جن دنوں یہودی،کافر ذمی کے عنوان سے اسلام کے زیر سایہ زندگی بسر کررھے تھے اور آنحضرت (ص) کا اقتدار اپنے عروج پر تھا۔ ایک یہودی کے چند دینار آپ (ص) پر قرض تھے ۔جب اس یہودی نے واپسی کا مطالبہ کیا،آپ(ص)نے فرمایا: ”اس وقت میرے پاس تمھیں دینے کو کچھ نھیں ھے۔“
یہودی نے کھا:” میں اپنے دینار لئے بغیر آپ (ص) کو بالکل نھیں چھوڑوں گا ۔“
فرمایا:”اچھا میں تمھارے پاس بیٹھا هوں۔ “ ظھر ،عصر ،مغرب ، عشاء اور صبح کی نماز وھیں ادا کی، صحابہ نے اس یہودی کو دھمکی دی، تو آپ (ص) نے فرمایا:”اس کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کر رھے هو ؟“
اصحاب نے کھا :”یا رسول اللہ (ص)! اس یہودی کی یہ جراٴت کہ آ پ (ص) کو محبوس کرے؟“
فرمایا:”پروردگا ر عالم نے مجھے اس لئے مبعوث نھیں کیا کہ ظلم کروں“ ۔جیسے ھی دن چڑھا اس یہودی نے کھا:”اشھد ان لا الہ اللہ واشھد ان محمداًعبدہ ورسولہ، میں اپنے مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیتا هوں ،خدا کی قسم! میں نے آپ (ص)کے ساتھ ایسا سلوک صرف اس لئے کیا تاکہ تورات میں آپ سے متعلق درج شدہ صفات کو عملی طور پر آپ (ص)میں دیکھ سکوں۔“[139]
عقبہ بن علقمہ کہتا ھے:میں علی (ع) کی خدمت میں حاضر هوا، آپ(ع) کے سامنے سوکھی روٹی رکھی تھی، پوچھا:اے امیرالمومنین (ع) ! کیا آ پ (ع) کی غذا یھی ھے ؟
فرمایا:رسول خدا (ص) کی روٹی اس سے زیادہ خشک اور لباس میرے لباس سے زیادہ کھردرا تھا۔اگر میں آنحضرت (ص) کی طرح زندگی بسر نہ کروں تو مجھے ڈر ھے کھیں ایسا نہ هو کہ آپ (ص) سے ملحق نہ هوسکوں۔“[140]
جب امام زین العابدین علی ابن الحسین (ع)سے پوچھا گیا کہ آ پ (ع) کی عبادت کو امیرالمومنین(ع)کی عبادت سے کیا نسبت ھے ؟آ پ (ع) نے فرمایا: ”میری عبادت کو میرے جد کی عبادت سے وھی نسبت حاصل ھے جو میرے جد کی عبادت کو رسول خدا (ص) کی عبادت سے نسبت تھی۔“[141]
زندگی کے آخری لمحات میں بھی اپنے قاتل سے درگزر کرتے هوئے صفاتِ الٰھی کواپنانے کا ایسا نمونہ پیش کیا جو خدا کی رحمت رحمانیہ کے ظہور کا عملی نمونہ ھے ۔[142]<وَمَا اٴَرْسَلْنَاکَ إِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ>[143]اور فقط اسی کو یہ کھنے کا حق ھے کہ((إنما بعثت لاٴتمم مکارم الاٴخلاق))[144]
ایسی شخصیت کے اخلاقی فضائل کی شرح کھاں ممکن ھے جس کے بارے میں خداوند عظیم نے یہ فرمایا هوکہ <وَإِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ >[145]
آپ (ص) کی زندگی سے اخلاق وکردار کا مطالعہ وتحقیق، ھر باانصاف شخص کے لئے آپ (ص) کی نبوت پر ایمان کے لئے کافی ھے <یَا اٴَیُّھَا النَّبِیُّ إِنَّا اٴَرْسَلْنَاکَ شَاھِداً وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاخ وَّدَاعِیاً إِلیَ اللّٰہِ بِإِذْنِہ وَسِرَاجاً مُّنِیْرًا>[146]
اور یہ آسمانی کتب کی ان بشارتوں کا ظہور ھے جن کی سابقہ انبیاء علیھم السلام نے خبر دی تھی۔ اگر چہ تحریف کے ذریعے انھیں مٹانے کی مکمل کوشش کی گئی لیکن باقی ماندہ اثرات میں غور وفکر ،اھلِ نظر کو حقائق تک پھنچانے کے لئے مشعل ِراہ ھے ۔ھم ان میں سے دو نمونوں پر اکتفا کرتے ھیں :
۱۔تورات ،سفر تثنیہ ، تینتیسویں باب میں ذکر هوا ھے :”اور یہ ھے وہ برکت جو موسی جیسے مرد خدا نے اپنی وفات سے پھلے بنی اسرائیل کو عطا کی اور کھا: یھوہ سیناسے آیا اور سعیرسے ان پر طلوع کیا اور جبل فاران سے چمکااور لاکھوں مقدسین کے ساتھ آیا اور اس کے دائیں ھاتھ سے ان کے لئے آتشیں شریعت ظاھر هوئی ۔“
”سینا“وہ جگہ ھے جھاں حضرت موسیٰ بن عمران پر وحی نازل هوئی ۔”سعیر “عیسیٰٰ بن مریم کے مبعوث هونے کی جگہ اور ”فاران“کا پھاڑ جھاں یھوہ چمکا،تورات کی گواھی کے مطابق ”مکہ“کا پھاڑ ھے۔
کیونکہ سفر تکوین کے اکیسویں باب میں حضرت ھاجرہ اور اسماعیل سے مربوط آیات میں مذکور ھے کہ :”خدا اس بچے کے ساتھ تھا اور وہ پروان چڑھ کر،صحرا کا ساکن هوا اور تیر اندازی میں بڑا هوا اور فاران کے صحرا میں سکونت اختیار کی، اس کی ماںنے اس کے لئے مصر سے بیوی کا انتخاب کیا۔“
”فاران “مکہ معظمہ ھے، جھاں حضرت اسماعیل اور ان کی اولاد رھائش پذیر تھے اور کوہ حرا سے آتشیں شریعت اور فرمان <یَا اٴَیُّھَا النَّبِیُّ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ>[147]کے ساتھ آنے والا پیغمبر آنحضرت (ص) کے علاوہ اور کون هو سکتا ھے؟
اور کتاب حبقّوق(حیقوق)نبی کے تیسرے باب میں نقل هوا ھے کہ :”خدا تیمان سے آیا اور قدوس فاران سلاہ کے پھاڑ سے ، اس کے جلال نے آسمانوں کو ڈھانپ لیا اور زمین اس کی تسبیح سے لبریز هوگئی ، اس کا پر تو نور کی مثل تھا اور اس کے ھاتھوں سے شعاع پھیلی۔ “
مکہ معظمہ کے پھاڑ سے آنحضرت (ص)کے ظہور کی بدولت ھی یہ هوا کہ ساری زمین ((سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر))کی صداوٴں سے گونج اٹھی اور ((سبحان ربی العظیم وبحمدہ))و ((سبحان ربی الاٴعلی وبحمدہ )) ساری دنیا کے مسلمانوں کے رکوع وسجود میں منتشر هوئے۔
۲۔انجیل یوحنا کے چودہویں باب میں مذکور ھے کہ :”اور میں اپنے والد سے چاہوں گا اور وہ تمھیں ایک اور تسلی دینے والا عطا کرے گا جو ھمیشہ کے لئے تمھارے ساتھ رھے۔“
اور پندرہویں باب میں مذکور ھے کہ :”اور جب وہ تسلی دینے والا آئے ، جسے والد کی جانب سے تمھارے لئے بھیجوں گا یعنی حقیقی روح جو والد سے صادر هوگی ، وہ میری گواھی دے گی ۔“
اصلی نسخے کے مطابق ، عیسیٰ جس کے متعلق خدا سے سوال کریں گے، کو ”پار قلیطا“کے نام سے یاد کیا گیا ھے جو ”پر یکلیطوس “ھے اور اس کاترجمہ ”تعریف کیا گیا“ ،”احمد“اور”محمد“کے موافق ھے،لیکن ”انجیل “لکھنے والوں نے اسے ”پاراکلیطوس“میں تبدیل کر کے ”تسلی دینے والا“کے معنی میں بیان کیا ھے ۔
اوریہ حقیقت انجیل برنابا کے ذریعے واضح وآشکار هوگئی کہ اس میں ”فصل ۱۱۲“ میں نقل هوا ھے کہ: ”-((۱۳)) اور اے برنابا !جان لوکہ اس لئے میرے اوپر اپنی نگھداری واجب ھے اور نزدیک ھے کہ (عنقریب )میر اایک شاگرد مجھے تیس کپڑوں کے عوض نقد بیچ دے گا ((۱۴))اور لہٰذا مجھے یقین ھے کہ مجھے بیچنے والا میرے نام پر ماراجائے گا((۱۵)) کیونکہ خدا مجھے زمین سے اٹھا لے گا اور اس خائن کی صورت اس طرح بدل دے گا کہ ھر شخص گمان کرے گا کہ میں هوں ((۱۶))اور اس کے ساتھ جو وہ بدترین موت مرے گا میں بچ جاوٴں گا اور دنیا میں دراز مدت تک رہوں گا ((۱۷))لیکن جب محمد پیغمبر خدا ((محمد رسول اللّٰہ))آئے گا مجھ سے یہ عیب اٹھا لیا جائے گا “۔
اور محمد رسول اللہ (ص) کی بشارت انجیل کی فصول میں ذکر هوئی ھیں ۔
اور اس انجیل کی بعض فصول میں((محمد رسول اللّٰہ))کے عنوان سے بشارتیں مذکور ھیں ،جیسا کہ انتالیسویں فصل میں ھے: ”اور جب آدم اپنے قدموں پرکھڑا هوا تو اس نے فضا میں کلمات لکھے هوئے دیکھے جو سورج کی طرح چمک رھے تھے کہ جن کی صریح نص یہ تھی ((لا الہ الااللّٰہ ))اور ((محمد رسول اللّٰہ))((۱۵))پس اس وقت آدم نے لب کھولے اور کھا : اے پروردگار !میرے خدا میں تیرا شکر ادا کرتا هوں کیونکہ مجھے زندگی عطا کر کے تو نے اپنا تفضل فرمایا ((۱۶))لیکن تیری بارگاہ میں فریاد کرتا هوں کہ تو مجھے ان کلمات ((محمد رسول اللّٰہ)) کے معنی بتا دے ((۱۷))پس خدا نے جواب دیا :مرحبا!اے میرے عبد آدم((۱۸))بے شک میں تمھیں بتاتا هوں کہ تم پھلے شخص هو جسے میں نے خلق کیا ھے۔“
اور اکتالیسویں فصل میں ھے: ”((۳۳))جب آدم نے توجہ کی تو دروازے کے اوپر((لا الہ الا اللّٰہ ،محمد رسول اللّٰہ)) لکھا هوا دیکھا۔ “
اور چھیانویں فصل میں ھے: ”((۱۱))اس وقت خد اجھان پر رحم فرمائے گا اور اپنے پیغمبر کوبھیجے گا، جس کے لئے ساری دنیا خلق کی ھے ۔((۱۲))جو قوت کے ساتھ جنوب کی جانب سے آئے گا اور بتوں اور بت پرستوں کو ھلاک کردے گا ۔((۱۳))اور شیطان کے انسان پرتسلط کو جڑ سے اکھاڑ پھنیکے گا((۱۴)) اور خدا کی رحمت سے خود پر ایمان لانے والوں کی خلاصی کے لئے آئے گا ((۱۵))اور جو اس کے سخن پر ایمان لائے گا بابرکت هوگا۔“
اور ستانویں فصل میں ھے:”((۱))اور اس کے باوجود کے میں اس کے جوتوں کے تسمے کھولنے کے قابل نھیں هوں، خدا کی رحمت سے اس کی زیارت سے شرفیاب هوا هوں۔ “
تورات اور انجیل کی بشارتوں کو ثابت کرنے کے لئے یھی بات کافی ھے کہ رسول خدا(ص) نے یہودیوں، نصاریٰ او ر ان کے احبار ،قسیسین اور سلاطین کو اسلام کی دعوت دی۔ یہود کے اس اعتقاد کہ<عُزَیْرٌ ابْنُ اللّٰہِ>[148] اور نصاریٰ کے اعتقاد <إِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلاثَةٍ >[149] کو غلط قرار دیتے هوئے ان کے مقابلے میں قیام کیااور مکمل صراحت کے ساتھ اعلان کیا کہ میں وھی هوں جس کی بشارت تورات وانجیل میں دی گئی ھے <اَلَّذِیَْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَبِیَّ اْلاٴُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْباً عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرَاةِ وَ اْلإِنْجِیْلِ>[150] <وَإِذْ قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ یَا بَنِیْ إِِسْرَائِیْلَ إِنیِّ رَسوُْلُ اللّٰہِ إِلَیْکُمْ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبْشِّراً بِّرَسُوْلٍ یَّاٴْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہ اٴَحْمَدُ>[151]
اگر آپ(ص)کا دعوی سچا نہ هوتا تو کیا ان دشمنوں کے سامنے جو اپنی معنوی اور مادی سلطنت کو خطرے میں دیکھ رھے تھے اور ھر کمزور پھلو کی تلاش وجستجو میں تھے ، پیغمبر اکرم(ص) کا اس قاطعیت سے اعلان کرنا ممکن تھا؟!
احبار،[152] قسیسین،[153] علماء یہود ونصاریٰ اور سلاطین، جنہوں نے آپ(ص)کے مقابلے میں ھر حربے کا سھارا لیا، یھاں تک کہ جنگ اور مباھلہ سے عاجز هو کر جزیہ دینا قبول کر لیا،پیغمبر اسلام (ص)کے اس دعوے کے مقابلے میں کس طرح لا چار هوکر رہ گئے اور ان کے لئے ممکن نہ رھا کہ آنحضرت(ص) کے اس دعوے کا انکار کر کے ،آپ کی تمام باتوں کو سرے سے غلط ثابت کردیں !آنحضرت(ص) کا صریح دعوی او رعلماء وامراء یہود و نصاریٰ کا حیرت انگیز سکوت، آپ(ص)کے عصرِ ظہور میں ان بشارتوں کے ثبوت پر برھانِ قاطع ھے۔
اگرچہ اس کے بعد حب جاہ ومقام اورمال ومتاع کی وجہ سے انھیںتحریف کے علاوہ کوئی دوسری راہ نہ سوجھی کہ جس کا نمونہ فخرالاسلام نے اپنی کتاب ”انیس الاعلام“ میں اپنے ذاتی حالات کا تذکرہ کرتے وقت پیش کیا ھے، جس کا خلاصہ یہ ھے کہ :میں ارومیہ کے گرجا گھر میں متولد هوا اور تحصیل علم کے آخری ایام میں کیتھولک فرقے کے ایک بڑے عالم سے استفادہ کرنے کا موقع میسر هوا۔ اس کے درس میں تقریبا چار سو سے پانچ سو افراد شرکت کرتے تھے۔ ایک دن استاد کی غیر موجودگی میں شاگردوں کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ جب استاد کی خدمت میں حاضر هوا تو انہوں نے پوچھا بحث کیا تھی؟ میں نے کھا:”فارقلیط“کے معنی کے بارے میں۔ استاد نے اس بحث میں شاگردوں کے نظریات معلوم کرنے کے بعد کھا:” حقیقت کچھ اور ھے “، پھر اس مخزن کی جسے میں اس کا خزانہ تصور کرتا تھا، چابی مجھے دی اور کھا :”اس صندوق میں سے دو کتابیں جن میں سے ایک سریانی اور دوسری یونانی زبان میں جو حضرت خاتم الانبیاء کے ظہور سے پھلے کھال پر لکھی هوئی ھے ،لے کر آؤ۔“
پھر مجھے دکھایا کہ اس لفظ کے معنی ”احمد“اور ”محمد“ لکھے هوئے تھے اور مجھ سے کھا:”حضرت محمد (ص)کے ظہور سے پھلے عیسائی علماء میں اس کے معنی میں کوئی اختلاف نہ تھا اور آنحضرت (ص) کے ظہور کے بعد تحریف کی“۔ میں نے نصاریٰ ٰ کے دین سے متعلق اس کا نظریہ دریافت کیا۔اس نے کھا: ”منسوخ هوچکاھے ۔اور نجات کا طریقہ محمد (ص) کی پیروی میں منحصر ھے۔“ میں نے اس سے پوچھا: ”اس بات کا تم اظھار کیوں نھیں کرتے ؟“
اس نے عذر یہ بیان کیا تھا کہ اگر اظھار کروں مجھے مار ڈالیں گے اور …اس کے بعد ھم دونوں روئے اور میں نے استاد سے یہ استفادہ کرنے کے بعد اسلامی ممالک کی طرف ھجرت کی ۔[154]
ان دو کتابوں کا مطالعہ اس عالی مقام راھب کے روحی انقلاب کا سبب بنا اور اسلام لانے کے بعد عیسائیت کے بطلان اور حقانیت ِاسلام کے بارے میں کتاب انیس الاعلام لکھی جو عھد قدیم[155] وجدید[156] میں اس کے تتبع اور تحقیق کا منہ بولتا ثبوت ھے ۔