اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

اعجاز قرآن

مالک کائنات نے اپنے نمائندوں کی نمائندگی کے اثبات کے لےے مختلف ذرایع اختیار کئے ہیں اور ہر بنی کو کوئی نہ کوئی ایسا کمال دے کر بھیجا ہے کہ جس سے اس کا امتیاز ثابت ہو جائے اور اس دور کے سارے افراد کو یہ محسوس ہو جائے کہ یہ فوق البشر طاقت کا حامل ہے اور اس کے کمالات بشری کمالات نہیں ہےں بلکہ ان کی پشت پر کوئی غیبی طاقت کام کر رہی ہے۔
اسی کا ر نمایاں کا نام معجزہ ہے اور معجزہ کا وجود اسی لےے ضروری ہے کہ نبی یا امام کی نمائندگی ثابت ہو جائے اور سماج کو ان کی عظمت و برتری کا مکمل احساس ہو جائے ۔
یہ معجزات ہر دور میں مختلف انداز کے رہے ہیں اور ان کی جامع صفت یہ رہی ہے کہ جس دور نے جس کمال میں امتیاز پیدا کیا ہے اس دور کے منصب دار کو اسی سے ملتا جلتا معجزہ دیا گیا ہے تاکہ پورے دور کو اندازہ ہو جائے کہ یہ بغیر تجربہ و تمرین وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو ہزاروں تجربات کے بعد ہم نہیں کر سکتے ہیں۔
سابق انبیاء کے معجزات اور ہمارے نبی کریم کے معجزات کا ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ ان کی نبوتیں ختم ہو نے والی تھیں انھیں ایسے معجزات کی ضرورت تھی جو وقتی طور سے ان کی برتری کو ثابت کردے چاہے ان کے بعد ان کا وجود نہ رہ جائے اور ہمارے نبی کی نبوت صبح قیامت تک باقی رہنے والی تھی۔ آپ کو ایسے معجزہ کی ضرورت تھی جس کا سلسلہ صبح محشر تک قائم رہے۔ قرآن حکیم اسی مقصد کی تکمیل کے لئے معجزہ بنایا گیا ہے۔
اس کے علاوہ سابق شرائع اور شریعت پیغمبر کا ایک نمایاں فرق یہ بھی ہے کہ ان ادوار میں انسانیت گھٹنیوں چل رہی تھی۔ اس کی ترقی محدود اور طول کے اعتبار سے انتہائی ناقص تھی اور حضور سرور کائنات کا دور شریعت قیامت سے مل جانے کی بناء پر اتنا وسیع ہے کہ اس میں انسانیت کی ترقی کی رفتار تیز تر ہونے والی اور طولی اعتبار سے آسمانوں سے بات کرنے والی تھی۔ اس لےے آپ کو ایک ایسے معجزہ کی ضرورت تھی جس میں جملہ علوم وفنون کا ذخیرہ اور بشری ترقی کا جواب موجود ہو۔ تاکہ آئندہ آنے والی نسلیں یہ نہ کہہ سکیں کہ قرآن اس دور ترقی کے لےے بے کار ہے اور اس میں کوئی افادیت نہیں۔ قرآن مجید اس ضرورت کی بھی تکمیل کرتا ہے۔ اس کے دامن میں ایسے عظیم مطالب و مفاہیم موجود ہیں جہاں تک ذہن بشر کی رسائی نہیں ہے اور جنکے ادراک سے کمال عقل بھی عاجز ہے اور اسی لےے اس نے اپنے چیلنج کو وقتی نہیں بنایا بلکہ اپنے ہی دامن میں محفوظ کرلیا تاکہ ہر دور میں یہ آواز باقی رہے اور ہر زمانہ کا انسان اپنی اپنی فکری پرواز کے اعتبار سے اس کی عظمتوں کا اندازہ کرتا رہے۔ کوئی اسے فصاحت و بلاغت کا شاہ کار سمجھ کر اس کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا، کوئی اس کی غیبی خبروں پر ایمان لائے گا کوئی اس کے علمی اکتشافات کے سامنے سر جھکائے گا، کوئی اس کی عصری ترقی سے بلندی پر اعتماد کرے گا اور اس طرح ہر دور ترقی میں اس کی عظمت کااحساس برقرار رہے گا۔
کل کے افراد اس حقیقت کا تجربہ کر چکے ہیں اور آج کے انسانوں کے لےے اس کا چیلنج باقی ہے۔ کل کے فصحاء عرب اس کی عظمتوں کے سامنے سر جھکا چکے ہیں اور آج والوں کا سجدہٴ نیاز باقی ہے۔ کیا تاریخ اس حقیقت سے انکار کر دے گی کہ جب کتاب حکیم کا جواب تیار کرنے کے لےے بلند ترین ادیب کا تقرر کیا گیا تو اس نے بھی کئی دن تک غور کرنے کے بعد یہ اعلان کر دیا کہ یہ کلام بشر نہیں ہے یہ تو ایک جادو معلوم ہوتا ہے۔ جادو کہنا فیصلہ کرنے والے کی ذہن کی پستی ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جادو میں وہ عظمتیں کہاں ہوتی ہےں جو قرآن کی فصاحت و بلاغت میں پائی جاتی ہیں۔
جادو کی تاثیر وقتی ہوتی ہے اور قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا ڈنکا آج بھی بج رہا ہے۔ جادو کا توڑ عرب کے پاس موجود تھا لیکن معجزہ کا جواب ممکن نہیںتھا ورنہ دیوار کعبہ سے اپنے قصائد نہ اتارے جاتے۔
اتنے واضح حقائق کے ہوتے ہوئے بھی بعض تعصب پیشہ افراد نے عظمت قرآن کو مجروح کر نے کے لےے مختلف اعتراضات و احتمالات قائم کےے ہیںاور سب کی پشت پر ایک ہی جذبہ رہا ہے کہ کسی طرح کتاب کریم کی عظمت پامال ہو جائے اور دنیا اس کی برتری کا اقرار نہ کرسکے۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ ”والله متم نوره ولو کره المشرکون۔“
صاحب عماد الاسلام نے اس موضوع پر کافی سیر حاصل تبصرہ کیا ہے اور اعجاز قرآن پر بے شمار اعتراضات نقل کر کے ان کا جواب دیا ہے لیکن مجھے صرف ان چند اعتراضات سے غرض ہے جو آج کی دنیا میں نقل کےے جاتے ہیں اور جنہیں لوگ اپنی قابلیت کا شاہ کار سمجھتے ہیں ان اعتراضات کی مختصر فہرست یہ ہے:
۱۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات اےسے ہیں جہاں عربی قواعد کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور جو کلام قوانین و قواعد کے خلاف ہوتا ہے اسے فصیح و بلیغ بھی نہیں کہا جا سکتا چہ جائےکہ اسے معجزہ کا مرتبہ دے دےا جائے۔
اس اعتراض کا مختصر جواب یہ ہے کہ عربی زبان کے ادبی قواعد کچھ بندھے ٹنکے اصولوں کا نام نہیں ہے جن کی مخالفت کلام کو بلاغت و فصاحت سے خارج کردے بلکہ یہ قرآن مجید کے نزول کے ایک عرصہ بعد اہل زبان کی استقرائی کوشش ہے جس میں کلام عرب کا جائزہ لے کر اکثر کلمات کی نوعےت کو دےکھتے ہوئے کچھ قواعد مقرر کر دئے گئے ہیں اور بعد میں آنے والی نسلوں نے اسی کا اتباع کیا ہے۔ ایسی صورت میں یہ کس قدر مہمل بات ہے کہ عرب کے سارے کلام کو قوانین کا مصدر و مدرک تسلیم کیا جائے اور قران حکیم کو نظر انداز کر دےا جائے۔یہ صورت حال تو خود اس بات کی دلیل ہے کہ قانون سازوں نے مکمل استقراء نہیں کیااور اس کلام کی طرف سے بے توجہی برتی ہے جو عربی زبان کی جان اور ادب کی روح ہے۔
اس دعوی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جب آیات قرآنیہ کو عرب کے ادبی شاہکارکے مقابلے میں پیش کیا گیا تو ان لوگوں نے اپنے قصائد اتار لئے اور قرآن کے ما فوق البشرہونے کا اقرار کر لیا۔اسکا جواب لانے سے عاجز ہونے کا اعتراف کیا اور واضح لفظوں میںاشارہ کردےا کہ جس کلام میں اہل زبان کو گنجائش اعتراض نہیں ہے اس کلام پر بعد کے آنے والے قانون و قواعد کے غلاموں کو انگلی اٹھانے کا حق کیونکر ہو سکتا ہے۔
یہیں سے اس اعتراض کی حقےقت بھی بے نقاب ہو جاتی ہے کہ کلام کی فصاحت و بلاغت اور اسکے اسلوب و انداز کو صرف خواص ہی محسوس کر سکتے ہیں اور معجزہ اس غےر معمولی مظاہرہ کا نام ہے جسکا ادراک عوام وخواص سب کے لئے برابر ہوتا ہے کہ سب ایمان بھی لاسکیں ۔
اس لئے کہ یہ بات اپنے مقام پر مسلم ہے کہ معجزہ کو عوام و خواص سب کے لئے یکساں طور پر معجزہ ہونا چاہئے لیکن اسکا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کا جواب لانے سے دونوں طبقے یکساں طور ہر عاجز ہوں۔نہ یہ کہ دونوں ادراک میں مساوی ہوں اور برابر سے معجزہ ہونے کا احساس رکھتے ہوں۔ ایساہونا تو غےر ممکن ہے اس لئے کہ نہ دونوں کاذہن ایک سطح پر آسکتا ہے اور نہ دونوں کا ادراک و احساس برابر ہو سکتا ہے۔ بلکہ یہی عدم مساوات معجزہ کے کمال کی دلیل ہے کہ عوام تو عوام ،خواص بھی اسکا جواب لانے سے قاصر ہیں اور جس بات کے لاجواب ہونے کا اقرار کواص کو ہو عوام کے اقرار نہ کرنے کا کوئی محل ہی نہیں ہے۔
۲۔ قرآن مجید کا بیان ہے کہ وہ واضح و فصیح عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور عرب دنیا کے سارے کمالات سے عاری فرض کےے جاسکتے ہیںلیکن اپنی زبان سے بہر حال واقف و با خبر تھے۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ نظم و نثر ہرقسم کے کلام کی ترتیب پر قادر ہوں اور تنہا قرآن ہی کے جواب لانے سے قاصر ہوں۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے اس کلام کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا۔ یا قابل توجہ سمجھ کر جواب دیاتھا اور بعد میں وہ جواب زمانہ کی دستبرد کا شکار ہو گیا اور آئندہ نسلوں تک نہیں پہونچ سکا۔
واضح سی بات ہے کہ اس اعتراض کے تین گوشے ہیں۔ پہلا رخ یہ ہے کہ عرب نثر و نظم پر قادر تھے تو قرآن کا جواب لانے پر بھی قادر رہے ہونگے یہ اور بات ہے کہ جواب نہیں لائے اور جواب نہ دینا کسی کلام کے لا جواب ہونے کی دلیل نہیں ہے۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ بات دنیا کے ہر ادب میں پائی جاتی ہے جہاں اہل زبان الگ الگ کلمات کی ترکیب پر مسلم طور پر قادر ہوتے ہیں لیکن کسی ایک کلام کا مثل لانے سے عاجز رہ جاتے ہیں۔ اردو کا کونسا ادیب یا شاعر ہے جس نے نظم و نثر میں اپنے ما فی الضمیر کا اظہار نہ کیاہو لیکن کیا کسی کی مرصع نثر “طلسم ہوشربا” اور “فسانہ عجائب” بن سکی۔ کوئی محمد حسین آزاد کی سی نثر لکھ سکا، کسی کی عبارت میں ابو الکام آزاد کا جلال تحریر اور میر امن کی سادگی پیدا ہوسکی۔ کوئی شاعر اقبال کی فکر اور جوش کی گرج پیدا کرسکا، کسی کے یہاں غالب کا فلسفیانہ تغزل اور انیس کا شگفتہ مزاج دیکھنے میں آیا۔ ذوق کا آہنگ اور میر کا ترنم اب بھی کانوں میں رس گھول رہا ہے حالانکہ سب کے سب اسی زبان کے نثر نگار اور شاعر ہیں جس کے ادیبوں کی فہرست مرتب کرنا دشوار ہے، اور یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کلمات و فقرات پر قدرت اور ہے اور مرتب کلام پیش کردینے پر اختیار اور۔
اس مقام پر یہ تصور نہ کیاجائے کہ ایسی حالت میں دیوان غالب اور مرثیہ انیس کو بھی معجزہ تسلیم کرلینا چاہئے کہ ان کا جواب بھی اردو ادب میں نہیں پیدا ہوسکا۔ اس لےے کہ ان میں معجزہ کی بنیادی شرطوں کا فقدان پایا جاتا ہے معجزہ کی پہلی شرط یہ ہے کہ اسے دعوئے نبوت و امام کے ثبوت میں ہونا چاہیے اور یہاں کسی شاعر نے منصب الہی کا دعوی نہیں کیا بلکہ حق و انصاف کی بات یہ ہے کہ اگر ایسا دعوی کر دیا ہوتا تو حکمت الہیہ کا فرض تھا کہ یہ قوت فکر سلب کرلے اور ایسا کوئی کلام منظر عام پر نہ آنے دے جو حق و باطل میں التباس و اشتباہ کاسبب بن جائے اور طالبان حقیقت کی راہ میں سنگ راہ واقع ہوجائے۔
دوسری اہم شرط یہ ہے کہ معجزہ کسی مشق و تمرین کا نتیجہ نہیں ہو سکتا وہ ایک غیبی امداد اور قدرتی تائید ہے جو صرف اپنے نمائندوں کے ساتھ رکھی جاتی ہے اور بس۔ اور کھلی ہوئی بات ہے کہ ان تمام ادیبوں اور شاعروں کا ابتدائی کلام ہمارے پیش نظر ہے یا ہمیں اس کی اطلاع ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان کا کمال فن مشق و مہارت کا نتیجہ تھا اور اس کو براہ راست غیبی امداد حاصل نہ تھی جبکہ معجزہ براہ راست غیبی ترجمانی ہی کا نام ہوتا ہے۔
اعتراض کا دوسرا گوشہ یہ ہے کہ عرب اس قرآن کا جواب لانے پر مکمل اختیار رکھتے تھے لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی یا توجہ کی لیکن حالات نے جواب نہیں لکھنےء دیا اور مسلمانوں کو اقتدار و اختیار اس راہ میں حائل ہو گیا۔
اس اعتراض کا تاریخی جواب یہ ہے کہ جواب لانے والوں نے توجہ دی اور جواب لانے کی کوشش بھی کی اور آخر میں اسے ما فوق البشر کہہ کر اپنی عاجزی کا اقرار بھی کر لیا۔ اسلام و کفر کے درمیان معرکہ آرائیوں کا انکار کیونکر کیا جاسکتا ہے اور اس حقیقت سے کیونکر چشم پوشی کی جاسکتی ہے کہ رسول اسلام کو جنگ و جدل اور تیر و تلوار سے کہیں زیادہ آسان طریقہ یہی تھا کہ ان کے معجزہ کی حقیقت کو بے نقاب کر دیا جائے اور جس بنیاد پر وہ اپنے نمائندہٴ الہی ہونے کا دعوی کر تے ہیں اسے جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور جنگ کا میدان گرم ہوتا رہا۔ جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ دشمن آسان طرز جواب پر قادر نہیں تھا اور مجبوراً اسے جنگ و جدل کا راستہ اختیار کرنا پڑا تھا۔
قدرت کے بعد مسلمانوں کے جاہ و جلال کی بناء پر جواب ظاہر نہ کرنے کی بات انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ مسلمانوں کا جاہ جلال اعجاز قرآن کے کامیاب ہو جانے کانتیجہ ہے اور رسول اسلام کا چیلنج اس عہد کا ہے جب آپ مکہ کی گلیوں میں پتھر کھا رہے تھے اور کانٹوں پر راستہ چل رہے تھے ۔ ایسے حالات میں کس قدر آسان تھا کہ ان کے معجزہ کا جواب پیش کرکے ان کی دلیل کو باطل کر دیا جاتا اور وہ جاہ جلال پیدا ہی نہ ہوسکتا جسے بعد کے حالات میں خطرہ بتایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کے خوف کی بات عجیب وغریب ہی ہے اس لےے کہ انھیں مسلمانوں کے عہد میں اہل کتاب کی کتابیں محفوظ رہیں، انھیں مسلمانوں سے کفار نے طاقت آزمائیاں کی ہیںپھر کیا وجہ ہے کہ کسی مقام پر مسلمانوں کا خوف غالب نہیں ہوا، اور صرف کتاب حکیم کا جواب لانے کے لےے یہ خوف آڑے آگیا۔
اعتراض کا تیسرا رخ تاریخ کے ظلم اور اس کی خیانت سے متعلق ہے جہاں مدعی کا یہ خیال ہے کہ اہل عرب نے کتاب حکیم کا جواب پیش کردیا تھا لیکن زمانے کے حالات نے اسے تلف کر دیا اور وہ آج ہم تک نہ پہونچ سکا۔ ظاہر ہے کہ یہ رخ کسی جواب کا مستحق نہیں ہے اور نہ اس پر کوئی دلیل قائم کی گئی ہے جسے باطل کرنے کا اہتمام کیا جاتا۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس توہّم نے جبر تاریخ کی روشنی میں ایک اہم حقیقت کاپتہ دے دیا۔
قانون جبر تاریخ اس بات کا گواہ ہے کہ جب بھی کسی دور میں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس میں زندہ و پایندہ رہنے کی صلاحیت اور دوام و استقرار کی استعداد پائی گئی ہے تو تاریخ نے تمام موانع کے علی الرغم واقعہ کو زندہ رکھا ہے اور صفحہ ہستی سے مٹنے نہیں دیا ہے۔
اسلامی تاریخ میں اس کاواضح ثبوت واقعہ کربلا ہے جس کے مٹانے کے لےے صدیوں تک اسباب فراہم کےے گئے ہیں، حکومتوں نے زور صرف کیا ہے۔ اقتدار نے طاقت آزمائی کی ہے تخت و تاج کی بازی لگائی گئی ہے۔ اہل حق سے قید خانوں کو آباد کیا گیا ہے باطل کو مکمل چھوٹ دے کر حق کے دہن پر قفل لگائے گئے ہیں لیکن اس کے با وجود اس کے سرمدی عناصر کی بنا پر تاریخ نے اسے زندہ رکھا ہے اور باطل کی ہواوٴں سے اس شمع کو بجھنے نہیں دیا۔
ایسے حالات میں قرآن حکیم کے مقابلہ میں پیش ہونے والا کلام اگر اتنا ہی جاندار ہوتا جتنا جاندار قرآن حکیم ہے تو تاریخ اسے بھی اسی طرح زندہ رکھتی جیسے اس نے اس کتاب کو زندہ رکھا ہے لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا اور قرآن زمانے کی تیز و تند ہواوٴں اور حکومتی خواہشات کے جھگڑوں کی زد پر اپنی پوری تابناکیوں کے ساتھ زندہ رہ گیا۔ اور اس کا مذموم جواب فنا کے گھاٹ اتر گیا، یا عدم کے پردہ میں رو پوش ہوگیا جو اس بات کازندہ ثبوت ہے کہ قرآن میں زندگی کے عناصر ہیں اور ان جوابات میں ایسے عناصر نہ تھے۔
اس سے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ بعض مختصر جوابی فقرات و کلمات اب بھی تاریخ میں درج ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ زمانے نے جوابات کی بقاء پر پابندی نہیں عائد کی تھی اور انھیں اپنی گود میں اسی لےے محفوظ کر لیا تھا کہ آنے والا دور فیصلہ کرسکے کہ قرآن حکیم اور ان منتشر کلمات میں کیا نسبت ہے اور کسے معجزہ کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
بعض انگور کو کھٹا کہہ دےنے والے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ قرآن مجید میں کوئی شوکت الفاظ، جذالت و سلاست او رروانی و آسانی نہ تھی یہ امتداد زمانہ اور کثرت استعماکل کا اثر ہے جو وہ اسقدر رواں دواں معلوم ہوتا ہے اور دنیائے اسلام اس کی سلاست و جذالت کا پرچار کر رہی ہے۔ اس کی طرح دوسرا کلام بھی صبح و شام تلاوت کیا جاتا تو اس میں بھی وہی روانی ہوتی جو قرآن حکیم میں پائی جاتی ہے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوسکا اور دیگر بیانات و کلمات زمانے کی بے رخی کی نذر ہو گئے۔ لیکن یہ بات خود بھی میرے دعوی کی ایک دلیل ہے کہ دنیا نے قرآن حکیم کو اپنا اسے مرکز تلاوت قراٴت بنایا لیکن دوسرے کلمات کو اہمیت نہیں دی اور اس کے طرز عمل نے فیصلہ کردیا کہ کونسا کلام گلے لگانے کے قابل ہے اور کونسا کلام نسیاں کی نذر کر دینے کے لایق ہے۔
اس کے علاوہ اس اعتراض کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ اس میں کثرت استعمال کوسلامت و روانی اور انس ذہنی کا سبب قرار دیا گیا ہے حالانکہ فطرت بشر کا مسلّم فیصلہ ہے کہ کوئی بھی کلام کثرت تکرار سے اپنا اثر و لطف کھو بیٹھتا ہے اور لوگ اس کی طرف زیادہ توجہ نہیں کرتے۔ ایک قصیدہ ایک ایک وقت میں نادر و نایاب معلوم ہوتا ہے لیکن دوسرے وقت میںوہی قصیدہ انتہائی مہمل اور بے معنيٰ معلوم ہوتاہے۔ صرف اس لےے کہ پہلے ابتدائی طور پر سنا تھا او ہر جدید میں لذت ہوتی بھی ہے اور اب کئی مرتبہ سننے کے بعد سنا ہے اس لےے طبیعت اس کی طرف مائل نہیں ہوتی اور اسے وہ جذب و کشش حاصل نہیں ہے جو ابتدائی طور پر ہوا کرتی ہے۔
۳۔ قرآن کریم کی اعجازی حیثیت پر تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اس کے بیانات میں تضاد اور اختلاف بکثرت پایا جاتاہے اور الہامی کتاب کو ایسا نہیں ہونا چاہئے تضاد کی چند مثالیں یہ ہیں:
الف) جناب ذکریا کے واقعہ میں ایک مقام پر ارشاد ہوا ہے کہ ”آیتک الّا تکل الناس ثلاثة ایام الا رمزاً “۳۔۴۱، اور دوسرے مقام پر بیان کیا گیا ہے ”آیتک الا تکلم الناس ثلاث لیال سویا“۔۱۹۔۱۰
یعنی ایک مقام پر علامت تین دین کے سکوت کو قرار دیا گیا ہے اور دوسرے مقام پر تین رات کے سکوت ہو۔ جب کہ دونوں صورتوں میں مقدار سکوت میں قطعی طور پر فرق ہو جائے گا۔
ظاہر ہے کہ اس اعتراض کی تمام تر بنیاد یہ ہے کہ عربی زبان میں یوم کا تصور لیل کے تصور سے بالکل مختلف ہے اور قرآن مجید نے دونوں کو ایک مرکز پر جمع کر دیاہے، حالانکہ اس کے خلاف شواہد خود قرآن مجید میں موجود ہیں جہاں یوم لیل و نہار کے مجموعہ کو بھی کہا گیا ہے اور لیل کے مقابلہ میں تنہا نہار کو بھی۔ اور اسی طرح لیل کا استعمال مجموعہ کے لےے بھی ہوا ہے اور تنہا شب کے لےے بھی ۔
اہل نظر ان مقامات کا مطالعہ کرنے کے بعد خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ قرآن حکیم کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ سارا تضاد انسانی فکر و فہم کا ہے جس نے بیان پر نظر کرنے کے بعد حالات کو قطعی طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔
بعینہٖ اس قسم کا اعتراض خلقت ارض وسماء کے بارے میں ہے جسے ایک مقام پر چھ دن کا نتیجہ عمل قرار دیا گیا ہے اور دوسرے مقام پر اس سے کم۔ حالانکہ وہاں بھی کوئی تضاد نہیں ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک مقام پر اجمالی طور پر چھ دن کا تذکرہ ہوا ہے، اور دوسری جگہ پر اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بعض اہم اجزاء کا تذکرہ کیا گیا ہے اور دوسرے غیر اہم اجزاء کو ترک کر دیا گیا ہے۔
ب) مسئلہ جبر و اختیار کے بارے میں قرآن مجید کا موقف واضح نہیں ہے۔ کسی مقام پر افعال عباد کو بندوں کی طرف سے منسوب کیا گیا ہے اور ”اما شاکراً و اما کفوراً“ ۔ ”فمن شاء فلیومن ومن شاء فلیکفر“ جیسے اعلانات کئے گئے ہیں، اور کسی مقام پر ان تمام باتوں کو رب العٰلمین کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے اور صاف صاف کہہ دیا گیا ہے ”و ما تشاوٴن الا ان یشاء اللہ“ ۔ ۔۔ کل من عند ربنا ۔۔۔۔ ختم اللہ علی قلوبہم۔۔۔ ۔وغیرہ۔
اس اعتراض کی مکمل تجزیہ کے لئے بڑی تفصیل درکار ہے۔ اجمالی طور صرف یہ کہا جاسکتاہے کہ بندوں کے اعمال و افعال ایک درمیانی کیفیت کے حامل ہیں ۔ ان میں حیات و استعداد، صلاحیت وقوت رب العالمین کا عطیہ ہوتی ہے۔ وہ زندگی کو موت سے بدل دے تو کوئی عمل خیر نہیں ہو سکتا۔ وہ طاقتوں کو سلب کرکے مشلول و مفلوج بنا دے تو کسی معصیت کا امکان نہیں ہے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرتا بلکہ اس نے خیر و صلاح کو سامنے رکھتے ہوئے حیات و استعداد دے کر قوت و طاقت کوبرقرار رکھا ہے۔ اور اسکے بعد انسان کی قوت ارادی کو آگے بڑھا کر اعلان کر دیا ہے کہ طاقت دے دینا ہمارا کام تھا۔ صرف کرنا تمہارا کام ہے۔ استعداد و قابلیت ہماری ہے اور اختیار وانتخاب تمہارا ہوگا۔ ایسے حالات میں ان افعال کو عبد و معبود دونوں کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے لیکن مالک نے طاقتوں کا ذخیرہ سپرد کرتے وقت یہ بتایا تھا کہ ہمارا مقصد خیر و برکت کی ایجاد۔ اور صلاح و نیکی کی تخلیق ہے۔ اس کے خلاف استعمال ہماری مرضی کے قطعی خلاف ہوگا۔ اس لےے اس نے اپنے منشاٴ کے مطابق استعمالات کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور اپنی مرضی کے خلاف استعمالات کی تمام تر ذمہ داری بندوں کے سر رکھی ہے۔
واضح لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اعمال کی بنیادی حیثیت میں عبد و معبود دونوں کا حصہ ہے، ایک کی استعداد ہے تو دوسرے کا اختیار۔لیکن اعمال کی اخلاقی و سماجی یا مذہبی حیثےت میں دونوں کے راستے الگ الگ ہو جاتے ہیں۔خیر و صلاح کے راستے پر خدا بھی بندے سے اتفاق رکھتا ہے اس لےے اسے دونوں کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے اور شر وفساد کی راہ میں دونوں کا موقف الگ الگ ہو جاتا ہے اس لےے اسے صرف بندے کی طرف منسوب کیا جائے گا۔معبود کی طرف نہیں ۔
قرآن حکیم کی آیات میں یہ بات نماےاں طور پر دےکھی جاسکتی ہے اور اس تجزیہ سے صاف اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دونوں کی طرف اعمال کی نسبت میںکس کمال احتےاط سے کام لیا گیا ہے اور عبد و معبود کے ذاتی کمال و نقص کو کس طرح پیش نظر رکھا گیا ہے۔
ج) قرآن مجید میںمشرق و مغرب کا تصور واضح نہیں ہے ایک مقام پر یہ لفظ مفرداستعمال ہوا ہے جس جسے معلوم ہوتا ہے کہ مشرق و مغرب ایک ایک ہے۔دوسرے مقام پر رب المشرقےن والمغربےن ۔کہا گیا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ مغرب و مشرق ایک ایک کے بجائے دو دو ہی۔تیسرے مقام
پر ”مشارق الارض و مغاربها“ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے کئی کئی مشرق و مغرب کا اندازہ ہوتا ہے۔اور یہی کلام کا تضاد کہا جا تا ہے۔
بظاہر یہ بات لگتی ہوئی نظر آتی ہے لیکن اس کے حقےقی تجزیہ کے لےے دو باتوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ قرآنی عقےدہ کی بنا پر یہ کائنات کسی ایک کرہ یا آسمان کا نام نہیں ہے بلکہ اس کائنات میں بے شمار زمین و آسمان، لاتعداد کروات وافلاک اور انگنت نظامہائے شمسی پاےے جاتے ہیں اور کھلی ہوئی بات ہے کہ نظام ہائے شمس کی جتنی تعداد بڑھتی جائے گی مشرق ومغرب کی تعدادمیں اضافہ ہوتا جائے گا۔
اس کے علاوہ خود زمین کا مشرق و مغرب بھی کوئی معین و محدود نقطہ نہیں ہے بلکہ حالات و فصول کے اعتبار سے اس میں تغیر ہوتا رہتا ہے اور اس اعتبار سے اسے واحد، تثنیہ، جمع ہر لفظ سے تعبیر کر سکتے ہیں اور اس میں کوئی فنی کمزوری نہیں ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن حکیم کوئی جغرافیہ کی کتاب نہیں ہے کہ اس میں ہر جگہ ایک ہی بات ایک ہی ٹکنیکل انداز سے بیان کی جائے بلکہ اس کا مقصد تربیت انسانیت اور پرورش کائنات ہے اس لےے اس کا فرض ہے کہ کائنات کی پہنائیوں میں چھپے ہوئے حقائق کو حسب موقع و محل منتخب کرے اور دنیائے عقل وہوش کے سامنے پیش کرے۔ مناسب ہو تو مفرد تذکرہ کیا جائے۔ مقتضائے حال بدل جائے تو تثنیہ کا صیغہ استعمال کیا جائے اور بات کثرت ہی سے بنتی ہے تو ذہنوں کو تمام مشارق و مغارب کی طرف متوجہ کر دیا جائے۔
قرآن کریم کے بیانات میں تضاد و تناقض ثابت کرنے کے لئے اس طرح کے بے شمار بیانات منتشر طور پر موجود ہیں اور عیسائی مبلغین نے اس سلسلہ میں بے حد سعی کی ہے کہ کتاب حکیم میں تضاد کی بحث اٹھا کر دنیا کی نگاہیں انجیل کے مصنوعی خرافات کی طرف سے ہٹا دی جائے۔ حالانکہ ایسا کچھ نہ ہو سکا اور انجیل کے جعلی بیانات اہل نظر کی نگاہ میں رسوا ہو کر رہ گئے۔
حیرت تو ان علماء اسلام پر جنہوں نے تضاد کا تجزیہ کرنے کے بجائے نہایت آسانی کے ساتھ ہر مقام پر نسخ کاعقیدہ اختیار کر لیا ہے۔ نسخ ایک حقیقت بھی ہے اور ضرورت بھی۔ لیکن ہر ضرورت کا محل و موقع ہوتا ہے۔ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ جہاں کسی اعتراض کا جواب سمجھ میں نہ آئے وہیں یہ کہہ دیا جائے کہ یہ آیت دوسری آیت سے منسوخ ہو گئی ہے۔
مسئلہ نسخ کا مکمل تجزیہ بعد میں کیا جائے گا اور وہاں علماء اسلام کی اس کوتاہی دامن کو واضح کرتے ہوئے بتایا جائےگا کہ نسخ ایک قانونی ضرورت ہے اسے کوتاہی نظر کی سپر کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
امام حسن عسکری (ع) نے اس عقدہ کو نہایت ہی حسن وخوبصورتی کے ساتھ حل فرمایا ہے۔ آپ کو اطلاع دی گئی کہ ایک فلسفی نے قرآن مجید کے بیانات میں مختلف مقامات پر اختلاف ثابت کرکے تضاد قرآن پر ایک کتاب تالیف کر دی ہے اور مسلمانوں کے عقائد خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ تو آپ نے ایک شخص کو معمور کیا کہ وہ فلسفی سے صرف اتنا دریافت کرے کہ تونے جس تضاد کو ثابت کیا ہے اس کا تعلق قرآن مجید کے ان معانی سے ہے جو تیرے ذہن میں آئے ہیں یا ان معانی سے ہے جو ان الفاظ سے مالک قرآن کی مراد ہے۔ اگر تضاد معانی میں ہے جو تیرے ذہن کی پیداوار ہیں تو اس کی کوئی ذمہ داری قرآن حکیم پر نہیں ہے اور اگر اس تضاد کا تعلق ان معانی سے ہے جو رب العالمین مراد لئے ہیں تو یہ پہلا اور بنیادی سوال ہے کہ تجھے ان معانی کی اطلاع کہا ں سے ہو گئی؟۔ اور جب اس اطلاع کا کوئی مدرک و ماخذ نہیں ہے تو تجھے تضاد ثابت کرنے کا کوئی حق نہیںہے۔
قرآن مجید تو واضح لفظوں میں اعلان کر رہا ہے:
لو کان من عند غیر الله لوجدوا فیه اختلافاً کثیراً۔
اگر یہ قرآن غیر خد اکی طرف سے نازل ہوتاتو اس میں بے حد تضاد و اختلاف پایا جاتا۔
یعنی تضاد کا نہ ہونا ہی دلیل ہے کہ یہ الہامی اور خدائی کتاب ہے اور اس کی تنزیل و ترتیب میں کسی بندے کا دخل نہیں ہے۔
اس روایت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ حقائق قرآن تک پہونچنا ہر ماہر لسانیات کے بس کا کام نہیں ہے۔ فلسفی لغت و ادب کے
زور سے الفاظ کے معانی کا اندازہ کر سکتاہے لیکن حقائق تک نہیں پہونچ سکتا اور اختلاف و اتحاد بیان کا تعلق حقائق اور مرادات سے ہوتا ہے نہ کہ ظاہری معانی و مفاہیم سے۔
قرآن حکیم کو ظاہری الفاظ کے معانی تک محدود کر دیا جائے اور اس کے معانی کو واقعی حقائق و مرادات سے الگ کر دیا جائے تو ایسے اعتراضات کا دفع کرنا بے حد مشکل ہو جائے گا ضرورت ہے کہ قرآن حکیم کے ان واقعی مقاصد پر ایمان رکھا جائے اور انکی عظمتوں کا اقرار کیا جائے۔ اسی کا نام تاویل قرآن ہے اور یہی مرجع تعلیمات و احکام ہے۔ اور یہی تاویل و مقصدیت اشارہ کرتی ہے کہ قرآن حکیم کا حقیقی علم امت کے پاس نہیں ہے بلکہ اس کا واقعی ذخیرہ ذریت پیغمبر کے سینے میں محفوظ کیا گیا ہے جس کی طرف حضور سرور کائنات نے وقت آخر اشارہ کر دیا تھا کہ :
”میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، ایک کتاب خدا اور ایک میری عترت اور میرے اہل بیت۔ جب تک ان سے متمسک رہوگے گمراہ نہیں ہو سکتے۔ اور حقائق کتاب تم تک پہونچتے رہیں گے۔“!

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن مجید کے کتنے سورے حیوانوں کے نام پر هیں؟
قرآن مجید ذریعہ نجات
امام عصر كی معرفت قرآن مجید كی روشنی میں
کیا شیطان (ابلیس) جنّات میں سے هے یا فرشتوں میں سے؟
قرآن مجید میں سورج کے طلوع اور غروب سے کیا مراد ...
اسلامی اتحاد قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنی لفظِ "سمآء"کے مفاہیم
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
امامت قرآن اورسنت کی رو سے
اسلام پر موت کی دعا

 
user comment