تاریخ کے ہردورمیں مسلمان علماء دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں نے اسلامی معاشروں کے اتحاد پر خاص توجہ دی ہے اور اس اہم میدان میں نہایت سعی وکوشش کی ہے ـ امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت کبری کے آغاز میں نامور شیعہ عالم دین شیخ طوسی نے `الخلاف` کے عنوان سے ایک اہم کتاب لکھی جس سے مذاہب اربعہ کے مابین فقہ تطبیقی اور فقہ مقارن کی راہ ہموار ہوئي ـ اس کے بعد عظیم المرتبت عالم دین علامہ حلی نے "تذکرہ" لکھ کر شیخ طوسی کی روش کو آگے بڑھایا۔
بعد کی صدیوں میں بھی سید حمال الدین اسدآبادی، شیخ محمد حسین کاشف الغطاء، شیخ محمد عبدہ،وغیرہ نے سیاسی و سماجی لحاظ سے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی گراں قدر کوششیں کیں ـ ، گذشتہ صدی میں لبنان میں آیت اللہ سید عبد الحسین شرف الدین ایران میں آیت اللہ بروجردی اور شیخ محمد علی قمی اور مصر میں شیخ محمد شلتوت اور شیخ محمد مدنی نے بھی اسی راستے کو اپنایا ـ انہیں ممتاز اور عظیم شخصیتوں کی گراں قدر خدمات کے سلسلے کو جاری رکھنے کے لۓ مصر کےصدرمقام قاہرہ میں `دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ` کے نام سے ایک مرکز کا قیام عمل میں آیا ـ اس سلسلے میں متعدد کتابیں اور جرائد شائع ہوۓ جلسوں اور کانفرنسوں کا اہتمام کیا گیا اور ان کی اہمیت اور افادیت کسی پرپوشیدہ نہیں ہے ۔ پہلی بار مختلف اسلامی فرقوں سے تعلق رکھنے والے رہنما اور علماء ایک جگہ پر ایک دوسرے کے نظریات سے آگاہ ہونے کےلۓ اکٹھاہوے اور الازہر یونیورسٹی نے بھی تمام اسلامی مذاہب کے لۓ مشترکہ طور پر تدریس کا انتظام کیا۔
فقہ تطبیقی کی ضرورت
امام موسی صدر کے نزدیک یہ ساری کوششیں اور اقدامات اتحاد بین المسلمین کے لۓ لازمی اور مثبت اقدامات تھے لیکن اتنا کافی نہیں تھا۔ وہ اپنی خاص روش کے تحت فقہی اتحاد پر یقین رکھتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ فقہی تطبیق وہ مقدس بنیاد ہے جس پرفقہی اتحاد کی عمارت استوار ہوگي اور شریعت کے احکام کا اتحاد اسی سے مکمل ہوتا ہے ـ ''(1)
ان کیا خیال تھا کہ ماضی میں بزرگوں کی کوششوں سے اس انتہائي اہم کام کے لۓ راہ ہموار ہو چکی ہے اور ہم اس وقت فقہی اتحاد سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ امام موسی صدر مختلف مسلک کے علماء کی ہم نشینی و گفتگو اور اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر کتابوں اور مقالوں کی اشاعت کو واحد موثر راستہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان خیال تھا کہ پوری دنیا میں آباد تمام مسلم فرقوں کے افراد بند مٹھی کی انگلیوں کی مانند ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں اور یہ امر فقہی اتحاد سے ہی ممکن ہے ـ
یہ بات تو واضح ہے کہ فقہی اتحاد سے امام موسی صدر کی مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان مفتیوں اور علماء کے فتووں میں کسی قسم کا کوئي اختلاف نہ ہو سب کے سب یکساں انداز میں سوچیں اور ایک ہی بنیاد اور معیار پر کام کریں۔ یہ ممکن بھی نہیں ہے ۔ امام موسی صدر احادیث کی روشنی میں امت مسلمہ کے درمیان نظریاتی اختلاف کو رحمت قرار دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے اختلاف سے فقہ کو مزید ترقی اور وسعت حاصل ہوگی۔ اس سے اجتہاد کی نشوو نمامیں مددملے گي لہذا جب تک نظریاتی اختلاف علمی نظریۓ کی حد تک ہے وہ باعث خیرو برکت اور ترقی و وسعت ہے۔ لیکن جب یہ نظریہ معاشرے میں فتوا اور حکم کی شکل میں تبدیل ہو جاۓ اور دینی شعار کی شکل اختیار کر لے تو اگر اس میں ہم آہنگی اور اشتراک نہ ہوا تو پھر مختلف فرقوں کے درمیان اختلاف تفرقہ اور ایک دوسرے کے تئیں غلط فہمیوں کا باعث ہوگا۔ اس سے بچنا بہت ضروری ہے ـ
امام موسی صدر فقیہ واسلامیات کے ماہر تھے انہوں نے دودھائیوں تک مشرق وسطی عالم اسلام اور مغربی دنیا کے اجتماعی اور سیاسی مسائل کا نزدیکی سے جائزہ لیا ہے اور اسلام و مغرب کی اہم سیاسی اور مذھبی شخصیتوں سے قریبی رابطے میں رہے ہیں وہ اسلام ومغرب کی تاریخ سے مکمل آشنائی رکھتے تھے وہ مسلمانوں کے مسائل سےبھی بخوبی واقف تھے
انہیں یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا تھا کہ ہر سال موسم حج میں اسلام کی عظیم اور بے مثال قوت جزئي اور ضمنی فقہی اختلافات کے سبب ضا ئع ہو رہی ہے ۔ وہ مسلم ممالک کے شرعی افق پر اتحاد کا سورج چمکتے دیکھنا چاہتے تھے ان کی کوشش یہی رہتی تھی کہ غرہ شوال کا چاند دیکھنے کے سلسلے میں جو اختلافات سامنے آتے ہیں وہ رویت واحد اور افق واحد کی حلاوت سے ختم ہوجائيں اور اس سنہری موقع کو مسلمانوں کی سربلندی وقار اور رشد و ترقی کے لۓ استعمال کیا جا سکے ـ
امام موسی صدر کی یہانتک کوشش رہتی تھی کہ جماعت کی نمازیں، اذانیں، وفات کی تاریخیں اور عیدیں تمام مسلم ممالک میں ایک ساتھ اور ایک وقت میں منائي جائيں کیوں کہ یہ صورت حال دشمنان اسلام خاص طورسے سامراج کے لۓ ایٹم بم سے بھی زیادہ فائدہ مندثابت ہوگی لیکن اگر مسلمان اس نہج پر متحد ہونے کی کوشش کریں گے تو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیشہ کے لۓ مضبوط ہو جائیں گے۔
امام موسی صدر نے پہلی دفعہ سن انیس سو نواسی میں ستائيس رجب المرجب کو عید سعید مبعث کے موقع پر لبنان کےاہل سنت کے مفتی شیخ حسن خالد کے نام اپنے ایک خط میں یہ مسئلہ اٹھایا اس کے بعد اسی سال ذی الحجہ کے مہینے میں جب انہوں نے قاہرہ میں ابحاث اسلامی کونسل کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی تو ایک تفصیلی تقریر میں عالم اسلام کی ممتاز شخصیتوں کے سامنے فقہی اتحاد سے متعلق اپنا موقف بیان کیا اور اجلاس میں ایک مدون تجویز پیش کی جس کا حاضرین نے بڑا استقبال کیا اور امام موسی صدر کو ابحاث اسلامی کونسل کا مستقل رکن منتخب کیا گیا۔
امام موسی صدر نے قاہرہ سے شائع ہونے والے جریدے المصور سے گفتگو میں اتحاد کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوۓ ایک بار پھر فقہی اتحاد پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اتحادبین المسلمین فقہی اتحاد کےبعد ممکن ہوگا مختلف مذاہب کے علماء اور فضلاء کی گفتگو ہی اس کے لۓ کافی نہیں ہے ۔ کیوں کہ ہر مسلک اپنے پیروکاروں کی دل وجان میں سمایاہوا ہے۔ اتحاد مسلمین کے لۓ میری امید فقہی اتحاد سے وابستہ ہے ۔ عالم اسلام میں قاہرہ کو خاص مقام حاصل ہے یہ جگہ اس ہدف کی تکمیل میں بہت موثر کردار ادا کر سکتی ہے ۔
امام موسی صدر ہر موقع سے فائدہ اٹھاکر عالم اسلام کی سیاسی اور مذہبی شخصیات سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کرتے تھے ۔ اس کے اگلے سال انیس اپریل سن انیس سو اکہتر کو ابحاث اسلامی کونسل کے چھٹے اجلاس میں شرکت کی اور نہر سویز میں تعینات فوجیوں سے ملاقات کے موقع پر اسرائیل کے خلاف جہاد کی ضرورت پر زور دیا اور شعائر دینی کے اتحاد کے زیر عنوان فقہی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ۔
سن انیس سو تہتر میں بھی الجزائر میں" اسلامی فکر کی شناخت"کے زیرعنوان منعقدہ کانفرنس میں بھی امام موسی صدر نے شرکت کی اور المجاہد جریدے کو انٹرویو دیتے ہوۓ اس انتہائي اہم موضوع پر تاکید کی ۔
فقہی اتحاد کا امکان
فقہ کا موضوع افعال مکلف ہے اورفقہ ایک مسلمان کے لۓ گہوارے سے لیکر گورتک کا دستورالعمل ہے بنابریں حقیقی اتحاد اسی صورت میں معرض وجود میں آۓ گا جب یہ اتحاد فقہی بنیادوں پر استوار ہو ورنہ اتحاد صرف دکھاوٹی اور ناپائدار ہوگا۔ انہیں اس اتحاد پر پورا یقین تھا اور اس کو ممکن بھی سمجھتے تھے۔ ابحاث اسلامی کونسل کے پانچویں سالانہ اجلاس میں جب امام موسی صدر نے فقہی اتحاد کےلۓ ایک مدون تجویز پیش کی تو بلا تفریق شیعہ و سنی تمام حاضرین نے اس تجویز کا والہانہ استقبال کیا۔
امام موسی صدر کی نگاہ میں فقہی اتحاد وہ گرانبہا گوہر تھا جس کے حصول کے لۓ مسلم معاشروں میں کوئي کوشش نہیں کی گئی تھی۔ اپنے استاد آیت اللہ بروجردی کے زمانے میں امام موسی صدر نے نزدیک سے اس گوہر کی ضوء فشانی اور اس تحریک کے ایک چھوٹے سے حصے کو عملی جامہ پہنتے دیکھا تھا۔ لہذا ان کے خیال میں عالم اسلام فقہی اتحاد سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا ہے ۔ آیت اللہ بروجردی جو عالم اسلام کے مایہ ناز فقیہ تھے فقہی اتحاد کے حامی تھے آپ نے ایک انتہائی اہم اقدام کرتے ہوۓ حج سے متعلق ایسے چار سو فتوے اور احکام جن سے متعلق روایتیں اہل سنت علماء نے صحاح ستہ اور دیگر کتابوں میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے نقل کی ہیں سعودی عرب کے حاکم کو ارسال کیں تاکہ عالم اسلام کا عظیم اجتماع یعنی حج کے اعمال مشترکہ طور پر اور پوری ہم آہنگی کے ساتھ انجام دۓ جائيں اور اس توحیدی جلوہ گاہ سے عالم اسلام اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ فیض حاصل ہو۔
ایک خط میں ارسال کۓ جانے والے یہ فتوے اور احکام عالم اسلام کے علماء وقت کی داد و تحسین کا مرکز بنے اور اس پورے خط کو رسالۃ الاسلام نامی جریدے اور سعودی عرب کے دیگر اخبارات میں شائع کیا گيا۔
امام موسی صدر کے خیال میں فقہی اتحاد کے عملی شکل اختیار کرنے کی بنیادی شرط عالم اسلام کے دانشوروں اور رہنماؤں کی ہمہ گیر سعی و کوشش ہے اگر مختلف اسلامی فرقوں کے رہنما اس اتحاد کی ضرورت کا احساس کریں اور اس سلسلے میں کوشش کریں تو امت مسلمہ بہت جلد اس عظیم تحریک کا ثمرہ حاصل کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام موسی صدر نے لبنان کے مفتی اہل سنت شیخ حسن خالد کے نام اپنے خط میں تمام باضمیر اور نیک نیت افراد کو اس عظیم اسلامی ہدف تک رسائي کے لۓ تعاون کی دعوت دی۔
فقہی ہم آہنگی،
موجودہ دور کی اولین ضرورت سن انیس سو ساٹھ اور ستر کے عشرے میں امام موسی صدر نے فقہی اتحاد پر بہت زیادہ زور دیاجس وقت پوری دنیا مغربی اور مشرقی دو بلاکوں میں منقسم تھی اور ایسے بہت سے حساس واقع
ات پیش نہیں آۓ تھے جو اب رونماہو چکے ہیں۔
اس وقت تو سوویت یونین کا خاتمہ ہو چکا ہے اور دنیا یک قطبی نظام کی جانب گامزن ہے اور امریکہ کی سرکردگي میں مغربی سامراج تمام اقوام کو اپنی پیروی کے لۓ مجبور کر رہا ہے دوسری جانب سائنسی ترقی کے نتیجے میں دنیا گلوبل ولیج بن گئی ہے اور عالم اسلام اس گاؤں کا ایک چھوٹا سے محلہ بن گیا ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے درمیان فقہی اتحاد کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس وقت عالمی سامراج اور صیہونزم اپنی غنڈہ گردی کے ذریعے مسلم ممالک کے ذخائر لوٹ رہے ہیں مسلمانوں کے مادی و روحانی خزانوں کو شیطانی روشوں سے تاراج کیا جا رہا ہے تو ایسے میں امت مسلمہ کے دینی اور سیاسی قائدین کا اولین فریضہ ہے کہ تفرقے اور اختلاف کے جملہ عوامل و اسباب سے پرہیز کریں اور فقہی اتحاد کو عام کرنے کے لۓ کوئی بنیادی تدبیر کریں۔ اسلام و مسلمانوں کے وقار کی حفاظت کا راستہ تلاش کریں۔ اس وقت یہ دانشمندی نہیں ہے کہ ہمارے گھروں اور گلیوں سے تفرقہ انگیز آوازیں سنائی دیں۔ اور ہر شخص اپنے طور پر اور ہر گروہ اپنے انداز میں احکام اسلامی پر عمل کرنے پر اصرار کرے۔ آج عالم اسلام کو عالمی کفر و شرک و نفاق کا مقابلہ کرنے اور عظیم اور ہمہ گیر اسلامی تہذیب و ثقافت کے احیاء کےلۓ حقیقی اتحاد و یکجہتی کی ضرورت ہے اور یہ ہدف فقہی اتحاد کے زیر سایہ ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ مقدس شہر قم میں اسلامی علوم کے عالمی مرکز میں فقہا علماء اور دانشوروں میں اس ہدف کے لۓ مناسب جذبہ اورسعی و کوشش دکھائي دے رہی ہے مرحوم آیت اللہ بروجردی کی کوششوں کے علاوہ جن کی جانب پہلے اشارہ کیا گيا دیگر دو فقہاء مرحوم آیت اللہ مہدی روحانی اور مرحوم آیت اللہ میرزا علی احمدی میانجی نے مل کر جدت عمل کا مظاہرہ کیا اور "احادیث اہل البیت عن طرق اہل السنۃ" کتاب کی شکل میں اپنی لا فانی یادگار چھوڑی ہے اور اس طرح موجودہ اور آیندہ ادوار کے نوخیز مسلم رہنماؤں اور علماء کے لۓ فقہی اتحاد کے سلسلے میں بنیادی کام کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔ ان عظیم شخصیات کی علمی کاوشوں کی قدردانی کا واحد راستہ، نشیب و فرازسے بھرے ان کے اس راستے پر آگے بڑھنا اور اس تحریک کو وسیع و ہمہ گیر بنانا ہے۔ یہ مقالہ حوزہ علمیہ کے جریدے پگاہ کے شمارہ نمبر دو سو چار میں شائع ہوا ہے ۔
------- فوٹ نوٹ؛
بخشی از نامہ وی بہ شیخ حسن خالد
ر،ک؛ مجلہ سروش، ش 161،سال چہارم، ص 34 و امام موسی صدر، سروش وحدت، ص 96 امام صدر، سروش وحدت، ص 106
متن کامل این مصاحبہ روز 7/3/1970 در روزنامہ الانوار لبنان بہ چاپ رسید ر،ک؛ روزنامہ المحرر،بیروت، 20/3/1971 م
ر،ک؛ روزنامہ المجاہد، ش 678، 13 رجب 1393 و 1973 م
امام موسی صدر، امید محرومان، ص 277
مجلہ حوزہ، ش 43-44، ص 83
زندگی آیت اللہ بروجردی، محمد واعظ زادہ خراسانی، ص