اردو
Thursday 28th of November 2024
0
نفر 0

تبرک حاصل کرنے کا جواز

پیغمبر اور آپ كے باقیماندہ آثار سے تبرك حاصل كرنے كے جواز پر كیا دلیل پائی جاتی ھے ؟ آیا یہ عمل توحید جو كہ دین اسلام كا اصلی شعار ھے، سے سازگاری ركھتا ھے ؟ (1)
صالحین، نیك افراد، محترم اماكن، مشاہد مقدسہ اور ان سے وابستہ آثار سےبركت طلب كرنے كو وھابی حضرا ت شدت كے ساتھ انكار كر تے ھیں، اور اس چیز كو شرك كے مصادیق میں شمار كرتے ھیں، چنانچہ جو لوگ ان حضرات كے آثار سے تبرك طلب كرتے ھیں ان كے ساتھ وھابی حضرات ہر وقت آمادہٴ جنگ رھتے ھیں، اسی وجہ سے مذكورہ آثار سے تبر ك حاصل كرنا وھابی اور بقیہ مسلمانوں كے درمیان ایك اختلافی مسئلہ بنا ھوا ھے، اس لئے ضرورت ھے كہ ھم بغیر كسی تعصب اور نزاع كے اس بحث كی تحقیق كریں تاكہ اس مطلب كی حقیقت روشن ھوجائے ۔


تبرك كی حرمت پر وھابیوں كے فتوے

1۔ فرقہٴوھابیہ كے مفتی صالح بن فوزان كاقول: تربت پر سجدہ كرنا اگر اس تربت سے تبرك اور ولی خدا كا تقرب مطلوب ھو تو شرك اكبر ھے، اور اگر اس سے تقرب خدا مطلوب ھو اس عقیدہ كے ساتھ كہ یہ تربت فضیلت ركھتی ھے، جیسے
مسجدالحرام اور مسجد نبوی یا مسجد الاقصی كی زمین، تو یہ بدعت ھے !! 1
2۔ ابن عثیمین كاقول: غلاف كعبہ سے تبرك حاصل كرنااور اس كو اس نیت سے مس كرنا بدعت ھے ! كیونكہ اس بارے میں حضرت رسول اسلام سے كچھ وارد نھیں ھوا ھے ! 2
3۔ وھابی دائمی مفتیوں كاگروہ یہ كھتا ھوا نظر آتا ھے: ان مسجدوں كی طرف لوگوں كا توجہ كرنا، ان درو دیوار اور محراب كو مس كرنا اور ان سے بركت حاصل كرنا بدعت اور ایك قسم كا شرك ھے، اور یہ عمل دور جاہلیت كے كفار سے شباھت ركھتا ھے ۔ 3
4۔ بنبازكا قول: قرآن كریم كوگاڑی میں خیروبركت كی نیت سے ركھنا، اس پر كوئی دلیل نھیں پائی جاتی لہٰذا یہ ناجائز امر ھے ۔ 4
5۔ ابن فوزان كا نظریہ: تبرك؛ بمعنی طلب بركت، اور بركت كے معنی ثبات خیر اور طلب خیر و زیادتی ھے، یہ طلب اس ذات سے كرے جو اس (خیر) كامالك ھو اور اس پر قدرت ركھتا ھو، اورذات خداوند متعال كے علاوہ اور كوئی نھیں جو قدرت ركھتی ھو، كیونكہ خدا كی ذات ھے جس نے بركت نازل كی ھے، اور انسانوں كو ثبات بخشتا ھے، اس كے علاوہ كوئی بھی مخلوق بخشش، بركت، ایجاد، ابقاء اور اس كی تثبیت پر قدرت نھیں ركھتی، لہٰذا اماكن، آثاراوراشخاص -چاھے وہ زندہ ھوں یا مر چكے ھوں - سے خیر و بركت طلب كرنا جائز نھیں ھے، كیونكہ یہ شرك ھے اور یا……۔ 5
6۔ ابن عثیمین كانظریہ: بعض زائرین مسجد، منبر، محراب اوراس كی دیواروں پرھاتھ پھیرتے ھیں، یہ سب بدعت ھے ۔ 6


تبرك كے معنی

لغت میں لفظ تبرك طلب بركت كے معنی میں آیا ھے، اور بركت كے معنی زیادتی، رشد اور سعادت كے ھیں۔ 7
” تبرك بالشیٴ “ یعنی اس شۓ كے ذریعہ طلب بركت كرنا، اور اصطلاح میں طلب بركت كرنا ان چیزوں اور حقیقتوں سے جنھیں خدا وند متعال نے خاص مقام و منزلت بخشی ھے، ان كیلئے خاص عظمت وفضیلت مقرر فرمائی ھے، جیسے رسول اسلام كے ھاتھوں كو بوسہ دینا یا، اسے مس كرنا یا وفات نبی كے بعد ان كے بعض آثار سے طلب بركت كرنا۔


قرآن كریم كی روشنی میں تبرك كے معنی

بركت كالفظ قرآن كریم میں متعدد صورتوں میں استعمال ھوا ھے، جن كا خلاصہ یہ ھے كہ خدا وند متعال نے بعض اشخاص، اماكن اور معین زمانے كو اپنی خاص جھات كو مد نظر ركھتے ھوئے، ایك قسم كی بركت بخشی ھے ۔

الف) اشخاص میں بركت

1- خدا وند متعال جناب نوح اور ان كے ساتھیوں كے بارے میں ارشاد فرماتا ھے:
8
(جب طوفان جاتا رھا تو حكم دیا گیا) اے نوح!ھم اری طرف سے سلامتی اور بركتوں كے ساتھ كشتی سے نیچے اترو جو تم پر ھیں اور جو لوگ تمھارے ساتھ ھیں ان میں سے كچھ لوگوں پر ۔
2۔ اسی طرح حضرت عیسی كے بارے میںارشاد ھوا:
9
اور میں جھاں كہیں بھی رھوں مجھے مبارك بنایا، اور مجھ كو جب تك زندہ رھوں نمازپڑھنے اور زكاة دینے كی تاكید ھے ۔
3۔ حضرت ابراھیم اور ان كی بیٹے اسحاق كے بارے میں ارشاد ھوا:
< فَلَمَّا جَاءَ ها نُوْدِیَ اَنْ بُوْرِكَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهاْ > 10
ترجمہ: ( جب موسی اس آگ كے پاس آئے تو ان كو) ایك آواز آئی كہ مبارك ھے وہ جو آگ میں (تجلی دكھاتا) ھے، اور جو اس كے گرد ھے ۔
خدا فرماتا ھے:
11
اور خود ھم نے ابراھیم اور اسحاق پر اپنی ركت نازل كی۔
اسی طرح اہل بیت رسالت عليھم السلام یاحضرت ابراھیم كے اہل بیت كی بارے میں ارشاد ھوا:
< رَحْمَتُ اللهِ وَ بَرَكاتُه عَلَیْكُمْ اَهلَ الْبَیْتِ اِنَّه حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ > 12
خدا كی رحمت اور اس كی بركتیں اے اہل بیت رسالت! تمھارے لئے مخصوص ھیں، كیونكہ خدا نھایت قابل حمداوربزرگ ھے۔


ب) زمان و مكان میں بركت

لفظ بركت اور اس كی مشتقات بعض اماكن اور ازمنہ كیلئے بھی استعمال ھوئے ھیں ۔
1۔ خدا مكہ كے بارے میں فرماتا ھے:
13
ترجمہ: لوگوں كی عبادت كے واسطے جو گھر سب سے پہلے بنایا گیا، وہ تو یقینا یھی كعبہ ھے، جو مكہ میں بڑی خیر و بركت والا اور سارے جھان كے لوگوں كا راہنما ھے ۔
2۔ مسجد الاقصی اور اس كے اطراف كے بارے میں ارشاد ھوا:
< سُبْحَانَ الَّذِی اٴَسْرَی بِعَبْدِه لَیْلًا مِنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْاٴَقْصَی الَّذِی بَارَكْنَا حَوْلَه لِنُرِیَه مِنْ آیَاتِنَا إِنَّه هو السَّمِیعُ الْبَصِیرُ > 14
ترجمہ: وہ خدا ہر عیب سے پاك و پاكیزہ ھے جس نے اپنے بندے كو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تك كی سیر كرائی، جس كے چو گرد ھم نے ہر قسم كی بركتیں مھیا كر ركھیں ھیں، تاكہ ھم اس كو اپنی قدرت كی نشانیاں دكھائیں، اس میں شك نھیں كہ وہ سب كچھ سنتا اور دیكھتا ھے ۔
3۔ شب قدر كے بارے میں ارشاد ھوا:
15
ترجمہ: ھم نے اس ( قرآن )كومبارك رات ( شب قدر ) میں نازل كیا، بیشك ھم عذاب سے ڈرانے والے ھیں ۔


روایات میں تبرك

جب ھم روایات نبوی اور كلمات اہل بیت كو دیكھتے ھیں تو بھت سی جگہ پر تبرك كی بات آتی ھے اور اس كے درمیان محمد و آل محمد كو مبارك اشخاص كے طور پر پہچنوایا گیا ھے ۔
1۔ رسول اسلام نے صلوات بھیجنے كے طریقہ كے بارے میں اس طرح ارشاد فرمایا:
اَللّٰهم صَلّ علی محمدوعلی آل محمد، كما صلیت علی آل ابراهیم، وبارك علیٰ محمدوعلیٰ آل محمد، كما باركت علیٰ آل ابراهیم فی العالمین، انك حمید مجید والسلام كما علمتم“ 16
اے میرے معبود !رحمت نازل كر محمد وآل محمدپر، جس طرح تو نے رحمت نازل كی ابراھیم كی آل پر اپنی بركت نازل فرما محمدوآل محمد پر، جس طرح تونے ابراھیم كی آل پرعالمین میں بركت نازل كی، بیشك تو صاحب مجد اور لائق تعریف ھے، اور سلام اسی طرح بھیجو جیسے تم جانتے ھو۔
2۔ صحیح بخاری میں كیفیت صلوات كی بارے میں اس طرح آیا ھے:
قولوا!”اَللّٰهم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍوعَلیٰ آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَاْصَلَّیْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاهیْمَ، اِنَّكَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھم بَاْرِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی آلِ مُحَمَّد، كَمَاْ بَاْرَكْتَ عَلٰی آلِ اِبَرَاْهیْم، اِنَّكَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ “17
یا دوسری جگہ رسول پر كیفیت صلوات كے بارے میں آیا ھے:
”اللھم صل علی محمد عبد ك و رسولك، كما صلیت علی ابراھیم و بارك علی محمد وعلی آل محمد كما باركت علی ابراھیم “18


تاریخ میں تبرك

آیا تبر ك اپنے اصطلاحی معنی كے اعتبارسے ایك تاریخی حقیقت بھی ركھتا ھے ؟ یعنی اسلام سے پہلے صاحب شریعت امتوں میں یہ رسم پائی جاتی تھی، تاكہ ھم ان سیرت اور روش سے كشف كریں كہ گزشتہ دینی امتوں میں تبرك ایك جائز اورشرعی امر تھا ؟
اس سوال كا جواب یہ ھے كہ آثار انبیاء سے طلب بركت كرناان مسائل میں سے ھے جو گزشتہ دینی امتوں میں سابقہ ركھتا ھے، چنانچہ اس كے چند نمونے یھاں ذكر كئے جاتے ھیں:
1۔ خداوند متعال حضرت یعقوب كے بارے میں” كہ جنھوں نے اپنے بیٹے یوسف كی قمیص سے تبرك حاصل كیا اور یوسف كا اسے اپنے باپ حضرت یعقوب كیلئے بھیجنا“ یوسف كی زبانی حكایت كرتا ھے:
< اِذْهبُوْا بِقَمِیْصِیْ هذَاْفَاَلْقُوْه عَلٰی وَجْه اٴَبِی یَاٴتِ بَصِیْراً> 19
ترجمہ: یہ میری قمیص لیجاوٴ اسے میرے باپ كے چہرے پر ڈال دینا تاكہ ان كی بینائی آجائے ۔
یوسف كے بھائیوں نے اپنے بھائی حضرت یوسف كے حكم پر عمل كیا، اور اس قمیص كو حضرت یعقوب كے چہرے پر ڈال دیا، باپ جو ابھی تك اپنے بیٹے كی جدائی میں اندھے ھوچكے تھے، اس وقت اذن خدا وندی سے قمیص كی بركت سے بینا ھوگئے، البتہ خدا قدرت ركھتا ھے یہ عمل بغیر كسی واسطہ سے انجام دے، لیكن عالم؛ اسباب و مسببات كا عالم ھے، نیز اسباب كچھ مادی ھوتے ھیں اور كچھ معنوی، لہٰذا خدا كی حكمت اس سے متعلق ھوئی كہ انبیاء اور صالحین اور ان كے آثار میں بركت مقرر فرمائے، تاكہ لوگ اس راستہ ان كے بارے میں اعتقاد پیدا كریں اور ان سے نزدیك ھوں، اور اس كے نتیجہ میں وہ ان كو اپنے لئے نمونہ سمجھتے ھوئے خدا سے قربت پیدا كریں اور اس كے ثواب سے بہرہ مند قرار پائیں ۔
2۔ منجملہ ان مواقع كےكہجھاں قرآن مجید نے گزشتہ دینی امتوں كے تبرك كے بارے میں اشارہ كیا ھے بنی اسرائیل كا اس تابوت سے تبرك حاصل كرنا ھے جس میں آل موسی اور آل ھارون كے آثار تھے، خدا وند متعال قرآن مجید میں بنی اسرائیل كے اس پیغمبر كے قصہ كو جس نے بنی اسرائیل كو طالوت كی بادشاھی كی بشارت دی، اس طرح بیان كرتا ھے:
20
ترجمہ: اور ان كے نبی نے ان سے ( یہ بھی )كھا كہ اس ( طالوت)كے (منجانب الله) بادشاہ ھونے كی یہ پہچان ھے كہ تمھارے پاس وہ صندوق اجائے گا، جس میں تمھارے پروردگار كی طرف سے تسكین دہ چیزیں اور ان تبركات میں سے بچا كچھا ھوگا جو موسی اور ھارون كی اولاد یادگار چھوڑ گئی ھے، اور صندوق كو فرشتے اٹھائے ھوں گے، اگر تم ایمان ركھتے ھو تو بیشك اس میں تمھارے واسطے پوری نشانی ھے ۔
یہ تابوت وھی تابوت ھے جس میں جناب موسی كی ماں نے حضرت موسی كو خدا كے حكم سے ركھ كر پانی میں بھا دیا تھا، یہ تابوت بنی اسرائیل میں خاص احترام ركھتا تھا، اور اس سے وہ لو گ طلب بركت كرتے، حضرت موسی عليہ السلام نے اپنی وفات سے قبل اپنی الواح، زرہ اور تمام آیات نبوت اس میں ركھ دیں تھیں، اور اپنے وصی یوشع بن نون كے حوالہ كردیا تھا، یہ صندوق بنی اسرائیل كے پاس رھا، اس كو لوگوں كی نظروں سے پوشیدہ ركھتے تھے، جب تك یہ تابوت ان كے پاس رھا وہ عزت اور خوشحالی میں رھے، لیكن جب انھوں نے گناہ كیا، اور تابوت كی بے احترامی كی تو خدا نے اس كو مخفی كردیا، ایك مدت كی بعد انھوں نے اپنے نبی سے اس كو طلب كیا، خدا نے اس وقت طالوت كو ان پر بادشاہ قرار دیا، اور اس كے بادشاھت كی نشانی یھی تابوت تھا ۔
زمخشری كہتے ھیں: تابوت؛ توریت كا صندوق تھا، جب بھی موسی میدان قتال میں آتے اسے اپنے ساتھ باہر لے آتے تھے، اور بنی اسرائیل كے سامنے ركھتے تھے، تاكہ اس كو دیكھ كر وہ لوگ سكون حاصل كریں، اور جھاد میں سستی نہ كریں ۔ 21
اس واقعہ سے استفادہ ھوتا ھے كہ بنی اسرائیل بھی اس تابوت سے طلب بركت كرتے تھے جس میں حضرت موسی نبی كے آثار موجود تھے، اور اس كے لئے یہ لوگ خاص احترام كے قائل تھے ۔


تبرك كے بارے میں مسلمانوں كی سیرت

الف) حیات پیغمبر میں آپ سے طلب بركت كے بارے میں صحابہ كی سیرت
محمد طاہر مكی كہتے ھیں:
”عصر رسالت میں آثار پیغمبر سے بركت طلب كرنا صحابہ كی سیرت تھی، اور اس سنت كی تابعین اورصالح مومنین نے اتباع كی، عصر رسالت میں آثار پیغمبر سے بركت طلب كرنا وقوع پذیر ھوا ھے اور آنحضرت نے اس با رے میں كسی كو منع نھیں كیا ھے، یہ خود قطعی دلیل ھے اس كے جواز پر، كیونكہ اگر ایسا نھیں ھوتا تو یقینا حضرت اس كے تبرك سے منع كرتے، خصوصاً اس نكتہ پر توجہ ركھتے ھوئے كہ اكثرصحابۂ كرام قوی ایمان ركھتے تھے، اور رسول اسلام كے دستورات كے تابع تھے ۔ 22
ابن حجر كہتے ھیں:
”جو بچہ رسول كے زمانے میں پیدا ھوا اس نے رسول كودیكھا ھے، كیونكہ رسول كے صحابہ بہت زیادہ شوق ركھتے كہ اپنے بچوں كو رسول كے پاس لیجاتے تاكہ رسول اس كو متبرك قرار دیں، اور اس كے تالو كو اٹھا دیں، یھاں تك كھا جاتا ھے كہ فتح مكہ كے بعد وھاں كے رہنے والے اپنے بچوں كو رسول كے پاس لاتے ھیں تاكہ آپ ان كے سروں پر اپنے مبارك ھاتھ پھیر دیں، اور ان كی بركت كیلئے دعافرمادیں ۔ 23
اس بارے میں كافی روایات پائی جاتی ھیں چنانچہ ان میں سے بعض كی طرف یھاں ھماشارہ كرتے ھیں:
1۔ عائشہ كہتی ھیں: صحابہ ھمیشہ اپنے بچوں كو رسول خدا كی پاس لاتے تاكہ آپ ان كا تالو اٹھا دیں اور ان كو مبارك قرار دے دیں ۔ 24
2۔ ام قیس اپنے بیٹے كو -جوكہ ابھی كچھ كھابھی نھیں سكتا تھا- رسول كے پاس لاتے ھیں اور اس كورسول كی گود میں ڈال دیا ۔ 25
ابن حجر اس حدیث كی شرح میں كہتے ھیں: اس حدیث سے ثابت ھوتا ھے كہ بچہ كاتالو اٹھانا اور اہل فضل سے طلب بركت كرنا مستحب ھے ۔ 26
3۔ انس سے روایت ھے: میں نے دیكھا كہ نائی آپ كے بال كاٹ رھا تھا اور اصحاب آپ كے ارد گرد طواف كر رھے تھے، تاكہ كوئی بال اگر گرے تو وہ زمین پر نہ گرے بلكہ ان كے ھاتھوں پر گرے۔ 27
4۔ ابی حجیفہ كہتے ھیں: میں ایك مرتبہ رسول كی خدمت میں پہنچا، دیكھا رسول وضو فرمارھے ھیں، اور لوگ ایك دوسر ے سے سبقت كرنا چاھتے ھیں، تاكہ آپ كے وضو كے پانی سے فائدہ اٹھائیں، جو اس پانی كو اٹھاتاتھاوہ اس كو تبرك كی طور پر اپنے اوپر مل لیتا تھا، اور جو اس پانی تك دست رسی نھیں كرپاتا وہ دوسری كی رطوبت سے استفادہ كرتا تھا ۔ 28
عروہ؛ مسور اور دیگر افراد سے نقل كرتے ھیں كہ رسول كے وضو انجام دینے كی وقت آب وضو سے تبرك حاصل كرنے كی وجہ سے لوگوں كی اس قدر بھیڑ ھوتی تھی كہ قریب تھا كہ اس ہجوم كی وجہ سے لوگ اپنے كو ہلاك كردیں ۔ 29
5۔ سعد كہتے ھیں: میں نے رسول كے صحابہ سے سنا كہ وہ كہتے تھے كہ ایك مرتبہ رسول ”بضاعہ“ نامی كنواں پر تشریف لائے، اور ایك ڈول سے اس كنویں سے پانی كھینچا، اور اس سے وضو كیا، اور بقیہ پانی كو اس كنویں میں ڈال دیا، اس واقعہ كے بعد جب بھی كوئی شخص مریض ھوتا توكنویں سے پانی نكال كر اسے نہلاتے وہ فوراً شفایاب ھوجاتا تھا ۔ 30
6۔ ابو ایوب انصاری كہتے ھیں: جب رسول خدا (ص)ھمارےگھر تشریف لے آئے، تومیں آ پ كیلئےكھانالاتا، اورجب اس برتن كو واپس لیجاتا جس میں آپ نے كھانا تناول فرمایا تھا، تو میں اور میری بیوی اس جگہ سے جھاں رسول كے ھاتھ مس ھوئے ھوتے ھم وھاں سے تبرك كی نیت سے اٹھا لیتے اور اس كو استفادہ كرتے تھے ۔ 31
تبرك كے بارے میں ابن تیمیہ اور احمد بن حنبل كا نظریہ
ابن تیمیہ اپنی كتاب” اقتضاء الصراط المستقیم “ میں لكھتے ھیں:
احمد بن حنبل اور ان كے علاوہ علماء نے مسلمانوں كو اجازت دی ھے كہ وہ منبر اور وہ كپڑا جو منبر كے اوپر بچھا تھا اس كو لوگ مس كریں، لیكن قبر رسول كے مس كرنے كی اجازت نھیں دی ھے، البتہ بعض ھمارےاصحاب احمد سے روایت بیان كرتے ھیں كہ احمد نے قبر رسول كے مسح كرنے كی اجازت دی ھے ۔
ب) وفات رسول كے بعدآثار رسول سے صحابہ اور تابعین كا طلب بركت كرنا
امام بخاری نے صحیح بخاری میں ایك باب اس نام سے معین كیا ھے: ” یہ باب؛ زرہ، عصا، تلوار، برتن، انگوٹھی، بال، جوتے اور ان چیزوں كے بیان میں ھے كہ جن سے صحابہ اور دیگر افراد وفات رسول كے بعدبركت حاصل كرتے تھے “ 32
1۔ نقل كیا جاتا ھے كہ معاویہ نے اپنی مو ت واقع ھونے كے وقت وصیت كی كہ مجھے قمیص، شلوار اور كچھ رسول كے موئے مبارك كے ساتھ دفن كیا جائے ۔ 33
2۔ عمر بن عبدالعزیز نے اپنی وفات كے وقت دستوردیا كہ پیغمبر كے موئے مبارك اور ناخن لاكر میرے كفن میں ركھ دینا ۔ 34
3۔ ابن سعد كھتے ھیں: انس بن مالك كا حنوط رسول كی مشك اور آ پ كے موئے مبارك قرار دیا گیا تھا ۔ 35
4۔ ابن سیرین كہتے ھیں: میں نے عبیدہ سے كہا: میرے پاس كچھ رسول كے موئے مبارك انس یا اس كے گھر والوں كے یھاں سے لے آوٴ، وہ میرے لئے دنیا و آخرت سے محبوب تر ھے ۔ 36
5۔ صفیہ كھتی ھیں: جب بھی عمر میرے پاس آتے، تو حكم دیتے كہ وہ پیالہ جس میںرسول خدا كھانا تناول فرماتے تھے لے آوٴ، اس كی بعد اس كو آب زمزم سے پر كرتے، اور اس كو تبرك كے قصد سے پیتے، اور باقیماندہ پانی كو اپنے چہرے پر ملتے تھے ۔ 37
6۔ انس كھتے ھیں: ایك مرتبہ رسول اسلام ام سلیم كے پاس آئے، اس جگہ آ پ نے پانی كی ایك مشك دیكھی، جو دیوار سے آویزاں تھی، اس وقت پیغمبر كھڑے ھوئے اور اس سے پانی نوش كیا، ام سلیم نے اس مشك كو اٹھایا اور اس كے منہ كو كاٹ كر اپنے پاس تبرك كی طورپر ركھ لیا ۔ 38
7۔ ابن سیرین نقل كرتے ھیں: انس بن مالك كے پاس رسول خدا كاایك عصاتھا، جسے انس كی وفات كے بعد ان كے ساتھ ان كی پہلو میں دفن كردیا گیا۔ 39
8۔ ابراھیم بن عبد الرحمن بن عبد القاری كہتے ھیں: میں نے عمر كے بیٹے كو دیكھا كہ وہ اپنے ھاتھوں كو اس جگہ ركھے ھوئے ھیں، جھاں رسول بیٹھتے تھے اوران ھاتھوں كو اپنے چہرے پر ملتے تھے ۔ 40
9۔ بزیدبن عبدالله بن قسیط كہتے ھیں: ”اصحاب پیغمبر كی ایك جماعت كو دیكھا كہ جب مسجد خالی ھوجاتی تھی تو ھاتھوں كو منبر پر وھاں ركھتے جھاں رسول اپنے ھاتھ ركھتے تھے، اس وقت دعا كرتے تھے ۔ 41
10۔ داوٴدبن صالح كہتے ھیں:
ایك مرتبہ مروان بن حكم مسجد میں داخل ھوا تودیكھا ایك مرد ھے جو رسول كی قبر پر اپنے چہرے كو ركھے ھوئے ھے، مروان نے اس كی گردن كو پكڑا اور اس كو پیچھے ڈھكیل دیا، اور اس سے كہا: توجانتا ھے كہ كیا كررھا ھے؟جب اس شخص نے اپنا سر اٹھایاتو دیكھا وہ كوئی اورنہ تھا بلكہ رسول كا میزبان اور بزرگ صحابی حضرت ابو ایوب انصاری تھا، وہ مروان كے جواب میں اس طرح كہنے لگے: ” میں پتھروں كی طرف نھیں آیا ھوں، بلكہ میں نے پیغمبر كا قصد كیا ھے “42
11۔ ابن عساكر اپنی سند كے ساتھ امام علی - سے نقل كرتے ھیں: حضرت فاطمہ زہرا (ع) رسول كی وفات اور دفن كے بعد آپ كی قبر كے كنارے كھڑی ھوگئیں اور ایك مٹھی قبر كی خاك كو اپنے چہرے پر ڈالا، اور اشكبار ھوكر كہنے لگیں:
ماذا علی شم تربة احمدا
ان لا یشم مدی الزمان غوالیا
صبت علی مصائب لو انھا
صبت علی الایام صرن لیا لیا 43
كیا ھوگا اس شخص كاجو قبر احمد كی خا ك كی خوشبو سونگھ رھا ھے اور جب تك زندہ رھے گراں قیمت مشك كی خوشبو نہ سونگھی ھو ۔
میرے اوپر ایسی ایسی مصیبتیں پڑی ھیں كہ اگروہ روشن دنوں پر پڑتیں تووہ رات كی طرح تاریك ھوجاتے۔
12۔ سمھودی نقل كرتے ھیں: عبدالله ابن عمر اپنے ھاتھوں كو رسول كی قبر سے مل رھے تھے، اوربلال اپنے چہرے كو مل رھے تھے، اس كے بعد عبد الله ابن احمد بن حنبل سے نقل كرتے ھیں كہ یہ عمل شدیدمحبت كی بنا پر تھا، لہٰذا اس جھت سے تعظیم و اكرام كرنے میں كوئی حرج نھیں ھے ۔ 44
13۔ ابو درداء كہتے ھیں: حضرت بلال حبشی نے ایك شب رسول كو خواب میں دیكھا، جو ان سے كہتے ھیں: اے بلال! آخریہ جفا كب تك میرے حق میں كرتے رھوگے ؟آیا میری زیارت كا وقت نھیں ھوا ؟ بلال خوف زدہ اور محزون حالت میں بیدار ھوئے، اور دوسرے دن مدینہ كا رخ كیا، جب مدینہ پہنچے تو رسول كی قبر كے كنارے بیٹھ كر گریہ كرنے لگے، اور اپنے چہرے كو قبر رسول سے ملنے لگے، اور جب امام حسن اور حسین عليھم ا السلام كو دیكھا تو ان كو گلے سے چمٹا كر ان كے بوسے لئے ۔ 45
14۔ نافع نقل كرتے ھیں: میں نے ابن عمر كو دیكھا كہ وہ اس جگہ نماز پڑھ رھے ھیں جھاں رسول خدا نماز پڑھا كرتے تھے۔ 46
ابن حجر اس حدیث كی شرح میں لكھتے ھیں: ابن عمر كے اس عمل سے ثابت ھوتا ھے كہ آثار پیغمبر كی اتباع كرنا اور اس سے طلب بركت كرنا مستحب ھے ۔ 47
15۔ ابن عبد البر كہتے ھیں: ابن عمرآثار رسول خدا (ص) كی بھت زیادہ متابعت كرتے تھے، چنانچہ عرفہ اور دوسری جگہ انمقامات كو تلاش كرتے جھاں رسول نے وقوف كیا ھو ۔ 48


حوالہ جات

1. المنتقی من فتاوی الشیخ صالح بن فوزان ج ۲، ص ۸۶۔
2. مجموع الفتاوی لابن عثیمین، نمبر ۳۶۶۔
3. اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء ح ۳۰۱۹۔
4. فتاوی اسلامیہ ج ۴، ص ۲۹۔
5. البدعة ص ۲۸۔ ۲۹
6. دلیل الاخطاء، ص ۱۰۷۔
7. لسان العرب ج ۱۰، ص ۳۹۰۔ صحاح اللغة ج ۴، ص ۱۰۷۵۔ النھایة ج ۱، ص ۱۲۰۔
8. سورہ ھود (۱۱) آیت ۴۸۔
9. سورہ مریم، (۱۹)۳۱۔
10. سورہ نمل ( ۲۷) ۸۔
11. صافات (۳۷)۱۱۳۔
12. سورہ ھود (۱۱) ۷۳۔
13. سورہ آل عمران (۳) ۹۶۔
14. سورہ اسراء (۱۷) ۱۔
15. سور دخان ( ۴۴) ۳۔
16. صحیح مسلم جلداول، کتاب الصلوٰة، باب” الصلوٰت النبی بعد التشہد“حدےث ۴۰۵، ۴۰۶، ۴۰۷۔
17. صحیح بخاری: جلد ۸، کتاب الدعوات، باب (۳۱)” الصلاة علی النبی“حدیث ۵۹۹۶۔۵۹۹۷۔ مترجم ۔
18. صحیح بخاری ج ۳، ص ۱۱۹، کتاب التفسیر، تفسیر سورہ احزاب (آیت۵۶)۔باب ۱۰، ان الله و ملائکتہ یصلون علی النبی…۔ صحیح بخاری: جلد ۸، کتاب الدعوات، باب (۳۱)” الصلاة علی النبی“حدیث ۵۹۹۶۔۵۹۹۷۔ مترجم ۔
19. یوسف (۱۲)۹۳ ۔
20. بقرہ (۲) ۲۴۸۔
21. تفسیر کشاف ج ۱، ص ۲۹۳۔
22. تبرک الصحابہ بآثار الرسول ص ۷ ۔
23. الاصابة در بیان حالات ولید بن عقبہ ج ۳، ص ۶۳۸، نمبر ۹۱۴۷۔
24. مسند احمد ج ۷، ص ۳۰۳، ح ۲۵۲۴۳۔
25. صحیح بخاری ج ۱، ص ۶۲، کتاب الغسل ۔
26. فتح الباری شرح البخاری ج ۱، ص ۳۲۶، کتاب الوضو ۔
27. شرح صحیح مسلم نووی، ج ۱۵، ص ۸۳ ۔ مسند احمد ج ۳، ص ۵۹۱۔
28. صحیح بخاری ج ۱، ص ۵۵، کتاب الوضو باب ” استعمال فضل وضو ء الناس “
29. صحیح بخاری ج ۱، ص ۵۵، کتاب الوضو باب ” استعمال فضل وضو ء الناس “
30. الطبقات الکبری، ج ۱، ص ۲ ح ۱۸۴۔
31. البدایة والنھایة ج ۳، ص ۲۰۱۔ سیرہ ابن ہشام ج ۲، ص ۱۴۴۔
32. صحیح بخاری ج ۴، ص ۴۶، باب” ماذکر من درع النبی، وعصاہ، و سیفہ …“
33. السیرة الحلبیہ ج ۳، ص ۹ ۱۰۔ الاصابة ج ۳، ص ۴۰۰۔ تاریخ دمشق، ج ۵۹، ص ۲۲۹۔
34. طبقات ابن سعد دربیان حالات عمر ابن عبد العزیز، ج ۵، ص ۴۰۶۔
35. طبقات ابن سعد دربیان حالات انس ج۷، ص ۲۵۔
36. صحیح بخاری ج ۱، ص ۵۱، کتاب الوضو، باب” الماء الذی یغسل شعر الانسان“
37. الاصابہ دربیان حالات فراس، ج، ۳، ص ۲۰۲، اسد الغابة ج ۴، ص ۳۵۲۔
38. مسند احمد ج ۷، ص ۵۲۰، ح ۲۶۵۷۴۔ طبقات ابن سعد ج ۸، ص ۳۱۳۔
39. البدایہ والنھایہ، ج ۶، ص ۶۔
40. طبقات ابن سعد ج ۱، ص ۲۵۴، ذکر منبر الرسول
41. طبقات ابن سعد ج ۱، ص ۲۵۴، ذکر منبر الرسول
42. المعجم الاوسط ج ۱، ص ۹۴۔ الجامع الصغیر ص ۷۲۸۔
43. وفاء الوفاء ج ۴، ص ۱۴۰۵۔
44. وفاء الوفاء ج ۴، ص ۱۴۰۵۔
45. تاریخ دمشق ج ۷، ص ۱۳۷۔ تہذیب الکمال ج ۴، ص ۲۸۹۔ اسد الغابہ ج ۱، ص ۲۴۴
46. صحیح بخاری ج ۱ ص ۱۳۰۔
47. فتح الباری ج ۱، ص ۴۶۹۔
48. الاستیعاب ج ۲، ص ۳۴۲۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جبر و اختیار
اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ پہلی مرتبہ قم میں محسوس ...
اکمال دین، اتمام نعمت اور خدا پر بدگمانی -1
حضرت علی علیہ السّلام کی حیات طیّبہ
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
شیعہ اور اہل سنت کے امام مہدی علیہ السلام کے بارے ...
شيطان کي تيسري غلطي
اتحاد کے قرآنی راستے
اہل تشیع کے اصول عقائد
عدل الہی قرآن کی روشنی میں

 
user comment