اگرچھ لفظ " پل صراط" قرآن مجید میں استعمال نھیں ھوا ھے لیکن بعض روایات میں اس لفظ کی تصریح کی گئی ھے۔ حضرت امام صادق علیھ السلام سوره فجر کی آیت نمبر ۱۴ میں موجود کلمھ "مرصاد" کی تفسیر میں اسے ایک پل جانتے ھیں جو جھنم کے اوپر سے گزرتا ھے۔
ھم موضوع کو واضح کیلئے ، لفظ "صراط" کے بارے میں بعض مطالب کا ذکر کرتے ھیں۔ "صراط "، " سیدھے راستے" کے معنی میں آتا ھے ، اور قرآن کی بعض آیات میں " صراط مستقیم "کے لفظ سے مراد اسی دنیا میں سیدھا راستھ اور ھدات کی ره گزر ھے۔ اگر کوئی اس ره گزر پر چلے وه آخرت میں بھی اسی ره گزر پر ھوگا۔ اور اگر کوئی دنیا میں ھی اس ره گزر سے منحرف ھوا اور اسکے پاؤں اکھڑ گئے تو وه آخرت میں بھی گمراه ھوگا۔ ھمارے اس دعوی کی دلیل حضرت امام صادق علیھ السلام سے منقول ایک روایت ھے جس میں انھوں نے فرمایا:" صراط یعینی خداوند متعال کی معرفت کی راه ، جو دو صراط کو شامل ھے ایک دنیا میں صراط اور دوسری آخرت میں صراط ، دنیا میں صراط وه امام ھے جس کی اطاعت کرنا واجب ھے اور آخرت میں صراط وه پل ھے جسے جھنم کے اوپر بنایا گیا ھے۔ جو بھی دنیا میں دنیا کی صراط سے ٹھیک طرح گزر گیا ھے یعنی اپنے امام کو پھچان لیا ھے وه آخرت میں بھی آخرت کے پل سے آسانی سےگزر جائے گا اور جو دنیا میں اپنے امام کو نھیں پھچان سکا آخرت میں بھی اس کے قدم لڑکھڑائیں گے اور وه جھنم میں گرجائے گا۔
امام (ع) کے اس جملھ کا مطلب یھ ھے کھ ان دو صراط کا آپس میں رابطھ ھے یعنی جو بھی کوئی دنیا میں صراط پر ھوگا آخرت میں پل صراظ سے آسانی سے گزر جائے گا اور جھنم میں نھیں گرے گا۔ روایات میں پل صراط،اس دنیاوی صراط کا مظھر ھے کھ جو امام وغیره سے تعبیر کی گئی ھے۔ اور لوگوں پر فرض ھے کھ وه اسی راستے پر چلیں۔
پس اگر روایات میں "صراط" سے (جو قیامت کے دن کا ایک موقف ھے) "پل صراط "، "جھنم کاپل" وغیره سے تعبیر ھوئی ھے تو وه صرف اس لئے ھے کھ لوگون کا ذھن ان مفاھیم سے زیاده واقف ھےاور وه آسانی سے سمجھه سکتے ھیں۔
مقدمھ کے طورپر کھنا چاھئے کھ " صراط" کا لفظ سیدھا راستھ کے معنی میں ھے اور جب اسکی صفت مستقیم لائی جائے تو یھ "سیدھے راستے" کے معنی میں آتا ھے۔
قرآن مجید کی بعض آیات میں کلمھ" صراط مستیقم " استعمال ھوا ھے جس کی طرف اشاره کیا جاتا ھے۔
۱۔ خدایا ھمیں سیدھے راستھ کی ھدایت فرما ۔[1]
۲۔اللھ میرا اور تمھارا دونوں کا رب ھے لھذا اس کی عبادت کرو کھ یھی صراط مستقیم ھے۔ [2]
۳۔ اور تم لوگ کس طرح کافر ھوجاؤ گے جب کھ تمھارے سامنے آیات الھیھ کی تلاوت ھورھی ھے اور تمھارے درمیان رسول موجود ھے اور جو خدا سے وابستھ ھوجائے سمجھو کھ اسے سیدھے راستھ کی ھدایت کردی گئی۔ [3]
۴۔اور یھی تمھارے پروردگار کا سیدھا راستھ ھے ھم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لئے آیات کو مفصل طور سے بیان کردیا ھے۔ [4]
مذکوره بالا سب صورتوں میں "صراط مستقیم" سے مراد "سیدھا راستھ" ھے اور اس پر ھدایت کا وسیلھ بھی اسی دنیا میں موجود ھے۔ اگر کوئی اسی دنیا میں اس پر چلے تو وه آخرت میں بھی سیدھے راستے پر ھوگا یعنی اپنے صحیح عمل کا نتیجھ دنیا میں ھی دیکھے گا۔
واضح ھے کھ قرآن مجید کی آیات میں "صراط مستقیم" سے مراد خداوند متعال کے نورانی احکام اور قوانین پر عمل کرنا ھے۔ جو اس دنیا میں انسانوں کی زندگی کیلئے بھتریں نمونھ ھے اور ان احکام پر عمل ایک سیدھے راستے پر چلنے کے مانند ھے جو انسان کو ھدایت تک پھنچا دیتا ھے۔
اس دلیل کے پیش نظر روایات میں ائمھ اطھار علیھم السلام سے صراط مستقیم تعبیر کی گئی ھے۔ [5]
حضرت امام جعفر صادق علیھ السلام نے فرمایا: "صراط خداکی معرفت کا راستھ ھے جو دو صراط پر مشتمل ھے ایک صراط دنیا میں ھے اور ایک صراط آخرت میں ھے" دنیا میں صراط وه امام ھے جس کی اطاعت کرنا واجب ھے لیکن آخرت میں صراط وه پل ھے جسے جھنم کے اوپر لگایا گیا ھے اور جو بھی دنیا میں دنیا کے صراط سے صحیح طورپر گزرے گا یعنی اپے امام کو پھچان لے گا وه آخرت میں بھی صراط سے آسانی سے گزر جائے گا اور جو دنیا میں اپنے امام کو نھیں پھچان پائے گا آخرت میں پل پر اس کے قدم ڈگمگائیں گے اور وه جھنم کی آگ میں گرجائے گا ۔ [6]
امام صادق علیھ السلام سوره فجر کی آیت نمبر ۱۴ " ان ربک لبالمرصاد " [7] کے ذیل میں فرماتے ھیں "مرصاد" وه پل ھے جو اس راستے پر بچھا دیا گیا ھے جو جھنم سے گزرتا ھے۔ اگر کسی کی گردن پر مظلوم کا حق ھوگا تو وه حق اسے گزرنے نھیں دےگا ۔ [8]
البتھ امام صادق کا یھ بیان "مرصاد" کے مصادیق میں سے ایک مصداق کو بیان کرتا ھے۔ کیونکھ "کمین گاه" صرف قیامت سے متعلق نھیں ھے اور مشھور پل صراط نھیں بلکھ خدا اس دنیا میں بھی ظالموں کی گھات میں بیٹھا ھے۔ [9]
پل صراط ایک حقیقت ھے کھ قرآن مجید[10] اور روایات میں اس کی جانب اشاره کیا گیا ھے اور اسکی خصوصیات اور صفات بیان کی گئی ھیں۔
حضرت امام صادق علیھ السلام نے فرمایا: جھنم کے اوپر ایک ایسا پل ھے جو بال سے باریک اور شمشیر سے تیز ھے۔ [11]
پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نے فرمایا : (پل) صراط پر تمھارے درمیان سب سے زیاده ثابت قدم وه ھے جس کی میرے اھل بیت علیھم السلام سے زیاده محبت ھو [12]
لائق توجھ نکتھ یھ ھے کھ پل صراط ، قیامت کے مواقف میں سے ھے اور روایات میں اس سے مختلف تعبیریں ھوئی ھیں جیسے "پل" ، "صراط"، "پل صراط" ، "جھنم کا پل"۔ لیکن ان سب روایات سے مراد ، یھی موقف ھے جس سے لوگوں کو سمجھانے کیلئے اور لوگوں کا ذھن اس سے مانوس ھونے کیلئے ، پل کی تعبیر کی گئی ھے ، ایسا نھیں ھے کھ یھ پل بھی دنیا کے پلوں کے مانند مختلف ستونوں پر ھے اور لوگوں اور گاڑیوں اور حیوانات کی گزرنے کی جگھ ھے۔
قرآن مجید کی آیات اور روایات میں پل اور صراط سے مراد، "راه" ، "مسیر" ، "اسلوب" ، "مذھب" ھے ، دوسرے الفاظ میں یوں کھیں کھ لوگوں کو جاننا چاھئے کھ جو مذھب اور مسیر انھیں حقیقی اور ابدی سعادت تک پھنچا دے گا ، وه صرف ایک مذھب اور ایک مسیر ھے جس کی خاص خصوصیات اور صفات ھیں۔ اور وه پروردگار متعال کا دین ( دین اسلام ) ھے ، اور صرف اس راه پر چلنے سے نجات اور فلاح مل سکتی ھے ، دوسری جانب اس راه کی صفات ، خصوصیات اور باریکیوں کی حقیقی معرفت سے غفلت ، انحراف اور گمراھی میں پڑنے کا موجب ھے۔
پس "پل صراط" جس کی تفسیر روایات میں "شمشیر سے تیز" اور "بال سے باریک" ھوئی ھے ، وه ایک عمیق ، اور منظم راستھ ھے جس کی شروعات خداوند متعال نے اسی دنیا میں قرار دی ھیں ۔ اور یھ راه آخرت تک جاری ھے پس جو لوگ چاھتے ھیں کھ صراط اور پل سے بھ آسانی گزر جائیں انھیں اسی دنیا میں ھوشیار رھنا چاھئے کھ وه اسی راه پر چلیں اور اس سے اگگ نھ ھوں۔
اور ایک گھری تعبیر کے مطابق قیامت میں پل صراط ، اسی دنیاوی پل صراط کا مظھر اور جلوه ھے جسے امام ۔۔۔ سے تعبیر کیا گیا ھے۔
[1] "اھدنا الصراط المستقیم " : سوره فاتحھ / ۵۔
[2] " ان اللھ ربی و ربکم فاعبدوه ھذا صراط مستقیم " سوره آل عمران / ۵۱
[3] " و من یعتصم باللھ فقد ھدی الی صراط مستقیم " سوره آل عمران / ۱۰۱
[4] ": و ھذا صراط ربک مستقیما قد فصلنا الاآیات لقوم یذکرون " سوره انعام ۱۳۶۔
[5] معانی الاخبار ص ۳۲۔
[6] معانی الاخبار ، ص ۳۲۔ میزان الحکمۃ ، ج ۵ ص ۳۴۶۔ " ماده صراط"۔
[7] بیشک تمھارا پروردگار ظالموں کی تاک میں ھے۔
[8] بحار الانوار ، ج ۸ ص ۶۶۔
[9] تفسیر نمونھ ، ج ۲۶ ص ۴۵۸۔
[10] اس کے علاوه سوره مریم کی آیت نمبر ۷۱ ۔۔۔ ۷۳۔ ثم لنحن اعلم بالذین ھم اولی بھا صلیا ، و ان منکم الا واردها کان علی ربک حتما مقضیا ، چم ننجی الذین اتقوا و نذر الظالمیں فیھا جثیا " پھر ھم ان لوگوں کو بھی خوب جانتے ھیں جھ جھنم میں جھونکے جانے کے زیاده سزاوار ھیں ، اور تم میں سے کوئی ایسا نھیں ھے جس ے جھنم کے کنارے حاضر نھ ھونا ھے کھ یھ تمھارے رب کا حتمی فیصلھ ھے اس کے بعد ھم متقی افراد کو نجات دے دیں گے اور ظالمیں کو جھنم میں چھوڑدیں گے۔" بھی پل صراط کی جانب اشاره ھے۔ مزید معلومات کیلئے ، رجوع کریں ، تفسیر نمونھ ج ۱۳ / ص ۱۲۱، ۱۱۷۔
[11] میزان الحکمۃ ، ض ۵ ص ۳۴۶۔ ماده صراط ۔
[12] بحار الانوار ج ۸ ص ۶۹۔