خیر طلب:- اگر آپ کے قول کے مطابق انسان واسطے اور وسیلے کا محتاج نہیں ہے اور بارگاہ خداوندی میں اگر وسیلے کے ساتھ فریاد و استغاثہ بلند کرے تو گنہگار اور مشرک ہوگا ۔تو پھر خلیفہ عمر الخطاب کس لئے احتیاج اور اضطرار کے موقع پر واسطے کے ساتھ خدا کی طرف رجوع کرتے تھے اور اس طرح استغاثہ کر کے کامیابی حاصل کرتے تھے ؟
حافظ:- ہرگز خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ نے واسطے کے ساتھ کوئی عمل انجام نہیں دیا اور یہ پہلا موقع ہے جب میں ایسے الفاظ سن رہا ہوں گزارش ہے کہ اس کا مجمل بیان فرمائیے ۔
خیرطلب:- خلیفہ احتیاج کے مواقع پر بار بار اہل بیت رسالت (ع) اور آنحضرت کی عترت طاہرہ کا وسیلہ ڈھونڈ ھتے رہتے تھے اور انہیں کے توسل سے خدا کی طرف رجوع کرکے مطلب حاصل کرتے تھے وقت کا لحاظ رکھتے ہوئے صرف دو موقعے نمونے کے طور پر پیش کرتا ہوں ۔
(پہلا) ابن حجر مکی ،صواعق محرقہ میں آیۃ نمبر14 کے بعد تاریخ دمشق سے نقل کرتے ہیں کہ سنہ 17 ہجری میں دعائے بارش کے لئے لوگ کئی مرتبہ نکلے لیکن کوئی نتیجہ نہیں ہو ا سب بہت متاثر اور پریشان ہوئے تو عمر ابن الخطاب نے کہا کہ اب میں کل ضرور بالضرور اس شخص کے وسیلے سے طلب باران کروں گا جس کے واسطے سے حتمی طور پر خدا ہم کو پانی دے گا۔ دوسرے دن صبح کو خلیفہ عمر آن حضرت صلعم کےچچا عباس کے پاس گئے اور کہا "اخرج بنا حتی نستسقی اللہ بک " (ہمارے ساتھ باہر چلو تا کہ ہم بارگاہ الہی میں تمہارے وسیلے سے پانی طلب کریں۔
جناب عباس نے فرمایا تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ تاکہ میں وسیلہ مہیا کر لوں ،پھر کسی کو بھیج کر بنی ہاشم کو اطلاع دی کہ اور پاک لباس پہن کے خوشبو لگا کے اس صورت سے باہر آئے کہ علی علیہ السلام عباس کے آگے امام حسن علیہ السلام داہنی طرف، امام حسین علیہ السلام بائیں طرف اور دوسرے بنی ہاشم پیچھے پیچھے تھے اس وقت فرمایا کہ اے عمر کسی اور شخص کو ہمارے ساتھ شامل نہ کر ۔چنانچہ اسی حالت سے مصلے تک پہنچے اور جناب عباس نے مناجات کے لئے ہاتھ کو بلند کر کے عرض کیا ۔پروردگار ا ! تو نے ہم کم خلق فرمایا اور جو کچھ ہم عمل کرتے ہیں تو اس سے واقف ہے پھر عرض کیا کہ "اللھم کما تفضلت علینا فی اولہ فتفضل علینا فی آخرہ" (یعنی پر وردگار جس طرح تو نے ابتدا میں ہم پر فضل کیا ہے اسی طرح آخر میں ہمارے اوپر تفضل فرما)جابر کہتے ہیں ان کی دعا تمام نہ ہوئی تھی کہ بادل آنا شروع ہوئے اور پانی برسنے لگا ۔ ابھی ہم لوگ گھروں تک نہیں پہنچے تھے کہ بارش سے بھیگ گئے ۔
نیز بخاری سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ قحط کے زمانہ میں عمر ابن خطاب عباس ابن عبد المطلب کے وسیلے سے بارگاہ خداوندی میں پانی کے لئے دعا کر رہے تھے اور کہتے تھے "اللھم انا نتوسل الیک بعم نبینا فاسقنا فیسقون" یعنی خداوندا ہم تیری طرف عم رسول (ص) کا وسیلہ اختیار کرتے ہیں ہم کو سیراب کردے ،چنانچہ ان لوگوں پر نزول باراں ہوا)
(دوسرا) ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ (مطبوعہ مصر) جلد دوم صفحہ 256 میں نقل کرتے ہیں کہ خلیفہ عمر جناب عباس عم رسول(ص) کے ہمراہ استسقاء کے لئے گئے اور اس طرح دعا کی "اللھم انا نتقرب الیک بعم نبیک وبقیۃ آبا ئہ وکبر رجالہ فاحفظ اللھم نبیک فی عمہ فقد ولونا بہ الیک مستشفعین ومستغفرین "(یعنی خداندا ! ہم تیری طرف وسیلہ ڈھونڈتے ہیں تیرے پیغمبر کے چچا اور ان کے آباء اور بزرگ مردوں میں سے باقی ماندہ کے ذریعے سے ، پس اپنے پیغمبر کی منزل ان کے چچا کے بارے میں محفوظ رکھ کیونکہ ہم نے ان کی وجہ سے تیری طرف ہدایت پائی تاکہ شفاعت طلب کریں اور اسغفار کریں۔
حضرات اہل سنت اور پیروان خلیفہ عمر کے حالات تو اس مشہور مثل کے مطابق ہیں کہ "کاسہ گرم تر از آش " "یعنی شوربے سے زیادہ پیالہ گرم " کیونکہ خلیفہ عمر دعا اور احتیاج واضطرار کے وقت عترت و اہل بیت رسول(ص) کو اپنا شفیع قرار دیتے ہیں اور ان کے وسیلے سے بارگاہ الہی میں طلب حاجت کرتے تھے تو ان پر کوئی اعتراض نہیں ۔لیکن جس وقت ہم شیعہ اس برگزیدہ خاندان کو شفیع بناتے اور ان کا توسل اختیار کرتے ہیں تو ہم کو سخت اعتراض کے ساتھ کافر ومشرک کہا جاتا ہے ۔اگر آل محمد (ص)اور عترت طاہرہ کو خدا کی طرف شفیع قرار دینا شرک ہے تو آپ ہی کے علماء کی روایتوں کے مطابق خلیفہ عمر ابن خطاب قطعا سب سے پہلے مشرک ٹھہرتے ہیں اور اگر خلیفہ کا وہ عمل شرک نہیں تھا بلکہ بہترین کام تھا ۔(کیونکہ خلیفہ نے اس کاانتخاب کیا تھا)تو یقینا شیعوں کے اعمال اور آل محمد علیھم السلام سے ان کا توسل ہرگز شرک نہیں ہو سکتا ۔
لہذا آپ حضرات کو چاہیے کہ قطعی طور پر اپنی یہ باتیں چھوڑیں بلکہ استغفار کریں (کیونکہ بے لوث اور موحد شیعوں کی طرف ایسی غلط نسبت دی ہے )تاکہ غضب الہی کے مستحق نہ بنیں اس لئے کہ جب خلیفہ عمربزرگان صحابہ کی ہمراہی میں بھی چا ہے جس قدر دعا کریں لیکن بغیر اہل بیت رسول کے وسیلے کے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا تو آپ کیونکر امید رکھتے ہیں کہ ہم بغیر واسطے اور سہارے کے دعا کرکے کامیاب ہو جائیں گے ۔
پس آل محمد سلام اللہ علیھم اجمعین عہد رسول (ص) سے لے کر ہمارے موجودہ زمانے تک ہر دور میں خدا کی طرف بندوں کے وسیلے تھے اور ہیں اور ہم لوگ بھی حاجت روائی میں ان کی خود مختاری کے قائل نہیں ہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ان کو خدا کے صالح بندے برحق امام اور درگاہ خدا میں مقرب سمجھتے ہیں لہذا اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دیتے ہیں۔
اس مقصد پر سب سے بڑی دلیل ہماری دعاوؤں کی کتابیں ہیں کیونکہ ائمہ معصومین علیھم السلام سے تمام ماثورہ اور دعاوؤں میں ہم جو کچھ میں نے عرض کیا ہے اس کے علاوہ کوئی اور ہدایت ہی نہیں دی گئی ہے اور ہم نے بھی اس طریقے کے خلاف نہ کوئی عمل کیا ہے اور نہ کر یں گے ۔