حصہ سے اتنی مقدار واپس کردوں گا ۔
اس پر حضرت علی (ع) نے فرمایا :- یہ درست ہے کہ اس میں تمہارا بھی حصہ ہے لیکن تقسیم سے پہلے تم شہد لینے کے مجاز نہیں تھے ۔ بعد ازآں قنبر کو ایک درہم دے کر فرمایا کہ اس درہم سے بہترین شہد خرید کر دوسرے سہد میں شامل کردو ۔
حضرت علی (ع) کے عدل کے لئے عقیل کا واقعہ ہی کافی ہے ۔
اس واقعہ کو عقیل نے خود معاویہ بن ابی سفیان کے دربار میں اس وقت سنایا جب وہ علی (ع) ک عدل سے بھاگ کر وہاں پہنچے تھے کہ مجھے شدید غربت نے اپنی لپیٹ میں لیا تو میں اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے کر اپنے بھائی علی (ع) کے پاس گیا ۔میرے بچوں کے چہروں پر غربت ویاس چھائی ہوئی تھی اور بھوک کی وجہ سے ان کے چہرے زرد ہوچکے تھے ۔
میرے بھائی علی (ع) نے کہا کہ تم آج شام میرے پاس آنا ۔چنانچہ شام کے وقت میرا ایک بیٹا ہاتھ پکڑے ہوئے ان کے پاس لےگیا ۔انہوں نے میرے بچے کو مجھ سے ہٹا دیا اور مجھے کہا کہ اور قریب آجاؤ ۔میں سمجھا کہ علی مجھے زرد دولت کی تھیلی دیں گے لیکن انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر آگ کی طرح گرم لوہے رکھا اور اس کی وجہ سے میں یوں گرا جیسا کہ بیل قصاب کے ہاتھ سے گرتا ہے (11)۔
اس واقعہ کو خود حضرت علی (ع) نے اپنے ایک خطبہ میں ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے ۔
"رایت عقیلا وقد املق حتی استما حنی مین برّکم صاعا ۔ورایت
صبیانہ شعث الشعور ، غیر الالوان من فقرھم ،عاودنی موکّدا وکرّرا علیّ القول مرددا ۔۔۔۔۔"(الامام علی بن ابی طالب)
"بخدا میں نے عقیل کو سخت فقر وفاقہ کی حالت میں دیکھا ۔یہاں تک کہ وہ تمہارے حصہ کے گیہوں میں ایک صاع مجھ سے مانگتے تھے اور میں نے ان کے بچوں کو بھی دیکھا جن کے بال بکھر ہوئے تھے اور فقر بے نوائی سے رنگ تیرگی مائل ہوچکے تھے گویا ۔ان کے چہرے نیل چھڑک کرسیاہ کردئیے گئے ہیں وہ اصرار کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور اس بات کو باربار دہرایا ۔میں نے ان کی باتوں کو کان دے کر سنا تو انہوں نے یہ خیال کیا کہ میں ان کے ہاتھوں اپنا دین بھیج ڈالوں گا اور اپنی روش چھوڑ کر ان کی کھینچ تان پر ان کے پیچھے ہوجاؤں گا مگر میں نے یہ کیا کہ ایک لوہے کے ٹکڑے کو تپایا پھر ان کے جسم کے قریب لے گیا تاکہ عبرت حاصل کریں ۔چنانچہ وہ اس طرح سے چیخے جس طرح بیمار درد وکرب سے چیختا ہے اور قریب تھا کہ ان کا جسم اس داغ دینے سے جل جائے ۔ پھر میں نے ان سے کہا :- اسے عقیل ! رونے والیاں تم پر روئیں کیا تم لوہے کے اس ٹکڑے سے چیخ اٹھے ہو جسے ایک انسان نے ہنسی مذاق میں بغیر جلانے کی نیت کے تپا یا ہےاور مجھے اس آگ کی طرف کھینچ رہے ہو جسے خدائے قہار نے اپنے غضب س بھڑکایا ہے ۔تم اذیت سے چیخو اور میں جہنم کے شعلوں سے نہ چلاؤں ۔"(12)
ہمیں علی علیہ السلام کی زندگی صداقت اور انسانی عزت نفس کابلند ترین نمونہ نظر آتی ہے ۔
آپ جانتے ہیں کہ خوارج سے حضرت علی علیہ السلام کو کتنی نفرت تھی ۔آپ انہیں باطل پر سمجھتے تھے ۔ اس کے باوجود حضرت علی (ع) کا ان سے طرز عمل کیا تھا ۔اس کے لئے ڈاکٹر طہ حسین مصری کے بیان کردہ واقعہ کو پڑھیں :-
"حضرت علی (ع)کے پاس حریث بن راشد السامی خارجی آیا اور کہا اللہ کی قسم میں نہ تو آپ کا فرمان مانوں گا اور نہ ہی آپ کے پیچھے نماز پڑوں گا ۔اس کے ان جملوں پر حضرت نے ناراضگی کا اظہار نہ کیا اور نہ ہی اسے اس پر کوئی سزا دی ۔آپ نے اسے بحث و مباحثہ کی دعوت دی اور فرمایا تم مجھ سے بحث کر لو تاکہ تمارے سامنے واضح ہوجائے اس نے دوسرے دن آنے کا وعدہ کیا اور آپ نے قبول کرلیا "(13)۔
ایک خارجی کے ساتھ حضرت علی (ع) کا سلوک ملاحظہ فرمائیں اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت عمار کے ساتھ حضرت عثمان کا بھی سلوک ملاحظہ فرمائیں ۔ تاکہ آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ علی (ع) کیا تھے اور عثمان کیا تھے ؟
حضرت عثمان نے اسلامی خزانہ کو صرف اپنے اقرباء پر ہی نہیں لٹایا بلکہ اس دور کے مشاہیر کو بھی اس سے وافر حصہ دیا ۔حضرت عثمان نے زبیر بن عوام کو چھ لاکھ عطا کئے ۔طلحہ بن عبیداللہ کو ایک لاکھ عطا کئے اور تمام قرضہ بھی معاف کردیا ۔
ایک طرف سے اپنے رشتہ داروں پر یہ نوازشات جاری تھیں ۔جب کہ دوسری طرح عامتہ المسلمین بھوک وافلاس اور شدید ترین غربت کا شکار تھے ۔
کیونکہ بیت المال کا اکثر حصہ تو بنی امیہ اور مقربین کی نذر ہوگیا ۔غریب عوام کو دینے کے لئے خزانہ خالی تھا ۔
چند مشاہیر کی دولت
حضرت عثمان کے دور خلافت میں اشرافیہ طبقہ کی جائیداد کی ایک ہلکی سی جھلک مسعودی نے یوں بیان کی ہے ۔
صحابہ کی ایک جماعت اس زمانہ میں بڑی مالدار بن گئی اور انہوں نے
بڑی بڑی جاگیریں خریدلیں اور عظیم الشان محلات تعمیر کرلئے ۔ ان میں سے زبیر بن عوام نے بصرہ میں اپنا محل تعمیر کرایا جو اس وقت 332 ہجری میں بھی اپنی اصل حالت میں پورے جاہ وجلال کے ساتھ موجود ہے ۔ اس میں تاجر اور سرمایہ دار آکر ٹھہرا کرتے ہیں ۔
اس کے علاوہ انہوں نے مصر ،کوفہ اور سکندریہ میں بھی عالی شان محل تعمیر کرائے ۔اسکے علاوہ اس کی دوسری جاگیروں کے متعلق بھی اہل علم جانتے ہیں ۔ زبیر کی وفات کے وقت اس کے گھر سے نقد سرمایہ پچاس ہزار دینار برآمد ہوئے ۔علاوہ ازیں انہوں نے اپنے پیچھے ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار لونڈیاں چھوڑیں ۔
طلحہ بن عبیداللہ التمیمی نے بھی کوفہ میں عظیم الشان محل تعمیر کیا اور عراق سے طلحہ کے غلہ کی یومیہ آمدنی ایک ہزار دینار تھی ۔جب کہ دوسر ے مورخین اس سے بھی زیادہ بیان کرتے ہیں ۔عراق کے علاوہ باقی علاقوں سے اس کی کمائی اس سے بھی زیادہ تھی ۔ اس نے مدینہ میں ایک مثالی محل تعمیر کرایا جس میں جص اور ساج استعمال کیا گیا تھا ۔
عبدالرحمن بن عوف زہری نےبھی فلک بوس محل تعمیر کرایا اور اسے وسعت بھی دی ۔اس کے اصطبل میں ایک ہزار گھوڑے ہر وقت بندھے رہتے تھے ۔ اس کے پاس ہزار اونٹ اور دس ہزار بکریاں تھیں ۔ وفات کے وقت ان کی چار بیویا ں تھیں اور ہر بیوی کو چوارسی ہزار (84000) دینار ملے ۔"(14)
"اہل جنت " کے سرمایہ کی آپ نے ہلکی سی جھلک مشاہدہ فرمائی ۔جب حاکم ہی بیت المال کو دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا ہو تو آپ رعایا سے صبر وقناعت کی امید کیسے کریں گے ۔ اس دور کے عمّال وحکام سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ
انہوں نے اسی بہتی گنگا سے ہاتھ نہیں دھوئے ہوں گے ؟
حضرت عثمان نے بنی امیہ کو صرف درہم ودینار دینے پر ہی کتفاء نہیں کی بلکہ انہیں بڑی بڑی جاگیریں بھی عطا فرمائیں ۔ ممکن ہے کہ اس مقام پر حضرت عثمان کے بہی خواہ اہل سنت اور معتزلہ ان کی صفائی میں یہ کہین کہ انہوں نے یہ زمینیں اس لئے دی تھیں تا کہ زمینیں آباد ہوجائیں ۔
اس کے جواب میں شیعہ یہ کہتے ہیں کہ یہ جواب تو حضرت عثمان نے بھی خود نہیں دیا تھا ۔یہ جواب ناقص اور " مدعی سست اور گواہ چست "والا معاملہ ہے ۔ اس کے جواب میں شیعہ یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ مذکورہ جاگیریں صرف بنی امیہ کو ہی کیوں دی گئی تھیں ؟ کیا بنی امیہ زمینوں کے اسپیشلسٹ تھے (15)؟
ڈاکٹر صاحب کے اس بیان کے بعد یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ حضرت عثمان کی اس مالیاتی پالیسی کے دو نتیجے نکلے اور دونوں ایک دوسرے سے خراب تر تھے ۔
1:- مسلمانوں کے مال کو ناحق خرچ کیا گیا ۔
2:- اور اس کی وجہ سے ایک نو دولتیے طبقہ نے جنم لیا جن کا مطمع نظر دوسروں کے حقوق کو غصب کرنا اور اپنی دولت میں بے پناہ اضافہ کرنا تھا ۔ اور یہ نو دولتیہ طبقہ اپنی دولت بچانے کے لئے کسی بھی برے سے برے حاکم کی اطاعت پر بھی کمربستہ ہوسکتا تھا اور مذکورہ طبقہ ایک خاص امتیاز اکا بھی خواہش مند تھا اور اپنی دولت کو تحفظ دینے کے لئے ہر اس حکومت کو خوش آمدید کہنے پر آمادہ تھا جو کہ مسلمانوں کے لئۓ مضر لیکن ان کے لئے مفید ہو ۔
حضرت علی علیہ السلام کے دور خلافت میں یہی سرمایہ دار طبقہ ہی ان کی مخالفت میں پیش پیش تھا ۔ انہوں نے حضرت علی کی مخالفت اپنے سرمایہ اور جاگیروں کے تحفظ کے لئے کی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):- تاریخ ابن خلدون /جلد دوم ۔ص 234
(2):- سیرت ابن ہشام ۔جلد چہارم /ص 33
(3):- بلاذری ۔انساب الاشراف جلد 5 ص 22
(4):-الحجرات ۔6۔
(5):-ڈاکٹر طہ حسین ۔علی وبنوہ ۔ص 155
(6):- صحیح بخاری ۔جلد ہشتم ص 49
(7):-عبداالفتاح عبدالمقصود ۔الامام علی بن ابی طالب جلد دوم ص 20-21
(8):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔ الفتنۃ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص 94
(9):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔ "عثمان بن عفان" ۔بلاذری ۔انساب الاشراف جلد پنجم ص 48
(10):- التوبہ 34
(11):- ابن ابی الحدید۔ شرح نہج البلاغہ
(12):-نہج البلاغہ کے خطبہ 221 سے اقتباس ۔
(13):- الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔ص 125
(14):- مسعودی ۔مروج الذہب ومعادن الجوہر ۔جلد 2 ص 222
(15):-ڈاکٹر طہ حسین ۔مصری الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔ص 193۔