اردو
Monday 25th of November 2024
0
نفر 0

ابو نصرفا را بی :

ابو نصرفا را بی :

آپ کا نا م محمد بن محمد بن طر خا ن فا را بی ھے ۔ ان کی ولا دت تر کستا ن کے شھر فا راب میں ھو ئی ۔ ان کی وفا ت ۳۳۹ہ دمشق میں ھو ئی ۔ یو نا نی افکا ر کا تر جمہ وا بلا غ کی وجہ سے فلسفہ میں شھرت حا صل کی ۔ سا ئنسی علوم میں بھی دخل تھا ۔ اور ان کے بعض سائنسی کا ر نا مے یا د گا ر رھے ھیں ۔ انھو ںنے ایسا آ لہ ایجا د کیا تھا کہ جس کو انھو ں نے سیف الدو لہ با د شا ہ کے در با ر میں جب بجا یا تو تما م اھل در بار ھنستے ھنستے بے خود ھو گئے ۔ اس کے بعد دوسری تر تیب سے اس کو بجا یا تو اھل در با ر رو تے رو تے بے خود ھو گئے ۔ پھر تیسر ی تر کیب سے بجا یا تو اھل در با ر سوگئے تو فا را بی در با ر سے اٹہ کر چلا گیا ۔

فلسفہ کے رسائل کے علا وہ ان کی تصنیفا ت میں احیا ء العلوم اور المو سیقی کا ذکر اھم ھے ۔ پھلی کتا ب کا تر جمہ لا طینی زبا ن میں کیا جا چکا ھے ۔ اس کا لا طینی نا م ( Descientus )ھے کتا ب القیا س ۔ اور مرا تب العلوم وغیر ہ ھیں ۔

عمر خیام :

ریا ضی وھیئت میں کمال حا صل تھا ۔ اور ر با عیا ت کا بھتر ین شا عر تھا ملک شاہ سلجو قی کی رصد گا ہ سے شاھی ھیئت داں کی حیثیت سے منسلک تھے ۔ انھو ں نے شمسی کلنڈر کی تدوین بھی کی تھی جو آ ج بھی گر یگورین کلنڈر کے مقا بلے میں علما ء و محققین کے نز دیک ز یا دہ مستند و معتبر ھے ان کی ریا ضی پر تصنیف مکعبا ت ھے اس کے علا وہ جبر و مقا بلہ و غیرہ ۔ عمر خیا م نے واضح کیا کہ سال کی مدت ۳۶۵ دن پا نچ گھنٹے اور پچا س منٹ ھے جبکہ مو جود ہ تحقیق میں ۳۶۵ دن ۵ گھنٹے ۴۸ منٹ ، ۴۸ سکینڈ ھے ۔ ان کی وفا ت ۱۱۲۴ ء میں نیشا پور میں ھو ئی اور وھیں وفن ھو ئے ۔

ابو سھل اسمعیل بن علی بن اسحق بن ابی سھل بن نوبخت :

ان کا تعلق ایران سے ھے ۔ نو بخت کی اولا د آل محمد سے محبت کی وجہ سے مشھو ر ھے ۔ اسی نو بخت کی اولا د سے ابو القا سم حسین بن رو ح ھیں جو امام مھدی کے نا ئب خاص ھیں ۔ سائنس کی ایک اھم شا خ علم مسا حت (surveying) ھے ۔ ابو سھل اس کے ما ھر تھے ۔ ابوسھل نے بغداد کا نقشہ بھی تیا ر کیا تھا ۔ علم ھیئت میں بھی ابوسھل کو کما ل حا صل تھا ۔ اس نے فلکیا ت پر اپنے مشا ھدات اپنی کتا ب ” کتا ب الا حکام “ میں تحریر کئے ھیں ۔ یہ کتا ب علم ھیئت میں اپنے زما نے کی معیا ر ی کتا ب سمجھی جا تی رھی ۔

ان کی تصا نیف میں سے کتاب الانوا ر فی التوا ریخ الائمتہ الاطھا ر ۔ کتا ب معر فت ، کتا ب حدیث العا لم ، کتا ب المعر فت کتا ب الکلا م فی الا نسان ھیں ۔ ان کی وفا ت ۷۷۸ ء میں ھو ئی ۔اسی نو بخت کی اولا د سے دوسرے عظیم فلسفی و ھیئت داں ابو محمد حسن بن مو سی ٰ نو بختی ایرانی ھیں ۔

محقق نصیر الدین طو سی

انھیں بھی ریا ضی اور علم ھیئت میں کما ل حا صل تھا ، انھو ں نے اپنی تدبیر و فراست اور عا لما نہ مضا مین سے ھلاکو خان کو علوم کی سر پر ستی پر آ ما دہ کر لیا تھا ۔ بغداد کے قریب میں ایک رصد گا ہ قا ئم کر ائی تھی ۔ اس کے بعد ایک کتب خا نہ قا ئم کیا تھا ۔ جس میں چا ر لا کہ کتابیں جمع ھو ئیں ۔ اشکال ھندی و ر یا ضی پر ان کی ایک مفصل اور ضخیم کتا ب پا ئی جا تی ھے اور علم منطق میں ان کی کتاب اساس الا قتبا س لا جواب کتا ب ھے ۔ اس کے علا وہ التذکر ة النصیر یہ ( فی علم الھیئتہ المحسطی ، تحریر اصول الھندستہ ( الاقلیدس ) ھیں ۔ ان کی وفا ت ۱۲۷۵ میں ھو ئی ۔

حکیم علی گیلا نی :

عھد اکبری کا سا ئنسداں ھے جس نے اپنے مکا ن کے صحن میں ایک حو ض بنا یا تھا جس کے اندر ایک کمرہ اس طرح بنا یا گیا تھا کہ ھر طرف سے پا نی میں غرق تھا اور پا نی سے ھو کر اس میں راستہ جا تا تھا ۔ لیکن پا نی کمرے کے اندر داخل نھیں ھو سکتا تھا ۔ اس کمرے کو جھا نگیر نے دیکھا تھا اور اس نے اپنی تز ک میں اس کا تذ کرہ کیا ھے ۔

فرا نس کے با د شاہ شارل مین کے پا س عبا سی خلیفہ ھا رو ن رشید نے تحفتہ ایک گھڑی بھیجی تھی جس میں جب ایک بجتا تو ایک سوار نمو دار ھو تا اور دو بجتے تو دو سوار نمودار ھو تے ۔اس طرح جتنے بجتے تھے اتنے ھی سوار نمو دار ھو تے ۔

ابو الفدا نا می مسلم سا ئنسداں نے جر ثقیل اور قطب نما ایجا د کیا ۔

محمد بن مو سی پھلا مسلم سائنس دان ھے کہ جس نے زمین کی پیما ئش کا طریقہ اور اس کے متعلق آ لا ت ایجا د کئے جس پر پو ری ار ضیا تی سائنس کا دار ومدار ھے ھو ا میں سب سے پھلے اڑ نے کا تجر بہ مسلم سائنسدان ابن قر نا س نے کیا اور دور بین مسلم سائنسدان ابولحسن نے ایجاد کی ۔

ابو القا سم اندلسی یہ عبا سی دور کا مسلم سائنسدان ھے کہ اس نے ھو ائی جھاز ایجاد کیا تھا ۔ جس میں اس نے مختصر سفر بھی کیا تھا ۔ مگر اسے آ گے تر قی نھیں دی جا سکی

قرآن حکیم کی شان اعجاز ی

قرآن حکیم آ خر ی صحیفہ آ سما نی اور پیغمبر خاتم کی تصدیق بنوة کا ابدی معجزہ ھے کہ جو الفا ظ و عبا رات ، معا نی و مطا لب اور علوم واسرار اور حقا ئق کا ئنا ت کی جا مع کتا ب ھے ۔ اس میں علم ما ضی و حا ل بھی ھے اور علم مستقبل بھی ھے اس میں تھذیب نفس ، تدبیر منزل اور سیاست مدن کے تما م اصول وقواعد کو سمو دیا گیا ھے ۔سما جی و سیا سی مسائل ھو ں ٰٓ ٰٓ یا اقتصادی پر یشانیا ں ھو ں سب کا حل اس کے دامن میں پنھا ں ھے ۔

جس طرح یہ کتا ب ایک جا مع ودائمی ضا بطہ حیا ت ھے اسی طر ح رھتی دنیا تک دنیا ئے عقل ودانش کے کئے چیلنج ھے کہ اگر تم کو اس کی جا معیت وشان اعجا ز ی اور کتا ب الھٰی ھو نے میں شک و شبہ ھے تو اس جیسی کو ئی کتا ب بنا لا ؤ یہ کتاب جھا ں ایک طرف سیرت و کر دار کے ھر پھلو میں حیا ت انسانی کی تعمیر و تکمیل کی جا من ھے ۔ تو دوسر ی طرف علوم و حقا ئق کا ئنا ت کی جا مع ھونے کے لحا ظ سے عقل انسانی کو علم و عر فا ن کی معرا ج تک پھنچا نے کی بھی ضامن ھے ۔ اس عالم رنگ و بو میں جو تبدیلیا ں رو نما ھو تی ھیں اور جو بھی علمی و عملی تخلیقا ت ظھور میں آ تی ھیں ان سب کا ذکر اس صحیفہ آ سمانی کے دامن میں مو جو د ھے ۔ خود خدا ئے کائنا ت کا ارشاد ھے کہ ”تبیاناً کل شیء “ یعنی اس کے دامن میں کا ئنا ت کی ھر شے کا بیا ن مو جود ھے ۔

اس کتا ب کا مو ضو ع انسانی فکر و عمل کی اصلا ح یعنی تعمیر و تکمیل انسا نیت ھے ۔ اس نے اسرار کا ئنا ت کے تجسس و تحقیق اور تسخیر کو خدا ئے کا ئنا ت کی معر فت و بندگی کا ذریعہ قرار دیا ھے ۔ جیسا کہ سورئہ حم السجدہ میں خلاق عالم کا ارشاد ھے کہ ” عنقریب ھم ان کو اپنی نشانیاں آفا ق میں اور خود ان کے و جود میں دکھا ئیں گے ۔ یھا ں تک کہ ان پر یہ واضح ھو جا ئے کہ یقیناً وھی ( خدا ) حق ھے ۔ “ جس طرح علوم و حقا ئق کا ئنا ت کی جا معیت کے لحاظ سے یہ کتا ب معجزہ ھے اسی طر ح الفا ظ و عبا رات کی تر کیب وتعین کے لحا ظ سے بھی معجزہ ھے ۔ جس طرح خلاّ ق عالم نے اس وسیع کا ئنا ت میںانسان کے غور فکر کر نے کے لئے اپنی بے شما ر نشانیا ں بکھیر دی ھیں اسی طر ح اس نے خود و جو د انسانی کو بھی معر فت کے لئے ایک عظیم آ یت قرار دیا ھے ۔ آج کا انسان جسم انسانی کے تر کیبی اجزا ء اور اس کی مقدر کو جا نتا ھے لیکن وھی اجزا ء اسی مقدار میں جمع کر کے پتہ یا پھل تیا ر نھیںکر سکتا ۔ اسی طر ح خلا ق عالم نے چاھا کہ وہ حرو ف والفا ظ اور کلما ت کہ جو روز مرہ انسان استعما ل کر تا ھے انھی حروف والفا ظ و کلما ت کو بھی ایک خا ص تر کیب و تر تیب دے کر ایسی جا مع کتا ب انسان کے جس کی تر کیب و جا معیت کی شان اعجا زی کو دیکہ کر دنیا ئے عقل اپنے عجز کا اعترا ف کر تے ھو ئے پکا راٹھے کہ یہ بشر کا کلا م نھیں ھے بلکہ خا لق بشر کا کلا م ھے ۔

قرآن حکیم ایسی معجزا نہ کتا ب ھے کہ جس زاویے اور جس پھلو سے عقل انسانی اس میں غور و فکر کر ے گی ۔اس کی شان اعجا ز ی واضح و ظا ھر ھو گی ۔ جیسا کہ ایک مصر ی عالم ڈا کٹر ارشاد خلیفہ نے الیکٹر و نی آ لا ت کے ذریعہ بر سو ں کی محنت کے بعد قرآن حکیم کے ھر سورہ کے ابجدی اعداد وشمار کے ذر یعے ایک نئی حقیقت کا انکشاف کیاھے جیسا کہ ”بسم اللہ“۔ ۔ الخ کے متعلق انھوں نے تحر یر کیا ھے کہ اس آیت میں چار الفاظ اور انیس حروف ھیں اسم ، اللہ الرحمن ، الرحیم ا ن چار الفاظ میں سے ھرایک لفظ قرآن حکیم میں جتنی بار آیا ھے وہ تعداد ۱۹ پر برابر تقسیم ھوجاتی ھے لفظ اسم قرآن میں ۱۹ بار آیا ھے جو ۱۹ پر برابر تقسیم ھوجاتا ھے اور لفظ ” اللہ قرآن ،میں ۲۶۹۸ با ر آ یا ھے انیس با ر برا بر ۱۹ پر تقسیم ھو جا تا ھے اور لفظ ” الر حیم “ قرآن حکیم میں ۱۱۴ با ر آ یا ھے جو چہ با ر برا بر انیس پر تقسیم ھو جا تا ھے ۔

اس کے علا وہ قرآن حکیم میں یہ آ یت ” بسم اللہ الر حمن الر حیم “ ایک سو چو دہ با ر آ ئی ھے ۔ اگر سورہ تو بہ سے پھلے بسم اللہ نھیں ھے لیکن سورة النمل میں یہ آ یت دو با ر آ ئی ھے ۔ اس طرح ایک سو چو دہ کی تعداد پو ری ھو گئی جو چہ با ر انیس پر برابر تقسیم ھو جا تی ھے ۔

اسی طرح سب سے پھلے نا زل ھو نے والا سورہ العلق جس میں پا نچ آ یا ت اور انیس الفا ظ اور ( ۷۶) حروف ھیں جو کہ انیس پر برا بر تقسیم ھو جا تے ھیں اسی طر ح قرآن حکیم میں جو مختلف تعداد بیا ن کی گئی ھیں جیسے سات آ سما ن جنا ب مو سیٰ (ع) کا کو ہ طور پر چا لیس راتیں ٹھھر نا اور با رہ مھینے وغیرہ ان تما م کا مجمو عہ ( ۲۸۵ ) ھے کہ جو پندرہ با ر انیس پر برا بر تقسیم ھو جا تا ھے ۔

اسی طرح حروف مقطعا ت میں سے چودہ ( الف ، ج ،ر، س، ص، ع، ط، ق، ک، ل، م، ن، ی، ) ۲۹ سورتو ں میں ابتدا میں مختلف ترا کیب سے آ ئے ھیں ۔ ان چو دہ حروف میں سے ھر حرف ان ۲۹ سورتو ں میں جتنی با ر آ یا ھے وہ تعداد انیس پر برا بر تقسیم ھو جا تی ھے ۔

اسی طر ح مذ کو رہ زاو ئے سے مزید جب غور فکر کیا جا ئے گا تو بھت سے حقا ئق سامنے آ ئیں گے جن سے اس کتا ب کی شا ن اعجا ز ی واضح ھو گی ۔

اس کے علا وہ اگر دنیا کی کسی بھی بھتر ین کتا ب کی تر تیب بد ل دی جا ئے اس کی عبا رات و کلما ت کو آ گے پیچھے کر دیا جا ئے تو اس کتاب کا کما ل و حسن اور افا دیت و معنویت ختم ھو جا ئے گی ۔ اور وہ ردی میں پھینکنے کے قا بل ھو جا ئے گی لیکن قرآ ن حکیم کی یہ شا ن اعجا زی ھے کہ پیغمبر اکر م کے بعد دو ر با ہ جمع کر نے والو ن نے اپنے مخصو ص مقا صد کے لئے اس کی آ یا ت و تر تیب کو بدل ڈالا ۔ ایک سو رہ کی آ یا ت دوسرے سورہ میں شامل کر دیں ۔ مکی آ یا ت مدنی سورتو ں میں اور مدنی آ یا ت مکی سو رتو ں میں شامل کر دیں ۔ لیکن اس کے با و جو د قرآن حکیم کی فصا حت و بلا غت اور افا دیت و معنو یت اور شان اعجا زی میں فرق نھیں آ یا ۔ جو اس کے کتا ب الھٰی اور معجزہ ھو نے کی بھی واضح دلیل ھے ۔اس کے علا وہ انسانی کلا م کی خصو صیت ھے کہ را کٹ و میزا ئل و کمپیو ٹر اور مو جو دہ ایجا د ات کا ذ کر نھیں ھو گا ۔ اسی طر ح آ ج سے سو دو سال بعد جو تر قی وانقلا ب آ ئے گا اس کا آ ج کا انسان تصور نھیں کر سکتا ۔ لیکن اگر آ ج سے چو دہ سو سال پھلے کا کو ئی ایسا کلا م ھو کہ جو آج تک ھر دور کی علمی تر قیو ں کا ساتھ دے رھا ھو اور جس میں آج کی تر قیو ں وانکشا فا ت کا بھی بیا ن ھو ا ور آ ئندہ انکشافات کی طرف رھبر ی بھی کر ے اور تما م علوم پر احا طہ بھی رکھتا ھو تو یقیناً وہ خلا ق عالم کا کلا م ھے ، بشر کا کلام نھیں اور ایسی کتا ب کاپیش کر نے والا یقینا ً الٰھی نما ئندہ یعنی نبی ورسول ھے ۔ یہ صحیفہ آسما نی کا ئنا ت کے علوم غیب پر محیط ھے اس کی ھر ھر آ یت کئی کئی علوم و معا رف کو اپنے دامن میں سمیٹے ھو ئے ھے ۔

اس کتا ب میں علم الاخلا ق و علم المعا شرہ بھی ھے ۔ اور علم سیا ست و علم تجا رت بھی ھے ۔

اس میںجما دو نبا ت کا علم بھی ھے اور انسان و حیو ان سے متعلق علوم بھی ھیں ۔

اس میں تخلیق انسانی کی حقیقت و فلسفہ بھی ھے اور حقوق انسانی کی و ضا حت بھی ۔

اس میں علم منطق و فلسفہ بھی ھے اور علم النفس اور علم تعبیر رویا بھی ۔

اس میں زرا عت و مسا حت بھی ھے اور علم خیا طت احد ادیت بھی ۔

اس میں علم معا نی و بیا ن بھی ھے اور علم بد یع وعرو ض بھی ۔

اس میں علم تجوید وعلم الا عداد بھی ھے اور علم تا ریخ و فقہ بھی ۔

اس میںعلم با طن وعلم تقدیر بھی ھے اور علم حساب و علم نجو م بھی ۔

اس میں علم جر ثقیل وعلم الا مثا ل بھی ھے اور علم ریمیا و لیمیا بھی ۔

اس میں علم دیمیا و کیمیا بھی ھے اور علم قیا فہ و علم معمہ بھی ۔

اس میں علم رجا ل و درا یت بھی ھے اور علم جغرا فیہ اور علم آ ثا ر قدیمہ بھی ۔

اس میں علم طبیعا ت و علم سحر بھی ھے اور علم ھند سہ وعلم مو سیقی بھی ۔

اس میں علم کلا م وعلم منا ظرہ بھی ھے اور علم خطا بت و کتابت بھی ۔

اس میں علم کلا م و علم منا طرہ بھی ھے اور علم خطا بت و تلفظ بھی ۔

اس میں علم جفر بھی ھے اور علم رمل بھی ۔

حضرت با قر (ع) ایک مو قع ھر فرما یا ” علوم پا نچ سو ھیں“

غرض کا ئنا ت کا ھر علم اس کے دامن میں سمویا ھو ا ھے ۔ کیو نکہ یہ کتا ب اس ذات کا کلا م ھے کہ جو اس تما م کا ئنا ت کی خا لق و ما لک ھے ۔اس نے اس کتاب کو معجزا نہ صفا ت سے آ را ستہ کر کے بھیجتے ھو ئے خود اعلا ن کیا کہ ” کوئی خشک و تر ایسا نھیں کہ جس کا ( ذکر ) اس کتا ب میں نہ ھو ۔

اور خدا نے علوم کا ئنا ت کو اپنی اس کتا ب میں سمو دیا ھے اور اس کتا ب کے تما م علوم واسرار اور حقا ئق معا رف کا مکمل علم خدا نے اپنے حبیب پیغمبر اکرم کو عطا کی ھے اور پیغمبر اکرم کی صرف الفا ظ و کلما ت پھونچانے کی ذمہ داری ھی نھیں تھی بلکہ اصلا ً اس کے تما م علوم واسرار اور حقا ئق واحکا م پھونچانے کی اھم ذمہ داری بھی تھی لھذا جب پیغمبر اس کتاب کے الفا ظ و کلما ت کو چھو ڑ گئے تو اسی طرح اس کے تمام علوم و اسرار بھی مکمل چھو ڑ گئے ھیں یعنی قرآن حکیم کے تما م علوم واسرار اور احکام و حقا ئق ایسے ذھن کی طرف منتقل کر کے گئے کہ جو ذھن رسالت کے ذھن سے مطا بقت رکھتا ھے اسی لئے پیغمبر نے فرما یا ” میں علم کا شھر ھو ں اور علی (ع) اس کا دروا زہ ھیں جو علم چاھتا ھے اسے چا ھیئے کہ دروا زے کے پا س آ ئے “ پھر اس لیئے حضرت علی (ع) نے بھر ے مجمع میں کئی با ر اعلا ن کیا کہ جو چا ھو مجھ سے پو چھو کہ میں زمین کی با تو ں کےساتھ آ سما ن کی با تیں زیا دہ جا نتا ھو ں“ اسی طرح پھر حضرت علی (ع) نے ان تما م علوم واسرار کو اسی ذھن کی طرف منتقل کیا کہ جو ذھن رسالت کے ذھن سے مطا بقت رکھتا ھے یعنی امام حسن (ع) کی طرف قرآن کے علم واسرار کو منتقل کیا اور امام حسن (ع) نے امام حسین (ع) کی طرف انھو ں نے امام زین العا بدین (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام محمد با قر (ع) کی طرف انھو ں نے امام جعفر صا دق (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام مو سیٰ کا ظم (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام علی رضا (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام محمد تقی (ع) کی طرف اور انھو ںنے امام علی نقی (ع) کی طرف اور انھو ں نے امام حسن عسکری (ع) کی طرف اور انھو ں نے تما م علوم واسرار اورغیو با ت امام مھدی (ع) کی طرف منتقل کئے اور ھم نے قرآن اور پیغمبر ساتھ انھی ذوات مقد سہ کے علم سے استفا دہ کیا ھے ۔

چنانچہ تخلیق کا ئنا ت یعنی کا ئنا ت کے آ غا ز کو قرآن حکیم ان الفاظ میں واضح کر تا ھے ۔

ثم استوی الی السما ء وھی دخان ۔۔ الخ ۔ حم سجدہ ۔

” پھر وہ آ سما ن کی طرف متو جہ ھو اور وہ ( آ سما ن ) دھواں ساتھا ۔۔ الخ“

سا یہ رو شنی : الم تر الی ربک کیف مدا لظل ولو شا ء لجعلہ سا کنا ً ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلاً ثم قبضنا ہ الینا قبضا ً یسیراً (۴۵۔ فر قا ن)

” کی ا تم نے اپنے رب کی قدرت کی طرف نھیں دیکھا کہ اس نے کیو ں کر سائے کو پھیلا یا ۔ اگر وہ چا ھتا تو اسے ( ایک جگہ ) ٹھھر ا ھو ا کر دیتا ۔ پھر ھم نے سورج کو ( اس کی پھنچا ن کے لئے ) اس کا ر ھنما بنا دیا ۔ پھر ھم نے اسے تھو ڑا کر کے اپنی طرف کھینچ لیا ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آسمان اور ستاروں کا تھس نھس ھوجانا
طبیعا ت ( pHYSICS)
کیا خداوند متعال کو دیکھا جاسکتا ھے ؟ اور کیسے ؟
ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی
آنحضرت (ص) کی آفتاب زندگی کی کرن
تصوف کیا ہے؟ کیا امام خمینی ﴿رہ﴾ ایک صوفی تھے ؟
قرآن کی علمی اور عملی تربیت
رضائے الٰہی
وجوب، امکان اور امتناع کی اصطلاحات کی ان کی اقسام ...
اللہ کو قرضِ حسنہ دیجے!

 
user comment