اردو
Saturday 4th of May 2024
0
نفر 0

عدل

عدل

خداوندِ متعال کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل ھیں جن میں سے ھم بعض کاتذکرہ کریں گے:

۱۔ھر انسان، چاھے کسی بھی دین ومذھب پر اعتقاد  نہ رکھتاہو،  اپنی فطرت کے مطابق عدل کی اچھائی و حسن اور ظلم کی بدی و برائی کو درک کر سکتا ھے۔حتی اگر کسی ظالم کو ظلم سے نسبت دیں تو اس سے  اظھار نفرت اور عادل کھیں تو خوشی کا اظھار کرتا ھے۔شہوت وغضب کا تابع ظالم فرمانروا، جس کی ساری محنتوں کا نچوڑ نفسانی خواھشات کا حصول  ھے، اگر اس کا واسطہ محکمہ عدالت سے پڑ جائے اور قاضی اس کے زور و زر کی وجہ سے اس کے کسی دشمن کا حق پامال کر کے اس ظالم کے حق میں فیصلہ دے دے، اگر چہ قاضی کا فیصلہ اس کے لئے باعث مسرت وخوشنودی ھے لیکن اس کی عقل وفطرت حکم کی بدی اور حاکم کی پستی کو سمجھ جائیں گے۔جب کہ اس کے برعکس اگر قاضی اس کے زور و زر کے اثر میں نہ آئے اور حق وعدل کا خیال کرے، ظالم اس سے ناراض تو هو گا لیکن فطرتاً وہ قاضی اور اس کے فیصلے کو احترام کی نظر سے دیکھے گا۔

تو کس طرح ممکن ھے کہ جس خدا نے فطرت انسانی میں ظلم کو برا اور عدل کو اس لئے اچھا قرار دیا هو تاکہ اسے عدل کے زیور سے مزین اور ظلم کی آلودگی سے دور کرے اور جو ِٕنَّ اللّٰہَ یَاٴْمُرُ بِالْعَدْلِ

وَاْلإِحْسَانِ>[64]، <قُلْ اٴَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ>[65]،<یَادَاودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیْفَةً فِی اْلاٴَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْھَوٰی>[66]جیسی آیات کے مطابق عدل کا حکم دے وہ خود اپنے ملک وحکم میں ظالم هو؟!

۲۔ظلم کی بنیاد یا تو ظلم کی برائی سے لاعلمی، یا مقصد و ھدف تک پھنچنے میں عجز یا لغووعبث کام ھے، جب کہ خداوندِمتعال کی ذات جھل، عجز اور سفا ہت سے پاک ومنزہ ھے۔

لہٰذا، علم، قدرت اور لا متناھی حکمت کا تقاضا یہ ھے کہ خداوند متعال عادل هو اور ھر ظلم و قبیح سے منزہ هو۔

۳۔ ظلم نقص ھے اور خداوندِمتعال کے ظالم هونے کا لازمہ یہ ھے کہ اس کی ترکیب میں کمال ونقصان اور وجود وفقدان بیک وقت شامل هوں، جب کہ اس بات سے قطع نظر کہ یہ ترکیب کی بدترین قسم ھے، کمال ونقص سے مرکب هونے والا موجود  محتاج اور محدود هوتا ھے اور یہ دونوں صفات مخلوق میں پائی جاتی ھیں نہ کہ خالق میں۔

لہٰذا نتیجہ یہ هوا کہ وہ تخلیق کائنات <شَھِدَ اللّٰہُ اٴَنَّہ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَ وَالْمَلاَئِکَةُ وَ اٴُوْلُوالْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ>[67]،قوانین واحکام <لَقَدْ اٴَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَ اٴَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ>[68] اور قیامت کے دن لوگوں کے حساب وکتاب <وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ>[69] میں عادل ھے۔

عن الصادق   (ع) :((إنہ ساٴلہ رجل فقال لہ :إن اٴساس الدین التوحید والعدل، وعلمہ کثیر، ولا بد لعاقل منہ، فاٴذکر ما یسھل الوقوف علیہ ویتھیاٴ حفظہ، فقال: اٴما التوحید فاٴن لا تجوّز علی ربک ماجاز علیک، و اٴما العدل فاٴن لا تنسب إلی خالقک ما لامک علیہ))[70] اور ھشام بن حکم سے فرمایا: ((اٴلا اٴعطیک جملة في العدل والتوحید ؟ قال: بلی، جعلت فداک، قال: من العدل اٴن لا تتّھمہ ومن التوحید اٴن لا تتوھّمہ))[71]

اور امیر المومنین   (ع) نے فرمایا:((کل ما استغفرت اللّٰہ منہ فھومنک،وکل ما حمدت اللّٰہ علیہ فھومنہ))[72]

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہداف بعثت انبیاء
معاد اور تخلیق کا فلسفہ
توحید و شرک کی حدود
اسلام پر موت کی دعا
صفات ثبوتی و صفات سلبی
تفکر خلافت کے پيروکاروں کي تعداد کيوں تفکر امامت ...
رسالت پر ایمان لانے کا تقاضا
وقف و وصل
شیعہ کبھی بھی پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کو کافر ...
حقیقت مرگ

 
user comment