اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)

جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
تحریر: مجیدکمالی
ترجمہ: محمدحسین مقدسی


پہلےمرحلےمیں 35جالب اورپڑھنےوالےنکات جو جن کی خلقت اوراسکی زندگی اوراسکےاورانسانوں کےدرمیان فرق کے  بارےمیں بیان کرتےہیں۔
 «وَ ما خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُون »(1)
ترجمہ : اور میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔
«سَنَفْرُغُ لَکُمْ آیُّه الثَّقَلانِ»(2)
 اے (جن و انس کی) دو باوزن جماعتو! ہم عنقریب تمہاری (جزا و سزا کی) طرف پوری توجہ دینے والے ہیں
«جنّ» لغت میں «چھپا ہوا» کے معنی میں ہیں چونکہ  جن انسانوں کی  نظروں  سے مخفی رہتا ہے  ،  اسی لئے اسکو جن کہا جاتاہے ، اور دیوانے کو بھی مجنوں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ  اسکا عقل مخفی  وچھپا ہوا ہوتا ہے ؛اور ماں کے پیٹ میں بچے کو جنین کہا جاتا ہے  تو اس لئے  کہ وہ ماں کے  رحم میں مخفی رہتا ہے۔
«جنّ» قرآن مجید کی نظر میں ایک ایسا موجود ہے جو با شعور اور با ارادہ ہے اور اسکی طبیعت کا تقاضا یہی ہے  کہ وہ انسانوں
 کے حس  کرنے  سے مخفی رہتا ہے ، اور  انسانوں کی طرح مکلف اور آخرت میں مبعوث ہونے والا ہے اور مطیع وعاصی ومؤمن و مشرک و.... ۔  ہونے میں انسان کے ساتھ ساتھ ہے۔
لیکن فرق صرف اتنا ہے  کہ انسان محسوس اور جن غیر محسوس ہے  اور اس کے  علاوہ ممکن ہے بعض مختصر فرق بھی موجود ہو۔  اس موجود کو کاملا پہچاننے کے لیے ؛ ایسی  آیات وروایات جو اس بارے میں ذکر ہوئیں ہیں ان سے استناد کرتے ہوئے اسکی کیفیت و خصوصیات اور اس کے  اوصاف کے  بارے میں گفتگو کریں گے۔
خصوصیات اور اوصاف
1- جن روئے زمین پر  ان  با ارزش  دو موجودات (ثقلان) میں سے ایک  ہے ؛کہ سورہ الرحمن کی آیت 31 میں دقت وتآمل کرنے سے  یہ بات روشن ہوتی ہے  
«سَنَفْرُغُ لَکُمْ أیَّه الثَّقَلانِ»؛
اے (جن و انس کی) دو باوزن جماعتو! ہم عنقریب تمہاری (جزا و سزا کی)طرف پوری توجہ دینے والے ہیں۔
2- رتبہ زمانی کےلحاظ سے جن اولین ثقل ہے ،جو انسان سے پہلے خلق ہوا ہے
«والجانَّ خَلَقْناه مِنْ قَبْلُ...»
اور مقام کے  اعتبار سے دوسرا ثقل ہے ،چونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔
3- اسکی ماہیت آگ ہے،
«وَ خَلَقَ الجانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ»(3)؛
 اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔
4- اسکی خلقت انسانوں پر مقدم ہے ؛لیکن کس حد تک ہے اس کے  بارے میں ظاہرا  کوئی محکم دلیل نہیں  ہے۔ بعض نے  کہا ہے  کہ خلقت جن اور خلقت آدم کے  درمیان چھ  ہزار سال اور بعض کے  مطابق سات ہزار سال کا فاصلہ تھا.سورہ حجر کی آیت 27 ؛خلقت جن کے  آدم پر مقدم ہونے پر دلالت کرتی ہے اور اسی طرح سے قرآن مجید کی  بہت ساری آیات میں جن کو انسان پر مقدم کرکے  ذکر کیاگیا ہے ،  یہ خود ایک دلیل ہے۔
5- جن علم وادراک اور حق و باطل کو تشخیص دینے اور منطق و استدلال کی صلاحیت رکھتے  ہیں۔(4)۔
6- تکلیف اور مسؤلیت پر رکھتے  ہیں(5)۔
7- ان میں سے بعض مؤمن صالح اور بعض کافر ہیں ۔
 «وَ اِنّا مِنّا الصّالِحوُنَ وَ مِنّا دوُنَ ذلِک»(6)
اور یہ کہ ہم میں سے کچھ لو گ صالح ہیں اورکچھ ہم میں دوسری طرح کےہیں اور ہم مختلف مذاہب میں بٹے ہوئے ہیں۔
 8- وہ بعض انسانوں کےساتھ ارتباط برقرار کرتے ہیں ،اور اپنے اس محدود علم سے جو بعض اسرار کے  بارے میں رکھتے  ہیں، اسی سے انسانوں کو گمراہ کرنے میں لگ جاتے ہیں(7)۔  
9- وہ خدا کی عبادت کرتے ہیں،
«وَ ما خَلَقْتُ الجِنَّ وَ الإنْسَ اِلاّ لِیَعْبُدوُنِ»(8)۔  
قیامت کے  دن جن سے انسانوں کی طرح پوچھا جائے  گا کہ کیا آپ کے  پاس پیغمبر  نہیں آئے ؟ کیا آپکو اس دن کے  بارے میں  نہیں ڈرایا  گیا تھا ؟ دونوں  ہی اپنے کفر کے  بارے میں گواہی دینگے ۔  « سورہ انعام کی آیہ 130»میں صراحتا بیان ہوا ہے  کہ جن مکلف ہے اور انسانوں کی طرح کافر ہو جاتا ہے ، اوران کے  اپنے  مخصوص پیغمبر ہیں۔لیکن سورہ جن اورسورہ احقاب کی آیات29 و32  کی طرف رجوع کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) انکا پیغمبر ہے ۔
لیکن  یہ کہ وہ کس طرح سے عبادت کرتے ہیں ؛کیا ان کے مسلمان بھی انسانوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں ؟ یا یہ کہ وہ کس طرح سے عبادت کرتے ہیں اس کے  بارے میں کوئی روشن دلیل  نہیں ہے ۔لیکن کیوں کہ وہ انسانوں کے ساتھ امر اللھی میں شامل  ہیں ،اور عبادت کے مکلف ہیں  اور ایک طرف سے انکا پیغمبر بھی وہی انسانوں کا پیغمبر ہے تو بعید  نہیں ہے کہ  ان  کی عبادت بھی وہی انسانوں والی عبادت  ہو ، اور اپنی خلقت اور عالم حیات کے  اعتبار سے خدا کے  پرستش میں مشغول ہو۔
10- انسانوں کی طرح  وہ بھی جیتے مرتے  ہیں ایک گروہ دوسرے  کی جگہ لیتا  ہے۔(9)
11- ان کے  درمیان بعض ایسے افراد بھی پائے جاتے  ہیں کہ جو زیادہ قدرت و طاقت رکھتے ہیں ،جس طرح سے انسانوں کے  درمیان پائے جاتے ہیں  ۔  سورہ نمل ، آیات 17سے 39،  میں حضرت سلیمان کی ملک سبا پر لشکر کشی کے  بارے میں نقل ہوا ہے ،کہ جہاں  پر ان لشکروں میں سے بعض جن بھی شامل تھے  ،کہ عفریتی ایک جن نے  کہا کہ میں تخت ملکہ سبا کو اس سے پہلے  کہ آپ اپنی جگہ  سے اٹھیں گے ؛آپ کے  پاس حاضر کرونگا۔
12- وہ انسانوں کی طرح کام  انجام دینے کی قدرت رکھتے ہیں ۔  
انکی خلقت لطیف  ہونے کے  باوجود بھی حضرت سلیمان کوجس نے  امر الہی سے ان کو مسخر کیا ہوا تھا، کام انجام دیتے تھے ، عمارتیں ،مجسمے  اور بڑے برتن بنانے  کا کام انجام دیتے  تھے ۔
حضرت داؤد کے  مرنے  کے  بعد اسکا بیٹا  حضرت سلیمان اسکا جانشین بنا ،خداوند عالم نے  اس کو حکم دیا کہ بیت المقدس  کی عمارت کو تمام کرلے ۔تو حضرت سلیمان نے  تمام جن و انس و شیاطین کو جمع کیا اور ان کے  درمیان کام تقیسم کیا ، ان میں سے ہر گروہ کو مختلف کام انجام دینے پر مامور کیا۔
جنوں  کے  گروہ کو معادن اور سفید سنگ مرر لانے  پر مامور کیا اور بیت المقدس کو بنانے  کے  بعد جنوں  کو پھر  چند دستوں میں تقسیم  کیا :ایک گروہ کو معادن  نکالنے  پر ، اور ایک گروہ کو دریا سے مروارید نکالنے  پر،  اور ایک گروہ کو مشک و عنبر جیسے خوشبودار مواد نکالنے  پر مامور کیا۔
13- دوسرے  سارے موجودات زندہ کی طرح نر اور مادہ پر مشتمل ہیں  ، اور یہ موضوع (سورہ یس) کی آیہ 36 میں قابل غور ہے ،  آیت  میں ارشاد ہو رہا ہے  کہ  پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑے بنائے ان چیزوں سے جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جنہیں یہ جانتے ہی نہیں۔
اس کے  علاوہ بہت ساری  چیزیں  جنکو ہم  نہیں جانتے  ہیں ،نر و مادہ پرمشتمل ہیں  ، اور عبارت
«وَ ممّا لایَعْلَموُنَ»؛
 میں جن  بھی شامل  ہے لیکن ہم اسکی کیفیت کو  نہیں جانتے  ہیں۔اور اسی طرح سورہ جن میں ا نہیں کا  قول  ذکر ہوا ہے کہ فرمایا:  اور یہ کہ بعض انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات کی سرکشی مزید بڑھ گئی (10)۔ چون قرآن نے  مرد  جن  کی طرف اشارہ کیا ہوا ہے تو حتما جن عورت بھی موجود ہوگی ۔
14- قرآن مجید کی آیات کے  مطابق وہ انسانوں  کی طرح تولید نسل رکھتے  ہیں ، اورکـچھ آیتوں  میں بہشتی حوریان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا :بہشتی  حوروں  کو ان کے  شوہروں سے پہلے  نہ کسی انسان نے  چھوا اور نہ ہی کسی جن نے  : (11)۔  
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی  ہے  کہ جن بھی اپنی خلقت میں دو جنس پر مشتمل ؛اور  نوع کی کثرت بھی نر اور مادہ کی مقاربت سے ہوتی ہے ،لیکن کلام وحی میں ان  کی مقاربت کے  بارے میں کوئی بات ذکر  نہیں ہوئی ہے ،
اسی سے مربوط کچھ روایات بھی موجود ہیں انہیں میں سے ایک پیغمبر اسلام کا وہ وصیت نامہ ہے جو امیرالمومنین کے لیے  ہے:  فرمایا اے  علی ہر مہینے  کی پہلی رات،  اور درمیانی رات اور آخری رات کو مقاربت  نہیں کرنا ؛کیونکہ ان تینوں راتوں  کو جنیان اپنی  بیویوں کے ساتھ مقاربت کرنے کو جاتے ہیں۔
15- کیوں کہ یہ لطیف موجودات میں سےہیں؛شرائط عادی میں،اورہرزمانےمیں انکودیکھناممکن نہیں ہے؛لیکن جنیان ہم انسانوں کودیکھتےہیں ،جس طرح سےکہ بنی آدم کوشیطان سےرکنے اوراسکی اتباع نہ کرنےکےبارےمیں آیاہے:
اے اولادآدم!شیطان تمہیں کہیں اس طرح نہ بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوایا اور انہیں بے لباس کیا تاکہ ان کے شرم کے مقامات انہیں دکھائے، بے شک شیطان اور اس کے رفیق کار تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جہاں سے انہیں تم نہیں دیکھ سکتے، ہم نے شیاطین کو ان لوگوں کا آقا بنا دیا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ (12)۔  
16- قرآن کی نظر میں ان کا شیاطین  نام رکھا  گیا ہے  ، اور خداوند عالم کے  الطاف میں سے ایک جو حضرت سلیمان کو عطا ہوا تھا وہ  یہی تسخیر شیاطین یعنی وہی جنیان سرکش و نافرمان تھا، بیت المقدس بناتے  وقت  قیمتی معادن ومنابع کو نکالنے  میں قرار پائے۔
17- قیامت کے  دن محشور ہوں گے ۔(13)۔  
18- قرآن کی آیات کو سنتے تھے ۔
19- قرآن کی زبان کو جانتے  تھے۔
20- عادی باتوں  اور معجزانہ باتوں  کے  درمان فرق کو جانتے  تھے۔
21- تبلیغ کو اپنا وظیفہ سمجھتے  تھے ۔
22- قرآن کے  معجزہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں۔
23-انسانوں کی طرح اصل اختیار اور آزادی ان پر حاکم ہے۔
24- یقین رکھتے ہیں کہ زمین میں خدا وند عالم کے  ارادہ پر غالب  نہیں آسکتے  ہیں ،اور اسکی قدرت سے فرار  نہیں کر سکتے ہیں۔
25- وہ ارادہ و شعور رکھتے ہیں۔
26- خدا پر انکا ایمان توحیدی ہے، ان کےمومنین کسی کو بھی خدا کا شریک قرار  نہیں دیتے  ہیں۔
27- ان کےمومنین؛ مشرکین جن و انس کو جھٹلاتے  ہیں۔
28- ان کےمنحرفین جہنم کی ایندھن ہیں.
29- قرآن کےنزول کےساتھ اورپیغمبراسلام(ص)کی بعثت کےساتھ ہی؛غیبی اخباراورآسمانی باتوں کومخفیانہ سننے  سےممنوع قرارپائے ہیں۔
30- وہ مختلف عقائد پررکھتے ہیں ان میں سےبعض فاسق وفاجر ہیں او بعض ظالم ہیں اوربعض مومن و صالح ہیں لیکن کیا وہ انسانوں کی طرح شیعہ وغیرشیعہ بھی ہیں یا نہیں؟ اس کےبارےمیں ہمارےپاس ایسےشواہد موجود ہیں کہ جوانکےشیعہ ہونے کی تائید کرتے ہیں کیونکہ اہلبیت کی روایات میں بعض جنوں  کابعنوان شیعہ تعارف کروایا گیاہےان میں سے ایک روایت جوکہ ابوحمزہ ثمالی سےنقل ہوئی ہےفرمایا ایک دن امام باقر علیہ السلام سے ملاقات کرنے کے لیے جب اجازت مانگی تو بتایا کہ اس کے  پاس کچھ مہمان بیٹھے ہوئے ہیں کچھ مدت  تک صبرکیا تاکہ وہ نکل جائیں تھوڑی دیربعدکـچھ لوگ نکل گئےمیں ان کونہیں پہچانتا تھا
جب میں اندر داخل ہوا تو امام سے پوچھا یابن رسول اللہ ابھی بنو امیہ کا زمانہ ہے  نا شناس افراد کا داخل ہونا آپ کے  لیے خطر ہ ہوگا۔تو امام نے  فرمایا اے  ابا حمزہ  : یہ شیعوں  کا ایک گر وہ تھا جو طائفہ جن میں سے تھے  اپنے مسائل دینی کے  بارے میں پوچھنے  آئے  تھے ۔
اور بعض بزرگ علماء سے بھی  نقل ہو ا  ہے  کہ اجنہ بھی انسانوں کی طرح مقلد ہیں اپنے مسائل کے لیے  مراجع یا مجتہد کی طرف رجوع کرتے ہیں جیسا کہ بتایا جاتا ہے  کہ مرحوم حاج میرزا حسین و حاج میرزا خلیل جو اپنے زمانے  کے  مراجع میں سے تھے  اجنہ میں سے ایک جن  انسان  کی  شکل میں ان کے  پاس آتا تھا  اور ان سے اپنے مسائل پوچھا کرتا تھا۔
31-  انہوں  نے  حضرت موسی کےدین کو قبول کیا اور اس کو سچا قرار دیدیا اور جب پیغمبر اسلام آگئے  تو ان میں سے بعض پیغمبر اسلام کے پاس قرآن کی تلاوت سننےکوآتے تھےاورجب واپس اپنی قوم میں جاتےتوکہتےتھےکہ ہم نےایسی کتاب کی آیات کو سنا  ہے کہ جوحضرت موسی کے بعد نازل ہواہے۔(14)
32- وہ مکانوں  میں رہتے ہیں لیکن اسکا معنی یہ نہیں کہ وہ انسانوں کی طرح زمین میں کسی مخصوص معین جگہ پر رہتے ہوں
 یا اپنے لئے مخصوص مکان بنایا ہو اور انسانوں کی طرح تمام امکانات سے استفادہ کرتے ہوں ۔کیونکہ ان کی خلقت انسانوں کی خلقت سے بالکل ہی متفاوت ہے ان  کی طبیعت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کا محل زندگی انکی حقیقت کے مطابق و متناسب ہو  ۔  
 یہاں پراس کے ایک نمونے کی طرف اشارہ کریں گے۔
امام صادق سےروایت ہے کہ فرمایا (وادی شقرہ) یعنی ایساصحراء کہ جس کی مٹی سرخ و زرد رنگ کی ہے؛نمازنہ پڑھو کیونکہ یہاں پر اجنہ کا گھر ہے۔
33-  وہ انسانوں کی طرح کھاتےپیتے  ہیں اور تولید نسل کرتے ہیں اور یہ طبیعی ہے کہ  وہ غذا  کے محتاج  ہوں  ،لیکن کن  چیزوں  سے اپنا تغذیہ کرتے ہیں اس کے  بارے میں روایات میں اس طرح سے ملتا  ہے  کہ اجنہ  انسانوں کا جوٹھا کھاتے  ہیں بچی ہوئی  ہڈیاں  ان  کی غذا ہیں جیسا کہ ابن بابویہ سے نقل ہوا ہے  کہ جنوں  کا ایک گروہ پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگے  کہ یا رسول اللہ ہمیں کھانے کے لیے  کوئی چیز دیں دے ؟ تو پیغمبر اسلام نے  اپنے کھانے  سے بچی ہوئی غذا اور ہڈیاں  ان کو دے  دیں ۔ اور امام صادق کا فرمان بھی ہے کہ ہڈیاں  اور اضافی  کھانا جنوں  کی غذا ہے ۔
34- وہ انسانوں کی طرح سو جاتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید سورہ بقرہ آیة 255 میں فرمایا:اس آیت سے استفادہ ہوتا ہے
کہ صرف خدا وند عالم کی ذات ہے جو  نہیں سوتی ہےاور باقی تمام مخلوقات خدا سونے  پر مجبور ہیں  ،  جیسا کہ
امام صادق کی روایت میں آیا ہے کہ خدا وند عالم کےعلاوہ سب سوتےہیں یہاں تک کہ فرشتے بھی سوتےہیں ۔
35- وہ ائمہ علیہم السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اوراپنے دینی مسائل کو ان سےحل کرواتے ہیں جیسا کہ اصول کافی ج 1 ص 394 میں ایک باب بعنوان (جن درمحضرآئمہ) موجود ہے اس باب میں تقریبا سات احادیث بیان ہوئی ہیں کہ جن میں سے ایک (سدیر صیرفی ) سے نقل ہوئی ہے  کہ امام باقر علیہ السلام نے  مدینہ میں مجھے کچھ وصیتیں  فرمائّیں : اور جب میں مدینہ سے باہر جا رہا تھا کہ راستے  میں (روحا ) نامی ایک جگہ جو تقریبا مدینہ سے تیس یا چالیس میل کے فاصلہ پر تھی  ایک شخص نے  میری طرف اشارہ کیا تو میں نے  سوچا کہ وہ پانی مانگ رہا ہے  اس نیت سے میں اسکی طرف گیا اور پانی کا برتن  اسکو دے دیا تو  کہا کہ  مجھے  پانی  نہیں  چاہیے۔  اس نے  مجھے  ایک خط دیا کہ جس کی سیا ہی  ابھی خشک  نہیں ہوئی تھی اور اس میں امام باقر کا مہر لگا ہوا تھا ،میں نے حیران ہوکر اس سے پوچھا یہ خط امام نے  آپکو کب دیا  تھا  تو کہنے  لگا ابھی ابھی دیا  ہے۔ میں نے اس خط کو دیکھا تو اس میں امام کے کچھ فرامین تھے  اتنے  میں وہ بندہ غائب ہوا ،اور بعد میں جب امام سے اس کے  بارے میں سوال کیا تو بتایا کہ اے  سدیر ہم نے  اجنہ میں سے بعض کو اپنا نوکر رکھا  ہوا  ہے  اور جب کوئی فوری کام ہو جاتا  ہے  تو ا نہیں کے  زریعہ سے  انجام دیتے  ہیں۔
طرد جن :
قرآن مجید کے  قابل غور مطالب میں سے ایک  جنوں  کو آسمان سے دور کرنے کے بارے میں  ہے  ،
(سورہ جن کی آیات 8 سے 10) تک اس مطلب کو بیان کرتا  ہے  کہ جن پہلے  آسمان میں چھپ کر فرشتوں  کی  باتوں  کو سنتے تھے  لیکن بعد میں  انہوں  نے  دیکھا  کہ آسمان میں مختلف قسم کے  شہاب اور سیارے  ان  کی  کمین میں ہیں اور ان کو  باتیں سننے  کی اجازت نہیں دیتے  ہیں ،تو اپنے سے کہنے  لگیں  کہ ہم نہیں جانتے  کہ اس عمل سے خدا وند عالم  نے اہل زمین کے لیےے رشد و کمال کا ارادہ کیا  ہے  یا ان پر کوئی بلا و مصیبت  نازل کرنا چاہتا ہے۔
روایات میں آیا ہے  کہ یہ تبدیلی پیغمبر اسلام کی ولادت کے  بعد پیش آئی  ہے  ، اور اس مطلب کو صاحب مجمع البیان نے  سورہ حجر کی آیت 18 کی ذیل میں ابن عباس سے اور سورہ جن میں بلخی سے نقل کیا  ہے۔
اور تفیسر صافی میں امام صادق سے نقل کیا ہے کہ  اجنہ کو اس طرح سے ممنوع قرار دینا اس لئے تھا کہ زمین میں وحی آسمانی جیسی  چیز موجود نہ ہو اور جو کچھ خدا وند عالم کی طرف  سے آیا  ہے  اس میں کو ئی غلطی نہ ہو جائے ۔
قرآن مجید کی آیات دلالت کرتی  ہیں کہ  اسرار خلقت کو جاننے اور روی زمین پر آیندہ ہونے والے واقعات کے  بارے میں  ،  آسمان میں ایک  مخصوص جگہ  ہے  کہ  جنیان وہاں  نزدیک ہوکر اخبار سنا کرتے تھے ۔
بعض دانشمندوں کا کہنا ہے کہ ایسے رمزی پیغامات جو بطور منظم و مرتب آسمان سے زمین کی طرف بھیجے جاتے  ہیں  کہ جن کا نام  کائناتی وائرلیس رکھا  گیا  ہے ۔
کارل جانسکی سن 1932 میلادی  میں آٹھ  8مہینے  تک اپنے  اس کائناتی وائرلیس  کے  زریعہ سے ان  پیغامات کو اخذ کرنے کی کوشش کی اور دیکھا کہ  ہر رات کو گزشتہ  رات سے چار منٹ جلدی یہ  پیغام بیھجا جاتا تھا اور یہ اس وجہ سے تھا کہ زمین کے سورج  کے  گرد گھومنے  کی وجہ سے ستاروں کا طلوع و غروب ہر دن سے چار منٹ جلدی ہو جاتا تھا۔
اور سن 1933 میلادی  کے  آخر سال میں اس  علم رکھنے  والے  متخصصین کے  درمیان ایک سیمنار منعقد ہوا ،  اس سمینار میں جانسکی نے اپنے مشاہدات کے  مطابق ایک بیانیہ ذکر کیا اور بتایا کہ ستاروں پر ایسے موجودات پائے جاتے ہیں  کہ جو ایک دوسرے  سے بات کرنے میں قادر ہیں اور وہ آسمانی پیغامات جو کہ  تیلسکوب  کائناتی وائرلیس کے  زریعہ  سے قابل دریافت  ہیں  وہ اس جہاں  کی شناخت میں انسان کی مدد کرتا ہے۔
اور سن 1942 میلادی  فروری کے  مہینے  میں جانسکی کے  اس نظریے  کے صحیح ہونے پرکـچھ دلائل میں اضافہ ہوا  چونکہ دیکھا  گیا کہ کچھ فضا ئی  پیغامات نے  برطانیہ میں  نصب  ایک ریڑار کو متوقف کر دیا۔ دانشمند  بہت کوشش کرکے  بالآخرہ اس نتیچہ پر پہنچے کہ یہ وقفہ تیلیگراف  پیغامات کے  سری اثرات میں سے  ہے  کہ جو ایک نا شناس جہت کی طرف ماوراء افق سے تھا اور اب  اسی مطلب کو دانشمندوں  نے  قطعی قرار دیا ہے۔
لیکن قرآن مجید کی  نظر میں جیسا کہ پہلے  اشارہ ہوا کہ یہ مطلب مسلم اور حتمی ہے  اس کتاب کے  مئولف  کا عقیدہ ہے کہ  اجنہ اس قسم کی آواز ، کو  سننے  کے لیے  آسمانوں  پر جاتے تھے  نہ کہ وحی کو ؛ چونکہ وحی اس شخص کو ہوتی  ہے جو اس کا حقدار ہو  ایسا نہیں کہ ہر کسی کو وحی ہوتی ہو۔
خلاصہ :
 قرآن مجید کے  آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنیان  یہ کوشش کرتے تھےکہ آسمان کو اپنے گرفت میں لے لیں اس کے اسرارکو حاصل کریں اورآیندہ ہونے والےحوادث و واقعات اورخلقت کے اسرارسے واقف ہو جائیں۔ یہ تھی جنوں کی اوصاف اور ان  کی خصوصیات قرآن اور اہلبیت کی نظر میں۔
لیکن جاہل لوگوں  نے  جن کو اجنہ کی حقیقت کے  بارے میں  کچھ بھی معلوم نہ تھا اپنی طرف سے افسانے  اور بہت  سی  فضول باتیں اس موجود کے  بارے میں بیان کی ہیں جو عقل اور منطق کے  ساتھ سازگار نہیں ہیں۔


منابع :
قاموس القرآن
تفسیر نمونہ
وسائل الشیعہ
تفسیر المیزان
میزان الحکمہ
معارف قرآن
اصول کافی
جن و شیطان
قرآن بر فراز اعصار
منبع: دانشنامہ موضوعی قرآن(مختصر تبدیلی کیساتہ)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام
وحی کی حقیقت اور اہمیت
امام خمینی معاصر تاریخ کا مردِ مجاہد
خدا کا غضب کن کے لیۓ
علم کا مقام
انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...
مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...

 
user comment