آیہ شریفہ "قَدْ نَرى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّماء..." کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ پیغمبراسلام{ص} جب مسلمانوں کے یہودیوں کے قبلہ کی متابعت کی وجہ سے یہودیوں کے طعنوں سے پریشان ہوئے تھے، تو نصف شب کو آسمان کی طرف رُخ کر کے وحی الہٰی کے منتظر تھے کہ مسلمانوں کے قبلہ کی تبدیلی کا حکم ملے۔ بہرحال یہ درخواست یا اس اطلاع پر مبنی تھی کہ قبل از وقت تغییر قبلہ کے بارے میں حاصل کر چکے تھے یا اس دعا کی وجہ سے تھی جو بارگاہ الہٰی میں کی تھی۔ لیکن آیت ۱۴۴، ۱۴۹ اور ۱۵۰ میں تکرار کی وجہ کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ اس تکرار کی مشترک اور اصلی وجہ مدنظر حکم کی تاکید تھی اور اسلام میں اس حکم کی اہمیت کی علامت ہے۔ البتہ ان آیات میں سے ہر ایک کے کچھ جزئیات ہیں جو خود ان سے مخصوص ہیں اور بعض اوقات خاص مطالب خود پر مشتمل ہوتے ہیں۔ من جملہ ان دو آیات میں دو یکساں تعبیریں اس کے امتیازات میں سے ہیں اور ان میں سے ایک تمام ،موقعیتوں کے لیے حکم بیان کرنے کے مقام پر ہے اور دوسرا، حکم ی قطعیت دکھانے کے علاوہ اصل حکم کا سبب بیان کرنے اور مخالفین کو ناامید کرنے کے لیے ہے۔
"قَدْ نَرى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّماء..." کے معنی واضح ہونے کے لیے سب سے پہلے ہم اس کی شان نزول بیان کرتے ہیں۔ صاحب تفسیر "صافی" فیض کاشانی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں کہتے ہیں کہ: " 'فقیہ ' میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم{ص} نے مکہ میں تیرہ سال تک اور مدینہ میں ۱۹ مہینوں[1] تک بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔ اس کے بعد یہودی آپ{ص} کی عیب جوئی کرتے تھے کہ آپ{ص} ہمارے قبلہ کی پیروی کر رہے ہیں۔ پیغمبراکرم{ص} اس وجہ سے کافی ناراض ہوئے اور جب نصف شب کو باہر نکلتے تھے تو، آسمان کی طرف رُخ کرتے تھے {خداوندمتعال سے درخواست کرتے تھے} اور اس کے بعد حسب معمول صبح کی نماز پڑھتے تھے اور جب {ظہر کا وقت آیا} اور ظہر کی نماز کی دو رکعتیں پڑھیں تو، جبرئیل آپ{ص} پر نازل ہوئے اور آپ{ص} کے لیے یوں مخاطب ہوئے:"قَدْ نَرى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّماء...[2]"
فیض کاشانی آیت کی تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں: " وحی کے انتظار میں {آنحضرت{ص}} اپنا رُخ آسمان کی طرف کرتے تھے اور کہا گیا ہے کہ رسول اللہ{ص} یہ امید رکھتے تھے کہ خداوندمتعال انہیں کعبہ کی طرف رُخ کرنے کو کہے گا، کیونکہ کعبہ آپ{ص} کے جد حضرت ابراھیم{ع} کا قبلہ تھا۔ ۔ [3]"
اس مطلب کی مفسرین معاصر نے بھی تائید کی ہے اور نقل کیا ہے کہ: "رسول خدا{ص} یہودیوں کے توہین آمیز تعصب سے پریشان تھے، اس لیے اس تعصب کے مقابلے میں ۔ ۔ ۔ وحی الہٰی کے منتظر تھے۔ ۔ ۔پیغمبراکرم{ص} کے لیے اس انتظار کا سبب خداوندمتعال کی طرف سے آپ{ص} کو گزشتہ وعدہ کے مطابق قبلہ کو بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پلٹنے کا علم غیب تھا یا حالت وجد کی دعا و عبادت تھی نہ کہ پڑھنے والی[4]۔ اس مطلب کا مفہوم تفسیرالمیزان میں بھی آیا ہے[5]۔
لیکن دوسرا سوال کہ " فول وجهک شطرا" اور " فول وجوهکم" کے دہرائے جانے کی وجہ کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں ہمیں سب سے پہلے عربی ادبیات میں تاکید اور اس کے ضروری یا غیر ضروری ہونے کے بارے میں گفتگو کرنی چاہئیے اور اس کے بعد یہاں پر موجود اس تکرار پر بحث کریں گے۔
عربی ادبیات میں تکرار ایک رائج امر ہے اور بہت سے مواقع پر تکرار فصاحت کلام کا سبب بن جاتی ہے، یہاں تک کہ بعض مواقع پر عدم تکرار ضعف فصاحت کا سبب بن جاتا ہے۔ لیکن یہ تکرارا کسی سبب کے بغیر نہیں ہو سکتی ہے بلکہ اس کا کوئی سبب ہونا چاہئیے۔ اس لحاظ سے فصاحت و بلاغت سے متعلق کتابوں میں آیا ہے کہ : " تکرار اگر کسی فائدہ کے بغیر ہو تو کلام کی فصاحت میں عیب شمار ہوتی ہے[6]۔" اس لحاظ سے کلام اللہ میں کثرت سے لفظی اور معنوی تکرار پائی جاتی ہے کہ مفسرین نے ان میں سے ہر ایک کے بارے میں اسباب بتائے ہیں اور حکمتیں بیان کی ہیں۔
قرآن مجید میں سب سے زیادہ تکرار شدہ آیت، جو کافی فصاحت کا سبب بھی بنی ہے، سورہ رحمٰن کی آیہ شریفہ "فبأی آلاء ربکما تکذبان" ہے۔ اس آیہ شریفہ کی اس سورہ میں ۳۱ بار تکرار ہوئی ہے، لیکن اس کے باوجود کلام کی فصاحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی ہے، بلکہ کلام کی فصاحت کو تقویت بخشتی ہے۔ فصاحت میں یہ تقویت تکرار کے مفید ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس آیت کی تکرار کا فائدہ یہ ہے کہ ، ہر نعمت کے ذکر کے بعد انسان کو ایک چابک لگانے کے مانند خدا کی نعمتوں کو جھٹلانے سے روکا جا رہا ہے اور استفہامی سوال کی تکرار سے اس معنی کو ذہن نشین کرا رہا ہے، کہ کیا ان سب نعمتوں کے باوجود ، خدا کی نعمتوں سے انکار کرتے ہو؟
لیکن سوال میں ذکر کی گئی آیت میں تکرار کی وجہ پر بحث کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم تغییر قبلہ کے بارے مین حکم کی اہمیت پر بحث کریں۔ بیت المقدس کے مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے مشترک قبلہ ہونا مسلمانوں کے لیے پریشانی کا سبب بنا تھا۔ اس سلسلہ میں یہودی ، مسلمانوں کو ان کے قبلہ کی پیروی کرنے پر طعنہ دیتے تھے اور یہ امر مسلمانوں کے لیے اضطراب اور حزن کا سبب بنا ہوا تھا۔ اور یہ اس حد تک تھا کہ پیغمبراکرم{ص} خداوندمتعال کی طرف سے وحی پہنچنے اور قبلہ تبدیل ہونے کی توقع رکھتے تھے، اس انتظار کی وضاحت بحث کی ابتداء میں آیت ۱۴۴ کے ذیل میں کی گئی۔
ہر دین میں قبلہ ایک انتہائی اہم مسئلہ شمار ہوتا تھا اور مسلمان بھی اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ مسلمانوں کے لیے ایک مستقبل قبلہ کا ہونا، کافی اہمیت کا حامل تھا۔ جب آج لاکھوں انسان ایک مشترک قبلہ کی طرف نماز پڑھتے ہیں، تو تغییر قبلہ اور کعبہ کو، مسلمانوں کا قبلہ معین کیے جانے کے حکم کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے جو آیات اس حکم کے بارے میں آئی ہیں، ان کی تکرار ہوئی ہے۔ اس تکرار، جن میں سے تقریباً ہر ایک میں خاص مطلب کی طرف اشارہ ہے، ذیل میں ہم ان پر بحث کریں گے۔ یہ سب تکراریں اس حکم کے بارے میں تاکید ہیں اور قبلہ کی اہمیت کا سبب بن گئی ہیں اور قرآن مجید میں شاذ و نادر صورت میں اس فرمان الہٰی کی تین آیات میں پانچ بار تکرار کی گئی { دو بار آیہ ۱۴۴ میں، ایک بار آیہ ۱۴۹ اور دو بار آیہ ۱۵۰ میں} لیکن ان میں ہر ایک کے درمیان کچھ جزئی فرق پایا جاتا ہے، اس پر ہم بعد میں بحث کریں گے۔
جیسا کہ بیان کیا گیا کہ ان تکراروں کے درمیان آپس میں کچھ فرق بھی پایا جاتا ہے، کہ تکرار کے ایک مطلوب اصول ہونے کے ضمن میں اس پر بھی روشنی ڈالی جائے گی۔سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۴ میں یوں آیا ہے: "فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ ..." اور "فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَه ..."ان دونوں میں سے ہر ایک، ایک خاص امر کی نشاندہی کرتا ہے اور ان کے مخاطب بھی مختلف ہیں۔ پہلے مورد میں پیغمبراکرم{ص} کی طرف خطاب ہے اور ضمیر مفرد، مذکر، مخاطب سے استفادہ کیا گیا ہے اور یہ واضح کرنے کے لیے کہ مذکورہ حکم پیغمبراکرم{ص} سے مخصوص نہیں ہے اور اس میں تمام زمان و مکان کے مسلمان شامل ہیں، فرمایا: {و حیث ما کنتم فولوا وجوهکم شطره}[7] کہ دوسرے مورد کے بارے میں ہے اور یہ حکم تمام مسلمانوں سے متعلق ہے اور تمام لوگوں کو کعبہ کو اپنا قبلہ قرار دینے کا حکم دیتا ہے اور اس لیے ضمیر جملے سے استفادہ کیا گیا ہے۔
لیکن آیہ ۱۴۹، میں تھوڑا سا فرق ہے اور اس طرح آغاز ہوتا ہے: "وَ مِنْ حَيْثُ خَرَجْت ..." اس قید سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف مسجدالحرام میں حاضر ہونے تک محدود نہیں ہے، بلکہ عمومیت پر مشتمل ہے، خواہ وطن میں ہوں یا سفر میں ، اس حکم کا پابند ہونا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے یہاں پر تکرار کی حکمت و فائدہ یہ جانا گیا ہے کہ " کعبہ کی طرف رخ کرنے کا ضروری ہونا۔ ایک عام حکم ہے اور ہر زمان و مکان پر مشتمل ہے اور اس حکم کا نماز کی حالت میں نازل ہونا ، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ یہ حکم صرف اسی نماز اور اسی وقت سے مخصوص تھا۔[8]"
یہ تکرار اور مختلف موارد کے بارے میں وضاحت کے ساتھ دہرانا، اس موضوع کی اہمیت بیان کرتا ہے اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔
اس حکم کو نسبتاً جزئی تر فرق کے ساتھ آیت نمبر ۱۵۰ میں دہرایا گیا ہے اور یہ آیت اس سے پہلے والی آیتوں کے ساتھ زیادہ تفاوت رکھتی ہے کہ کعبے کی طرف رخ کرنے کے علاوہ اس کے جزئیات بھی بیان کرتی ہے۔ اس آیت میں پیغمبراکرم{ص} اور مسلمانوں سے الگ الگ خطاب کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خداوندمتعال کے پاس اس موضوع کی اہمیت کس قدر ہے، اس آیت کی تکرار ، اس میں مضمر تاکید کے علاوہ ، اور بھی اسباب ہیں اور ان ممکنہ اسباب میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
۱۔ تغییرقبلہ کی حکمت و سبب کو بیان کرنے کا ماحول پیدا کرنا[9]، کہ اس آیت کے ضمن میں یوں آیا ہے: "لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ" اور یہ تغییر قبلہ کا ایک سبب ہو سکتا ہے۔
۲۔ یہ دہرانا اس حکم کے مستحکم اور واقعی ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے[10]۔
بعض مفسرین نے تاکید کے علاوہ کچھ اور مقاصد کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ان آیات کی تکرار نہیں ہو سکتی ہے، کیونکہ ہر ایک کے نازل ہونے کا ایک خاص مقام ہے اور ان کا اپنا ایک خاص متعلّٰق ہے اور اس لحاظ سے یہ ایک دوسرے کی تاکید نہیں ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے اس امر کو نمازگزاروں کے مختلف حالات سے متعلق جانا ہے۔ اس بنا پر پہلا امر ان سے متعلق ہے جو کعبہ کو دیکھتے ہیں، دوسرا امر مکہ کے باشندوں سے متعلق ہے اور تیسرا امر دوسرے شہروں کے باشندوں سے متعلق ہے، لیکن بعض مفسرین نے اس احتمال کے لیے کوئی دلیل نہیں دی ہے[11]۔
[1]. البته اس بات پر اختلاف ہے کہ پیغمبر{ص} نے کتنی مدت تک مدینہ میں بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی۔.
[2]. فیض کاشانی، محمد محسن، تفسیر الصافی، جمعی از مترجمان، ج1 ص 316 و 317، نوید اسلام، 1386ھ ش.
[3]. تفسیر صافی، ج1 ص 316.
[4]. جوادی آملی، عبد الله،تسنیم، ج7، ص 379 و 389، نشر اسراء، قم، 1384ھ ش.
[5]. طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، موسوی همدانی، محمد باقر، ج1، ص 489، انتشارات اسلامی.
6. هاشمی، احمد، جواهر البلاغة، ص27، اعتماد، طبع دهم، 1358
[7]. تسنیم، ج7، ص 389.
[8]. ایضاً، ص 468.
[9]. ایضاً، ص 478.
[10]. ایضاً.
[11]. ایضاً.