کیا انسان موت کے بعد ایک دم عالم قیامت میں داخل ہو گا اور معاملہ ختم ہو جائے گا یا موت اور قیامت کے مابین ایک خاص عالم کو طے کرے گا اور جب قیامت کبریٰ برپا ہو گی‘ تو عالم قیامت میں داخل ہو گا؟
اس کا علم صرف خدا کو ہے کہ قیامت کبریٰ کب برپا ہو گی؟ انبیاء اور رسل نے بھی اس سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
قرآن کریم کے نصوص‘ حضرت رسول اعظم اور آئمہ اطہار علیہم السلام سے منقول متواتر اور ناقابل انکار احادیث و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی موت کے فوراً بعد قیامت کبریٰ میں داخل نہیں ہو گا‘ کیونکہ قیامت کبریٰ تمام ذہنی‘ زمینی اور آسمانی موجودات جیسے پہاڑ‘ دریا‘ چاند‘ سورج‘ ستارے اور کہکشاں میں ایک کلی انقلاب اور مکمل تبدیلی کے ہمراہ ہو گی‘ یعنی قیامت کبریٰ کے موقع پر کوئی چیز بھی اپنی موجودہ حالت پر برقرار نہیں رہے گی۔ علاوہ ازیں قیامت کبریٰ میں اولین و آخرین سب جمع ہوں گے‘ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں‘ ابھی نظام عالم برقرار ہے اور شاید لاکھوں بلکہ کروڑوں سال قائم رہے اور اربوں انسان ایک دوسرے کے بعد اس دنیا میں آئیں۔ اسی طرح قرآن کریم کی رو سے (جیسے بعض آیات سے معلوم ہوا‘ جن کا ذکر بعد میں ہو گا)
کوئی بھی شخص ایسا نہیں‘ جس کی عمر قیامت کبریٰ اور موت کے درمیانی فاصلے میں سکوت اور بے حسی میں گذر جائے۔ یعنی ایسا نہیں کہ مرنے کے بعد انسان نیم بے ہوشی کی حالت میں ہو‘ کسی چیز کو محسوس کرے اور نہ لذت ہو نہ الم نہ اسے سرور حاصل ہو سکے‘ نہ ہی غم و اندوہ بلکہ مرنے کے بعد انسان فوراً حیات کے ایسے مرحلہ میں داخل ہوتا ہے کہ کچھ چیزوں سے اسے لذت حاصل ہوتی ہے اور کچھ سے تکلیف‘ البتہ اس لذت و الم کا ربط اس کے دنیوی افکار‘ اعمال اور اخلاق سے ہے۔ قیامت کبریٰ تک یہ مرحلہ جاری رہتا ہے‘ لیکن جب آن واحد میں ایک کلی انقلاب اور تبدیلی تمام عالم کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور دور ترین ستاروں سے لے کر ہماری زمین تک ہر چیز اس انقلاب اور تبدیلی کی زد میں ہو گی‘ تب یہ مرحلہ یا یہ عالم جو سب کے لئے دنیا و قیامت کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا تھا‘ اختتام پذیر ہو گا‘ لہٰذا قرآن کریم کی نظر میں موت کے بعد کے عالم میں دو مرحلے ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں مرنے کے بعد انسان دو مراحل طے کرے گا۔
ایک عالم برزخ جو عالم دنیا کی طرح ختم ہو جائے گا اور دوسرا عالم قیامت کبریٰ جو کبھی بھی ختم نہیں ہو گا۔