اہل سنت والجماعت صحابہ کی تقدیس و طہارت میں مبالغہ کرتے ہیں اور بلا استثنی سب کو عادل کہتے ہیں اور اس طرح وہ عقل ونقل کے دائرہ سے نکل گئے ہیں چنانچہ وہ ہر اس شخص کی مخالفت کرتے ہیں جو کسی صحابی پر تنقید کرتا ہے یا کسی صحابی کو غیر عادل کہتا ہے، اس سلسلہ میں تمھارے سامنے ان کے کچھ اقوال پیش کرتا ہوں تاکہ آپ کو یہ معلوم ہوجائے کہ وہ مفاہیم قرآن اور نبی(ص) کی صحیح سنت اورعقل و ضمیر سے ثابت شدہ چیزوں سے کتنی دور ہیں۔
شرح مسلم میں امام نووی تحریر فرماتے ہیں: بے شک صھابہ رضی اللہ عنہم سب برگزیدہ اور امت کے سردار ہیں اوراپنے بعد والوں میں سب سے افضل ہیں ۔ سب عادل ہیں ایسے پیشوا ہیں جن میں کھوٹ نہیں ہے۔ ہاں بعد والوں میں کھوٹ پایا جاتا ہے اور ان کے بعد والے تو بالکل بھوسی چوکر ہیں ۔ ( صحیح مسلم جلد۸، ص۲۲)
یحی اابن معین کہتے ہیں : جو شخص عثمان یا طلحہیا رسول (ص) کے کسی بھی صحابی پر لعنت کرتا ہے وہ دجال ہے اور اس کا کوئی عمل مقبول نہ ہوگا اور اس پر اللہ ، ملائکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔( التہذیب ج۱، ص۵۰۹)
ذہبی کہتے ہیں: کسی بھی صحابی کو برا جبھلا کہنا ، بڑا گناہ ہے پس جو شخص ان میں خامی نکالتا ہے یا ان پر لعنت کرتا ہے وہ دین سے خارج اور ملت اسلامیہ سے جدا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذہبی ص۲۳۳۔ ۲۳۵)
قاضیابو یعلی سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو کہ ابوبکر پر لعنت کرتا تھا انھوں نے کہا ایسا شخص کافر ہے، کہا گیا اس پر نماز پڑھنی چاہئیے ؟ کہا نہیں۔ لوگوں نے کہا پس اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئیے ۔ جبکہ وہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتا تھا؟ قاضی نے کہا اسے اپنے ہاتھوں سے چھونا بھی نہیں بلکہ لکڑی سے ڈھل کر دفن کردو۔
احمد ابن حنبل کہتے ہیں: نبی(ص) کے بعد ابوبکر اور ان کے بعد عمر اور ابن خطاب کے بعد عثمان اور ابن عفان کے بعد علی(ع) امت میں سب سے افضل ہیں اور یہی خلفائے راشدین ہیں اور ان چار کے بعد رسول (ص) کے باقی صحابہ تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی برائی کرنا جائز نہیں ہے اور نہہی ان میں نقص و عیب نکالنا جائز ہے پس اگر کوئی شخص اس فعل کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کو سزا دینا واجب ہے۔ اسے معاف نہیںکیا جاسکتا ۔ بلکہاسے سزا دی جائے گی اور توبہ کرنے کے لئے کہا جائے گا اگر توبہ کر لیگا تو چھوڑ دیا جائے گا اور اگر توبہ نہ کرے تو دوبارہ سزا دی جائے گی اور عمر قید کردیا جائے یہاں تک کہ وہ قید ہی میں مرجائے یا توبہ کر لے۔
شیخ علاء الدین طرابلسی حنفی کہتے ہیں ۔ جو شخص اصحاب نبی(ص) میں سے ابوبکر ، عمر ، عثمان، علی(ع) ، معاویہ یا عمرو بن عاص پر سب شتم کرتا ہے اور انھیں گمراہ و کافر کہتا ہے تو قتل کیا جائے گا اور اگر صرف بر بھلا کہتا ہے تو اسے عبرت ناک سزادی جائے گی۔
ڈاکٹر حامد حنفی داؤد اختصار کے ساتھ اہل سنت والجماعت کے چند اقوال نقل کرتے ہیں چنانچہ کہتے ہیںکہ: اہل سنت والجماعت تمام صحابہ کو عادل سمجھتے ہیں اور وہ سب عدالت میں مشترک ہیں اگر چہ درجات و مراتب میں مختلف ہیں، جو شخص کسی صحابی کی طرف کفر کی نسبت دیتاہے
وہ کافر ہے اور اگر کوٓئی کسی صحابی کی طرف فسق کی نسبت دیتا ہے تو وہ فاسق ہے اور جس نےکسی صحابی پر اعتراض کیا گویا اس نےرسول(ص) پر اعتراض کیا۔
اور اہل سنت کے بڑے بڑے علما کا نظریہ ہے کہ حضرت علی(ع) اور معاویہ کے درمیان رونما ہونے والے حالات کا تجزیہ و تحقیق کرنا جائز نہیں ہے۔
بے شک صحابہ میں سے جس نے اجتہاد کیا اور واقعہ تک رسائی حاصل کی وہ علی(ع) اور ان کے پیروکار ہیں اور معاویہ و عائشہ سے ان کے ماننے والوں سے خطائے اجتہادی ہوئی ہے۔ اوریہ لازمی امر ہے۔ اہل سنت کی نظر میں ۔ جہاں خطائے اجتہادی ہو وہاں خاموشی اختیار کرنا چاہئے۔ اور برائیوں کو نہیں بیان کرنا چاہئے۔ اہل سنت معاویہ پر بھی اس لئے سب وشتم کرنے سے منع کرتے ہیں کہ وہ صحابی تھا اور عائشہ کو برا کہنے والے کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں عائشہ خدیجہ کے بعد ام المؤمنین اور رسول(ص) کی چہیتی ہیں۔
اس کےعلاوہ کہتے ہیں کہ ایسے معاملات کی تحقیق کرنا سزاوار نہیں ہے بلکہ انھیں خدا کی طرف لوٹا دینا چاہئیے ۔ اس سلسلہ میں حسن بصری اور سعید ابن مسیب کہتے ہیں ان امور سے خدانے ہمارے ہاتھوں کو محفوظ رکھا ہے تو ہمیں اپنی زبانوں کو پاک رکھنا چاہئیے۔
یہ تھا صحابہ کی عدالت کے متعلق اہل سنت کی رایوں کا خلاصہ۔ ( کتاب الصحابہ فی نظر الشیعہ الامامیہ ص۸۔۹)
جو شخص تفصیلی طور پر صحابہ کی معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ جاننا چاہتا ہے کہ اہل سنت والجماعت کی نظر میں اس اصطلاح کے کیا معنی ہیں۔ تو تحقیق سے معلوم ہوگا کہ اہلسنت و الجماعت یہ با شرف لقب و علامت ہر اس شخص کو ریتے ہیںجس نے نبی(ص) کو دیکھا ہو۔
بخاری کہتے ہیں : جو بھی نبی(ص) کے ساتھ رہا یا مسلمانوں میں سے کسی نے انھیں دیکھا تو وہ رسول(ص) کا صحابی ہے۔احمد ابن حنبل کہتے ہیں : بدری صحابی کے بعد سب سے افضل وہ شخص ہے جو ایک
سال یا ایک ماہ یا ایک روز رسول(ص) کی صحبت و خدمت میں رہا یا جس نے رسول(ص) کو دیکھا ہو اس کو اسی تناسب سے صحابی کہا جائے گا جتنی اسے صحبت نصیب ہوئی ہوگی۔ ( الکفایۃ ص۵۱ ،و کتاب تلقیح فہوم اہل الآثار)
ابن حجر کہتے ہیں: جس شخص نے بھی نبی(ص) سے کوئی حدیث یا لفظ نقل کیا ہے وہ مؤمن ہے اور صحابی ہے اور جس شخص نے حالتِ ایمان میں نبی(ص) سے ملاقات کی اور مسلمان مرا ، اور آپ(ص) کے پاس زیادہ عرصہ تک رہا ہو یا کم مدت ، آپ(ص)ٌ سے روایت کی ہو یا نہ کی ہو، کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، کسی نے نبی(ص) کو دیکھا ہو لیکن آپ(ص) کی خدمت و صحبت سے فیضیاب نہ ہواہو اور جس نے کسی رکاوٹ کی وجہ سے آپ(ص) کی زیارت نہ کی ہو وہ صحابی ہے۔( کتاب الاصابۃ لابن حجر جلد۱ ص۱۰)اکثر اہل سنت والجماعت کا یہی نظریہ ہے، ہر اس شخص کو صحابی کہتے ہیں جس نے نبی(ص) کو دیکھا ہو یا آپ(ص) کی حیات میں پیدا ہوا ہو خواہ وہ عقل و ادراک نہ رکھتا ہو، جیسا کہ ان میں سے بعض نے محمد ابن ابی بکر کو بھی صحابی قرار دیا ہے ۔ جب کہ وہ رسول(ص) کی وفات کے وقت تین ماہ کے تھے۔ابن سعد نے اپنی کتاب" طبقات" میں صحابی کو پانچ طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔ اور صحابِ مستدرک حاکم نیشاپوری نے بارہ طبقوں میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا طبقہ : وہ لوگ جو ہجرت سے قبل مکہ میں مسلمان ہوچکے تھے جیسے خلفائے راشدین۔
دوسرا طبقہ : وہ لوگ دارالندوہ میں حاضر تھے۔
تیسرا طبقہ : جن لوگوں نے ملکِ حبشہ ہجرت کی تھی۔
چوتھا طبقہ : جو لوگ عقبہ اولیٰ میں حاضر تھے۔
پانچواں طبقہ : جو لوگ عقبہ ثانی میں حاضر تھے۔
چھٹا طبقہ : جن لوگوں نے رسول(ص) کی ہجرت کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی تھی۔
ساتھواں طبقہ : جو لوگ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔
آٹھواں طبقہ : جب لوگوں نے صلح حدیبیہ سے پہلے اور جنگ بدر کے بعد ہجرت کی۔
نواں طبقہ : جو لوگ بیعت رضوان میں شریک تھے۔
دسواں طبقہ : جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل اور صلح حدیبیہ کے بعد ہجرت کی جیسے خالدابن ولید و عمرو ابن عاص و غیرہ۔
گیارہواں طبقہ : جن لوگوں کو نبی(ص) نے طلقا ( آزاد) کہا۔
بارہواں طبقہ : صحابہ کے وہ لڑکے ، بچے جو حیات نبی(ص) میں پیدا ہوئے جیسے محمد ابن ابی بکر وغیرہ۔
اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں چنانچہ چاروں مذاہب تمام صحابہ کی روایات کو بغیر تردد کے قبول کرتے ہیں اور اس حدیث پر کسی بھی تنقید و اعتراض کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔
جب کہ آپ کو ان ( اہل سنت والجماعت) میں جرح و تعدیل کرنے والے افراد بھی ملیں گے جنھوں نے احادیث کی تحقیق اور چھان بین کے سلسلہ میں محدثین اور رواۃ پر تنقید کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا ہے ۔ لیکن جب وہ کسی صحابی تک پہنچتے ہیں، خواہ کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو، وفاتِ نبی(ص) کے وقت اس کی عمر کچھ بھی رہی ہو تو فورا توقف کرتے ہیں اور اس کی روایت پر کسی قسم کی تنقید نہیں کرتے خواہ وہ حدیث عقل و نقل کے خلاف اور شکوک سے لبریز ہو۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ صحابہ تنقید اور جرح سے پاک ہیں وہ سب عادل ہیں!
قسم اپنی جان کی یہ تو زبردستی کی بات ہے جسے عقل نہیں قبول کرتی اور طبیعت پر گراں گزرتی ہے اور نہ ہی علم اس کو ثابت کرتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آج کے ذہین نوجوان اس مضحکہ خیز بدعت کو قبول کریں گے۔
اس بات کو ، کوئی نہیں جانتا کہ اہل سنت والجماعت نے یہ عجیب و غریب اور روح اسلام سے الگ افکار کہاں سے لئے ہیں۔
اے کاش میں جانتا ،اے کاش ان میں سے کوئی مجھے کتابِ خدا ، سنت رسول(ص) ، منطقی دلیل کے ذریعہ صحابہ کی خیالی عدالت سمجھادیتا!
لیکن ہم ان کی پوچ رایوں کا انحراف اور کجی سمجھ گئے ہیں، آنے والی فصل میں اس کی تشریح کریں گے۔محققین پر لازم ہے کہ وہ اپنی جگہ بعض ایسے اسرار سے پردہ ہٹائیں جو آج تک جرات و شجاعت کے دھنی کے محتاج چلے آرہے ہیں