ویح عمّار تقتلک الفئة الباغیة تدعوهم الی الله ویدعونک الی النار"
(فرمان رسول اکرم ص)
عمّار ! تجھ کو پر افسوس ہے ۔تجھے باغی گروہ قتل کرے گا ۔تو انہیں اللہ کی طرف دعوت دے گا اور وہ تجھے دوزخ کی طرف بلائیں گے ۔
انزلنی الدّهر ثمّ انزلنی
حتی قیل علیّ ومعاویة
"زمانے نے مجھے میرے مقام سے نیچے کیا اور بہت ہی نیچے کیا ۔ یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے کہ علی اور معاویہ ۔"(الامام علی بن ابی طالب علیہ السلام )
ہم نے سابقہ فصل میں ناکثین کی تحریک کا اکیا جائزہ لیا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تحریک نے اسلامی دنیا میں سرکشی اور بغاوت کی تخم ریزی کی تھی ۔
ناکثین کی تحریک کا نتیجہ حق وباطل کی جنگ کی صورت میں نمودار ہوا ۔
واقعہ جمل کی وجہ سے معاویہ اور اس کے ہم نواؤں کے حوصلے بلند ہوئے اور انہیں اسلامی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت برپا کرنے کی جراءت ہوئی اور واقعہ جمل کی وجہ سے معاویہ کو اتنی فرصت مل گئی جس میں اس نے شر اور بدی کی قوتوں کو جمع کیا اور دین حنیف کے مقابلہ میں علم بغاوت بلند کیا ۔معاویہ کے پرچم تلے وہ تمام افراد آکر جمع ہوئے جنہیں خدشہ تھا کہ علی ان پر حد جاری کرینگے وہ سب بھاگ کر معاویہ کے پاس آگئے تھے ۔ جس کی مثال عبیداللہ بن عمر بن خطاب ہے ۔جب ابو لولؤ نے حضرت عمر پر وار کیا تھا اور حضرت عمر اس کے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئےچل بسے تھے ۔ تو ان کے فرزند عبیداللہ بن عمر نے تلوار اٹھا کر ابو لولؤ کو قتل کیا ۔اور اس کے علاوہ ایک ایرانی سردار جو کہ اسلام قبول کر چکا تھا اور اس کا نام ہرمزان تھا ، اسے اور ایک ذمی شخص جفینہ کو قتل کردیا ۔
حضرت عثمان جیسے ہی خلیفہ منتخب ہوتے تھے حضرت علی (ع) نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ عبیداللہ نے قانون ہاتھ میں لے کر شریعت نبوی کا مذاق اڑایا ہے ۔اس نے دو بے گناہ افراد کو ناحق قتل کیا ہے لہذا اس پر حد شرعی کو نافذ کرنا چاہیئے ۔
حضرت عثمان نے اس مطالبہ پر کوئی توجہ نہ دی اور کہا کہ کل اسکا باپ قتل ہوا اور آج اس کے بیٹے کو قتل کیا جائے ؟
الغرض حضرت عثمان نے مجرم کو مکمل تحفظ فراہم کیا اور اس سے کوئی بازپرس نہ کی ۔
حضرت عثمان کے بعد جیسے ہی حضرت علی (ع) نے اقتدار سنبھالا تو عبیداللہ کو اپنی جان کے لالے پڑگئے ۔حضرت علی (ع) کے مثالی عدل سے ڈر کر شام چلا آیا اور معاویہ نے اس کا خیر مقد م کیا ۔(1)
اسی طرح سے مصقلہ بن ھبیرہ شیبانی نے خرّیت بن راشد اسامی خارجی کے بقیۃ السیف پانچ سو افراد کو خرید کو آزاد کیا ۔لیکن جب عبداللہ بن عباس نے اس سے قیمت کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہ : اگر میں اس سے زیادہ رقم عثمان سے مانگتا تو وہ بے دریغ مجھے دے دیتے ۔
چنانچہ رقم کی ادائیگی کی بجائے وہ معاویہ کے پاس شام چلاگیا اور معاویہ نے اسے طبرستان کا گورنر بنا دیا ۔
بعد ازاں اس نے اپنے بھائی نعیم بن ھبیرہ کو بھی معاویہ کے پاس آنےکی ترغیب دی ۔(2)
جگر خوار ماں کا بیٹا حضرت علی (ع) کے مخالفین اور ان کی عدالت سے بھاگے ہوے افراد کے لئے کمین گاہ بن گیا تھا اور اس نے مسلم معاشرہ میں فساد کی تخم ریزی کی اور دین متین کے احکام کو پس پشت ڈال دیا اور مخالفت دین کے لئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ۔
معاویہ کے کردار کے اثرات صرف اس کے اپنے دور تک محدود نہیں رہے ۔بلکہ امت مسلمہ اس کا آج تک خمیازہ بھگت رہی ہے ۔
خون عثمان کا بہانہ کرکے معاویہ نے دین اسلام کے ضروریات کا انکار کیا ۔ہماری نظر میں عظمت انسانیت پر سب سے بڑا ستم یہ ہوا کہ علی (ع) جیسے انسان کے مقابلے میں معاویہ کو قابل ذکر انسان تصور کیا گیا ۔ جی ہاں ی وہ عظیم انسان تھے جن کے والد ابو طالب تھے جو کہ رسولخدا (ص) کے مربی تھے اور معاویہ کا باپ ابو سفیان تھا جس نے اسلام اور رسول اسلام کے خلاف ہمیشہ جنگیں کیں ۔
علی (ع) کی ماں فاطمہ بنت اسد تھیں جنہیں رسول خدا (ص) اپنی ماں قراردیا کرتے تھے اور معاویہ کی ماں ہند جگر خوار تھی ۔
معاویہ کی بیوی میسونہ عیسائیوں کی بیٹی تھی ۔ علی کی زوجہ حضرت فاطمہ زہرا (س) رسول خدا (ص) کے جگر کا ٹکرا تھیں جن کی تعظیم کے لئے رسول خدا (ص) اپنی مسند چھوڑ دیتے تھے ۔ اور انہیں سیدۃ نساء العالمین کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔
معاویہ اور میسونہ کی مشترکہ تربیت کا مجسمہ یزید لعین تھا اور علی وزہرا (س) کی آغوش میں پلنے والے حسن وحسین تھے جو کہ جوانان جنت کے سردار تھے
معاویہ کا باپ ابو سفیان اور ماں ہند فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے جب کہ ان کے پاس اپنی جان ومال بچانے کے لئے اسلام قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔
اگر معاویہ خون عثمان کے مطالبہ میں مخلص تھا تو اس کا فرض بنتا تھا کہ وہ امت اسلامیہ کے زعیم حضرت علی (ع) کی بیعت کرتا اور پھر حضرت عثمان کی اولاد کو ساتھ لے کر حضرت علی (ع) کے پاس ان کے خون کا مقدمہ درج کراتا اور انصاف حاصل کرتا ۔
لیکن حقیقت یہ کہ معاویہ صرف اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتاتھا اسے خون عثمان سے کوئی دل چسپی نہیں تھی اور اس کا تاریخی ثبوت یہ ہے کہ جب معاویہ حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو ان نے خون عثمان کو مکمل طور پر فراموش کردیا اور حضرت عثمان کے کسی قاتل سے اس نے کوئی تعرض نہیں کیا ۔
خون عثمان کا بہانہ کرکے معاویہ نے دولت بھی حاصل کرلی اور دشمنان علی کی پارٹی منظم کرنے میں کامیاب ہوگیا اور آخر کار حکومت بھی حاصل کرلی غرضیکہ معاویہ نے سب کچھ حاصل کیا لیکن صرف ایک چیز اسے حاصل نہ ہوئی اور وہ چیز خون عثمان کا بدلہ تھی ۔
حقیقت تویہ ہے کہ معاویہ خود ذہنی طور پر یہ چاہتا تھا کہ حضرت عثمان کسی نہ کسی طرح قتل ہوں اور وہ ان کا "دلی دم" بن کر اقتدار حاصل کرسکے ۔ حضرت عثمان کافی ایام تک اپنے گھر میں محصور رہے تھے اور اس دوران اگر معاویہ چاہتا تو فوج بھجط کر ان کی گلوخلاصی کراسکتا تھا لیکن اس نے جان بچا کر خاموشی اختیار کرلی تھی تاکہ حالات اپنے منطقی نتیجہ تک پہنچ سکیں اور اس کے بعد وہ خود بنی امیہ کا "ہیرو" بن کر منظر عام پر آسکے ۔
معاویہ نے ابو الطفیل کو ایک مرتبہ ملامت کرتے ہوئے کہا تھا کہ : تجھ پر افسوس ہے تو نے حضرت عثمان کی کوئی مدد نہیں کی تھی۔ابو الطفیل نے کہا:- میں اس وقت باقی مہاجرین وانصار کی طرح خاموش رہا لیکن تمہارے پاس تو شام جیسا بڑا صوبہ تھا اسکے باوجود تو نے اسکی مدد کیو ں نہ کی ؟
معاویہ نے کہا : اس کے خون کے بدلہ کا نعرہ لگا کر مںل عثمان کی مدد کررہا ہوں ۔ یہ سن کر ابو الطفیل ہنسنے لگے اور کہا کہ تیرا اور عثمان کا معاملہ بھی وہی ہے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا تھا "
لا لفینّک بعد الموت تندبنی ۔۔۔ وفی حیاتی ما زودتّنی زادا
"اپنے مرنے کے بعد میں تجھے اپنے اوپر روتا ہا دیکھوں گا جب کہ تونے میری زندگی میں کسی طرح کی مدد نہیں کی تھی ۔"
معاویہ نے مخالفین عثمان کو کلیدی مناصب پرفائز کیا ہوا تھا ۔
سابقہ صفحات میں ہم عرض کرچکے ہیں کہ حضرت عثمان نے عمرو بن العاص کو حکومت سے معزول کردیا تھا ۔ اس کے بعد عمرو بن العاص نے لوگوں کو حضرت عثمان کے خلاف بھڑکانا شروع کیا ۔ان کے اپنے قول کے مطابق انہیں کوئی چرواہا بھی ملتا تو اسے بھی عثمان کی مخالفت پر آمادہ کرتے تھے ۔ اور جب حضرت عثمان قتل ہوگئے تو اس وقت عمر بن العاص نے اپنے بیٹے عبداللہ کو مخاطب کرکے کہا تھا :-
" میں عبداللہ کاباپ ہوں میں نے آج تک جس زخم کو بھی کریدا اس سے خون ضرور نکالا ۔"(3)
حضرت عثمان کے اس مخالف کو معاویہ نے اپنے ساتھ ملایا اور وہ معاویہ کا مشیر اعظم تھا ۔
عمرو بن العاص جیسے عثمان دشمن شخص کو اتنا بڑا منصب دینا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ معاویہ کو عثمان کے خون سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔اسےصرف حکومت کے حصول کی تمنا تھی ۔خون عثمان کو حصول مقصد کے لئے اس نے صرف ایک ذریعہ بنایا ہواتھا ۔ حضرت علی (ع) کے موقف کو ابن حجر عسقلانی یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (ع) نے فرمایا :-
"سب سے پہلی بات یہ ہے کہ معاویہ اور اس کے ساتھی سرکشی کی راہ چھوڑ کر میری بیعت کریں بعد ازاں عثمان بن عفان کے خون کا وارث ان کے خون کا دعوی میری عدالت میں دائر کرے اس کے بعد میں احکام شرع کے تحت فیصلہ کرو ں گا ،"(4)
جنگ صفین کے بعد حضرت علی نے مختلف شہروں میں ایک گشتی مراسلہ روانہ کیا جس کی تحریر یہ تھی ۔
"وکان بدء امرنا انّا التقینا والقوم من اهل الشام ۔۔۔۔۔۔"
ابتدائی صورت حال یہ تھی کہ ہم اور شام والے آمنے آئے ۔ اس حالت میں کہ ہمارا اللہ ایک ، نبی ایک اور دعوت اسلام ایک تھی ۔ نہ ہم ایمان باللہ اور اس کے رسول کی تصدیق میں ان سے کچھ زیادتی چاہتے تھے اور نہ وہ ہم سے اضافہ کے طالب تھے ، بالکل اتحاد تھا ۔ سوا اس اختلاف کے جو ہم میں خون عثمان کے بارے میں ہوگیا اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اس سے بالکل بری الذمہ تھے ۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آؤ فتنہ کی آگ بجھا کر اور لوگوں کا جوش ٹھنڈا کرکے اس مرض کا وقتی مداوا کریں ،جس کا پورا ستیصال ابھی نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ صورت حال استوار وہموار ہوجائے اور سکون واطمینان حاصل ہوجائے اس وقت ہمیں اس کی قوت ہوگی ہم حق کو اس جگہ پررکھ سکیں لیکن ان لوگوں نے کہا ہم اس کا علاج جنگ و جدل سے کریں گے ۔"(5)
معاویہ کا خروج دراصل اس موروثی عداوت کا مظہر تھا جو اس کے خاندان کو بنی ہاشم سے تھی ۔بنی امیہ اور نبی ہاشم میں قبل اسلام بھی عداوت موجود تھی اور بنی امیہ نے ہمیشہ بنی ہاشم کو اپنے ظلم وجور کا نشانہ بنایا تھا ۔
حضرت عبدالمطلب کے زمانہ میں ان کا ایک یہودی غلام تھا جو کہ تجارت کرتا تھا ۔ یہ بات معاویہ کے دادا کو ناگوار گزری ۔چنانچہ حرب بن امیہ نے قریش کے چند نوجوانوں کو اس کے قتل اور اس کا مال لوٹنے پر آمادہ کیا ۔ اس کے بہکاوے میں آکر عامربن عبد مناف بن عبد الدار اور حضرت ابو بکر کے داد صخر بن حرب بن عمرو بن کعب التیمی نے اسے قتل کردیا اوراسکا مال لوٹ لیا تھا ۔(6)
جنگ صفین
حضرت علی (ع) جنگ جمل سے فارغ ہوکر کوفہ تشریف لائے اور جریر بن عبداللہ بجلی کو اپنا قاصد بنا کر معاویہ کے پاس روانہ کی اور اسے اپنی خلافت وامارت کے تسلیم کرنے کی دعوت دی ۔
جریر حضرت علی (ع) کا خط لے کر معاویہ کے پاس گئے اور معاویہ نے کافی دن تک اسے ملاقات کا وقت تک نہ دیا ۔ عمرو بن العاص سے مشورہ کیا کہ ہم کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے ؟
عمرو بن العاص نے اسے مشورہ دیا کہ اہل شام کا ایک اجتماع بلانا چاہئیے اور اس میں علی (ع) کو عثمان کا قاتل کہہ کر اس سے خون عثمان کا بدلہ لینے کی تحریک پیش کی جائے ۔اسی اثناء میں نعمان بن بشیر حضرت عثمان کی خون آلود قمیص مدینہ سے لے کے دمشق پہنچ گیا ۔
معاویہ نے خون آلود قمیص کو منبر پہ رکھا اور اہل شام کو قمیص دکھا کرایک جذباتی تقریر کی ۔اہل شام نے معاویہ کے سامنے قسم کھائی کہ جب تک وہ خون عثمان کا بدلہ نہ لیں گے اس وقت تک اپنی بیویوں سے مقاربت نہ کریں گے اور نرم بستر پر نہ سوئیں گے ۔ جریر دمشق سے واپس آئے اور حضرت علی (ع) کو اہل شام کی بغاوت اور ان کے اعلان جنگ کی اطلاع دی ۔
حضرت علی بھی اپنا لشکر لے کر چل پڑے اور مقام نخیلہ میں قیام کیا اور مالک اشتر کو مقدمۃ الجیش کا سالار مقرر کرکے آگے روانہ کیا اور انہیں نصیحت کی کہ :-
"جنگ میں پہل نہ کرنا اور مخالف لشکر کے اتنا زیادہ قریب نہ ہونا کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ یہ ہم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں ۔ نیز مخالف لشکر سے اتنا دوربھی نہ ہونا کہ وہ یہ سمجھ لیں کہ وہ ہم سے خوف زدہ ہوکر بھاگ گئے ہیں ۔ میرے آنے کا انتظار کرنا جب تک میں نہ آؤں جنگ نہ کرنا "۔
معاویہ کے لشکر نے فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرلیا اور حضرت علی(علیہ السلام) کے لشکر کو پانی بھرنے سے روک دیا ۔ جب حضرت علی (علیہ السلام) آئے تو لشکر نے اپنی پیاس کی شکایت کی ۔حضرت علی (علیہ السلام ) نے صعصعہ بن صوحان کو معاویہ کے پاس بھیجا ۔،انہوں نے اس سے کہا کہ ہم تم سے بلاوجہ جنگ کرنا پسند نہیں کرتے مگر تم نے پانی بند کرکے ہمیں جنگ کی بالواسطہ دعوت دی ہے پانی پہر ہر جاندار کا حق ہے ۔تم اپنے فوجیوں کو حکم دو کہ وہ گھاٹ خالی کردیں تاکہ ہر شخص آزادی سے پانی پی سکے ۔معاویہ اپنی ضد پر اڑارہا ۔حضرت علی (ع) نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ :-معاویہ کی فوج کو گھاٹ سے دھکیل دیا جائے ۔
حضرت علی (ع) کی فوج نے معاویہ کی فوج پر حملہ کیا اور انہیں گھاٹ سے دور بھگا دیا اور پانی پر حضرت علی (ع) کی فوج کا قبضہ ہوگیا ۔ انہوں نے معاویہ کی فوج کو پانی دینے سے انکار کردیا ۔مگر حضرت علی (ع) کے سینہ میں ایک دردمند دل تھا انہوں نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ پانی سے کسی کو نہ روکا جائے ۔اگر معاویہ بھی پانی بند کرے اور علی (ع) بھی پانی بند کرے تو علی (ع) اور معاویہ میں کیا فرق رہ جائے گا ؟
حضرت علی نے ابو عمر ،بشیر بن محصین الانصاری ،سعید بن قیس الھمدانی ،اور شبث بن ربعی التمیمی کو بلایا اور انہیں فرمایا کہ تم معاویہ کے پاس جاؤ اور اسے اطاعت امام اور جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دو ۔
یہ افراد معاویہ کے پاس گئے ،بشیر بن محصین الانصاری نے کہا:-
"معاویہ ! میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں کہ بغاوت سے باز آجاؤ اور امت اسلامیہ کی تفریق سے بچو اور امت کی خون ریزی سے پر ہیز کرو " معاویہ نے کہا :- کیا ہم عثمان کا خون رائیگان جانے دیں ؟ خدا کی قسم میں ایسا کبھی نہیں کروں گا ۔
شبث بن ربعی التمیمی نے کہا :- معاویہ ! تیرے مطالبہ کا مقصد ہمیں خوب معلوم ہے ۔لوگوں کو گمراہ کرنے اور اپنی طرف مائل کرنے اور اپنی حکومت کے قیام کے لئے تو نے یہ نعرہ لگا یا ہے کہ تمہارا امام مظلم ہو کر مارا گیا ہے ۔ اور ہم اس کے خون کا بدلہ چاہتے ہیں ۔
ہمیں بخوبی علم ہے کہ تو نے عثمان کی کوئی مدد نہیں کی تھی اور تو نے جان بوجھ کر ان کی نصرت سے تاخیر کی تھی ۔ تم درحقیقت یہی چاہتے تھے کہ وہ قتل ہوجائیں اور ان کے قتل کو تو اپنی سیاست کے لئے استعمال کے سکے ۔
معاویہ ! خدا کا خوف کرو اور خلیفۃ المسلمین کی اطاعت کرو ۔
معاویہ نے اسے سخت سست کہا اور کہا کہ تم لوگ واپس چلے جاؤ اب ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار ہی فیصلہ کرے گی ۔
اس کے بعد سنہ 36 ھ میں حضرت علی اور معاویہ کے درمیان عارضی جنگ بندی ہوئی اور معاہدہ ہوا کہ ماہ محرم کے احترام کے پیش نظر جنگ بندی سے پرہیز کیا جائے ۔
معاویہ نے اس عارضی جنگ بندی سے سوء استفادہ کیا اور اپنے لشکر کی تعداد بڑھانی شروع کی ۔حضرت علی (ع) نے اس دوران معاویہ کے پاس قاصد روانہ کئے اور اسے جنگ سے باز رہنے کی تلقین کی ۔لیکن معاویہ نے ہر سفارت کو ناکام لوٹا دیا ۔
معاویہ کی حرکات کی وجہ سے جنگ ناگزیر ہوگئی ۔جنگ کے آغاز سے پہلے حضرت علی (ع) نے اپنے لشکر کو خطبہ دیا جس میں ارشاد فرمایا :-
"جنگ کی ابتدا تمہاری طرف سے نہیں ہونی چاہیئے ۔تم لوگ دلیل وحجت پر ہو اور تمہاری طرف سے جنگ کی ابتدا نہ کرنا تمہاری حجت ہے اورجب تم دشمن کو شکست دے دو تو کسی بھاگنے والا کا تعاقب نہ کرنا ۔کسی زخمی کو قتل نہ کرنا اور کسی مقتول کا حلیہ نہ بگاڑنا ۔کسی کی پردہ دری نہ کرنا ۔کسی مخالف کے گھر میں داخل نہ ہونا اور کسی عورت پہ ہاتھ نہ اٹھانا خواہ وہ تمہیں اور تمہارے حکام کو سب وشتم بھی کرے ۔
درج بالا واقعات سے یہ نتائج مستنبط ہوتے ہیں ۔
1:- اما م عالی مقام نے تمام ممکنہ ذرائع سے معاویہ کو دعوت اتحاد دی اور اسے مرکزی حکومت کی اطاعت میں شامل ہونے کی تلقین کی ۔
2:-معاویہ کو تفریق بین المسلمین سے باز رکھنے کی ہرممکن کوشش کی ۔
3:- قتل عثمان کے قصہ کے متعلق حضرت عثمان کے وارث ان کےپاس آکر اپنے خون کا مقدمہ دائر کریں اور ضرور ی تحقیق کے بعد مجرمین کو سزادی جائے ۔
4:- معاویہ نے عثمان کی خون آلود قمیص لہرا کر مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کی ۔
5:-شامی لشکر کو ملا کر مرکز پر آورہوا ۔
6:- دریائے فرات کے گھاٹ پر قبضہ کرکے حضرت علی (ع) کے ساتھیوں کو پانی سے محروم کردیا اس سے معاویہ کے غیر انسانی رویوں کا بخوبی اظہار ہوتا ہے ۔
7:- حضرت علی (ع) کے لشکر نے بزور شمشیر گھاٹ خالی کرالیا ۔لیکن علی (ع) کی انسان دوستی ملاحظہ فرمائیں کہ انہوں نے پانی سے کسی کو نہ روکا ۔
8:- کربلا میں آل محمد (ع) کا جو پانی بند کیا گیا تھا وہ بھی کردار معاویہ کا ایک تسلسل تھا۔
9:-حوصلہ شکن حالات کے باوجود بھی حضرت علی (ع) نے فریضہ دعوت کو فراموش نہیں کیا ۔معاویہ کے پاس معززین کا ایک وفد روانہ کیا اور اسے جنگ سے باز رہنے کی دعوت دی ۔
10:- معاویہ نے علی (ع) کے فرستادہ وفد کے دو ارکان سعید اور شبث کے درمیان دورجاہلیت کی عصبیت کو برانگیختہ کیا ۔
11:- جنگ صفین میں باطل اور نور کے مقابلہ میں ظلمت کو شکست ہوئی اور معاویہ نے محسوس کیا کہ اب اس کی زندگی کا چراغ بجھنے ہی والا ہے ۔تو اس نے فطری روباہی سے کام لیتے ہوئے نیزوں پرقرآن بلند کئے اور کہا کہ اہل عراق جنگ بند کردو ۔ہم اور تم قرآن کے مطابق اپنے تنازعات کا فیصلہ کریں ۔
12:- معاویہ کی یہ مکاری کامیاب رہی ۔ حضرت علی (ع) کے لشکر میں پھوٹ پڑگئی اور خوارج نے جنم لیا اور امام عالی مقام (ع) ان کے ہاتھ سے شہید ہوگئے ۔
درج بالا نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم دوبارہ یہ کہیں گے کہ حضرت علی (ع) اور معاویہ کی جنگ دوایسے افراد کے درمیان جنگ تھی جو کہ ہر لحاظ سے ایک دوسرے کی ضد تھے ۔
معاویہ کی سرشت یہ تھی کہ اپنے ہدف کے حصول کے لئۓ جائز اور ناجائزذرائع کی اس کے پاس کوئی تخصیص نہ تھی ۔اپنے ہدف کے حصول کے لئے اس نے ہر قسم کے حربے آزمائے ،زہر دے کر اپنے مخالفین کو قتل کرایا ۔ ہر طرح کی عہد شکنی کی ۔مجہول النسب افراد کو ابو سفیان کا بیٹا بنایا ۔اعاظم صحابہ کو قتل کیا مثلا ۔حضرت عمار بن یاسر ۔حضرت اویس قرنی ،حضرت خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین جیسے افراد اور حضرت حجر بن عدی اور ان کے ساتھیوں کو ناحق قتل کیا ۔
معاویہ کی نگاہ میں اخلاق عالیہ اور انسانی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ معاویہ کے پاس طمع ولالچ کا ہتھیار تھا ۔ جب کہ حضرت علی کے پاس اسلامی اقدار کا ہتھیار تھا ۔ معاویہ کے سامنے ایک وسیع میدان تھا کیونکہ اس کی نگاہ میں جائز اور ناجائز کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ اس کے ہاں اگر اہمیت تھی تو صرف اور صرف اپنے مقصد کے حصول کی تھی ۔ جبکہ حضرت علی کے سامنے میدان بڑا تنگ تھا ۔علی علیہ السلام صرف وہی کرسکتے تھےجس کی اسلام اجازت دیتا تھا ۔
معاویہ کے مقربین اور حضرت علی کے مقربین میں بھی فرق تھا ۔
معاویہ کے مقرب بننے کا معیار استحصالی ہونا تھا اور حضرت عیل کا مقرب بننے کے لئۓ اسلامی تعلیمات کا عامل بننا ضروری تھا ۔
معاویہ کے احباب میں عمرو بن العاص اور بسر بن ارطاۃ جیسے افراد نمایاں تھے ۔ حضرت علی (ع) کے احباب میں حضرت عمّار یا سر اور اویس قرنی اور حضرت حجر بن عدی جیسے قائم الللز اور صائم النہار افراد نمایاں تھے ۔
احباب کی طرح پیروکاروں کا بھی فرق تھا ۔
معاویہ کے پیروکاروں میں ایسے افراد شامل تھے جنہیں اونٹ اور اونٹنی کے فرق کا علم نہیں تھا ۔
اور اس کے برعکس حضرت علی علیہ السلام کے پیروکار اکثر فقیہ اور محدث تھے ۔ البتہ ایک صفت ایسی ضرور تھی جس میں معاویہ کو تفوق حاصل تھا اور وہ صفت یہ تھی ۔ کہ معاویہ کا لشکر اس کا مثالی اطاعت گزار تھا ۔ جب کہ حضرت کے لشکر میں ٹال مٹول کرنے والے کافی افراد موجودتھے ۔
اہل شام کی اطاعت کی انتہا یہ ہے کہ معاویہ نے بدھ کے دن نماز جمعہ پڑھائی تو کسی نے بھی اعتراض نہ کیا (7)۔
معاویہ نے اپنی رعایا میں جہالت کو رائج کیا اور ایک طویل عرصہ تک اہل شام کی جہالت ضرب المثل بنی رہی ۔
مسعودی نے ایک دلچسپ حکایت لکھی ہے :-
"ایک اہل علم نے مجھے بتایا کہ اہل علم کی ایک جماعت ابو بکر وعمر اور علی ومعاویہ کے متعلق بحث کررہی تھی ۔ ایک عقل مند اور دور اندیش شامی نے کہا کہ تم علی ومعاویہ کی بحث کس لئے کررہے ہو ؟
ایک اہل علم نے اس سے پوچھا کہ تم علی (ع) کو جانتے ہو ؟
شامی نے کہا کیوں نہیں ؟ جنگ حنین میں علی رسول (ص) کے ساتھ شہید ہوگیا تھا ۔"
اہل شام کی جہالت کی ایک اور مثال پیش خدمت ہے :
مروان الحمار کی تلاش میں عبداللہ بن علی اپنا لشکر لے کر دمشق گیا ۔ اس نے دمشق سے چند بزرگ اور معزز افراد کو ابو العباس سفاح کے پاس بھیجا ۔جنہوں نےسفاح عباسی کے سامنے قسم کھا کر کہا کہ " تمہاری حکومت آنے سے پہلے ہمیں کوئی علم نہیں تھا کہ بنی امیہ کے علاوہ بھی رسول خدا (ص) کے کوئی رشتہ دار ہیں ۔ہمیں تو آج تک بنی امیہ نے یہی باور کرایا تھا کہ وہی رسول خدا (ص) کا خاندان اور ان کے وارث ہیں ۔"(8)
معاویہ نے اپنے اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لئے عوام میں جہالت کو فروغ دیا اور امت اسلامیہ کی نظریاتی سرحدوں کو کمزور کرنے کےلئے "وضع حدیث " سے کام لیا اور اس کے حکم وترغیب کی وجہ سے فضائل ثلاثہ کی ہزاروں احادیث وضع کی گئیں اور ابو ہریرہ اور اس کے ہم نوا دن رات حدیث سازی میں مصروف ہوگئے اور حدیث سازی کو باقاعدہ "صنعت" کا درجہ حاصل ہوگیا اور اس بہتی گنگا میں ہزاروں افراد نے ہاتھ دھوئے ۔
اپنے مخالفین کو زہر دےکر ختم کرانا معاویہ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس نے حضرت علی (ع)کے حاکم مصر مالک اشتر کو ایک زمیندار کے ہاتھ سے زہر دلوایا اور زمیندار سے خراج کی معافی کا وعدہ کیا گیا ۔ معاویہ کے بہکاوے میں آکر اس زمیندار نے حضرت مالک کو کھانے کی دعوت دی اور شہد میں انہیں زہر دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے حضرت مالک اشتر شہیدہوگئے ۔
اس واقعہ کے بعد معاویہ اور عمر وبن العاص بیٹھ کر کہا کرتے تھے کہ شہد بھی اللہ کا ایک لشکر ہے ۔
معاویہ نے امام حسن مجتبی علیہ السلام کو ان کی بیوی جعدہ بنت اشعث کے ذریعہ زہر دلوایا ۔
معاویہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے بعض اوقات خوشامد اور چاپلوسی سے کام لیتا تھا اور بعض اوقات اپنے مخالفین کے خلاف فوجی قوت کو بے دریغ استعمال کرتا تھا ۔
معاویہ نے اپنے ایک شقی القلب ساتھی بسر بن ارطاۃ کو ایک بڑا لشکر دے کر بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ حضرت علی کے زیر نگیں علاقے میں جاکر فوجی کاروائی کرے ۔
بسر نے حضرت علی (ع) کی مملکت میں بہت زیادہ خون ریزی کی ۔مسلمانوں کے اموال کو لوٹا اہل مدینہ کو خوف زدہ کیا اور ان سے معاویہ کی جبری بیعت لی ۔
پھر وہ بدبخت یمن گیا حاکم یمن اس کی آمد کی خبر سن کر فرار ہوگیا ۔چنانچہ بسر نے یمن میں بے دریغ قتل عام کیا اور ہل یمن سے بھی معاویہ کی بیعت لی ۔
اس نے عبید اللہ بن عباس کے دو چھوٹے بچوں کو قتل کردیا ۔ حضرت علی (ع) کو ان واقعات کی اطلاع ملی تو انہوں نے جاریہ بن قدام کو بسر کی سرکوبی کے لئے روانہ کیا ۔
حضرت علی (ع) کے فوجی دستہ کا سن کر وہ لعین شام بھاگ گیا ۔
جاریہ نے اہل یمن کو حضرت علی (ع) کی بیعت کی دعوت دی جو انہوں نے بخوشی قبول کرلی ۔پھر جاریہ مکہ مکہ آیا تو اسے معلوم ہوا کہ اسلام کا محافظ علی (ع) شہید ہوگیا ہے ۔(9)
درج بالا حالات س معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ میں انسانیت کی بہ نسبت حیوانیت اور درندگی کا عنصر زیادہ پایا جاتا تھا اور اس کی حیوانیت کے تحت ہمیشہ بدلتی رہتی تھی ۔ کمزور افراد کو بھیڑئیے کی طرح چرن دیتا اور طاقت ور افراد کے سامنے روباہیت سے کام لیتا تھا ۔
اس کے برعکس حضرت علی کی زندگی خوف خدا ، انسان دوستی اور احکام شرع کی پابندی سے عبارت تھی ۔ حضرت علی (ع) عدالت کے داعی تھے ۔
مختصر الفاظ میں ان دونوں کی زندگی کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے :- جس قدر معاویہ میں خامیاں تھیں ۔اسی قدر علی علیہ السلام میں خوبیاں تھیں اور معاویہ کے پاس ظلم کا جتنا ذخیرہ تھا ،علی کے پاس اتنی ہی مقدار میں عدل تھا ۔ حضرت علی (ع) بخوبی جانتے تھے کہ بنی امیہ امت اسلامیہ کی تقدیر کے مالک بن جائیں گے اور اسی کی پیش گوئی کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا "اما والذی نفسی بیدہ ۔۔۔۔۔"
"اس ذات برحق کی قسم جس کے اختیار میں میری جان ہے ! یہ لوگ تم پر غالب آجائیں گے ۔وہ اس لئے غالب نہیں ہونگے کہ وہ بر حق پر ہیں ۔ ان کے غلبہ کی وجہ ہے کہ وہ اپنے باطل کی بھی پیروی پر کمر بستہ رہتے ہیں جب کہ تم حق کے لئے بھی سستی اور تساہل سے کام لیتے ہو۔
حالت یہ ہے کہ رعایا کو اپنے استحکام کا خوف ہوتا ہے ۔لیکن آج میں اپنی رعایا کے ظلم سے خوف زدہ ہوں "۔
ایک اورمقام پر آپ نے اصحاب کی تساہل پسندی کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا "احمد اللہ علی ماقضی من امر وقدر من فعل وعلی ابتلائی بکم ۔۔۔۔"
"میں اللہ کی حمد وثناء کرتا ہوں ہر اس امر پر جس کا اس نے فیصلہ کیا اور اس کام پر جو اس کی تقدیر نے طے کیا ہو اس آزمائش پر جو تمہارے ہاتھوں اس نے میری کی ہے ۔
اے لوگو! کہ جنہیں کوئی حکم دیتا ہوں تو نافرمانی کرتے ہیں اور پکارتا ہوں کہ تو میری آواز پر لبیک نہیں کہتے ۔اگر تمہیں (جنگ سے ) کچھ مہلت ملتی ہے تو ڈینگیں مارنے لگتے ہو اور اگر جنگ چھڑ جاتی ہے تو بزدلی دکھاتے ہو اور جب لوگ امام پر ایکا کرلیتے ہیں تو تم طعن وتشنیع کرنے لگتے ہو اور اگر تمہیں (جکڑ باندھ کر ) جنگ کی طرف لایا جاتا ہے تو الٹے پیروں لوٹ جاتے ہو۔تمہارے دشمنوں کا برا ہو ۔تم اب نصرت کے لئے آمادہ ہونے اور اپنے حق کے لئے جہاد کرنے میں کس چیز کے منتظر ہو ۔موت کے یا اپنی ذلت ورسوائی کے ؟ خدا کی قسم ! اگرمیری موت کا دن آئے گا اور البتہ آکر رہے گا تو وہ میرے اور تمہارے درمیان جدائی ڈال دےگا ۔درآنحالیکہ میں تمہاری ہم نشینی سے بیزار اور (تمہاری کثرت کے باوجود )اکیلا ہوں ۔ اب تمہیں اللہ ہی اجر دے ۔کیا کوئی دین تمہیں ایک مرکز پرجمع نہیں کرتا اور غیرت تمہیں (دشمن کی روک تھام پر) آمادہ نہیں کرتی ۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ معاویہ چند تند مزاج اوباشوں کو دعوت دیتا ہے اور وہ بغیر کسی امداد واعانت اور بخشش وعطا کرے اس کی پیروی کرتے ہیں ۔اور میں تمہیں امداد کے علاوہ تمہارے معیّنہ عطیوں کے ساتھ دعوت دیتا ہوں مگر تم مجھ سے پراکندہ ،منتشر ہوجاتے ہو اور مخالفتیں کرتے ہو حالانکہ تم اسلام کے رہے سہے افراد اور مسلمانوں کا بقیہ ہو ۔تم تو میرے کسی فرمان پر راضی ہوتے اور نہ اس پر متحد ہوتے ہو چاہے وہ تمہارے جذبات کے موافق ہو یا مخالف ۔میں جن چیزوں کا سامنا کرنے والا ہوں ۔ ان میں سے سب سے زیادہ محبوب مجھے موت ہے میں نے تمہیں قرآن کی تعلیم دی اوردلیل وبرہان سے تمہارے درمیان فیصلے کئے اور ان چیزوں سے تمہیں روشناس کیا جنہیں تم نہیں جانتے تھے اور ان چیزوں کو تمہارے لئےخوشگوار بنایا جنہیں تم تھوک دیتے تھے ۔کاش کہ اندھے کو کچھ نظرآئے اور سونے والا (خواب غفلت سے بیدار ہو ۔وہ قوم اللہ کے احکام سے کتنی جاہل ہے کہ جس کا پیشرو معاویہ اور معلم نابغہ کا بیٹا ہے ۔"
ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا ۔
تم نے میری بیعت اچانک نہیں کی اور میرا اور تمہارا معاملہ یکساں نہیں ہے ، میں تمہیں اللہ کے لئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنی ذات کے لئے چاہتے ہو ۔
اے لوگو!تم اپنے نفس کے خلاف میری مدد کرو ۔خدا کی قسم ! میں مظلوم کو ظالم سے انصاف دلاؤں گا اور میں ظالم کو بالوں سے پکڑ کر اسے گھسیٹا ہوا حق کے گھاٹ پر لاؤں گا۔ اگر چہ اس کو ناپسند کرتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):-المسعودی ۔مروج الذھب ومعادن لجوہر ۔جلد دوم ۔ص 261
(2):- ڈاکٹر طہ حسین ۔الفتنتہ الکبری ۔ علی وبنوہ ۔ص 127
(3):- ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ۔
(4):- الاصابہ فی تمییز الصحابہ ۔جلد دوم ۔ ص 501-502
(5):- نہج البلاغہ ۔جلد دوم ۔مکتوب نمبر ۔58۔ص 651
(6):- ابن اثیر الکامل فی التاریخ ۔جلد دوم ص 9
(7):- المسعودی ۔مروج الذھب ومعادن الجوہر ۔جلددوم ۔ص 334
(8):- المسعودی ۔مروج الذھب معادن الجوہر۔جلد دوم ۔ ص 51
(9):- ڈاکٹر طہ حسیس مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔علی وبنوہ ۔