کشمیر کے اخباروں اور روزناموں کے ساتھ موجودہ سلوک یقینا بین الاقوامی برادری کے سامنے ہندوستان کی فضیحت کا سبب بن سکتا ہے لیکن افسوس انتخابات کے سامنے حکومت کو کچھ نہیں دیکھ رہا ہے اور وہ مذہبی تقسیم کی بنیاد پر ووٹوں کے حصول کے درپے ایسے ایسے کام کر رہی جس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ صبح صبح آپکے ہاتھوں میں گرما گرم کافی ہو اور آپ کافی کی چسکیاں لیتے ہوئے ٹیبل پر سے اخبار اٹھا کر ذرا دیکھنا چاہیں کہ آج کی تازہ خبر کیا ہے اور آپ کو سامنے سادہ کاغذ نظر آئے جس پر کچھ نہ لکھا ہو یا چند سطریں لکھی ہوں کہ ہم اشتہارات نہ ملنے پر احتجاج کر رہے ہیں تو بتائیں آپکی گرما گرم کافی کا کیا ہوگا؟ آپ کہیں گے کیا ایسا ممکن ہے؟ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔
بات بالکل صحیح ہے یہ نہیں ہوسکتا اور ہونا بھی نہیں چاہیے لیکن اس کو کیا کیا جائے کہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ ہوا ہے آپ نے احتجاج تو اب تک بہت دیکھے ہوںگے لیکن یقینا آپ تو کیا دنیا نے ایسا احتجاج ہرگز نہیں دیکھا ہوگا جو کچھ کشمیرسے شائع ہونے والے اخبارات نے کیا اور یہ انوکھا احتجاج اس لئے کیا گیا ہے کہ الیکشن کے نزدیک جہاں حکومت سے جڑے اخبارات میں خبریں کم اشتہارات زیادہ ہیں وہیں کشمیری اخباروں کے پہلے صفحہ سے خبر بھی غائب ہے خبر تو کیا تصویر بھی غائب اور سیاہی بھی غائب اخبار بالکل سپاٹ اور سادہ ہے اتنا کہ غور سے دیکھیں تو اس میں آپ کو آپکی کافی کا لبا لب کپ دکھ سکتا ہے ۔
ایسا کیوں ہوا ؟
ایسا اس لئے ہوا ہے کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ کشمیر کے دو اہم اور بڑے اخبارات ‘گریٹر کشمیر’ اور ‘کشمیر ریڈر’ کو اشتہارات کی فراہمی روک دی جائے [۱]جسکی بنیاد پر کشمیر ایڈیٹر گلڈز نے کشمیر کے پریس کلب کے سامنے مظاہرہ بھی کیا اور پریس کونسل آف انڈیا اور ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا سے اس معاملے کا نوٹس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ہندوستان کے ’دی ہندو‘ اخبار کو کشمیر ایڈیٹرز گلڈ کے رکن اور ’کشمیر مرر‘ کے مدیر بشیر منظر نے بتایا کہ ‘ہم نے دو بہت زیادہ پڑھے جانے والے اخبارات کو اشتہار بند کرنے کے خلاف اپنا احتجاج درج کروایا ہے۔ اشتہارات بند کرنے کی وجوہات جاننے کی ہم نے بہت کوششیں کیں لیکن ابھی تک حکومت نے ہمیں جواب فراہم نہیں کیا ہے۔ اس لیے ہمیں احتجاج کے طور پر مجبوراً پہلا صفحہ خالی شائع کرنا پڑا ہے۔’
تفصیل کے مطابق گزشتہ اتوار کو ایک درجن سے زائد اخبارات کے پہلے صفحے پر صرف دو یا تین سطر کا احتجاجی جملہ شائع ہوا تھا جس میں لکھا تھا ‘دو انگریزی روزنامے گریٹر کشمیر اور کشمیر ریڈر کو بلاوجہ سرکاری اشتہارات روکنے کے خلاف احتجاج[۲]۔’ کشمیر کی اہم جماعتوں نے اشتہار نہ دینے کے حکومتی فیصلے پر مرکزی حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اس کے خلاف اپنا احتجاج درج کرتے ہوئے انگریزی و اردو دونوں ہی زبان کے روزناموں نے اپنا پہلا صفحہ سادہ رکھا ہے [۳]
حکومت کے خلاف احتجاج کا یہ طریقہ اتنا نادر نہیں کہ کہا جائے اسکی مثال ہی نہیں ملتی کیونکہ ہندوستان کی سرزمین پر عجیب و غریب واقعات ہوتے رہتے ہیں چنانچہ اس سے قبل ایک معروف ٹی وی چینل نے احتجاج کرتے ہوئے بغیر کسی تصویر کے تاریکی میں صرف آواز کے سہارے پورے ایک گھنٹے کا پروگرام پیش کیا تھا[۴]۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اخبارات کی دنیا میں شاید ہی کسی کو زمانے میں ایسا احتجاج دیکھنے کو ملا ہو
عجیب بات یہ ہے کہ اس انوکھے احتجاج کے بعد بھی جو کوریج دنیائے صحافت میں ملنا چاہیے تھی نہیں مل سکی چنانچہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے ٹویٹ کیا ”وادی (کشمیر) کے ایک واقعے کو باہر کوئی کوریج نہیں ملی۔ حکومت وادی کے اخباروں کو اشتہارات نہ دے کر میڈیا کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ مرکز اور ریاست جلد ہی ریاست کے چوتھے ستون کو خاموش کرنے کے اپنے فیصلے کو واپس لیں گے۔”
جبکہ پی ڈی پی کی صدر اور سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے کہا کہ ‘گریٹر کشمیر جموں کشمیر کے مقبول ترین اخباروں میں شامل ہے۔ ان کو اشتہار نہ دینے کے فیصلے کو پریس اور الیٹرانک میڈیا کے متعلق ان کے رویے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ یا تو ان کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے ان کی تعریف کریں یا پھر اس کا خمیازہ بھگتیں۔[۵]‘
اس دوران ایک صارف عمران نبی ڈار کے ایک ٹویٹ کو عمر عبداللہ نے دوبارہ ٹویٹ کیا جس میں لکھا تھا کہ ‘کشمیر کے اخباروں کو اشتہار دینا بند کرنا، مذہبی رہنماؤں کو دہلی بلانا، اسمبلی انتخابات کو روکے رکھنا، عوام کی حقیقی خواہشات کا منھ بند کرنا، کیا انھیں اقدامات سے حکومت ہند کشمیر میں امن اور معمول کے حالات بحال کرنا چاہتی ہے؟’ایسے وقت میں جب ہندوستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں اخباروں کو اشتہارات بند کرنا معنی خیز ہے۔
یوں تو اشتہاردینا نہ دینا حکومت کا اپنا فیصلہ ہے لیکن اس اعتبار سے کہ دئے جانے والے اشتہارات کو بغیر نوٹس کے روک دیا جائے اس بات کو جانتے ہوئے کہ کسی بھی اخبار کا دارو مدار اشتہارات پر ہی ہوتا ہے اپنے آپ میں یہ سوال کھڑا کرتا ہے کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی سیاست ہے اور یہ سیاست ان باتوں سے واضح بھی ہو رہی ہے جو اخبارات کو اشتہارات بند کرنے کے بعد کہی جا رہی ہیں مثلا یہ وہ اخبار ہیں جو ریڈیکل نیوز دیتے ہیں یا قومی دھارے کے خلاف مواد نکالتے ہیں [۶] جیسا کہ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ “قومیت کے خلاف خبریں دینے والے اخبارات کو اشہارات فراہم نہ کئے جائیں [۷]“جبکہ اگر ایسا کچھ ہے توعدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا تھا نوٹس دیا جا سکتا تھا لیکن الیکشن کے نزدیک اخبار کو اشتہارات بند کر کے یہ دکھانا کہ ملک کے دشمنوں کے لئے ہم ذرا بھی نرم گوشہ نہیں رکھتے اور اس سے قدامت پسندوں کے ووٹ ہتھیایا یہ صحیح نہیں ہے ایسی سیاست کرنا بہت خطرناک ہے وہ بھی کشمیر جیسے حساس خطے میں ایسا کرنا قطعی طور پر دور اندیشی نہیں ہے خاص کر ایسے وقت میں جب اقوام متحدہ کی جانب سے ہندوستان کو تقسیم کی پالیسی کے تحت متنبہ کرنے کی کوشش ہو چکی ہو ۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ مشیل باچلے نے انڈیا کو متنبہ کیا تھا کہ ملک کے اندر ’تقسیم کرنے والی پالیسی‘ سے معاشی مفادات کو دھچکہ لگ سکتا ہے۔ مشیل نے تھا کہ “ملک میں گھٹے ہوئے سیاسی ایجنڈے کی وجہ سے کمزور طبقہ پہلے ہی مشکل میں ہے۔’ہمیں ایسی اطلاعات مل رہی ہیں جن سے اس بات کے اشارے ملتے ہیں کہ اقلیتوں کے ساتھ تشدد کے واقعات بڑھے ہیں۔ خاص طور پر مسلمان اور تاریخی طور پر پسے ہوئے طبقات جن میں دلتوں اور قبائلیوں کا استحصال بڑھ رہا ہے۔‘ یہ ایک حساس معاملہ ہے چونکہ میشل کی جانب سے یہ باتیں کسی انٹرویو یا کسی نجی ٹی وی پر پوچھے گئے سوال کے جواب یا کسی تقریر میں نہیں کہی گئیں بلکہ مشیل نے یہ باتیں جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کی سالانہ رپورٹ میں کہی تھیں[۸] جبکہ اس سے قبل گزشتہ برس اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور اس کی جانچ کی بات بھی کہی تھی[۹]۔ اگرچہ اُس وقت کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کو ہندوستان نے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ یہ خود مختاری کی خلاف ورزی اور علاقائی اتحاد کے خلاف ہے۔ ہندوستان کے زیر اتنظام کشمیر میں یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ سنہ ۲۰۱۶ میں بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ میں بھی ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی مذمت کی جا چکی ہے ۔خاص طور پر ہیومن رائٹس واچ کی ۲۰۱۶ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نریندر مودی کی حکومت آزادی اظہار پر ہونے والے حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔اپنی ۶۵۹ صفحوں کی رپورٹ میں ہیومن رائٹز واچ نے کہا تھا کہ سرکار یا کچھ صنعتی منصوبوں کی مخالفت کرنے والے غیر سرکاری اداروں کو ملنے والے غیر ملکی فنڈز پر پابندی لگا دی گئی۔ اس سے انسانی حقوق کے دیگر ادارے بھی حیران ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کی میناکشی گانگولی نے کہا کہ ’عدم اتفاق پر مودی حکومت کا جو رویہ ہے اس سے ملک میں آزادی اظہار کی روایت کو دھچکہ لگا ہے۔‘
ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے کشمیر کے اخباروں اور روزناموں کے ساتھ موجودہ سلوک یقینا بین الاقوامی برادری کے سامنے ہندوستان کی فضیحت کا سبب بن سکتا ہے لیکن افسوس انتخابات کے سامنے حکومت کو کچھ نہیں دیکھ رہا ہے اور وہ مذہبی تقسیم کی بنیاد پر ووٹوں کے حصول کے درپے ایسے ایسے کام کر رہی جس کے نتائج بہت خطرناک ہو سکتے ہیں جس سے ہندوستان کو بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے ، لہذا ضروری ہے کہ حکومت مذہبی بنیادوں پر سیاست کو چھوڑ کر اصولی سیاست کا دامن تھامے جس کے چلتے پورے ہندوستان کو یک جٹ و متحد کیا جا سکے ۔
بقلم؛ وویک ایس سندر کمار
خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ
حواشی :
[۱] ۔ https://indianexpress.com/article/india/kashmir-newspapers-publish-blank-front-pages-to-protest-govts-decision-to-stop-ads-to-two-dailies-5619019/
https://timesofindia.indiatimes.com/india/kashmir-dailies-run-blank-front-pages-over-denial-of-ads-to-two-newspapers/articleshow/68350629.cms
[۲] ۔ https://indianexpress.com/article/india/kashmir-newspapers-publish-blank-front-pages-to-protest-govts-decision-to-stop-ads-to-two-dailies-5619019/
[۳] ۔ https://timesofindia.indiatimes.com/india/kashmir-dailies-run-blank-front-pages-over-denial-of-ads-to-two-newspapers/articleshow/68350629.cms
[۴] ۔ https://www.bbc.com/urdu/regional-47520730
[۵] ۔ http://www.newindianexpress.com/nation/2019/mar/10/newspapers-in-kashmir-run-blank-front-pages-to-protest-denial-of-government-ads-to-two-dailies-1949263.html
[۶] ۔ https://freepresskashmir.com/2017/11/04/stop-ads-of-newspapers-that-publish-anti-national-articles-goi-tells-jk-govt/
https://www.greaterkashmir.com/article/news.aspx?story_id=265079&catid=2&mid=53&AspxAutoDetectCookieSupport=1
[۷] ۔ https://www.hindustantimes.com/india-news/stop-ads-if-papers-print-anti-national-articles-centre-to-jammu-kashmir/story-Up188nqUzsNcqr7zhTCwzK.html
[۸] ۔ https://www.bbc.com/urdu/regional-47473092
[۹] ۔ https://www.ohchr.org/EN/NewsEvents/Pages/DisplayNews.aspx?NewsID=23198%20