حق کی فتح ہوئی اور باطل نابود ہوگیا اور بے شک باطل زوال پذیر اور ختم ہو جانے والا ہے۔ یہ سنت الہی ہے جو مخلوقات کے درمیان جاری ہے اور سنت الہی میں تبدیلی کاکوئی امکان ہی نہیں ہے۔
کربلامیں دو جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوئیں۔ ایک حق کی جماعت تھی اور دوسری باطل کی۔ ایک جماعت الہی اہداف کوعملی جامہ پہنانے آئی تھی اوردوسری جماعت شیطانی مقاصد کو پورا کرنے۔ ایک طرف نوع انسانی کانجات کا ضامن تھا اوراس کی تباہی وبربادی کاذریعہ! کچھ لوگ حق کاپرچم لہرانے آئے تھے اور کچھ لوگ باطل کاعلم گاڑنے! ایک گروہ مظلوموں اورمستضعفین کے حقوق کا محافظ تھا اور دوسرا گروہ حق انسانی کی پائمالی کاعلمبردار!
یہ جنگ جسموں اورظاہری انسانوں کے درمیان نہیں تھی بلکہ یہ جنگ اہداف و نظریات کی جنگ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یزیدمات کھاگیا اورحسین کامیاب وکامران ہوگئے حسین شہیدہوگئے اورظاہری طورپراس دنیاسے چلے گئے لیکن سیدالشہداء اورآپ کے انصار و اعوان کی مظلومانہ شہادت نے پورے اسلامی معاشرے میں بیداری کی لہر پیداکردی، اسلامی رکوں میں تازہ خون گردش کرنے لگا، مظلوموں اور ستمدیدہ لوگوں پرچھایا ہوا سکوت توڑدیا، ظالموں اورجابروں کے خلاف آوازیں بلندہوئیں، لوگوں کے ذہنوں کوبدل ڈالااوران کے سامنے حقیقی اورخالص اسلام کا تصورپیش کیا۔ یہ تصادم اوریہ جنگ اگرچہ ظاہری طورپرایک ہی دن میں تمام ہوالیکن طول تاریخ میں ہمیشہ اس کے آثاروبرکات ظاہرہوتے گئے اورجوں جوں تاریخ آگے بڑھتی گئی اس کے نتائج سامنے آتے گئے اہل حرم کی اسیری ہی سے اس کے سیاسی اثرات لوگوں پرآشکارہوگئے، جب اسراء کو”شام“ کی طرف لے جایاجارہاتھا تو”تکریت“ پہونچنے پروہاں کے مسیحی،اپنے کلیساؤں میں جمع ہوئے اورغم ومصیبت کابینڈ بجانا شروع کردیا اوریزیدی فوجوں کو اس جگہ پرداخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ جب شہر”لینا“ پہونچے تو اس شہرکے لوگ جمع ہوگئے اور امام حسین اور ان کے انصار و اعوان پر درود و سلام اور امویوں پر لعنت بھیجنے لگے اور یزیدی فوجوں کو وہاں سے باہرنکال دیا،جب یزیدی فوجوں کوپتہ چلا کہ شہر”جہینہ“ کے لوک بھی فوجوں سے لڑنے کو تیارہوئے ہیں تو فورا وہاں سے فرار کر گئے۔ جب قلعہ ”کفرظاب“پہونچے تو وہاں کے لوگوں نے بھی شہرکے اندرآنے سے انہیں روک دیا اورجب ”حمص“ پہونچے تو وہاں کے لوگوں نے یزید اور یزیدی لشکرکے خلاف زبردست مظاہرے کئے اوریہ نعرے لگائے کہ ”اکفرابعدایمان وضلالابعدہدی“ یعنی کیاہم ایمان کے بعدکفراورہدایت کے بعدگمراہی اختیار کریں صرف یہی نہیں بلکہ ان سے متصادم بھی ہوئے اوربہت سوں کوواصل جہنم بھی کیا۔ (فرہنگ عاشورا،ص۲۴۱)۔
عاشوراکے اثرات :
عاشوراکے واقعہ نے انقلاب برپاکردیا، غفلت کی نیندمیں پڑے ہوئے لاپرواہ لوگوں کوبیدارکردیا، مردہ ضمیرانسانوں کوزندہ کردیا،مظلومیت اورانسانیت کی فریاد بلندکردی اور پوری دنیائے انسانیت کومتاثرکردیا۔ ان بے شمار آثارمیں سے چندایک ملاحظہ ہوں:
۱۔ بعض لوگوں کے افکار پر بنی امیہ کاجودینی اثر و رسوخ تھا وہ محو ہوگیا۔ کیونکہ نواسہ رسول خدا کی مظلومانہ شہادت نے ابنی امیہ کی حکومت کوبے اساس اور جہالت پرمبنی، ثابت کردیا اور ان کے ظلم وستم کو اسلامی معاشرے میں فاش کردیا جس پرہزاروں طرح کے فریب اوردھوکے بازی کے پردے پڑے ہوئے تھے۔
۲۔ مسلم معاشرے کو شرمساری گناہکاری کااحساس دلایا۔ کیونکہ حق حقیقت کی نصرت نہیں کی اورنہ ہی اپنے وظیفے کوانجام دیا۔ اسلام کی حفاظت ہرمسلمان پر واجب اوراسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت اور ان کانفاذ ہرمسلمان کا وظیفہ ہے۔ امام حسین نے اپنے وظیفہ پرعمل کرکے ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کو اپنی ذمہ داری کا احساس دلایا۔
۳۔ ظلم وجورکے خلاف آوازبلندکرنے اوراس کامقابلہ کرنے کے لئے ہرطرح کے خوف وہراس اوررعب ودہشت کوختم کردیا،جواس وقت مسلمانوں اوراسلامی معاشرے پرطاری تھا۔ اورمسلمانوں مجاہدوں کے اندرجرات،شہامت،دلیری اوربہادری کاجذبہ پیداکردیا۔
۴۔ دنیاکے سامنے یزیدیوں اوراموی حکومت کوذلیل ورسواکردیااوران کی اسلام دشمنی کوواضح کردیا۔
۵۔ انقلابی اوراصلاحی جنگوں کی حوصلہ افزائی اوران کی پشت پناہی کی اور لوگوں کو آزادی اور آزادگی کا درس دیا۔
۶۔ ایک نئے انسانی اوراخلاقی مکتب کی بنیاد ڈالی جوانسانیت کی پاسداری اوراخلاقی قدروں کی پاسبانی کاضامن ہے۔
۷۔ متعددمقامات پرمختلف ظالم حکومتوں کے خلاف نئے نئے انقلاب برپاکئے جہاں لوگوں نے حماسئہ کربلاسے درس لیتے ہوئے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کردیا اور اپنے اسلامی مذہبی حقوق کو واپس لینے کے لئے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔
۸۔ طول تاریخ کی تمام آزادی اور انقلابی تحریکیں عاشورا کی مرہون منت ہیں، جہاں سے ابھوں نے مقاومت،مجاہدت،شہامت،شجاعت اورشہادت کاتکا تصورلے کراپنی فتح کی ضمانت کردی۔
۹۔ کربلااورعاشورا،مسلمان انقلابی نسلوں کے لئے،عشق وایمان اور جہاد و شہادت کی ایک یونیورسٹی بن گیا۔
عاشوراکے برکات و ثمرات:
۱۔ اسلام کی فتح ہوئی اورمٹنے سے محفوظ رہا،کیونکہ منصب الہی پرغاصب خود ساختہ امیرالمومنین یزیدنے اپنے شیطانی کرتوتوں سے اسلام کے نام پراسلام کو اتنا مشتبہ کردیاتھا کہ حقیقی اسلام کی شناخت مشکل ہوگئی تھی، قماربازی، شراب خواری، نشے کا استعمال، کتوں سے کھیل کود، رقص اورعیش ونوش کی محفلوں کا انعقاد، غیراسلامی شعائر کی ترویج اوراشاعت، رعایاپرظلم وجور،حقوق انسانی کی پائمالی،لوگوں کی ناموس کی بے حرمتی وغیرہ جیسے بعض ایسے نمونہ ہیں کہ یزید نے حاکم اسلامی کے عنوان سے اپناروزمرہ کامعمول بنارکھاتھا،اورلوگ اسی کواسلام سمجھتے تھے امام حسین نے اپنے قیام کے ذریعہ حقیقی اسلام کویزیدی اسلام سے الگ کرکے پہچنوایااوردیناپریہ واضح کردیاکہ”یزید“ اسلام کے لباس میں سب سے بڑی ”اسلام دشمن“ طاقت ہے۔
۲۔ اہل بیت اطہارکی شناخت اس امت کے مثالی رہبر کے عنوان سے ہوئی، پیغمبر اسلام کے بعداگرچہ مسلمانوں کی تعداد کئی گنازیادہ بڑھ گئی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نامناسب قیادت اورغیرصالح نام نہاد رہبری کی وجہ سے مسلمان اصل اسلام سے دورہوتے گئے مفادپرست حاکموں نے اپنے ذاتی منافع کے تحفظ کی خاطرحلال محمدکوحرام اورحرام محمدکوحلال قراردے دیااوراسلام میں بدعتوں کاسلسلہ شروع کردیا،تاریخ گواہ ہے کہ صرف پچیس سال رحلت پیغمبراکرم کوگذرے تھے کہ جب حضرت علی نے مسجدنبوی میں ۳۵ہجری میں نمازپڑھائی تولوگ تعجب سے کہنے لگے کہ آج ایسے لگا،خودپیغمبرکے پیچھے نمازپڑھی ہو، لیکن ۶۱ھ میں اب نمازکاتصورہی ختم ہوگیاتھاایسے میں پیغمبراکرم کے حقیقی جانشین نے میدان کربلامیں تیروں، تلواروں اور نیزوں کی بارش میں، تیروں کے مصلے پرقائم کرکے اپنی صالح رہبری اور اسلام دوستی کاثبوت دے دیااوریہ واضح کردیاکہ اسلام کاحقیقی وارث ہروقت اور ہر آن اسلام کی حفاظت کے لئے ہرطرح کی قربانی دے سکتاہے۔
۳۔ امامت کی مرکزیت پرشیعوں کااعتقادمستحکم ہوگیادشمنوں کے پروپیگنڈوں اورغلط تبلیغاتی یلغارنے بعض شیعوں کے اعتقادات پرغیرمستقیم طورپرگہرا اثر ڈال رکھاتھا حتی کہ بعض لوگ امام کومشورے دے رہے تھے کہ آپ ایساکریں اورایسانہ کریں بعض لوگوں کی نظرمیں امامت کی اہمیت کم ہوگئی تھی۔ امام حسین کے مصلحانہ قیام نے ثابت کردیاکہ قوم کی رہبری کااگرکوئی مستحق ہے تووقت کاامام ہے اور بطوراحسن جانتاہے کہ کس وقت کونسا اقدام کرے اورکس طرح سے اسلام اصیل کومٹنے سے بچائے۔
۴۔ لوگوں کو آگاہ رکھنے کے لئے منبروعظ جیسااطلاع رسانی کاایک عظیم اور وسیع نظام قائم ہوا۔مجالس عزاداری کی صورت میں ہرجگہ اور ہر آن ایک ایسی میڈیا سیل وجود میں آگئی جس نے ہمیشہ دشمنوں کی طرف سے ہونے والی مختلف سازشوں، پروپیگنڈوں اورثقافتی یلغارسے آگاہ رکھااورساتھ ساتھ حق وصداقت کاپیغام بھی لوگوں تک پہونچتارہا۔
۵۔ عاشورا،ظلم،ظالم،باطل اوریزیدیت کے خلاف انقلاب کاآغازتھا۔ امام حسین نے یزیدسے صاف صاف کہہ دیاتھا کہ ”مثلی لایبایع مثلہ“ مجھ جیساتجھ جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا،یعنی جب بھی یزیدیت سراٹھائے گی توحسینیت اس کے مقابلے میں ڈٹ جائے گی جب بھی یزیدیت اسلام کوچیلنج کرے گی توحسینیت اسلام کوسربلندرکھے گی اوریزیدیت کونابودکرے گی یہی وجہ ہے کہ عاشوراکے بعد مختلف ظالم حکمرانوں کے خلاف متعددانقلاب رونماہوئے اورباطل کے خلاف رونماہونے والے کامیاب ترین انقلاب میں ایران کااسلامی انقلاب ہے جس نے ڈھائی ہزارسالہ آمریت کوجڑسے اکھاڑپھینکا اور اس باقی رکھنے کی سفارشات کیں۔ اوریہ عزاداری گریہ وزاری، رونا اور رلانا، مجالس، ذکرمصیبت، مرثیہ، نوحہ وغیرہ کی شکل میں پیش کی جاتی ہے،اوریہی عزاداری ہے کہ جس کی بناء پرآج تک دین اسلام زندہ اورباقی ہے۔
انقلاب کے عظیم رہبرامام خمینی نے صاف صاف فرمایاکہ ”ہمارے پاس جوکچھ ہے سب اسی محرم اورصفرکی وجہ سے ہے لہذایہ اسلامی انقلاب، عاشوراکاایک بہترین اورواضح ترین ثمرہ ہے جووقت کے یزیدوں کے لئے ایک بہت بڑاچیلنچ بن گیاہے جس کومٹانے کے لئے اس وقت پوری دنیامتحدہوگئی ہے۔
لیکن ہماراعقیدہ ہے کہ یہ انقلاب حضرت قائم (عج) کے انقلاب کامقدمہ ہے اوریہ انقلاب ،انقلاب مہدی(عج) سے متصل ہوکررہے گاانشاء اللہ۔