تاریخ میں واقعہ کربلا کو جو اہمیت ملی ہے کسی اور سانحہ کو نہ مل سکی اس لیے کہ ہر مقرر نے اس موضوع پر کچھ نہ کچھ بیان کیا ہے اور ہر محرر نے کچھ نہ کچھ تحریر کیا ہے یہ امر دشمنان تحریک کربلا کے لیے تشویش کا باعث بنا کیونکہ واقعہ کربلا کا احیاء دشمنان اہل بیت (ع) کے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنے کا باعث ہے لہذا انہوں نے واقعہ کربلا کی تاثیر کے پیش نظر ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ہر ممکنہ طریقے سے اس عظیم اور تاریخی واقعے کو فراموش اور لوگوں کے ذہنوں سے محو کر دیا جائے۔ بعض افراد نے کتابیں، مقالہ جات اور اس قسم کے مختلف تحریری اور تقریری حربے استعمال کیے ہیں تاکہ واقعہ عاشورہ اور عزاداری سید الشہداء امام حسین (ع) کی عالمگیر تاثیر کو ختم کر دیا جائے۔ ان میں سے ایک خود اس واقعہ کے اصلی محرک کو مجہول قرار دینا ہے اور یہ حربہ وہابی افکار کے بانی افراد میں سے ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے ابن تیمیہ کی اہل بیت (ع) سے دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اسی بغض اور دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یزید نے امام حسین (ع) کو ہر گز قتل نہیں کیا ہے اور نہ ہی امام حسین (ع) کی مخدرات عصمت، رشتہ داروں اور حامیوں کو اسیر کیا ہے چنانچہ ان باتوں کا یزید کی طرف منسوب کرنا جھوٹ ہے۔
تمام علماء اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ یزید نے امام حسین (ع) کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا یزید نے ابن زیاد کو خط لکھ کر اس بات پر مامور کیاتھا کہ عراق میں حسین (ع) کی حکومت قائم نہ ہونے دو۔ حضرت امام حسین (ع) یہ سوچ رہے تھے کہ اہل عراق ان کی مدد کریں گے لیکن وہ حسین (ع) ابن علی (ع) کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے حتیٰ کہ انہیں مظلومیت کےساتھ شہید کر دیا گیا جب اس بات کی خبر یزید کو پہنچی تو اس نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے گریہ کیا اس نے سید الشہدا کے اہل وعیال کو ہرگز اسیر نہیں بنایا بلکہ انہیں عزت و احترام سے نوازا یہاں تک وہ اپنے شہر چلے گئے۔
چنانچہ سید الشہدا شہید ہیں اور انہیں مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا لہذا سزاوار ہے کہ انہیں "رضی اللہ تعالی عنہ" کہا جائے راس الحسین (ع) کا مصنف لکھتا ہے کہ "یزید امام حسین (ع) کے قتل پر راضی نہیں تھا اور یہاں تک کہ اس نے اپنی اس نا خوشی کا اظہار بھی کیا" (راس الحسین (ع) ص 208)
اسی طرح سؤال فی یزید ابن معاویہ کا مصنف لکھتا ہے کہ" یزید نے امام حسین (ع) کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا سروں کو یزید کے پاس نہیں لایا گیا اور اس نے امام حسین (ع) کے دندان مبارک کی بے حرمتی نہیں کی بلکہ عبید اللہ ابن زیاد نے یہ کام انجام دیے ہیں " ( سؤال فی یزید ابن معاویہ ص16)
ہم اس مختصر سے مقالے میں یزید کو امام حسین (ع) کے اصلی قاتل کے طور پر ثابت کرنے کی ابن تیمیہ جیسے مبغض آل محمد (ع) کو جواب دینے کی کوشش کریں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز پاکستان کی یونیورسٹیوں کی نصابی کتب میں ابن تیمیہ کو ایک عظیم اسلامی اسکالر کے طور پیش کیا جاتا ہے۔ یہاں پر مشہور ترین مؤرخین کے اقوال کو نقل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں امید ہے کہ ہمارے مدعی ٰ کو ثابت کر نے کے لیے کافی ہوں گے۔
1: ابن زیاد کو کوفہ کا والی بنانا
جب یزید نے امام حسین (ع) کے بارے میں سنا کہ آپ (ع) کوفہ کی طرف آ رہے ہیں تو اس نے امام حسین (ع) کا مقابلہ کرنے کے لیے ابن زیاد جیسے سفاک انسان کو والی کوفہ کے طور پر منتخب کیا کیونکہ وہ نعمان ابن بشیر کے بارے میں جانتا تھا کہ اس کے اندر ہمت نہیں ہے کہ وہ حسین (ع) جیسی عظیم ہستی کا مقابلہ کر سکے" ( تاریخ طبری، ج4، ص 285، البدایۃ و النہایۃ، ج8، ص 164)
2: ابن زیاد کا مسلسل یزید سے مشورہ کرنا
تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ ابن زیاد مسلسل یزید سے رابطے میں تھا۔
طبری لکھتا ہے کہ حضرت مسلم (ع) اور ہانی کو شہید کرنے کے بعد ابن زیاد نے ان کے سر ایک خط کے ہمراہ شام خلیفہ کے پاس بھیجے یزید نے جوابی خط میں لکھا کہ "مجھے معلوم ہوا کہ حسین (ع) ابن علی (ع) عراق کی طرف آر ہے ہیں جاسوسوں اور مسلح افراد کو اس طرح متعین کر دو کہ ہر مشکوک فرد پر کڑی نظر رکھیں اور خطرناک افراد کو گرفتار کر لیں اور رونما ہونے والے واقعات سے مجھے مسلسل آگاہ رکھنا"۔ ( تاریخ طبری ج 4،ص285)
اس خط کے مضمون سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ابن زیاد کا ہر عمل یزید کے حکم سے انجام پاتا تھا اور یزید ابن زیاد کے ہر عمل سے با خبر تھا۔
3: یزید کا امام حسین (ع) کے لیے حکم " بیعت یا قتل"
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ یزید نے والی مدینہ کو لکھا تھا کہ حسین (ع) سے بیعت طلب کرو اور انکار کی صورت میں قتل کر دو۔ یعقوبی لکھتا ہے کہ یزید نے والی مدینہ ولید بن عقبہ بن ابو سفیان کو خط میں لکھا کہ " جیسے ہی میرا خط تجھے ملے حسین (ع) ابن علی (ع) اور عبد اللہ ابن زبیر کو طلب کرو اور ان سے بیعت کا مطالبہ کرو اور انکار کی صور ت میں ان کو قتل کر کے سر میری طرف روانہ کر د و" ( تاریخ یعقوبی ج 2، ص 241)
4: یزید کا ولید کے نام ایک اور خط
ابن اعثم کوفی لکھتا ہے کہ ولید ابن عقبہ نے امام حسین (ع) کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو یزید تک پہنچایا یزید اس واقعہ سے غضبناک ہوا اور اسے ایک خط میں یوں لکھا " جوں ہی میرا خط پہنچے فورا اہل مدینہ سے دوبارہ بیعت لو اور عبد اللہ ابن زبیر کو چھوڑ دو چونکہ جب تک وہ زندہ ہے ہمارے ہاتھوں سے فرار نہیں کر سکتا لیکن مجھے جوابی خط کے ساتھ حسین (ع) ابن علی (ع) کا سر چاہیے اگر تو نے ایسا کیا تو میرے قریبی ترین افراد میں شمار ہو گا اور اور خصوصی انعام و اکرام سے نوازا جائے گا" ( الفتوح ابن اعثم، ج3، جز 5، ص 18)
5: والی کوفہ کو قتل امام حسین (ع) کا حکم
ابن اعثم لکھتا ہے کہ ابن زیاد نے اہل کوفہ سے کہا کہ"یزید ابن معاویہ نے چار ہزار دینا اور دو لاکھ درہم کے ساتھ ایک خط بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ یہ رقم آپ میں تقسیم کروں تا کہ حسین (ع) ابن علی (ع) کو قتل کے ذریعے اس کی اطاعت کرو" (الفتوح ابن اعثم ج3، جز 5، ص 89)
سیوطی لکھتا ہے کہ" یزید نے والی عراق عبید اللہ ابن زیاد کو حسین (ع) ابن علی (ع) کے قتل کا حکم صادر کیا " (تاریخ الخلفاء ص 193)
سبط ابن جوزی کہتا ہے کہ " جب ابن زیاد یزید کے پاس آیا یزید نے اس کا استقبال کیا پیشانی چومی اور اسے اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا اور ساقی کو دستور دیا کہ ہمیں سیراب کرو اسے اور عمر بن سعد کو دس لاکھ انعام کے طور پر عطا کیے" ( تذکرۃ الخواص ص 290)
6: امام حسین (ع) کا خود اپنی شہادت کی خبر دینا
طبری لکھتا ہے کہ امام حسین (ع) نے مکہ میں فرمایا " خدا کی قسم مکہ سے ایک بالشت باہر قتل ہونا میرے لیے بہتر ہے بجائے اس کے کہ حرم خدا میں قتل کر دیا جاؤں خدا کی قسم ! اگر میں غاروں میں پناہ لے لوں پھر بھی یہ مجھے کھینچ نکالیں گے اور اپنے مقصد سے باز نہیں آئیں گے " (تاریخ طبری ج4، ص 289)
امام حسین (ع) کے اس فرمان سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ یزید کے ناپاک عزائم سے آ گاہ تھے۔
7: عراق کی طرف حرکت کے وقت امام حسین (ع) کو قتل کرنے کا حکم
یعقوبی لکھتا ہے کہ جب امام حسین (ع) نے مکہ سے عراق کی طرف حرکت کی تو یزید نے والی عراق کو لکھا کہ "اگر تو نے حسین ابن علی (ع) کو قتل کر دیا تو ٹھیک ورنہ تمہارے راز فاش کر دوں گا لہذا تمہارے لیے بہتر یہ ہے کہ ا س فرصت کو ہاتھ سے نہ جانے دو " ( تاریخ یعقوبی ج 2، ص 242)
8: ابن زیاد کا امام حسین (ع) کو خط
ابن اعثم اور دیگر مؤرخین نقل کرتے ہیں کہ جب حر ابن یزید ریاحی نے امام حسین (ع) کو سر زمین کربلا میں اترنے پر مجبور کیا تو ابن زیاد کو ایک خط لکھا اس کے بعد ابن زیاد نے امام حسین (ع) کو ایک خط میں یوں لکھا" مجھے معلوم ہوا کہ آپ کربلا میں پہنچ گئے ہیں امیر المومنین یزید نے مجھے ایک خط لکھا ہے کہ میں اپنے آرام و سکون اور غذا کو اس وقت تک ترک کیے رکھوں جب تک آپ سے امیر المؤمنین کی بیعت نہ لے لوں اور انکار کی صورت میں آپ کو قتل نہ کر دوں" ( الفتوح ابن اعثم،ج 5ص 150)
9: حضرت ابن عباس کا یزید کو خط
قتل امام حسین (ع) میں یزید کی مداخلت کی ایک اور دلیل عبد اللہ ابن عباس کا یزید ابن معاویہ کو خط لکھنا ہے جس میں قتل امام حسین (ع) پر اس کی سرزنش کی گئی ہے یعقوبی لکھتا ہے کہ عبد اللہ ابن عباس کے خط کا متن کچھ یوں تھا " اے یزید تو نے حسین (ع) ابن علی (ع) کو قتل کیا ہے اے حرامزادے تو یہ نہ سمجھنا کہ میں بھول چکا ہوں کہ تو نے حسین (ع) اور بنی عبد المطلب کے جوانوں کہ جو ظلمت بھری راتوں میں چراغ اور ہدایت کے ستارے تھے کو قتل کیا ہے"
( تاریخ یعقوبی، ج2، ص 248، ابن اثیر، ج3، ص 318)
جبکہ عبد اللہ ابن عباس ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ وہ کسی کو بغیر جرم کے سرزنش کریں۔
10: یزید کا امام حسین (ع) کے قتل پر فخر ومباہات
ابن اثیر لکھتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد " جب یزید نے عمومی ملاقات کی اجازت دی اور لوگ مجلس میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ امام حسین (ع) کا سر اقدس اس کے سامنے رکھا ہے اور اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے کہ جس کےساتھ وہ امام (ع) کے گلے کی بے حرمتی کر رہا ہے اور کچھ اشعار کو گنگنا رہا تھا کہ جو امام (ع) کے قتل پر فخر و مباہات پر دلالت کر رہے تھے۔" ( کامل ابن اثیر، ج3 ص 298)
اسی مطلب کو سیوطی، سبط ابن جوزی نے بھی نقل کیا ہے۔ سبط جوزی کہتا ہے کہ " یزید امام حسین (ع) کے سر کی توہین کرتے ہوئے ابن زبعری کے اشعار کو گنگنا رہا تھا جن کا مضمون کچھ یوں تھا کہ ہم نے بنی ہاشم کے بزرگان کو بدر کے مقتولین کے بدلے کے طور پر قتل کیا ہے" (تذکرۃ الخواص، ص 235)
مذکورہ بالا موثق ترین مؤرخین کے اقوال اور متقن دلائل کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ واقعہ کربلا کا اصلی عامل یزید ابن معاویہ تھا اور دشمن کا اس واقعہ کو مخدوش کرنا اس کے ناپاک عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
source : http://www.abna.ir