ہم گزشتہ مضمون میں یہاں تک پہونچے تھے کہ حضرت سیدہ سلام اللہ علیہاکا وعدہ کو پورا کر نے کے لیئے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے دو جوڑ کپڑے جناب ِ حسنین (ع) کے لیئے بھیجواد یئے۔ اب آگے بڑھتے ہیں ۔
حضرت سیدہ میدان ِ احد میں ۔ گوکہ اس سے پہلے غزوہ ابدر گر چکا ہے مگر اس میں حضرت فا طمہ (رض) کا کوئی ذکر نظر نہیں آتا حالانکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ حضور (ص) سے ممکن نہ تھا کہ وہ اپنی سنت ِتواترہ ترک فرماتے اور حضرت سیدہ (رض) سے ملے بغیر غزوہ احد میں تشریف لے جاتے۔لہذا وہ ضرور روانہ ہو نے سے پہلے ان (رض)کے پاس تشریف لا ئے ہو نگے اور واپسی پر بھی حسب سنت ِ مبارکہ پہلے ان (ص) کے پاس تشریف لا ئے ہو نگے۔اسی طرح غزوہ احد میں بھی ذکر نہیں ملتا کہ وہ (ص) رخصت ہو نے سے پہلے تشریف لائے یا نہیں ؟ جس میں میرے خیال میں کسی شبہ کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہے ۔لیکن اکثر مورخین نے اسے نظر انداز کر دیا ہے۔ کیونکہ تا ریخ تو بہت بعد میں لکھوائی گئی ہے۔
وہاں صرف اتنا ذکر ملتا ہے کہ حضور (ص) حضور کی مرضی نہ تھی کہ وہ مدینہ سے باہر جا کر جنگ کریں ۔ جبکہ عبد اللہ بن ابی سلول بھی اسی کا حامی تھا کہ جنگ شہر اندر رہ کر لڑی جا ئے۔ مگر وہ لوگ جنہیں بدر میں اپنے جو ہر دکھا نے کا موقعہ نہیں ملا تھا وہ کھلے میدان میں داد ِ شجا عت دینا چاہتے ۔لہذا حضور (ص) حجرے میں تشریف لے گئے اور وہاں سے زرہ اور ہتھیار زیب تن فر ماکر واپس تشریف لا ئے ،تو لوگوں کو احساس ہوا کہ انہوں (رض)نے حضور (ص) کی رائے کا خیال نہیں رکھا۔ لہذا انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور مدینہ کے اندر رہ کر ہی لڑنا چا ہا۔ لیکن حضور(ص) نے فر مایا کہ جب کوئی نبی (ص) ہتھیار پہن لے تو بغیر جنگ کے اتارا نہیں کرتا ۔ اس کے بعد وہ میدان ِ جنگ کی طرف روانہ ہو گئے ۔آپ نے دیکھا کہ اس میں حجرے میں جانے کا ذکر تو ہے مگر وہاں اور کون ، کون تھا؟ اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ چونکہ یہ وہ دور تھاکہ ان (رض)کی شادی ہو چکی تھی۔لہذا اس کا علا حدہ ذکر ہو نا چا ہیئے تھا جو تاریخ میں نہیں ملتا۔جبکہ واپسی میں ملتا ہے کہ جب وہ (ص) واپس تشریف لا ئے تو حضور (ص) نے اپنی تلوار حضرت فا طمہ (رض) کو دیکر فر مایا کہ اس نے بڑا ساتھ دیا ہے اس کو دھو ڈالو اور پھر حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بھی یہ ہی الفاظ دہرا کر اپنی تلوار کو آگے کر دیا کہ اسے بھی دھوڈالو۔ لہذا یہ بات یقینی ہے کہ وہ حسب سنت روانہ ہو نے سے پہلے ان سے ملنے تشریف لا ئے ہو نگے جو کہ تاریخ نویسوں کی نظر سے پو شیدہ رہا۔
بہر حال حضور (ص) مدینہ منورہ سے جب روانہ ہو ئے تو ایک ہزار فوج ہم رکاب تھی، جبکہ کفار غزوہ احد کا بدلہ لینے آئے تھے اور وہ پوری تیاری سے آئے تھے ،ان کی تعداد تین ہزار تھی۔ اور ان کے ساتھ ایک بڑا رسالہ بھی تھا اور انہیں اسلحہ میں بھی بر تری حا صل تھی۔ جس کو رئیس المنا فقین عبد اللہ بن ابی سلول نے منہ موڑ کر اور کمزور کردیا کہ میری بات نہیں مانی گئی لہذا میں واپس جا رہا ہوں۔ جبکہ لوگ روکتے رہ گئے مگر وہ نہیں مانا؟
لہذا اب حضور (ص) کے ساتھ صرف سات سو جانثار رہ گئے ۔ جو کہ تقریبا ً ایک اور چار کا تنا سب تھا۔ گوکہ اسلحہ کی حال بدر سے کچھ بہتر تھی مگر پھر بھی کفار جیسی نہ تھی۔ ان سات سو جانثاروں میں سے بھی حضور (ص) نے پچاس تیر انداز ایک پہاڑی پر بٹھا دیئے تھے جو کہ پشت کی طرف سے حملہ کا بچا ؤکا ذریعہ تھے اور ان کو یہ ہدا یت کردی تھی کہ اگر تم ہمیں شکست ہو تے بھی دیکھو تو تو اپنی جگہ مت چھوڑ نا۔
چونکہ اللہ نے قر آن ِ پاک میں بار بار فر مایا ہے کہ فتح اور شکست تعداد اور طاقت پر منحصر نہیں ہے وہ صرف اور صرف ہما ری نصرت پہ منحصر ہے ً لہذا اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی اور کفار اپنی ان خواتین کو بھی چھوڑ بھاگے جو کہ ہندہ زوجہ ابو سفیان اور والدہ معاویہ کے زیر قیادت تھی وہ اپنی قیادت میں خواتین کا ایک دستہ لیکر ہمت بندھانے آئی تھی، وہ بھاگتے ہوئے اس کو بھی چھوڑ بھا گے ۔ جب تیر اندازوں نے انہیں بھاگتے دیکھا تو یہ بھی اس کے با وجود کہ حضرت عبد اللہ بن جبیر (رض) منع کرتے رہے۔ ان میں سے چالیس اپنے مورچہ چھوڑ کر ان خواتین کے پیچھے مال لوٹنے کے لیئے دوڑے۔ نتیجہ یہ نکلا خالد بن ولید جو کہ اس وقت ایمان نہیں لا ئے تھے اور ان کے رسالے کے سپہ سالار تھے۔ اُسی راستہ سے پیچھے کی طرف سے حملہ آور ہو گئے اور وہ دسوں صحابہ کرام (رض) اس حملہ کو نہ روک سکے اور ایک ایک کر کے شہید ہو گئے ۔ اس طرح جیتی ہو ئی بازی نبی (ص) کی نا فر ما نی کی وجہ سے شکست میں تبدیل ہو گئی اور امت کو سبق دے گئی کہ جب بھی حضور (ص) کی نافر مانی کرو گے انجام یہ ہی ہوگا؟
حضورزخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے اور دشمنوں نے یہ افواہ اڑادی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔
جبکہ اس دن بھی حسب روایت حضرت علی کرم اللہ وجہ بہادری سے لڑتے ہو ئے بہت آگے نکل گئے تھے جب یہ آواز کان میں آئی تو وہ پلٹے تاکہ حقیقتِ حال کا پتا لگا ئیں ۔ با لآ خر حضور (ص) کو تلاش کر لیا گیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ان کو اس گڑھے سے سہارا دیکر نکا لا۔ پھر پینے کے لیئے کہیں سے پانی لا ئے جس میں بدبو تھی جس کو حضور (ص) نے پینا پسند نہیں فرما یا مگر اس سے انہوں زخموں کودھونا شروع کر دیا۔
دوسرے طرف مدینہ منورہ میں لمحہ بہ لمحہ کی خبریں پہونچ رہی تھیں کیونکہ یہ مقام کی دور نہیں تھا صر ف چند میل کا فاصلہ تھا ۔ لہذا حضور (ص)کی شہادت کی خبر بھی مدینے تک پہونچ گئی۔ اور حضرت فاطمہ (رض)پر غم کا ایک پہاڑ ٹو ٹ پڑا لیکن اس صور ت میں بھی انہوں (رض) نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھو ڑاا ور اسے دل پر برداشت کر نے کی کوشش فر مائی نتیجہ یہ ہوا کہ یا “ ابتاہ یا اصفیا ہ “ فر ماکر بیہوش ہو گئیں ۔ ان دو جملوں میں انہوں نے اپنے دونوں قریبی رشتوں کو یاد فر مایا ۔ یعنی اے میرے والدِ محرتم اور اے میرے شوہر ِ محترم اس سے جہا ں ان (رض) کی اپنے والد (ص)سے والہانہ محبت ظاہر ہو تی ہے وہیں انکی اپنی شوہر سے بھی ۔ یہاں انہوں (رض) نام لینا مناسب نہیں سمجھا جبکہ یا اصفیاہ سے مراد تاجدار ِ اصفیاہ حضرت علی کرم اللہ وجہ تھی۔انکے (ص)چہرے پر پانی کے چھینٹے دیئے گئے تو انہیں ہوش آگیا ۔
جناب فاطمہ (رض) نے خود میدان جنگ میں جاکر صورت ِ حال معلوم کر نے کا ارادہ فر ما یا کہ اتنے میں ا یک اور صحابیہ (رض) آگئیں جن کا نام تا ریخ کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ مگر انہوں نے تسلی دی کہ میں خبر لیکر آتی ہو ں ۔ آپ یہیں تشریف رکھیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے والد کوکچھ نہیں ہو سکتا وہ بخیریت ہونگے۔وہ روانہ ہو ئیں اور راہ میں ان کے شوہر ۔باپ ، بھائی اوربیٹے غرضیکہ تمام پیاروں کی شہادت اطلا ع ملتی گئی ،مگر وہ آگے بڑھتی گئیں ،ہر ایک سے یہ پو چھتے ہو ئے کہ حضور (ص) تو حیات ہیں۔ جب جواب اثبات میں ملتا تو وہ شکر کرتی ہوئی آگے بڑھ جا تیں ۔حتیٰ کے وہ حضور (ص) کے پاس پہونچ گئیں اور حضرت فا طمہ (رض)کا سلام پہونچا یا۔ چونکہ کا شہیدان کابری طرح مثلہ کیا گیا تھا۔ لہذا شروع میں حضور (ص)اس کے حق میں نہ تھے کہ خواتین وہاں آئیں۔ اس لیئے کہ وہ یہ صدمہ نہیں برداشت کر سکیں گی۔ لہذا اپنی پھوپی اور حضرت حمزہ (رض) کی بہن حضرت صفیہ (رض) کو بھی منع فر مادیا کہ وہ نہیں آئیں اور حضرت زبیر (رض)فر مایا کہ وہ اپنی والدہ (رض) کو نہ آنے دیں۔ مگر جب انہوں (رض) نےکہا کہ ہمیں اس لیئے منع کیا جا رہا ہے کہ ہم (رض)برداشت نہیں کر سکیں گی کہ مثلہ کیا گیا ہے۔ تو ہم اس سے با خبر ہیں اور یہ جو کچھ بھی ہوا ہے راہ خدا میں ہوا ہے ہمیں انشا اللہ آپ صبر کرنے والوں میں پا ئیں گے۔ تو حضور (ص) نے اجازت دیدی۔ جس کو تمام مورخین نے پوری تفصیل سے لکھا ہے، مگر حضرت فا طمہ (رض)کی میدان جنگ میں موجودگی کا ذکرکم ہی کیا گیا ہے جبکہ قابل ِ ستا ئش ہیں صاحب ِ “روضة شہدا ء “ جنہوں نے ان (رض) کا ذکر فر مایا۔ کہ وہ بھی وہاں حضرت صفیہ (رض) کے ساتھ تشریف لے گئیں اور جب خون نہیں رک رہا تھا تو اس میں کپڑا جلا کر بھرا جس سے خون بہنا رکا اور حضور (ص) میں دوبارہ توا نائی آئی ۔ (باقی آئندہ