اصل حکمیت سے ناراضگی خوارج کا سب سے بڑا اعتراض امام علی(ع) پر جسے ھمیشہ تکرار کرتے تھے، ایک بیجا اور خود ساختہ غلطی صفین میں حکمیت کے عنوان سے اکٹھے تھے۔ اور کھتے تھے کس طرح ممکن دو نمایندے اپنی فکر کو مسلمانوں اور ان کے رھنما و رھبر پر تھوپ سکتے ھیں ۔؟
وہ لوگ (خوارج) حکمیت کو صرف خدا کا حق جانتے تھے۔ اور حضرت علی(ع) اور معاویہ کو حکمیت کے قبول کرنے کی وجہ سے کافر سمجھتے تھے۔ 1
کبھی کھتے تھے حضرت علی(ع) نے جان کے ڈر سے حکمیت کو قبول کیا ھے۔ امام (ع) نے اس باطل اور بے بنیاد فکر کے جواب میں فرمایا: انا لم نُحكّم الرجال و انما حكّمنا القرآن…، 2 ھم نے اشخاص کو حکمیت کے لئے منتختب نھیں کیا ھے۔ بلکہ قرآن کریم کو فیصلہ کرنے کے لئے منتخب کیا ھے۔ اور قرآن ایسی تحریر ھے کہ جو دو جلدوں کے درمیان پوشیدہ ھے۔ اور قوت گویائی نھیں رکھتا بلکہ ضروری ھے دوسرے افراد اس کی آیتوں کا معنی کریں۔ اور اس کے سلسلے میں کلام کریں۔ جس وقت شام کے لوگوں نے ھم سے مطالبہ کیا کہ قرآن کریم ھمارے بیچ حاکم ھو۔ ھم اس گروہ میں سے نھیں تھے کہ خداوند عالم کی کتاب سے کنارہ کشی اختیار کرتے درحالیکہ خداوند عالم فرماتا ھے۔ (فان تنازعتم فی شیءٍ فردّوه الی اللہ والی الرسول) 3
اگر کسی چیز کے بارے میں اختلاف کرو۔ اس کو خداوند عالم اور رسول کی طرف پلٹا دو۔ خداوند عالم کی طرف اختلاف کو پلٹانے کا مطلب یہ ھے کہ اس کی کتاب (قرآن) کو حاکم قرار دو۔ اور پیغمبر اکرم(ص) کی طرف رجوع کا مطلب یہ ھے کہ ان کی سنت و سیرت کو حاصل کر کے اس پر عمل کرو۔ پس اگر سچائی کے ساتھ خدا کی کتاب اور پیغمبر(ص) کی سنت فیصلہ کرنے کے لئے لوگوں کے درمیان طلب کی جائے تو سب سے زیادہ میں اس کا مستحق ھوں۔ اور حق ھمارے ساتھ رھا ھے۔ اور سب سے زیادہ ھم اس کی صلاحیت رکھتے ھیں ۔
امام علی کے اس فرمان کے مطابق کہ جو قرآن کی دلیل کے ھمراہ تھا۔ واضح ھوجاتا ھے کہ خوارج کا دعویٰ تحکیم کے متعلق ایک توھّم کے علاوہ کچھ نھیں تھا۔ کہ جو ان کی جھالت کا نتیجہ اور ان کی خود غرض کی دلیل ھے، اور اگر وہ لوگ سمجھدار اور عالم اور بے غرض ھوتے تو یقیناً انھیں اپنی غلطی کا احساس ھوتا۔ لیکن چونکہ جاھل لوگ اور سخت مزاج اور جھوٹ کی پیروی کرنے والے اور دوسری جانب سے فتنہ و فساد برپا کرنے والوں کے آلۂ کار، خود غرض اور منصب طلب افراد تھے۔ صحیح اورسیدھے راستے کو منتخب کرنے میں قدرت و طاقت نھیں رکھتے تھے۔ اور اسی طرح اپنی گمراھی میں ھاتھ پیر مار رھے تھے۔ اس وجہ سے امام علی(ع) کی واضح اور روشن ھدایت سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔
دوسری جگہ بھی حضرت علی(ع) نے خوارج کے جواب میں فرمایا ھے: فاجمع رأی ملئکم علی ان اختاروا رجلین فاخذنا علیهم ان یجعجعا عند القرآن…4، تمھارے بزرگوں کا فیصلہ صفین میں اس بات پر تھا کہ دو نمائندے(ابو موسیٰ اشعری و عمرو عاص) کو منتخب کریں۔ اور ھم نے دونوں سے عھد و پیمان باندھا کہ قرآن کریم کے سامنے خاضع رھیں اور اس کی رأی کے مطابق تسلیم خاطر رھیں۔ اور اس سے منحرف نہ ھوں اور ان دونوں نمائندوں کی رأی قرآن کے مطابق ھو۔ اور ان کے دل خدا کے حکم کی پیروی کریں۔ لیکن ان دونوں نمائندوں نے قرآن کریم کے راستے سے انحراف کیا۔ حق کو واضح اور روشن دیکھا۔ لیکن اس کے باوجود اس کو قبول نہ کیا۔ اور بے جا حکم، خداوند عالم کے حکم کے خلاف جاری کر بیٹھے۔
مرحوم مجلسی(رح) فرماتے ھیں کہ امام علی(ع) نے مقام استدلال میں ابن کوّا سے فرمایا ھے: کیا میں نے نھیں کہا تھا کہ شام والے فریب اور دھوکہ دھڑی کے راستے سے داخل ھوئے ھیں۔ اور ھم کو چاھتے کہ ابن عباس کو حکمیت کے لئے معین کریں۔ لیکن تم لوگوں نے ابو موسیٰ اشعری کی نمائندگی پر اصرار کیا اور میں نے مجبورا اسے قبول کیا۔ اور تم لوگوں کے سامنے ان دونوں نمائندوں سے عہد لیا کہ قرآن کریم کے حکم کے مطابق حکم کریں گے۔
لیکن اس کے با وجود ان لوگوں نے مخالفت کی۔ لھٰذا اب مجھ سے کیا تعلق ھے؟ اس جگہ پر ابن کوّا نے امام(ع) کے قول کی تصدیق کی۔ اور دس آدمی کے ساتھ امام علی(ع) کے لشکر میں شامل ھوگیا۔ 5
ان دلیلوں کی بنیاد پر
اولاً: خود خوارج نے ان دونوں نمائندوں کو منتخب کیا۔ اور حضرت علی(ع) ان دونوں کی حکمیت کو قبول کرنے پر مجبور ھوئے۔
ثانیاً: امام علی(ع) نے ان دونوں نمائندوں سے عھد لیا کہ قرآن کریم کے بر خلاف حکم نہ کردیں۔ لیکن ان دونوں نے ظلم کے راستے کو انتخاب کیا۔ اور خیانت کی۔ اس لحاظ سے حضرت علی(ع) نے کسی قسم کی کوتاھی نھیں کی ھے۔ اور حضرت کا دامن تمام تھمتوں سے پاک ھے۔
ثالثاً: حکمیت کے مسئلے کو قبول کرنے کے بعد ھوشیار اور صالح اصحاب نمائندوں کے منتخب کرنے میں بھی سیدھے راستے سے منحرف ھو گئے۔
اور اس کے نتیجہ میں ان دونوں نمائندوں نے قرآن کریم اور سنت نبوی کی مخالفت کر کے عملی طور سے باطل کے راستے پر قدم رکھا۔
پس ان چیزوں کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ھوتی ھے کہ جو لوگوں ھمیشہ امام علی(ع) کو صحیح راستے پر چلنے سے روکتے تھے۔ یعنی اس عمل کے ذمہ دار خوارج ھیں نہ امام(ع) ۔
گفتگو کے لئے زمان بندی پر اعتراض
خوارج نے امام علی(ع) پر اعتراض کیا کہ کیوں آپ نے حکمیت کے لئے وقت معین کیا۔ (کیونکہ صلحنامہ صفر کے مھینے میں ۳۸ روز میں انجام پایا اور سات مھینے کے بعد گفتگو کے لئے وقت معین ھوا) اور اسے فوراً انجام نہ دیا۔ اس تاخیر کا سبب کیا تھا؟
امام علی(ع) ان کے جواب میں فرماتے ھیں: (فانما فعلتُ ذلک لیتبین الجاهل و یثبت العالم…) 6 میں نے اس کام میں اس لئے تاخیر کی تاکہ اس مدت میں نہ جاننے والے آگاہ ھو جائیں۔ اور عقلمند افراد اپنے ارادے میں ثابت قدم ھو جائیں۔ اور شاید اس صلحنامہ کی مدت میں خداوند عالم امت کے کام کی اصلاح کر دے اور حق کے پھچاننے کا راستہ صاف ھو جائے۔
اس بنا پر امام علی(ع) نے دونوں نمائندوں کے درمیان موقع فراھم کر کے ایک بلند مقصد و ارادے کو نظر میں رکھتے تھے لیکن خوارج اس مقصد کو درک کرنے سے عاجز تھے۔
امام علی(ع) نے محکم اور ٹھوس دلیلوں سے کچھ خوارج کے دلوں پر اپنی حقانیت کا سکہ جما دیا تھا اس طرح کہ ان کے لئے کچھ کھنے کا موقع نہ تھا اس وجہ سے کچھ لوگ جن کے دلوں میں غرض اور کینہ نہ تھا۔ حضرت علی(ع) کے ساتھ ھو گئے۔ اور زیادہ تر لوگ جو کہ سوائے غرض ورزی اور کینہ و دشمنی کے کوئی دلیل اپنے مدعا کو قانع کرنے کے لئے نھیں رکھتے تھے، کٹ حجتی پر ڈٹے رھے۔ اور آخر کار جنگ نھروان میں اسلام کی طاقت و لشکر کے ہاتھوں قتل کر دئے گئے۔
گناہ کبیرہ کو انجام دینے والے کے متعلق خوارج کا نظریہ
اس زمانے کے سماج میں ایک اھم مسئلہ یہ تھا کہ کیا ایمان فقط ایک دلی اعتقادی چیز ھے یا عمل بھی اس کے رکن میں شمار ھوگا۔ اور ایمان اعتقاد اور عمل دونوں چیزوں سے کامل ھوگا؟ اگر کوئی مسلمان گناہ انجام دے اور عمل کی منزل میں اس کا پیر لغزش کر جائے۔ تو اس کا کیا حکم ھے؟
سخت اور افراطی عقیدہ رکھنے والے خوارج، ایمان کو عقیدہ و عمل کا مجموعہ جانتے تھے۔ دل کے عقیدے کو کافی نھیں جانتے تھے۔ بلکہ واجبات کو بجا لانے اور منکرات کے ترک کرنے کو ایمان کا جزو شمار کرتے تھے۔ اس لحاظ سے گناہ کبیرہ انجام دینے والے کو کافر اور اس کی جان و مال کو حلال سمجھتے تھے۔ اس کے بر عکس شیعہ اور اھل سنت کے کہ وہ گناہ کبیرہ انجام دینے والے کو فاسق مسلمان جانتے ھیں نہ کہ کافر۔
خوارج اس افراطی عقیدہ رکھنے کی بناء پر بھت سے مسلمانوں کو کافر فرض کرنے لگے۔ اور ان کے قتل میں مشغول ھو گئے۔ خوارج کے عقیدے کے مطابق کفر اور ایمان کے بیچ کسی قسم کا حد فاصل نھیں ھے۔ اور سب کے سب انسان یا کافر ھیں یا مسلمان… وہ لوگ افراط اور سخت مزاجی کی بنیاد پر اپنے عقیدے کے بر خلاف عقیدہ رکھنے والے لوگوں کی سر زمینوں کو (دار الکفر) کہتے تھے اور فقط اپنی حکومت کے قلم و علاقوں کو (دار السلام) کہتے تھے۔
اور اسی فکر کی بنیاد پر لوٹ مار کرتے اور مختلف بھانہ سے مسلمانوں کا قتل عام کرتے اور ھر وہ مسلام جو کہ ان کے عقیدے کے خلاف ھوتا اسے کافر سمجھتے تھے۔ نمونے کے طور پر، جس وقت عبداللہ بن خبّاب 7 ان لوگوں کے آمنے سامنے ھوئے اور فقط اس جرم میں کہ وہ ان لوگوں کے ھم عقیدہ نہ تھے اور کھا کہ علی بن ابی طالب(ع) خدا کے دین میں عام لوگوں سے زیادہ آگاھی اور معرفت رکھنے والے ھیں۔ ان کو اور ان کی زوجہ جو کہ حمل کی حالت میں تھی قتل کر دیا۔ اور زوجہ کے شکم کو چیر کر بچہ کے سر کو بدن سے الگ کر دیا۔ 8
تعجب ھے اس گروہ سے کہ جو اپنے مخالف مسلمانوں کو قتل کرنے میں کسی قسم کی تردید نھیں رکھتے۔ لیکن مسلمانوں کے علاوہ۔ جیسے یھودیوں اور نصرانیوں اور کافروں کے ساتھ نرمی اور مھربانی سے پیش آتے ھیں یھاں تک کہ ایک خوارج نے کسی کے کتّے کو قتل کر دیا۔ جس وقت اُسے یہ معلوم ھوا کہ یہ کتا کسی اھل ذمہ (یہودی یا نصرانی) کا ھے تو اس کو تلاش کر کے اس سے معافی اور رضا مندی طلب کی۔ 9
اور یہ بھی ملتا ھے کہ واصل ابن عطا اپنی قوم کے ساتھ خوارج کے پاس سے گزر رھا تھا کہ اس گروہ کے لوٹ مار کرنے والوں سے سامنا ھوا۔ واصل نے اپنے ساتھیوں سے کھا: تم لوگ خاموش رھنا میں ان لوگوں سے گفتگو کروں گا خوارج نے کھا تم لوگ کون ھو؟ واصل نے جواب دیا۔ ھم مشرکوں کے ایک گروہ سے تعلق رکھتے ھیں تمھاری پناہ میں آئے ھیں تاکہ اللہ کے کلام کو سنیں خوارج نے واصل اور ان کے ساتھیوں کو خدا کے احکام کی تعلیم دی۔ اور ان لوگوں نے اسے قبول کیا۔ اس وقت خوارج نے کھا تم لوگ چلے جاؤ اس لئے کہ ھمارے بھائی ھو اس وقت واصل نے اس آیت کی تلاوت کی: (و ان احد من المشرکین استجارک فاجره حتی یسمع کلام الله ثم ابلغه مأ منه) 10 جب کبھی کافروں میں سے کوئی ایک تمھاری پناہ میں آئے تو اس کو پناہ دو۔ تاکہ خدا کے کلام کو سنے پھر اس کو اس کے مقصد تک پھونچا دو۔ واصل نے خوارج سے درخواست کی کہ انھیں اپنی منزل تک پھونچائیں، لھٰذا خوارج نے اس کی دلیل کی خاطر ان لوگوں کو اپنی حمایت کے ساتھ مقصد تک پھونچایا۔ 11
بہر حال خوارج اپنے اسی افراطی فرعومات کی وجہ سے اپنے ھم خیال نہ ھونے والے مسلمانوں کو قتل کرتے تھے جبکہ یہودیوں اور عیسائیوں کو آزاد چھوڑ دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ اھل ذمہ ھیں اور پیغمبر نے بھی ان کے ساتھ ایسا ھی سلوک کیا ھے۔
وہ لوگ امام علی(ع) کو حکمیت کے قبول کرنے کی وجہ سے جو کہ ان کی نظر میں گناہ کبیرہ تھا۔ کافر سمجھتے تھے اور جو شخص بھی ان کے عقیدہ کے موافق تھا۔ اس کو بھی کافر کھتے تھے۔ اس موقع پر حضرت امام علی(ع) نے خوارج کے غیر منطقی عقیدے اور تفکر کے جواب میں فرمایا: (فان أبیتم الا ان تزعموا انی احطأت و ضللت، فلم تضللون عامّة امّة محمد(صلی الله علیه و آله و سلم) بضلالی) 12 اگر تم لوگ یہ گمان کرتے ھو کہ میں نے غلطی کی ھے اور گمراہ ھوا ھوں پس کیوں میری گمراھی کی وجہ سے محمد(ص) کی ساری امت کو گمراہ جانتے ھو۔ میری وجہ سے ان لوگوں کو برا بھلا کھتے ھو۔ اور میرے گناہ کی وجہ سے ان لوگوں کو کافر سمجھتے ھو۔؟
حضرت علی(ع) اسی خطبہ میں پیغمبر اکرم(ص) کے طور طریقے کو ان کی گنھگار امت کے سلسلے میں فرماتے ھیں: رسول خدا(ص) زنا کرنے والے کو سنگسار اور قتل کرنے والے کو قصاص اور چوری کرنے والے کا ھاتھ کاٹتے تھے۔ لیکن میراث، شادی اور غنیمت کی تقسیم میں ان لوگوں کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کرتے تھے اور ان کے جنازے پر نماز پڑھتے تھے۔
پیغمبر(ص) کا اپنی گنھگار امت کے ساتھ یہ طور طریقہ اس بات کی دلیل ھے کہ مسلمان گناہ کبیرہ کو انجام دینے سے کافر نھیں ھوجاتا۔ بلکہ اس کے گناہ کے اعتبار سے خداوند عالم اسے سزا دے گا۔ اور یہی شیعوں کا صحیح نظریہ، گناہ کبیرہ انجام دینے والے کے متعلق ھے۔ اس کے با وجود خوارج اپنے مسلمان دشمنوں کا خون حلال سمجھتے تھے۔ اور عقیدہ رکھتے تھے کہ حقیقی مسلمان صرف ھم لوگ ھیں۔ اور لفظ (مسلمان) کو اپنے علاوہ کسی اور پر اطلاق نھیں کرتے تھے۔ 13
امامت کے مسئلے میں خوارج کا نظریہ
اسلامی فرقوں کے درمیان امامت کی بحث صدر اسلام سے آج تک ایک اھم موضوع رھا ھے۔ مذاھب اسلامی کے بھت سے علماء اور دانشمندوں نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ھیں۔ اور اپنے اپنے نظریہ کو قلم بند کیا ھے۔
خوارج کا امام علی(ع) کے لشکر سے نکلنا، اصل میں امامت کے مسئلے کی بناء پر تھا۔ اور پھلے ھی مرحلہ میں جس وقت صفین میں ان کا بیج پڑا۔ (لا حکم الا الله) "خدا کے علاوہ کوئی حکم نھیں" کے نعرہ کے ذریعہ امامت کے موضوع سے انکار کیا۔ اسلامی معاشرہ اور سماج کو امام اور حاکم سے بے نیاز فرض کیا۔ اور حکم اور حاکمیت کو فقط خدا سے مخصوص سمجھ لیا۔
حضرت امیر المومنین علی(ع) خوارج کے اس نعرہ کے متعلق فرماتے ھیں: (کلمة حق یراد بها الباطل انهه لا بُدّ للناس من امیر بَرٍ او فاجر) 14 یا طبری کی نقل کے مطابق (کلمة حق یلتمس بها باطل) 15 بات حق ھے لیکن اس سے باطل کا ارادہ کیا گیا ھے، ھاں صحیح ھے کہ خدا کے علاوہ کسی کا فرمان، فرمان نھیں ھے لیکن یہ لوگ کھتے ھیں حکم نافذ کرنے کا حق بھی فقط خدا کے لئے ھے۔ جبکہ لوگوں کے لئے ایک امیر کا ھونا ضروری ھے چاھے عادل ھو یا فاجر۔ یھاں تک کہ مومن اس کی حکومت کے سایہ میں اپنے کام میں مشغول رھے اور کافر بھی اس سے فائدہ اٹھائے۔
خوارج نے بھت ھی جلدی یہ محسوس کر لیا کہ بغیر رھبر اور امیر کے کسی کام کو آگے نھیں بڑھایا جا سکتا۔ اسی غرض سے (حروراء) میں عبداللہ بن وھب راسبی کو اپنا امیر اور سردار منتخب کر لیا۔ اس کے ھاتھ پر بیعت کی۔ 16 باوجود اس کے کہ(لا حکم الا اللہ) کا نعرہ ان کی زبان پر جاری تھا۔ لیکن ان کا نظریہ اور عقیدہ عملی طور پر امامت اور حکومت کے سلسلے میں تبدیل ھو گیا۔
شھرستانی کھتا ھے: "خوارج کا عقیدہ ھے کہ ممکن ھے دنیا میں کوئی امام نہ ھو کیونکہ جس وقت امام کی ضرورت محسوس ھر شخص کو چاھئے کہ غلام ھو یا آزاد۔ نبطی ھو یا قریشی، اس کا انتخاب کر سکتا ھے اسی وجہ سے وہ لوگ امام کے لئے قریشی ھونے کی شرط کو ضروری نھیں جانتے" 17 جبکہ سارے مسلمانوں نے چاھے وہ شیعہ ھوں یا سنی، امام کے لئے قریشی ھونے کی شرط کو ضروری جانتے ھیں۔
توجہ کے قابل یہ ھے کہ ان لوگوں نے فقط عبد اللہ بن وھب کے امیر اور حاکم ھونے پر اکتفا نھیں کیا بلکہ (شبث بن ربعی) کو جنگ کا سپہ سالار اور عبداللہ بن کوّا کو اپنا امام جماعت منتخب کیا۔ 18 یھاں تک کہ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ ھے کہ بعض موقع پر عبداللہ بن وھب کو پانچواں خلیفۂ راشد سمجھتے تھے۔
خوارج کے حالات کی چھان بین کرنے سے واضح ھو جاتا ھے کہ اگرچہ یہ گروہ امامت کے مسئلے میں مساوات، اور برابری کا نعرہ بلند کرتا تھا یھاں تک کہ عرب کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لئے بھی امامت کو جائز جانتا تھا۔ لیکن کبھی بھی مشاھدہ میں نہ آیا کہ غیر عرب کو امیر اور سردار منتخب کیا ھو۔ وہ لوگ سر زمین عجم جیسے ایران میں بھت زیادہ آتے جاتے تھے۔ ایک موقع پر (نجدات) کے خوارج نے ایک غیر عرب کے ہاتھ پر جس کا نام ثابت تمّار تھا بیعت کرلی۔ لیکن کچھ ھی دنوں کے بعد انھوں نے اپنی پوری سعی اور کوشش صرف کردی کہ ان کا رھبر اور پیشوا خالص عرب قبیلے سے تعلق رکھتا ھو۔ اس بناء پر ثابت کے ذمہ کر دیا کہ ایک صالح امیر عربوں میں سے تلاش کرے اور اس نے بھی ابو فدیک کو رھبری کے لئے منتخب کیا۔ 19
کچھ لوگوں کھنے کے مطابق غلاموں کی تعداد خوارج کے درمیان بھت کم تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اپنے قوم قبیلے کی خاطر متعصب تھے غلاموں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 20
چاروں خلفاء کے سلسلے میں خوارج کا عقیدہ
خوارج چار خلفاء کی جانشینی کے متعلق عقیدے رکتھے تھے۔ وہ لوگ ابوبکر اور عمر کی خلافت کو قبول کرتے ھوئے ان دونوں کو خلیفہ اور مسلمانوں کا بر حق امام جانتے تھے کہ وہ دونوں صحیح انتخاب کے ذریعہ خلافت کے عھدے پر فائز ھوئے ھیں۔ اور مسلمانوں کے صحیح راستے سے منحرف نھیں ھوئے اور کسی خلاف کام کے مرتکب نہیں ھوئے۔ وہ لوگ عثمان اور حضرت علی(ع) کے منتخب ھونے کو صحیح جانتے تھے۔ لیکن عقیدہ رکھتے تھے کہ عثمان نے خلافت کے چھٹے سال کے آخر میں اپنے راستے کو تبدیل کر دیا اور مسلمانوں کی مصلحت کو نظر انداز کر دیا۔ اس لحاظ سے خود بخود خلافت کے منصب سے برخاست ھو گئے۔ لیکن چونکہ خلافت کے عھدہ پر زبردستی باقی رھے لہٰذا وہ کافر ھو گئے اور واجب القتل ھو گئے ۔
امام علی(ع) کو بھی حکمیت کے مسئلے کو قبول کرنے سے پھلے صحیح راستے پر فرض کرتے تھے۔ لیکن بعد میں [حکمیت کے مسئلہ میں اپنی غلطی سے] توبہ نہ کی لہٰذا ان کو کافر اور واجب القتل فرض کرنے لگے اس وجہ سے خوارج نے عثمان کی خلافت کے ساتویں سال کی ابتداء میں اور حضرت علی(ع) کی خلافت سے حکمیت کے بعد بیزاری اور کنارہ گیری اختیار کی۔ 21
وہ لوگ ان چار خلفاء کے بعد آنے والے خلفاء سے بھی بیزاری اور ھمیشہ ان سے جنگ و جدال کرتے رھے۔ یھاں تک کہ جو لوگ حضرت علی(ع) کے کفر کے مخالف تھے وہ بھی عثمان کو کافر کھتے تھے اور معاویہ اور عمر و عاص کو بھی کافر سمجھتے تھے۔ 22
حضرت علی(ع) نے ان کے جواب میں فرمایا: (…أ بعد ایمانی بالله و جهادی مع رسول الله(صلی الله علیه و آله و سلم) اشهد علی نفسی بالکفر! لقد ضللت اذاً و ما انا من المهتدین) 23 کیا خدا پر میرے ایمان ھونے اور رسول خدا(ص) کے ساتھ میرے جھاد کرنے کے بعد میں اپنے کفر کی گواھی دوں۔؟ اگر ایسا کروں تو میں گمراہ ھوا اور ھدایت پانے والوں میں میرا شمار نہ ھوگا۔
امام علی(ع) اپنے اس بیان میں ایمان کی سبقت اور خدا و رسول کی راہ میں جنگ کرنے کو ذکر کرتے ھیں، ایسے شخص کو کفر سے منسوب نھیں کیا جاسکتا لہٰذا خوارج کا نظریہ دلیل اور استدلال سے اس طرح خالی ھے۔ حضرت علی(ع) کے سلسلے میں حباب کا پانی کے اوپر حباب کے مترادف ھے جس کی کوئی حقیقت نھیں ھوتی اور اس فصل کے مطالب کی بنیاد پر ھم کہتے ھیں کہ خوارج مین اس طرح کی فکر اور نظریہ سبب ھوئے کہ وہ لوگ ھمیشہ سر کشی اور زیادتی کی طرف قدم اٹھائیں اور کبھی بھی اپنے کو کسی حکومت کا تابع فرض نہ کریں۔ اس لحاظ سے ان لوگوں نے عمر کا زیادہ حصہ حکومت وقت سے مقابلہ آرائی میں گزار دیا۔
------------
1. وقعۃ صفین، ص۵۱۳ ۔
2. نھج البلاغہ، خطبہ ۱۲۵۔
3. سورہ نساء، ۵۹ ۔
4. نھج البلاغہ، خطبہ ۱۷۷۔
5. بحارالانوار، ج۳۳، ص۳۹۵۔
6. نھج البلاغہ، خطبہ۱۲۵۔
7. عبداللہ بن خباب بن ارت) اسلام میں پیدا ھونے والے فرزندوں میں سے پھلے فرزند تھے اور پیغمبر(ص) کو بھی دیکھا تھا۔ آپ کے والد بزرگوار رسول اللہ (ص) کے صحابیوں میں سے تھے۔ اور اسلام لانے والوں میں سبقت کرنے والے تھے۔ اس وجہ سے آپ کو بہت زیادہ سختی اور عذاب مکہ کے کافروں کی طرف سے اٹھانا پڑا۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ج۱، ص۵۹۱، وج۳، ص۱۱۸۔
8. الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۲۱۸، تاریخ الامم والملوک، ج۴، ص۶۰ (الخوارج ھم انصارعلی، ص۱۷۵۔) (تعجب کا مقام ھے اس معتبر سند کے با وجود، سلیمان بن داود خوارج کے ھاتھوں ابن خباب کے قتل کی نفی کرتا ھے۔ اور عقیدہ رکھتا ھے کہ ایسا کام بڑے اور عظیم صحابہ سے سر زد نھیں ھو سکتا۔)
9. الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۲۱۸، تاریخ الامم والملوک، ج۴، ص۶۰۔
10. سورہ توبہ، ۶۔
11. شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۲۸۱۔
12. نھج البلاغہ، خطبہ۱۲۷۔
13. تاریخ سیاسی صدر اسلام شیعہ وخوارج، ص۴۴۔
14. نھج البلاغہ، خطبہ۴۰۔
15. تاریخ الامم والملوک، ج۴، ص۵۳۔
16. تاریخ الامم والملوک، ج۴، ص۵۵؛ شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج۲، ص۳۰۸؛ انساب الاشراف، ج۲، ص۳۶۲۔
17. الملل والنحل، ج۱، ص۱۱۶۔
18. مقامات الاسلامیین، ج۱، ص۱۹۳؛ تلبیس ابلیس، ص۹۱۔
19. تاریخ سیاسی صدر اسلام شیعہ وخوارج، ص۸۴۔
20. فجرالاسلام، ص۲۶۲۔
21. الملل والنحل، ج۱، ص۱۱۸۔
22. مقامات الاسلامیین، ج۱، ص۱۹۳۔
23. نھج البلاغہ، خطبہ۵۸۔