اردو
Friday 19th of July 2024
0
نفر 0

ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت

پیش لفظ

 

 

                         ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت میں زندگی گزاری ہے جس کا ایک پہلو سیاست سے تعلق رکھتا تھااور دوسرا گھٹن کا ۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں موقع نہ مل سکا کہ وہ اسرار الٰہی کو عمومی طور سے لوگوں کے درمیان بیان کرسکیں،کیوں کہ اموی اور عباسی دونوںظالم و طاغوتی حکومتیں اس کام کے انجام دہی میں مانع ہوئیں۔ جس کے بارے میں امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں :”کَانَ لرسولِ اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سرّ لاٰ یَعْلمُہ اِلَّاقَلیلٌ․․․․ وَلَوْ لا طُغاةُ ھٰذِہ الْاُمّةلِبَثَثْتُ ھٰذاالسِّرِّ“ ۱#  رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک ایساراز تھا ۔جس سے کچھ خاص افراد کے علاوہ دوسروں کو خبر نہیں تھی ․․․اگر اس امت میں سرکش افرادنہ ہوتے تو بلا شبہ میں اس راز کو ہر ایک پر ظاہر اورلوگوں کے درمیان منتشر کر دیتا۔ ہمارے ائمہ علیہم السلام نے عوام سے اسرار الٰہی کو بیان نہیں کیا لیکن کچھ مخصوص افراد جو آپ کے قابل اعتماد تھے۔

---------------------------

۱۔بحار الانوار ،ج/۹۵ص/۳۰۶

            اہل بیت علیہم السلام نہ صرف سیاسی ماحول اور عوام کی فکری کیفیت کی وجہ سے اسرار کو صراحت  کے ساتھ بیان نہیں کیابلکہ انھیں اہم اعتقادی مسائل اور اعلی معارف کو دعا ومناجات اور زیارت کی صورت میں بیان کیا ہے ۔اور بہت سے مسائل جو انسان کی زندگی میں بنیادی اور حیاتی کردار رکھتے ہیں انھیںبھی بیان فرمایا ہے ، جو انسانی سماج اور زندگی کے لئے بہترین درس ہے۔

             مثال کے طور پر صحیفہ کاملہ سجادیہ جس کی صحت کی حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ نے تائید فرمائی ہے۔ اگر ان دعاؤں کو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو احساس ہوگا کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام نے دعا اور مناجات کے عنوان سے بہت ہی مختصر لفظوں میں زندگی کے عظیم حقائق کوبیان کیا ہے ،اسی طرح دوسری اور دعائیں جو اہل بیت علیہم السلام سے صادر ہوئی ہیں سب ہی میں اسرار الٰہی پوشیدہ ہیں۔

            دعاؤں میں جن اہم درسوںکی تعلیم ائمہ نے ہمیں دی ہے یہاں اس کی کچھ مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔مناجات انجیلیہ میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں ”اسئلک من الہمم اعلاھا“ ۱#  پروردگار! عالی ترین ہمت تجھ سے چاہتا ہوں ۔

            امام سجاد علیہ السلام کا یہ کلام ہراس شخص کے لئے جو اس دعا کی کتاب کو ہاتھ میں لیتا ہے اور دعاؤں کو پڑھنے کے ذریعہ پروردگار عالم سے ہم کلام ہوتا ہے بیداری کی گھنٹی  ہے ۔

            یہ دعا کرنے والا جو بھی ہو گرچہ خود کو بے ارادہ اور نا چیز سمجھتا ہے اسے چاہئے کہ پروردگار عالم سے بہترین اورعالی ترین ہمت طلب کرے تاکہ اپنی زندگی میں عظیم تبدیلی پیدا کرسکے اور اپنے وجود کو سماج کے لئے حیاتی اور بنیادی بنا سکے ،یہ وہ حقیقت ہے جو قلب پر نور امامت کی چمک کے ساتھ جاودانی بن جاتی ہے ۔

---------------------------

۱۔بحارالانوار ،ج/۹۴ ص/ ۱۵۵     

            جو کچھ دعاؤں اور ․․․حضرات معصومین سے ہم تک پہنچا ہے وہی ولایت کا طور سینا ہے ، جو وادی ایمن تک پہنچنا چاہتا ہے اور ہدایت کے کوہ طور سینا کی چوٹیوں پر جانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ دعا کے آداب اورقبولیت کے شرائط معلوم کرے اور سیکھے یہاں تک کہ دعا کے مستجاب ہونے کا مشاہدہ کرے۔

            جو کچھ ہم نے کہا وہ وہی ہے جو قرآن اور روایات سے ہمارے ہاتھ لگا ہے لہٰذا موقع غنیمت جانتے ہوئے اسے محفوظ کرلیں اور الٰہی رحمت و کرم سے مایوس نہ ہوں ۔

اِنَّہُ لاٰیَیْاٴَسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ اِلاّٰالْقَوْمُ الکٰافِرُون“ ۱#

بیشک خدا وند عالم کی رحمت سے مایوس نہ ہوناکہ اس کی رحمت سے کافر قوم کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتاہے

            خاندان وحی و امامت کے نور سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی روح کو نور امیداوریقین سے روشن کریں ۔

 ---------------------------

۱۔ سورہٴ یوسف، آیت/۸۷

            شریعت اسلام میں دعا مستحب موکد ہے ،قرآن و احادیث میں مختلف لفظوں میں دعا پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ دعا مستحب ہے بلکہ دنیا کی تمام قومیں اس سلسلے میں متفق ہیں اور ہر عقل سلیم اسے مستحسن سمجھتی ہے جس کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے دعا تلاوت قرآن سے بھی افضل ہے ۔  ۱#

-------------------------------------------------

 ۱۔فضالة بن معاویہ بن عمار قال قلت لابی عبداللہ علیہ السلام رجلان افتتحاالصلاة فی ساعة واحدة فتلا ھٰذا من القرآن فکانت تلاوتہ اکثر من دعائہ و دعا ھٰذا فکان دعاؤہ اکثر من تلاوتہ ثم انصرافا فی ساعة واحدة ایھما افضل ؟ فقال الدعا افضل اما سمعت قول اللہ تعالیٰ ” قال ربکم ادعونی استجب لکم ان الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جہنم داخرین ھی واللہ العبادة ،الیست ھی العبادة ؟ ھی واللہ العبادة ،ھی واللہ العبادة الیست اشد ھن واللہ اشد ھن -- فلاح السائل ص/۳۰

لیکن بعض تنگ نظر افراد جو مادیات میں غرق ہیں اور ان کی نگاہیں صرف ظاہر ی اسباب کو دیکھتی ہیں فوائد دعا کے منکر ہیں اور بے بنیاد اعتراضات کا سہارا لیتے ہیں ۔ایسے افراد ہر زمانہ میں رہے ہیں جو حتیٰ بدیہی چیزوں کا بھی انکار اور اس میں شک و شبہ کرتے ہیں ،وہ اس آیہ شریفہ کے مصداق ہیں ” وَجَحَدُوْا بِھٰا وَاسْتَیْقَنَتْھٰااَنْفُسُھُمْ ظُلْماًوَعُلُوّاً“انھوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالاں کہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے (نمل /۱۴)لیکن جب کبھی وہ کسی مصیبت سے دو چار ہوتے ہیں اور ظاہری اسباب سے مایوس ہو جاتے ہیں تو ان کے ہاتھ بے اختیار ، اس بے نیاز کی طرف بلند ہو جاتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں تضرع و زاری کرتے ہیں :” اَمَنْ یُجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذٰا دَعٰاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوٓءَ“ کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جب کہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے (نمل /۶۲)

            قرآن کریم و پیغمبر اسلام   اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے بارگاہ قاضی الحاجات میں عرض حاجت اور دعا کا بار ہا حکم دیا ہے بلکہ اسے اہم و محبوب ترین عمل قرار دیا ہے

            خدا وند عالم اپنے نبی کریم  کو خطاب کر کے فرماتا ہے:

            قُلْ مَا یَعْبُوْبِکُمْ رَبِّیْ لَوْلاَ دُعَاوٴُکُمْ․․․

اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے اگر تمھاری دعائیں نہ ہوتیں تو خدا وند عالم تمھاری پروا بھی

 نہ کرتا ۔

             اس آیت شریفہ سے پتہ چلتا ہے کہ خدا ہم پر اسی وقت نظر عنایت کرے گا جب ہم اسے پکاریں ۔ اگر ہم دعا نہ کریں تو خدا بھی اپنی نظر عنایت ہم پرنہیں کرے گا۔

            اصول کافی میں کلینی ۺنے دعا سے متعلق رسول خدا  سے روایت نقل کی ہیں :

اَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَةِ ، اَلدُّعَ-آءُ سِلاَحُ الْ-مُوٴْمِنِ ، اَلدُّعَآءُ عَمُوْدُ الدِّیْنِ ، اَلدُّعَآءُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ ، اَلدُّعَآءُ مَفَاتِیْحَ الْفَلاَحِ

            دعا روح عبادت ہے ،دعامومن کی اسلحہ ہے ،دعا دین کی ستون ہے ،دعا آسمانوں اور زمین کی نور ہے ،دعا فلاح و بہبودی کی کلید ہے ۔

            خدا وند عالم فرماتا ہے :

وَ اِذَا سَاٴَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُوٴْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ

            اور اے میرے نبی  جب بھی میرے بندے میرے بارے میں تم سے سوال کریں تو میں ان سے قریب ہوں ۔جب پکارنے والے مجھے پکارتے ہیں تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں لہٰذا انھیں چاہئے کہ وہ مجھ سے طلب کریں اور مجھ پر ایمان لائیں ، شاید وہ اس طرح راہ راست پر آجائیں

            بعض تفسیروں میں ” وَلْیُوٴْمِنُوْا بِیْ“ کی یہ تفسیر کی گئی ہے کہ وہ ایمان رکھیں میں ان کی دعاؤں کو قبول کروں گا۔ 

            سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے :

            اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَةً “ تم اپنے پرور دگار کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور خاموشی کے ساتھ ۔ اس کے بعدفرماتا ہے :” وَاُدْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِْیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ “ اور خدا سے ڈرتے ہوئے اُمیدکے ساتھ دعا کرو ،یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے ۔

            قرآن کریم نے ترک دعا کو عبادت سے گریز و تکبر شمار کیا ہے اور متکبروں کی سزا جہنم میں ذلت و خواری قراردی ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ” وَ قَالَ رَبُّکُمْ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ“ تمھارا پروردگار کہتا ہے : مجھے پکارو ، میں تمھاری دعائیں قبول کروں گا جو لوگ گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منھ موڑ تے ہیں ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں جائیں گے ۔

            خدا کے علاوہ کسی اور کے سامنے دست دراز نہ کرنا خود توحید و یکتا پرستی کی دلیل ہے۔کیوں کے غیرخدا کوموٴثر سمجھتے ہوئے اس کے سامنے اپنے دست نیاز کو دراز کرنا کفر و شرک ا ور ہوا پرستی ہے ۔

            بس بہترین دعائیں وہ ہیں جو قرآن مجید و اہل بیت ا طہار علیہم السلام کی احادیث میں وارد ہوئی ہیں ۔لہٰذا ان دعاؤں کے ذریعہ جو قرآن مجید،رسول اکرم  و اہل بیت اطہار علیہم السلام کی حدیثوں میں وارد ہوئی ہےں انھیں کے ذریعہ اپنی دنیا و آخرت کی حاجتیں طلب کریں ۔

جیسا کہ امام زین العابدین علیہ السلام خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: ”اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا حَلاَوَةَ مُنَاجَاتِکَ‘ ‘با رالٰہا مجھے اپنے راز و نیاز کی شرینی عطافرما۔امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں کا مجموعہ ” صحیفہ سجادیہ “ کا ترجمہ مع متن کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ۔ انشاء اللہ مومنین اس الٰہی و ملکوتی دعاؤ کی برکتوں سے دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے۔

             دعا خود عبادت ہے اور آیات و احادیث میں اس کا حکم دیا گیا ہے ۔پس کسی بھی حال میں بندے کو دعا اور حضرت قاضی الحاجات سے لو لگانے سے غفلت نہیں برتنی چاہئے ایسا نہ ہو کہ نفس عمارہ اور شیطان اس پر غالب آجائے کہ یہ دعائیں بے فائدہ ہیں اور ہر گز قبول نہ ہوںگی۔لہٰذا انسان کو ہر حال میں حضرت قاضی الحاجات کی بے نیاز درگاہ سے لو لگائے رکھنا چاہئے ،اور اس کی بے کراں رحمتوں سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیوں کہ رحمت حق سے مایوسی خود گناہ کبیرہ ہے ۔

 

            اہل بیت علیہم السلام نہ صرف سیاسی ماحول اور عوام کی فکری کیفیت کی وجہ سے اسرار کو صراحت  کے ساتھ بیان نہیں کیابلکہ انھیں اہم اعتقادی مسائل اور اعلی معارف کو دعا ومناجات اور زیارت کی صورت میں بیان کیا ہے ۔اور بہت سے مسائل جو انسان کی زندگی میں بنیادی اور حیاتی کردار رکھتے ہیں انھیںبھی بیان فرمایا ہے ، جو انسانی سماج اور زندگی کے لئے بہترین درس ہے۔

             مثال کے طور پر صحیفہ کاملہ سجادیہ جس کی صحت کی حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ نے تائید فرمائی ہے۔ اگر ان دعاؤں کو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو احساس ہوگا کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام نے دعا اور مناجات کے عنوان سے بہت ہی مختصر لفظوں میں زندگی کے عظیم حقائق کوبیان کیا ہے ،اسی طرح دوسری اور دعائیں جو اہل بیت علیہم السلام سے صادر ہوئی ہیں سب ہی میں اسرار الٰہی پوشیدہ ہیں۔

            دعاؤں میں جن اہم درسوںکی تعلیم ائمہ نے ہمیں دی ہے یہاں اس کی کچھ مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ادب و سنت
عزاداری کیوں؟
حضرت علی (ع) کی وصیت دوست کے انتخاب کے بارے میں
حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے اہم واقعت
قتل امام حسین (ع) کا اصل ذمہ دار یزید
عصمت امام کا اثبات
حسین شناسی یعنی حق پرستی
عفو اہلبیت (ع(
فدک ، ذوالفقار فاطمہ (سلام اللہ علیہا)
ولایت علی ع قرآن کریم میں

 
user comment