نجدی علماء كے نام مكی علماء كا جواب
شاہ فضل رسول قادری (ہندی) متوفی1289ھ سیف الجبار نامی كتاب میں اس خط كو پیش كرتے ھیں جس كو نجدی علماء نے طائف میںقتل وغارت كے بعد مكی علماء كے نام لكھا ھے ،اور اس كے بعد مكی علماء كا جواب بھی نقل كیا، اور خود موصوف نے بھی بعض جگهوں پر فارسی زبان میں كچھ توضیحات دیں ھیں، مكہ كے علماء نجدیوں كے خط كا جواب دینے كے لئے نماز جمعہ كے بعد خانہ كعبہ كے دروازہ كے پاس كھڑے هوئے اور اس مسئلہ كے بارے میں گفتگو كی اس جلسہ كے صدر جناب احمد بن یونس باعلوی نے ان كی باتوں كو قلم بند كرنے كے لئے كھا، (چنانچہ وہ خط لكھا گیا)
نجدیوں كی باتیں اور مكی علماء كا جواب شاہ فضل قادری كی توضیحات كے ساتھ تقریباً 89 ستونوں (ھر صفحہ میں دو ستون) میں ذكر هوا ھے، یہ باتیں جو ھم ذكر كریں گے وہ نجدیوں كے خط كے باب اول (باب الشرك) اور باب دوم (باب البدعة) سے متعلق ھیں۔
اس خط كو لكھنے والے احمد بن یونس باعلوی خط كے آخری حصے میں لكھتے ھیں، كہ باب اول كے بارے میں ھمارا نظریہ تمام هوا، نماز عصر كا وقت قریب آگیا، اور نماز پڑھی جانے لگی اور علماء اپنی جگہ سے اٹھ كھڑے هوئے، شیخ عمر عبد الرسول اور عقیل بن یحيٰ علوی اور شیخ عبد الملك اور حسین مغربی اس خط كا املاء بول رھے تھے۔
اور جب علماء نماز سے فارغ هوئے تو دوسرے باب (یعنی باب البدعة) كے بارے میں گفتگو شروع هوئی كہ اچانك طائف كے ستمدیدہ او رمظلوم لوگ مسجد الحرام میں وارد هوئے اور لوگوں كو اپنی روداد سنائی اور ان كو یہ خبر بھی دی كہ نجدی مكہ میں بھی آئےں گے، اور یھاں آكر قتل وغارت كریں گے۔
چنانچہ اھل مكہ نے جب یہ خبر سنی تو بھت پریشان هونے لگے گویا كہ قیامت آنے والی ھے، علماء مسجد الحرام كے منبر كے پاس جمع هوگئے اور جناب ابوحامد منبر پر تشریف لے گئے اور نجدیوں كا خط اور اس كا جواب لوگوں كو پڑھ كر سنانے لگے۔
اور اس كے بعد علماء، قضات اور مفتیوں سے خطاب كیا آپ حضرات نے نجدیوں كی باتوں كو سنا اور ان كے عقائد كو جان لیا اب ان كے بارے میں آپ لوگوں كی كیا رائے ھے؟۔
اس وقت تمام علماء، قضات او راھل مكہ اور دوسرے اسلامی ملكوں سے آئے حاجی مفتیوں نے نجدیوں كے كفر كا فتویٰ دیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی كھا كہ امیر مكہ پر ان سے مقابلہ كے لئے جلدی كرنا واجب ھے اور تمام مسلمانوں پر بھی ان كی حمایت اور مدد كرنا واجب ھے، اور ان كے مقابلہ میں شركت كرنا واجب ھے اور اگر كوئی شخص بغیر عذر خواھی كے جنگ سے منھ موڑے گا تو وہ شخص گناہكار ھے،اور ان لوگوں سے جنگ كرنے والا مجاہد ھے اور اسی طرح ان كے ھاتھوں سے قتل هو نے والا شخص شھید هوگا۔
علماء اور مفتیوں نے اس بات سے اتفاق كرتے هوئے مذكورہ فتوے پر اپنی اپنی مھر لگائی، اور نماز مغرب كے بعد شریف مكہ كے حضور میں پهونچے اور سب لوگوں نے مل كر یہ طے كرلیا كہ جنگ كے لئے تیار هوجائیں اور كل صبح كے وقت نجدیوں سے مقابلہ كرنے كے لئے حدود حرم سے خارج هوجائیں۔
لیكن شریف غالب مكہ میں نہ رہ سكے، اسی بنا پر اپنے بھائی عبد المعین كو مكہ میں اپنا جانشین بنایا اور خود جدّہ بندرگاہ نكل گئے، لیكن عبد المعین سعود سے مل بیٹھا اور ایك خط لكھ كر اس سے امان چاھی، اور اس نے اپنے خط میں یہ بھی لكھا كہ اھل مكہ آپ كی پیروی كرنے كے لئے حاضر ھیں، اور وہ خود بھی سعود كی طرف سے مكہ كا والی هونا پسند كرتا ھے۔
شریف كے بھیجے هوئے افراد سب لوگ بزرگ ہستیاں تھیں، اور ”وادی السّیل“ (طائف اور مكہ كے درمیان) میں سعود سے ملاقات كی۔
چنانچہ ان كے درمیان ضروری گفتگو انجام پائی، اس گفتگو كے بعد سعود نے عبد المعین كی اس پیشكش كو بھی قبول كرلیاجو اس نے اپنے خط میں لكھی تھی، اور اھل مكہ كو دین خدا و رسول كی طرف دعوت دی، اور اپنے ایك خط میں عبد المعین كو مكہ كا والی مقرر كیا، عبد المعین كے بھیجے هوئے افراد بھی صحیح وسالم مكہ پلٹ گئے، سعود كا خط 7محرم الحرام1218ھ كو روز جمعہ مفتی مالكی كے ذریعہ سب كے سامنے پڑھا گیا۔
خط كی عبارت اس طرح ھے:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ
” مِنْ سُعُوْدْ بِنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ اِلٰی كَافَّةِ اَہْلِ مَكَّةَ وَالْعُلَمَاءِ وَالاَغَاوٰاتِ وَقَاضِی السُّلْطَانِ۔
اَلسَّلاٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْہُدیٰ اَمَّا بَعْد:
فَاَنْتُمْ جِیْرَانُ اللّٰہِ وَسُكَّانُ حَرَمِہ، آمِنُوْنَ بِاٴَمْنِہ، اِنَّمَا نَدْعُوكُمْ لِدِیْنِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ۔
قُلْ یَا اَہْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی كَلِمَةٍ سِوَاءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَكُمْ اَنْ لاٰ نَعْبُدَ اِلّٰا اللّٰہَ وَ لاٰ نُشْرِكَ بِہ شَیْئاً وَلاٰ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضاً اَرْبَاباً مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوْااَشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ>
فَاَنْتُمْ فِی وَجْہِ اللّٰہِ وَ وَجْہِ اَمِیْرِ الْمُسْلِمِیْنَ سُعُوْد بِنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ وَاَمِیْرُكُمْ عَبْدُ الْمُعِیْنِ بْنُ مُسَاعِدِ فَاسْمَعُوْا لَہُ وَاَطِیْعُوْا مَا اَطَاع َاللّٰہَ ۔ وَالسَّلاٰمْ“۔
(شروع كرتا هوں اس اللہ كے نام سے جو بڑا رحمن اور رحیم ھے ،یہ خط سعود بن عبد العزیز كی طرف سے تمام اھل مكہ، علماء، خواجگان اور سلطان عثمانی كی طرف معین قاضی كی طرف، سلام هو ان لوگوں پر جنھوں نے ہدایت كا اتباع كر لیا ھے ،اما بعد: (بعد از حمد خدا اور درود سلام بر پیغمبر اكرم)
تم لوگ خدا كے ھمسایہ اور پڑوسی هو اور اس كی امان، خانہ خدا میں رھتے هو، خدا كی امان سے امان میں هو، ھم تم كو دین خدا او ردین رسول اللہ كی دعوت دیتے ھیں۔
”اے پیغمبرآپ كہہ دیں كہ اے اھل كتاب آوٴ اور ایك منصفانہ كلمہ پر اتفاق كرلیں كہ خدا كے علاوہ كسی كی عبادت نہ كریں، كسی كو اس كا شریك نہ بنائیں، آپس میں ایك دوسرے كو خدا كا درجہ نہ دیں، او راگر اس كے بعد بھی یہ لوگ منھ موڑیں تو كہہ دیجئے كہ تم لوگ بھی گواہ رہنا كہ ھم لوگ حقیقی مسلمان اور اطاعت گذار ھیں“
تم لوگوں كو چاہئے كہ خدا اور سعود امیر مسلمین كی راہ پر چلو، اور تمھارا والی عبد المعین بن مساعد ھے اس كی باتوں كو سنو، اورجب تك وہ خدا كی اطاعت كرے تم سب اس كی اطاعت كرو والسلام۔ )
سعود 8 محرم كوبحالت احرام مكہ میں وارد هوا، طواف اور سعی كے بعد شریف غالب كے باغ میں مھمان هوا، اس كے بعد مسجد الحرام گیا اور لوگوں كے سامنے ایك تقریر كی جس میں اھل مكہ كو توحید كی دعوت دی، اور ایك دوسری تقریر كے درمیان تمام لوگوں كے لئے یہ حكم صادر كیا كہ جتنی قبروں پر بھی گنبد ھیں سب كو گرادو۔
اس سلسلہ میں ”جبرتی“ كھتا ھے كہ بھت سے اھل مكہ دوسرے حجاج كے ساتھ وھابیوں كے سامنے سے بھاگ نكلے، كیونكہ لوگ وھابیوں كے عقائد كے برخلاف عقائد ركھتے تھے، مكہ كے علماء اور عوام الناس وھابیوں كو خوارج اور كافر كھتے تھے، صرف اھل مكہ ھی نھیں بلكہ دوسرے لوگ بھی ان عقائد كے برخلاف اظھار عقیدہ كرتے تھے۔
اس كے بعد وھابیوں كے رئیس (سعود) نے یمن كے امیر حجاج كو بھی ایك خط لكھا او ركئی صفحات میں اپنے عقائد لكھ كر بھیجا، سعود نے اس خط میں جس كو جبرتی نے نقل كیا ھے، اس بات پر توجہ دلائی كہ جو لوگ مُردوں سے لَو لگاتے ھیں ان سے حاجت طلب كرتے ھیں، قبروں كے لئے نذر یا قربانی كرتے ھیں یا ان سے استغاثہ كرتے ھیں، یہ نہ كریں اس نے لوگوں كو بھت ڈرایا دھمكایا، اسی طرح انبیاءعلیهم السلاماولیاء اللہ كی قبور كی تعظیم كرنا قبروں پر گنبد بنانا، ان پر چراغ جلانا قبروں كے لئے خدمت گذار معین كرنا وغیرہ وغیرہ ان سب كی شدت كے ساتھ ممانعت كردی، قبروں كی گنبدوں كو ویران اور مسمار كرنے كو واجب قرار دیا، ساتھ ساتھ یہ بھی اعلان كیا كہ جو شخص بھی ھمارے عقائد كو قبول نھیں كرے گا ھم اس سے جنگ كریں گے۔
زینی دحلان كھتے ھیں كہ وھابی افراد مكہ میں چودہ دن رھے، اس دوران انھوں نے وھاں كے مسلمانوں سے توبہ كرائی اور اپنے خیال خام میں انھوں نے لوگوں كے اسلام كو تازہ كیا اور جو عقائد مثلاً توسل اور زیارات، شرك تھے ان سب كو ممنوع قرار دیا۔
اپنے قیام كے نویں دن وھابیوں نے كثیر تعداد میں لوگوں كو جمع كیا جن كے ھاتھوں میں بیلچے (پھاوڑے)تھے تاكہ اس علاقہ میں موجود قبروں كی گنبدوں كو مسمار كردیں، سب سے پھلے انھوں نے قبرستان ”معلی“ جھاں بھت سی گنبدیں تھیں،سب كو مسمار كردیا اس كے بعد پیغمبر اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی جائے ولادت اسی طرح ابوبكر اور حضرت علیںكی جائے ولادت، اسی طرح جناب خدیجہ كی گنبد، نیز چاہ زمزم پر موجود قبہ اور خانہ كعبہ كے اطراف میں موجود تمام قبروں كو نیز خانہ كعبہ سے اونچی تمام عمارتوں كو مسمار كردیا۔
اس كے بعد ان تمام مقامات كو مسمار كردیا جھاں پر خدا كے صالح بندوں كے كچھ بھی آثار تھے، وھابی حضرات جس وقت قبروں اور گنبدوں كو مسمار كرتے تھے تو طبل بجاتے تھے اور رجز پڑھتے تھے، اور صاحب قبور كو برے برے الفاظ سے یاد كرتے تھے، چنانچہ انھوں نے تین دن كے اندر تمام آثار اور قبور كو نیست ونابود كردیا۔
ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ سعود تقریباً بیس دن سے زیادہ مكہ میں رھا اور اس كے ساتھی صبح سویرے ھی قبروں اور گنبدوں كو گرانے كے لئے نكل جاتے تھے یھاں تك كہ یہ كام دس دن میں تمام هوگیا، اور یہ لوگ اس كام میںخدا كا تقرب سمجھتے تھے یھاں تك كہ انھوں نے تمام قبور كو منہدم كردیا۔
سعود كے دیگر كارنامے اور شریف غالب كی واپسی
سعود نے ایك انوكھا حكم یہ صادر كیا كہ نماز عشاء كے علاوہ مذاھب اربعہ كے پیروكاروں كو یہ حق حاصل نھیں ھے كہ ایك ساتھ مسجد الحرام میںنماز میں شریك هوں، بلكہ صبح كی نماز میں شافعی ظھر كی نماز میں مالكی عصر كی نماز میں حنفی مغرب كی نماز میں حنبلی اور نماز جمعہ مفتی مكہ سے مخصوص كردی گئی۔
سعود نے یہ بھی حكم صادر كیا كہ محمد بن عبد الوھاب كی كتاب كشف الشبھات كو مسجد الحرام میں پڑھایا جائے اور تمام خاص وعام اس میں شریك هوں۔
سعود 24دن مكہ میں رھا اس كے بعد شریف غالب كی گرفتاری كے لئے جدہ روانہ هوا، اور اس علاقہ كو گھیر لیا لیكن چونكہ جدّہ كے اطراف میں اونچی اونچی پھاڑیاں ھیں اور ان كے دفاع كے وسائل بھی بھت مضبوط تھے جس كی بناپر سعود، شریف غالب كو گرفتار نہ كرسكا اور مایوس هوكر نجد پلٹ گیا۔
شریف غالب نے مكہ میں سعود كے نہ هونے سے فائدہ اٹھایا اور مكہ واپس آگئے، اور اپنے بھائی عبد المعین كی طرح بغیر كسی روك ٹوك كے شھر كو اپنے قبضہ میں كر لیا، لیكن وھابی راضی نہ تھے كہ مكہ معظمہ ان كے ھاتھوں سے چلا جائے، شریف غالب بھی چاھتے تھے كہ پھلے كی طرح مكہ میں حكمرانی كریں ،اسی وجہ سے دونوں میں ایك بار پھر جنگ كا بازار گرم هوگیا، ذیقعدہ1220ھ تك یہ جنگ چلتی رھی، پھر صلح هوگئی، جس میں طے پایا كہ وھابی لوگ صرف حج كے لئے مكہ معظمہ میں داخل هونگے اور پھر واپس چلے جایا كریں گے۔
شریف غالب بھی وھابیوں سے جنگ كرتے هوئے تھك چكے تھے اپنے اندر مقابلہ كرنے كی طاقت نھیں پارھے تھے، اور اپنی پھلی حكمرانی پر باقی بھی رہنا چاھتے تھے،لہٰذا اس كے پاس ظاھری طور پر وھابی مذھب كو قبول كرنے كے علاوہ اور كوئی چارہ نھیں رہ گیا تھا، اور یہ كہ وھابی حضرات جو چاھیں عمل كرےں، اور صلاح الدین مختار كے قول كے مطابق خدا اور اس كے رسول كے دین كو قبول كرنے میں سعود كی بیعت كریں۔
شریف غالب نے اپنے خلوص كو سعود كے نزدیك ثابت كرنے كے لئے لوگوں كو حكم دیا كہ جو گنبد اور مقبرے باقی رہ گئے ھیں ان سب كو گرادیا جائے كیونكہ بعض مقبروں كو وھابیوں نے نھیں گرایا تھا چنانچہ اس نے مكہ معظمہ اور جدّہ میں كوئی مقبرہ نھیں چھوڑا، لیكن پھر بھی شریف غالب كے ھاتھوں كچھ ایسے كام هوتے رھتے تھے جن كی وجہ سے سعود اس سے بد گمان رھتا تھا۔
شریف غالب كے قابل توجہ كاموں میں سے ایك یہ تھا كہ وہ تاجر لوگوں سے ٹیكس لیتا تھا اور سعود اعتراض كرتا تھا تو یہ كھتا تھا كہ یہ لوگ مشرك ھیں (اس كا مقصد یہ تھا كہ چونكہ یہ لوگ وھابی نھیں ھیںلہٰذا مشرك ھیں) اور میں یہ ٹیكس مشركوں سے لے رھا هوں مسلمانوں سے نھیں۔