اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

کیا دھمکی دینے کی غرض سے خودکشی کا اقدام قضا و قدر الھی کے مطابق ھے۔

جو آدمی دھمکی دینے کیلئے ، خودکشی کرنے کا قدم اٹھاتا ھے جبکھ اس کا مقصد موت نھیں ھوتا، کیا اس کا یھ اقدام قضا و قدر الھی ھے یا نھیں؟ آخرت میں اس آدمی کا مقام کیا ھے؟
ایک مختصر

اس موضوع  کی وضاحت کیلئے ھمیں پهلے  " قضا " ، "قدر" " تقدیر" ' "قضای الھی" کے الفاط کے معنی سمجھنا چاھئے۔ اس کے بعد قضا و قدر کے مسئلھ کا تجزیھ کرنا چاھئے۔ " قدر " کے معنی "ناپ" اور "تقدیر" ، " ناپنے " کو کھتے ھیں۔ "قضا" کے معنی کسی چیز کو انجام تک پھنچانا ھے۔ "الھی تقدیر" کے معنی یھ ھیں ،کھ خداوند متعال نے ھر چیز کو خاص حدود میں خلق کیا ھے، اور یھ حدود خاص عوامل کے تحت متحقق ھوتے ھیں۔ "قضای الھی"  سے مراد یھ ھے کھ کسی چیز کے مقدمات اور شرائط فراھم ھونے کے بعد، خداوند متعال  اس کو اپنے آخری مرحلے تک پھنچا دیتا ھے۔ لیکن انسانی افعال (کام ) کے بارے میں یھ جاننا ضروری ھے که تقدیر ا لھی انسان کے فعل کو پوری خصوصیات کے ساتھه شامل ھوتی ھے، اور انسان کا فعل اختیاری ھونا بھی اس کے شرائط میں سے ایک ھے۔ انسانی اعمال کے بارے میں تقدیر الھی کا مطلب یھ ھے کھ ایک شخص ، خاص شرائط کے ساتھه اپنے اختیار کو کام میں لاکر ( نھ کھ جبری طور پر ) اپنے کام  میں اقدام کرتا ھے۔ اس صورت میں خود کشی کے مسئلھ پر چونکھ تقدیر الھی میں انسان کے اختیار کا بھی لحاظ کیا گیا ھے ، یھ مسئلھ کسی صورت میں بھی قضا و قدر الھی سے متناقض نھیں ھے۔ لیکن اس شخص کے آخرت کے بارے میں یھ کھنا ضروری ھے کھ اس کا دارو مدار اس کے کام کی نوعیت پر ھے۔  یعنی اگر اس کا کام  اس طرح ھے کھ عام طورپر موت کا باعث بنتا ھے تو اس کام کا حکم خودکشی ھے، اور روایات کے مطابق اس کا عذاب شدید ھے۔ لیکن اگر اس کا کام عام طور پر  موت کا باعث نھیں بنتا، تو آخرت میں اس کا عذاب پھلی صورت کی طرح نھیں ھے بلکھ اس سے کم ھے۔

 

تفصیلی جوابات

۱۔ "قضا و قدر" کا مفھوم:

 

" قدر" کا لفظ" ناپ" کے معنی میں  آتا ھے ، اور تقدیر " کسی چیز کے ناپنے اور اس کو خاص انداز کے مطابق بنانے کو کھتے ھیں" ۔ " قضا" کا لفظ" انجام" دینے اور "فیصلھ کرنے" ( کھ اس میں بھی انجام پر پھنچنے کا اعتبار کیا گیا ھے) کے معنی میں استعمال ھوتا ھے۔ کبھی یھ دو لفظ ایک دوسرے کے ھم معنی اور  " تقدیر" کے معنی میں استعمال کئے جاتے ھیں۔

 

الھی تقدیر سے مراد یھ ھے کھ خداوند متعال نے ھر مخلوق کیلئے خاص اندازه ،  یعنی خاص کمی ، کیفی ، زمانی اور مکانی حدود قرار دئے ھیں۔ جو تدریجی اسباب و عوامل کے زیر اثر متحقق ھوجاتے ھیں۔ اور قضای الھی سے مراد یھ ھے کھ کسی مخلوق کے اسباب و شرائط اور مقدمات فراھم ھونے کے بعد وه مخلوق اپنی خلقت کے  آخری مرحلھ تک پھنچ جاتی ھے [1]

 

۲۔ قضا و قدر کا انسان کے اختیار کے ساتھه رابطھ

 

"الھی تقدیر" یا "قسمت" (سرنوشت) کے دو دائرے ھیں:

 

۱۔ جو دائره انسان کے اختیار سے خارج ھے جیسے انسانی زندگی میں مختلف حوادث مثلاً سیلاب ، بھونچال ،اور طوفان وغیر کا واقع ھونا ، ان حوادث کے مقابلے میں مذھب کے ماننے والے شخص کا فرض، ان حوادث کے واقع ھونے پر تسلیم اور رضا کے علاوه کچھه نھیں ھے۔ البتھ یھ واضح ھے کھ ان خدائی امور کے مقابلے سراپا تسلیم ھونے کا مطلب یھ نھیں ھے کھ ان حوادث کو روکنے یا ان حوادث سے ھوئے نقصانات کو کم کرنے کیلئے اقدامات کرنے سے گریز کرے۔ کیونکھ تسلیم کرنا ، کسی امر کے متحقق ھونے سے متعلق ھے جو کھ انسان کے اختیار کے بغیر واقع ھوتا ھے۔ لیکن ان حادثوں کو روکنے یا ان کے اثرات کو کم کرنے، یا ان حوادث کی وجھ سے نقصان کی تلافی کرنے کیلئے کوشش کرنا ضروری ھے۔ یھ دونوں آپس میں فرق رکھتے ھیں۔ کیونکھ اس صورت میں جب انسان اپنی پوری کوشش اور قوت   کو استعمال کرتا ھے پھر بھی ممکن ھے کوئی بلا آجائے۔ مثال کے طورپر انسان کی توانائی تعمیرات کو مستحکم بنانے میں ، کسی خاص درجے کے بھونچال سے مقابلے کرنے کی ھے لیکن اگر اس حد سے زیاده طاقتوربھونچال آگیا ، اس صورت میں ایک مذھبی انسان کا فرض سر تسلیم خم کرنے اور راضی بھ رضا ھونے کےعلاوه کچھه بھی نھیں ھے۔

 

۲۔ جو دائره انسان کے اختیاری افعال کو شامل ھوتا ھے اس دائرے میں الھی تقدیر، انسان کے ارادے اور اس کے کسی بھی آزاد فیصلھ کے ساتھه متناقض نھیں ھے۔ اس لئے اس دائره میں انسان کے افعال کی ذمھ داری خود اس کے اوپر ھے۔ کیونکھ "قضاو قدر" کے معنی ھیں ھے کھ ھر مخلوق کا متحقق ھونا اپنی ساری خصوصیات اور قیود کے ساتھه خدا کے علم و اراده سے متعلق ھے، اور یھ سب خدا کی حکیمانھ تدبیر کے تحت ھیں۔ یعنی خدا انسان کے فعل کو سارے خصوصیات اور قیود کے ساتھه مقدر کرتا ھے نھ کھ ان کے بغیر۔ ان میں سے بعض خصوصیات زمانی اور مکانی خصوصیات کی طرف رجوع کرتی ھیں اور بعض کام کرنے والے سے متعلق ھیں۔ اختیاری افعال کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یھ ھے کھ یھ فعل اختیاری طور سے،اور فاعل کی طرف سے آزادانھ انتخاب کے طورپر انجام پاتا ھے۔ پس " خدا نے انسان کے اختیاری فعل کو پھلے سے مقدر کیا ھے " اس جملھ کا مطلب یھ ھے کھ ایک خاص شخص خاص زمان و مکان میں اپنے اختیار و اراده کے ساتھه (نھ کھ جبری طورپر ) اس کا م کو انجام دے گا۔

 

پس قضا و قدر نھ صرف انسان کے اختیاری افعال سے منافی نھیں ھے، بلکھ اس کی تائید کرتی ھیں ۔ کیونکھ اسطرح کے فعل کا جبری اور غیر اختیاری طور پر واقع ھونا محال ھے، کیونکھ قضا و قدر الھی اس فعل کے اختیاری صورت میں واقع ھونے سے متعلق ھوئی ھے اور اگر یھ فعل جبری اور غیر اختیاری طور سے واقع ھوجائے تو "قضا و قدر الھی" کے خلاف واقع ھوا ھے۔ [2]

 

۳۔ خود کشی

 

خود کشی کرنا، چاھے کسی بھی طرح واقع ھوجائے گناه کبیره اور حرام ھے۔ امام صادق علیھ السلام سے روایت ھے کھ جو عمدا خود کشی کرے جھنم کی آگ میں ھمیشھ جلتا رھے گا۔ [3]

 

امام باقر علیھ السلام سے روایت ھے، مؤمن شخص ھر بلا میں مبتلا ھوتا ھے اور ھر صورت سے ممکن ھے مرجائے لیکن کبھی بھی خود کشی نھیں کرے گا۔ [4]

 

پس اگر کوئی شخص کسی بھی مقصد سے خود کشی کرے ، اس نے بڑا گناه انجام دیا ھے اور آخرت میں وه عذاب میں مبتلا ھوگا۔

 

۴، جو بھی دھمکی دینے کیلئے خود کشی کرے گا جبکھ اس کا مقصد موت نھیں ھے۔ اس کا حکم اس طرح ھے:

 

اولا : دکھاوے کیلئے خود کشی کرنا ( اگر چھ موت بھی نھ آجائے ) گناه ھے ،کیونکھ گناھگاروں سے مشاھبت بھی ایک طرح کی معصیت اور خدا کے احکام کی مخالفت ھے۔

 

ثانیا : اگر اسکا اقدام موت کا سبب بنے ، اس صورت میں وه عمل جو دھمکی کے طورپر انجام دیتا ھے عام طور پر موت کا سبب بنتا ھے جیسے کھ کوئی مکان کی چوتھی منزل سے چھلانگ مارتا ھے تو اس صورت میں اگر چھ اس کا مقصد خود کشی نھیں تھا لیکن اس کام کو انجام دینا جو موت کا سبب بنے ، خودکشی ھے، اور اس کا حکم بھی خود کشی کا حکم ھے۔ لیکن اگر اس کا کام جو دھمکی کے قصد سے انجام پاتا ھے ، عام طور پر موت کا سبب نھیں بنتا اس صورت میں اگر حادثاتی طورپر موت کا سبب بنے جبکھ اس کا مقصد خود کشی نھیں تھا، تو اس آدمی نے اگر چھ خود کشی کا دکھاوا کرکے خدا کے احکام سے بے توجھی کی ھے لیکن اس کا عذاب پھلی  صورت جیسے نھیں ھے۔ اور اس کی جانب خود کشی کی نسبت نھیں دی جا سکتی ھے لھذا اس کے عذاب میں کمی واقع ھوگی کیونکھ حقیقت میں بھی نھ اس کا مقصد خود کشی تھا اور نھ ھی اس کا کام موت کا سبب بنتا ھے لیکن سوال کے موضوع کے اعتبار سے دھمکی دینے کیئے خود کشی کرنا "الھی قضا و قدر" کے عین مطابق ھے۔

 

مذکوره وضاحتوں سے اس بات کا پتا چلا کھ سب امور اور سب موارد الھی قضا و قدر کے تابع ھیں، اور یھ انسان کے ارادے کے ساتھه متناقض نھیں۔ چاھے اس صورت  میں جھاں انسان کا مقصد خود کشی ھے یا اس صورت میں جھاں اس کا مقصد خود کشی نھیں ھے سب قضا و قدر الھی کے تابع ھیں۔ لیکن ان دونوں کے عذاب کا آپس میں فرق ھے، کیونکھ عذاب کی میزان انسانی عمل سے وابستھ ھے، جھان اس کا مقصد واقعی خودکشی نھیں ھے اور اس کا کام بھی عام طور پر موت کا سبب نھیں بنتا ، وھاں انسان کے ساتھه عمل کی وابستگی کم ھے اور عذاب بھی کم ھے۔

 



[1]  مصباح یزدی ، محمد تقی ، "آموزش عقاید" ص ۱۵۱۔

[2]  "معارف اسلامی "، ص ۱۰۶، اور ۱۰۷۔ تھوڑی کمی اور اضافات کے ساتھه۔

[3]  " من لا یحضره الفقیھ" ج ۴، ص ۹۵۔ "الکافی" ض ۷۔ ص ۴۵۔

[4]  " الکافی" ض ۳۔ ص ۱۱۲۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی چالیس حدیثیں
شیعہ، اہل بیت کی نظر میں
جناب عباس علمدار علیہ السلام
سفیرہ کربلا سیدہ زینب سلام اللہ علیہا
شہر بانو ( امام زین العابدین(ع)کی والدہ )
علامہ اقبال کا فلسفہ خودی
امام سجاد (ع) کا خطبہ اور یزید کی پشیمانی کا افسانہ
رسول خدا(ص): تمہارے درمیان قرآن و اہل بیت چھوڑے ...
آداب معاشرت رسول اکرم
حضرت عباس کا عِلم

 
user comment