ایک بہت ہی پڑھے لکھے واعظ نے منبر پر تقریر کے دوران امام حسین علیہ السلام پر رونے کے سلسلے میں بہت سی روایتیں نقل کیں جن میں ایک یہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”کل عین باکیة یوم القیامة الاعین بکت علی مصائب الحسین فانها ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة“۔[1]
”روز قیامت ہر آنکھ گریہ کنا ں ہوگی لیکن امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر رونے والی آنکھیں خدا کی نعمت دیکھ کر ہشاش وبشاس ہوں گی“۔
منبر سے اترنے کے بعد ایک سامع اور واعظ کے درمیان حسب ذیل طریقہ سے مناظرہ ہوا:
سامع: ”یہ تمام اجر وثواب گریہ امام حسین علیہ السلام پر کیوں ہے ؟ جب کہ امام حسین علیہ السلام دنیا میں عظیم انقلاب لا کر کامیاب و سربلند ہوئے اور اپنے خون سے یزیدیوں کو رسوا کیا اور ان کے چہرے ہمیشہ کے لئے کالے کر دیئے اور آخرت میں اس کے بدلے آپ کو بہترین مقام دیا گیا ہے اور آج بھی آپ برزخ اور جنت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔اور اسلامی نظریہ کے مطابق امام حسین علیہ السلام زندہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید سورہٴ آل عمران میں ارشاد فرماتا ہے:
”وَلاَتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتًا بَلْ اٴَحْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهمْ یُرْزَقُون“[2]
”اور اللہ کی راہ میں قتل ہوجانے والوں کو مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ لوگ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں“۔
واعظ: ”میں نے ایسی متعدد روایتیں دیکھی ہیں جن میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری اور عزاداری کرنے کی تاکید کی گئی ہے اور اس گریہ و زاری کو برابر زندہ رکھنے کے بارے میں کہا گیا ہے اور شیعہ وسنی دونوں روایتوں میں آیا ہے کہ روز قیامت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا خداوند متعال کی بارگاہ میں اس طرح عرض کریں گی:
”اللھم اقبل شفاعتی فیمن بکی علی ولدی الحسین“۔
”پالنے والے میرے بیٹے حسین پر گریہ کرنے والوں کے لئے میری شفاعت قبول کر“۔
اسی روایت کے ذیل میں آیا ہے:
”فیقبل الله شفاعتها ویدخل الباکین علی الحسین علیه السلام فی الجنة“۔[3]
”خدا وند عالم فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شفاعت قبول کرے گا اور امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والوں کو جنت میں داخل کرے گا“۔
متعدد روایتوں کے مطابق انبیاء علیہم السلام اورپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسین علیہ السلام پر گریہ کیا ہے اور عزاداری برپا کی ہے۔
کیا اگر ہم اولیائے خدا اور بارگاہ خدا وندی کے مقرب بندوں کی پیروی میں امام حسین علیہ السلام پر گریہ کریں توکوئی اعتراض کا مقام ہے ؟نہیں قطعاً نہیں، بلکہ اس عظیم سنت کو زندہ کرنے اور ائمہ علیہم السلام کی اس چیزکی اقتداء میں بہت ہی اجر وثواب ہے یہاں پر ائمہ معصومین علیہم السلام نے گریہ امام حسین علیہ السلام کو کتنی اہمیت دی ہے اس کے بارے میں سے دو عجیب واقعے نقل کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ایک روز امام سجاد علیہ السلام نے سنا: ایک شخص بازار میں یہ کہہ رہا ہے: میں ایک مسافر ہوں مجھ پر رحم کرو۔(انا الغریب فارحمونی)
امام سجاد علیہ السلام اس کے پاس گئے اور اس کی طرف متوجہ ہو کر آپ نے فرمایا:
”اگر تیری قسمت اسی (شہر مدینہ میں)مرنا ہوگی تو کیا یہاں تیری لاش کو بے گوروکفن چھوڑ دیا جائے گا ؟“
اس غریب مرد نے کہا: ”اللہ اکبر کس طرح میرے جنازہ کو دفن نہیں کریں گے جب کہ میں مسلمان ہوں اور اسلامی امت کی آنکھوں کے سامنے ہوں“۔
امام سجاد علیہ السلا م نے روتے ہوئے فرمایا:
”وا اسفاه علیک یا ابتاه۔تبقی ثلاثة ایام بلادفن وانت ابن بنت رسول الله“۔[4]
”کتنے افسوس کی بات ہے اے میرے بابا!رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے ہوتے ہوئے بھی آپ کی لاش تین روز تک بے گوروکفن زمین پر پڑی رہی“۔
۲۔تاریخ میں آیا ہے کہ منصور دوانقی (دوسرا عباسی خلیفہ)نے مدینہ میں اپنے والی کو حکم دیا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے گھر میں آگ لگا دو۔
والی مدینہ نے حکم پانے کے بعد آگ اور لکڑی جمع کروائی اور امام جعفرصادق علیہ السلام کے گھر میں آگ لگادی اور گھر کے دالان سے جب شعلے بھڑکنے لگے تو مخدرات عصمت گھر میں رونے یٹنے لگیں یہاں تک کہ ان کی آواز گھر سے باہر پہنچ گئی امام جعفر صادق علیہ السلام نے بڑی مشکل سے آگ بجھا ئی اس کے دوسرے دن کچھ شیعہ حضرات آپ کی احوال پرسی کے لئے گئے تو دیکھا کہ آپ محزون ہیں اور گریہ فرمارہے ہیں ان لوگوں نے کہا: ”کیا دشمنوں کے اس عمل اور ان کی گستاخی پر آپ گریہ کر رہے ہیں جب کہ آپ کے خاندان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے؟ “
امام جعفر صادق علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”میںکل کے واقعہ پر نہیں روہا ہوں بلکہ اس بات پر رورہا ہوں کہ جب گھر میں آگ کا شعلہ بھڑکنے لگا تو میں نے دیکھا کہ میرے ہوتے ہوئے عورتیں اور بچیاں ایک کمرے سے دوسرے کمرے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ بھاگ کر پناہ لے رہی تھیں تاکہ انھیں آگ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
”فتذکرت عیال جدی الحسین یوم عاشوراء لما هجم القوم علیهم ومنادیهم ینادی احرقوا بیوت الظالمین“۔[5]
تو اس وقت مجھے روز عاشورہ اپنے جد امام حسین علیہ السلام کے مصیبت زدہ اہل حرم کی یا د آگئے جب ایک منادی ندا دے رہا تھا کہ ظالموں کے گھروں کو جلا دو“۔
دو مذکورہ واقعے اور اس کے علاوہ بہت سے قرائن سے سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام ائمہ علیہم السلام ہمیشہ چاہتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور ان کی عزاداری برابر لوگوں کے دلوں میں تازہ دم رہے اسی بنیاد پر ہم ان کی پیروی میں امام حسین علیہ السلام کی مصیبت زندہ رکھنے کے لئے ان پر گریہ کرتے ہیں اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس عمل پرہمیں عظیم اجر وثواب عطا ہوگا۔
امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ کرنا اور غمگین ہونا اتنا عظیم اور مقدس عمل ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام زیارت امام حسین علیہ السلام کے ضمن میں فرماتے ہیں:
”السلام علی الجیوب المضرجات“۔[6]
”سلام ان گریبانوں پر جو امام حسین علیہ السلا کے غم میں چاک ہوئے ہوں“۔
سامع: ”آپ کی اس راہنمائی کا بہت بہت شکریہ ،بیشک ہمیں اپنی زندگی میں چاہئے کہ ہم ائمہ علیہم السلام کو اپنے لئے نمونہٴ عمل قرار دیں، لیکن یہاں میرا مطلب یہ ہے کہ تمام احکام حکمت ومصلحت سے خالی نہیں ہیں تمام احکام اپنے ساتھ ایک ہدف لئے ہوئے ہیں اور کتنا بہتر ہے اگر ہم ان تمام احکام کو با معرفت انجام دیں نہ کہ اندھی تقلید کرتے ہوئے۔
اسی بنا پرمیرا سوال یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کا کیا مقصد اور کیا سبب ہے ؟ “
واعظ: ”امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور اس کے مقصد کی وضاحت کے سلسلے میں چند باتیں کہی جاسکتی ہیں:
۱۔شعائر اللہ کی تعظیم:
مرحوم مومن پر گریہ کرنا ایک طرح کا احترام ہے اور یہ گریہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ معاشرہ میں اس کے چلے جانے سے ایک خلا واقع ہو گیا ہے اور وہ اب موجود نہیں ہے تاکہ لوگ اس کے وجود سے فائدہ اٹھائیں۔یہ گریہ اس کے باطنی احساسات ہیں جو مومن کے دنیا سے چلے جانے پر وجود میں آتے ہیں کیونکہ جب وہ مومن اس دنیا میں تھا لو گ اس سے مختلف طرح سے مستفید ہوتے رہتے تھے، گریہ ایک فطری عمل ہے اور جو شخص جتنا عظیم ہوگا دنیا والے اس پر اسی حساب سے زیادہ گریہ کریں گے۔جو دنیا سے جاتا ہے اور اس کے اوپر کوئی گریہ نہیں کرتا تو گویا یہ اس کی ایک طرح کی بے احترامی ہے۔
ایک شخص نے امام علی علیہ السلام سے پوچھا: ”نیک اخلاق کیا ہے ؟ “آپ نے جواب دیا:
”ان تعاشروا الناس معاشرة ان عشتم حنواالیکم وان متم بکوا علیکم“۔ [7]
”لوگوں سے اس طرح سلوک کرو کہ جب تک زندہ رہو وہ تمہارے اشتیاق میں تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں اور جب تم مر جاوٴ تو تم پر گریہ کریں“۔
ہر قوم وملت میں یہ رسم پائی جاتی ہے کہ جب بھی اس کے درمیان سے کوئی بزرگ شخصیت اٹھ جاتی ہے تو لوگ اس کے انتقال پر گریہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی دین محمد ی پر شہادت بھی ایک عظیم اور ہمیشہ باقی رہنے والا واقعہ ہے جس پر گریہ کرنا ان کے ہدف و مقصد کوزندہ رکھنا دینی شعائر کی تعظیم سمجھا جاتا ہے۔
اور قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
”وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللهِ فَإِنَّها مِنْ تَقْوَی الْقُلُوبِ“[8]
”اور جو بھی اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کرے گا یہ تعظیم اس کے دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہوگی۔--“
۲۔عاطفی گریہ:
امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی ایک روز (عاشورا) میں جگر سوز شہادت ہر انسان کے دل کو کباب کر دیتی ہے اور ہر انسان کا دل ظالم و ستمگر کے خلاف بر انگیختہ ہوجاتا ہے کربلا کا الم ناک واقعہ اس قدر دل ہلا دینے والا ہے کہ اسے زمانہ نہ کبھی بھلا سکتا ہے اور نہ ہی اسے پرانا بنا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر: عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق جنا ب عیسیٰ علیہ السلام کے دشمنوں نےانھیں پھانسی دے کر قتل کر دیا اب تم معلوم کر سکتے ہو کہ عیسائی اس یاد کو دنیا کے چپہ چپہ میں لوگوں کے دلوں میں تازہ کرتے ہیں اور غم کا اظہار کرتے ہیں یہاں تک کہ صلیب اپنے لباس اور اپنے کلیسا وغیرہ پر نصب کرکے اسے اپنی علامت قرار دیتے ہیں۔
جب کہ قتل عیسیٰ (عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق)واقعہ کربلا اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے بہت ہی کم اہمیت کا حامل ہے۔
اسی وجہ سے امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور ان کی عزاداری لوگوں کی محبت کو بر انگیختہ ہونے اور ان کے عظیم اہداف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔
ایک استاد کے بقول: ”عقل کی ترجمان ہمیشہ زبان رہی ہے لیکن عشق کا ترجمان آنکھ ہے جہاں احساس اور درد ہوں اورآنسو گریں وہاں عشق ضرور پایا جاتا ہے لیکن جہاں لفظوں کو ترتیب دے کر جملہ چھانٹے وہاں عقل پائی جاتی ہے“۔
اس بنا پر جس طرح مقرر کے زبردست دلائل اور پر زور خطابت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ وہ اس خاص مذہب سے وابستہ ہے اسی طرح آنکھوں سے گرنے والا آنسو کا ایک قطرہ دشمنوں کے خلاف اعلان جنگ کی طرح ہوتا ہے۔[9]
مقاصد کی تکمیل اور دشمن کی مغلوبیت کے لئے احساساتی پہلوایک اہم کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا ان کو یکسر نظر انداز نہیں کر دینا چاہئے کیونکہ یہ بھی کسی انقلاب کی آہٹیں ہوا کرتے ہیں۔
۳۔گریہ تائید ہے:
امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا ایک طرح سے ان کے قیام اور ان کے اہداف کی تائید ہے یہ گریہ عمیق ترین شعور و احساسات کو دشمنوں اور ستمگروں کے خلاف ابھارتا ہے جس کے معنی یہ ہیں: اے امام حسین علیہ السلام! آپ ہمارے قلب و جان اور احساسات کے گھروں میں پ موجود ہیں“:
زندہ در قبر دل ما بدن کشتہ تو است
جان مائی و تورا قبر حقیقت دل است
یہ زبان حال شیعہ ہے جو ہر زمان ومکان میں تین ستونوں پر استوار ہے۔
۱۔ہمارا قلب اس مبداء ایمان کی خاطر تلاش کرتا ہے جس کے لئے امام حسین علیہ السلام قتل کئے گئے۔
۲۔ہمارے کان ان کی سیرت و گفتار کو سنتے ہیں۔
۳۔ہماری آنکھیں آنسو بہا کر کربلا کے درد ناک واقعہ کو لوگوں کے دلوں پر نقش کرتی ہیں۔
اگر مذکورہ اسباب میں سے کسی ایک سبب کی وجہ سے گریہ ہواتو یہ سو فی صد ایک سالم فطرت تقاضہ کے تحت عمل میں آیا ہے اس طرح کے گریہ میں کوئی حرج کی بات کیا بلکہ یہ تو امام حسین علیہ السلام کے قیام و انقلاب کے لئے بہت سے فوائد کا حامل بھی ہے۔
۴۔ پیام آور اور رسواگر گریہ:
ہر انسان جب امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی کیفیت شہادت سنتا ہے کہ وہ بھوکے پیاسے عورتوں اور بچوں کے سامنے جلتی ہوئی زمین پر شہید کر دئیے گئے تو بے اختیا ر اس کے قلب و دماغ میں انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے پورے وجود سے یزید کی پلیدی اور قساوت قلبی پر لعنت وملامت کرتا ہے۔
اسی طرح امام حسین علیہ السلام پر گریہ ہر زمان مکان میں ظلم اور ظالم کے خلاف ایک آواز اور ایک طرح کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور کبھی کبھی یہی گریہ دشمن کو کچلنے کا بہترین ذریعہ بن ہوجاتا ہے۔لہٰذ جہاں بھی گریہ بے رحم دشمنوں کی رسوائی کا سبب بنے اور الٰہی پیغام لوگوں تک پہنچ جائے تو اسے ایک قسم کا نہی عن المنکر دین کے راستے کو استوار کرنے اور ظلم و ستم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں عملی اقدام کہا جاسکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ گریہ کی چند قسمیں ہیں جیسے خوف خدا سے گریہ ،شوق کا گریہ، محبت کا گرم وپیام آور گریہ وغیرہ اگر اس گریہ کا صحیح اور مناسب مقصد ہو تو یہ گریہ اپنی تمام قسموں میں سب سی زیادہ اچھا ہے۔
ہاں ایک گریہ مایوسی ،لاچاری،عاجزی اور شکست کی وجہ سے ہوتا ہے جسے گریہ ذلت کہتے ہیں اور اس طرح کا گریہ ان عظیم ہستیوں سے بہت دور ہے اور اولیائے خدا اور اس کے آزاد بندے اس طرح کا گریہ کبھی نہیں کرتے۔
اسی طرح گریہ اور عزاداری کی دو قسم ہے ”مثبت اور منفی“منفی گریہ قابل مذمت اور نقصان دہ ہے لیکن مثبت گریہ اپنے ساتھ بہت سے اصلاحی فوائد لئے ہوئے ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ گریہ کبھی کبھی نہی عن المنکر اور طاغوتیوں کے خلاف قیامت برپاکرنے اور جہاد کی صف میں کھڑے ہو کر جنگ کرنے کا سب سے اچھا اسلحہ ثابت ہوتا ہے۔
سامع: ”میرے سوال کے جواب میں آپ کے منطقی جامع اور مانع بیان کا بہت شکریہ“۔
واعظ: ”یہاں پر اس مناظرہ کی تکمیل میں کچھ اور باتیں بتاتا چلوں:
اسلام کے بعض دستور العملمیں سیاسی پہلو بھی لایا جاتا ہے ، چنانچہ عزاداری کی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ گریہ کرنے یہاں تک کہ رونے والوں جیسی صورت بنانے (تباکی) میں ایک سیاسی پہلو پوشیدہ ہے، (جیسا کہ مناظرہ نمر ۸۱میں آپ نے امام محمد باقر علیہ السلام کی اپنے اوپر دس سال تک گریہ کرنے کی وصیت میں پڑھا۔)
ائمہ علیہم السلام واقعہ کربلا کے سبب عزاداری کے ضمن میں حق وباطل کے چہرہ کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور لوگوں کو غفلت سے نکالنا چاہتے تھےے، لہٰذا انھوں نے ہر موقع اور مناسبت سے واقعہ عاشورہ کو زندہ رکھا، یہاں تک کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے فرمایا:
”امام سجاد علیہ السلام کی انگوٹھی کے نگینہ پر یہ لکھا تھا“:
”خزیٰ و شقی قاتل الحسین بن علی علیه السلام“۔[10]
”حسین بن علی علیہ السلام کا قاتل ذلیل اور رسوا ہوا“۔
حقیقتاً امام سجاد علیہ السلام نے اپنی انگوٹھی پر اس جملہ کو صرف اس لئے کندہ کروارکھا تھا کہ شہادت امام حسین علیہ السلام لوگوںکے دلوں میں تازہ دم ہوتی رہے اور لوگوں کی نظر جب بھی میری اس انگوٹھی پر پڑے توانھیں بنی امیہ کے مظالم یاد آجائیں اور سیاسی لحاظ سے بیدا ررہیں۔
ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اور گریہ دو طرح کا ہے۔ مثبت ومنفی، اب اس میں منفی اور قابل مذمت وہ گریہ ہے جو رونے والوں کے عجز وناتوانی اور شکست کو ثابت کرے لیکن مثبت وہ گریہ ہے جو لوگوں کی عزت، شجاعت ،صلاحیت اور بیداری کا سبب بنے۔
---------------------------------
[1] بحار ،ج۴۴،ص۲۹۳۔
[2] سورہٴ آل عمران آیت ۱۶۹۔
[3] الاحتجاجات العشرة،ص۲۰۔
[4] ماساة الحسین ،تالیف:الخطیب شیخ عبد الوہاب الکاشی ،ص۱۵۲۔
[5] ماساة الحسین ،تالیف:الخطیب شیخ عبد الوہاب الکاشی ،ص۱۳۵،۱۳۶۔
[6] الوقایع والحوادث،ج۳،ص۳۰۷۔
[7] ماساة الحسین علیہ السلام ،ص۱۳۷۔
[8] سورہٴ حج آیت ۳۲۔
[9] انگیزہ پیدائش مذہب ،ص۱۵۰۔
[10] منتہی الآمال ،ج۲،ص۳۔