وھابیوں كا خط فتح علی شاہ كے نام
میرزا ابو طالب كی تحریر كے مطابق كربلا كا حادثہ سلطان روم (بادشاہ عثمانی) او ربادشاہ عجم (فتح علی شاہ) كے كانوں میں كئی دفعہ پهونچایا گیالیكن ان میں سے كسی نے كبھی كوئی قدم نھیں اٹھایا لہٰذا عبد العزیز كے حوصلے اور بلند هوگئے اور حضرت رسول اكرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كی طرح دنیا بھر كے بادشاهوں كو خط لكھنا شروع كیا، یھاں پرھم عبد العزیز كے ذریعہ فتح علی شاہ كو لكھے گئے خط كا ترجمہ پیش كرتے ھیں: ” اعوذباللّٰہ من الشیطان الرجیم بسم اللّٰہ الرّحمٰن الرحیم، من عبد العزیز امیر المسلمین الی فتح علی شاہ ملك عجم:
حضرت رسول خدا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم كے بعد ان كی امت میں بت پرستی رائج هوگئی ھے،كربلا ونجف میں لوگ قبور كی زیارت كے لئے جاتے ھیں جو پتھر اور مٹی سے بنائی گئی ھیں، وھاں جاكرقبروں كے سامنے سجدہ كرتے ھیں ان سے حاجت طلب كرتے ھیں، مجھ حقیر كو یہ معلوم ھے كہ سیدنا علی اور حسین ان كاموں سے بالكل راضی نھیں ھیں،میں نے دین مبین اسلام كی اصلاح كے لئے كمر ھمت باندھ لی ھے اور اللہ كی توفیق سے اب تك نجد، حجاز او رعرب كے دوسرے علاقوں میں اسلام كی اصلاح كردی ھے، لیكن ھماری دعوت كربلا اور نجف كے لوگوں نے تسلیم نہ كی چنانچہ ھم نے دیكھ لیا كہ اب اس كے علاوہ كوئی چارہ باقی نھیں رہ گیا ھے ھم ان سب كو تہہ تیغ كردیں یھی ان كے لئے مناسب بھی تھا،آپ نے سنا بھی هوگا، اسی بناپر اگر آپ بھی اسی طرح كا عقیدہ ركھتے ھیں تو آپ كو توبہ كرنا چاہئے كیونكہ اگر كوئی توبہ نھیں كرتا اور اپنے كفر وشرك پر بضد هوتا ھے تو ھم اسے كربلا كے لوگوں كی طرح سبق سكھادیتے ھیں، والسلام علی من تبع الہدیٰ۔
فتح علی شاہ كے اقدامات
میرزا عبد الرزاق صاحب یوں رقمطراز ھیں كہ اس (كربلا كے) حادثہ كے بعد فتح علی شاہ نے اسماعیل بیك بیات غلام كو (بغداد میںعثمانی بادشاہ كا والی) سلیمان پاشا كے پاس تفصیل لكھ كر بھیجا،كہ اگر دولت عثمانی كو كوئی اعتراض نہ هو تو ایران كا لشكر آپ كی مدد ونصرت كے لئے آسكتا ھے تاكہ فتنہ وھابیت كو خاموش كردیا جائے كیونكہ ابھی ان كی ساكھ نھیں جمی ھے لہٰذا كوئی خاص قدم اٹھایا جائے، اس خط كے جواب میں سلیمان پاشا نے عرض كیا كہ عثمانیہ حكومت كے حكم كے مطابق یہ طے هوچكا ھے كہ ایسے اسباب اور وسائل فراھم كئے جائیں كہ اس بدنھاد فرقہ كا نام ونشان تك مٹادیا جائے، آپ كی محبت كا شكریہ، ایران كے لشكر كی كوئی ضرورت نھیں ھے، اور روضوں كی تعمیر اور تلف شدہ مال كو عوض كرنا ھماری حكومت كی ذمہ داری ھے، اتفاقاً اسی دوران سلیمان پاشا صاحب اس دنیا سے چل بسے۔
كتاب منتظم ناصری میں اس طرح تحریر ھے :
”جس وقت كربلائے معلی میں مومنین كے قتل عام كی خبر فتح علی شاہ ایران (جن كی بادشاھت كو ابھی چند ھی سال گذرے تھے) كو پهونچائی گئی، تو اس نے خبر كو سننے كے بعد اسماعیل بیك بیات كو بغداد كے والی سلیمان پاشا كے پاس بھیجا اور اس سے كھا كہ وھابیوں كے شركو ختم كرڈالو، سلیمان پاشا نے قبول كرلیا لیكن سیلمان بك اتفاق سے كچھ ھی دنوں كے بعد اس دنیا سے كوچ كرگئے۔
رضا قلی خان مذكورہ موضوع كو تفصیلی طور پر اس طرح نقل كرتے ھیں:
”جس وقت فتح علی شاہ اس خبر سے آگاہ هوئے، تو انھوں نے سب سے پھلے اسماعیل بیك بیات كو سلیمان پاشا كے پاس بھیجا اس كے بعداس نے حاج حیدر علی خان، حاج ابراھیم خان شیرازی كے بھتیجے جو عباس میرزا كے نائب الوزراء تھے ان كو مصر كا سفیر بناكر بھیجا اور ایك محبت بھرا خط جس كے ساتھ ایك خراسانی تلوار ”گوھر نشان“ محمد علی پاشا كے پاس بھیجی جو اس وقت مصر كے حاكم تھے اور اس سے درخواست كی كہ وھابیوں كے فتنہ كو دفع كرنے میں ھر ممكن كوشش كریں اور اگر ضرورت هو تو وھابیوں كا قلع قمع كرنے كے لئے ایران كا لشكر دریا اور خشكی كے راستہ سے نجد كی طرف بھیج دیاجائے۔
جس وقت ایران كا سفیر مصر پهونچا او رمحمد علی پاشا حقیقت ِ حال سے آگاہ هوا تو اپنے ربیب (بیوی كے ساتھ دوسرے شوھر كا بچہ) ابراھیم پاشا كو وھابیوں كے شر كو ختم كرنے كے لئے معین كیا تاكہ درعیہ شھر كو نیست ونابود كردے اور عبد اللہ بن مسعود كو گرفتار كركے زنجیر میں باندھ كر اسلامبول (عثمانی بادشاهوں كا پائے تخت) روانہ كرے، لیكن عثمانی بادشاہ كے حكم سے قتل هوگیا اور ایران كا سفیر اپنی جان بچاكر شام (سوریہ) كے راستہ سے تبریز (ایران كا شھر) میں وارد هوا اور عباس میرزا نائب السلطنہ كی خدمت میں پہنچا۔
ھمیں فتح علی شاہ كے اقدامات كا ذكرغیر ایرانیوں كی تحریروں میں نھیں ملا، اور ”سیاق تاریخ“ میں وضاحت كی جائے گی كہ محمد علی پاشا كا وھابیوں سے برسر پیكار هونا عثمانی بادشاہ كے حكم سے تھا لیكن پھر بھی یہ بات كھی جاسكتی ھے كہ اس سلسلہ میں فتح علی شاہ كے اقدامات بھی بے تاثیر نھیں تھے۔
حادثہ كربلا كے بعد عبد العزیز كا قتل
ماہ رجب المرجب1218ھ میں عبد العزیز امیر سعود كا باپ مسجد درعیہ میں نماز كے وقت قتل كردیا گیا اس كا قاتل عثمان نامی شخص ”عماریہ موصل“ علاقہ كا رہنے والا تھا اور اسے سعود بن عبد العزیز كو قتل كرنے كے لئے قربة الی اللہ بھیجا گیا تھا (سعود نے1216ھ میں كربلا شھر پر حملہ كركے قتل وغارت كیا تھا) لیكن چونكہ سعود كو قتل كرنا مشكل هورھا تھا، لہٰذا اس نے اس كے باپ عبد العزیز كا خاتمہ كر ڈالا، عثمان ایك فقیر كے بھیس میں شھر درعیہ میں داخل هوا اور اس نے اپنے كو ایك مھاجربتلایا اور بھت زیادہ عبادت اور زہد وتقویٰ كا اظھار كیا اور خود كو عبد العزیز كا مطیع اور فرمانبردار بتلایا،لہٰذا عبد العزیز بھی اس كو بھت چاہنے لگا اور اس كو بھت سا مال ودولت عطا كرنے لگا، لیكن عثمان كا مقصد تو صرف اس كو قتل كرنا تھا۔
نماز عصر كی ادائیگی كے وقت جب عبد العزیز سجدہ میں گیا تو قاتل تیسری صف میں كھڑا تھا اور اپنے ساتھ خنجر چھپائے هوئے تھا عبد العزیز كی طرف بڑھا اور اس كے پیٹ كو چاك كرڈالا، مسجد میں ھل چل مچ گئی بھت سے لوگ بھاگ نكلے اور بھت سے لوگ قاتل كے پكڑنے كے لئے اس كے پیچھے دوڑے، اس وقت عبد اللہ بن محمد بن سعود، یعنی عبد العزیز كے بھائی نے قاتل كو مار ڈالا اور عبد العزیز كو اپنے محل میں لے گیا لیكن كچھ ھی دیر كے بعد عبد العزیز اس دنیا سے چل بسا۔
ابن بشر صاحب عبد العزیز كے قتل كے واقعہ كے ذیل میں كھتے ھیں كہ عبد العزیز كا قاتل ایك قول كے مطابق كربلا كا رہنے والا شیعہ مذھب تھا، كیونكہ سعود نے جب كربلا پر حملہ كركے وھاں پر قتل وغارت كیا تو وہ شخص اپنے شھر میں هوئے قتل وغارت كا بدلے لینے كے لئے وھاں پہنچا وہ سعود كو قتل كرنا چاھتا تھا لیكن جب وہ سعود كو قتل نہ كرسكا، تو اس نے سوچا كہ سعود كو قتل كرنا تو مشكل ھے لہٰذا اس كے باپ عبد العزیز ھی كو كیوں نہ قتل كردیا جائے، اس كے بعد ابن بشر صاحب كھتے ھیں كہ یھی قول حقیقت سے نزدیك ھے۔ دائرة المعارف اسلامی میں بھی اس طرح تحریر ھے كہ عبد العزیز كا قاتل شیعہ مذھب اور عماریہ كا رہنے والا تھا۔
عبد العزیز كے قتل كے بعد اس كا بیٹا اور جانشین جس وقت مسجد میں نماز كے لئے جاتا تھا تو اپنے ساتھ چند افراد كو اپنی حفاظت كے لئے ركھتا تھا اور جب وہ نماز كے لئے كھڑا هوتا تھا تو یہ لوگ اس كے پیچھے كھڑے هوتے تھے تاكہ اس پر كوئی حملہ نہ كرسكے۔
نجف اشرف پر وھابیوں كا حملہ
سعود بن عبد العزیز نے كئی مرتبہ نجف اشرف پر حملہ كا پروگرام بناكر حملہ كیا اورھر حملہ میںجو لوگ اس كو شھر كے باھر مل جاتے تھے ان كو قتل كردیتا تھا لیكن شھر میں داخل نھیں هوسكا۔
اس كے نجف اشرف پر جلدی جلدی حملہ كرنے كی وجہ یہ تھی كہ اس نے نجف اشرف كے قریب ”رحبہ“ نامی جگہ كو اپنی چھاونی بنالیا تھا۔
اور جس وقت سعود رحبہ سے نجف اشرف پر حملہ كرنا چاھتا تھا تو نجف اشرف كے افراد آگاہ هوجاتے تھے اور شھر كے دروازوں كو بند كردیتے تھے اور سعود شھر كی چھار دیواری كے باھر چلتا تھا اور اگر كوئی وھاں اس كو مل جاتا تھا تو اس كو قتل كردیتا تھا اور اس كے سر كو دیوار كے اس طرف پھینك دیتا تھا۔
اور كبھی كبھی اس كے افراد جن كی تعداد دس یا اس سے زیادہ هوتی تھی نجف كے لوگوں كوغافل كركے شھر میں داخل هوجاتے تھے اور شھر میں قتل وغارت كردیا كرتے تھے۔
وھابیوں كا قبیلہ خزاعل سے ٹكراؤجس كی بناپر وھابی، شھر نجف كی نسبت بھڑك اٹھے
1214ھ میں نجد سے ایك وھابی گروہ جس میں كچھ سوار بھی تھے بغداد پہنچا، اس كاروان كے پاس جو كچھ تھا اس كو بیچ ڈالا اور جوكچھ خریدنا تھا خرید لیا، اور اپنے وطن كو واپس جانے لگے، انھیں كے ساتھ بعض عراقی بھی حج كی ادائیگی كے لئے روانہ هوگئے اور جس وقت وہ نجف پهونچے۔ وھاں پر قبیلہ خزاعل كے كچھ شیعہ مذھب لوگ موجود تھے، چنانچہ جب انھوں نے قبیلہ خزاعل كے رئیس كو حرم مطھر حضرت علی ں كا بوسہ لیتے دیكھا تو اس پر حملہ كرنے لگے، یھاں تك كہ اس كا خون زمین پر گرنے لگا، اس وجہ سے قبیلہ خزاعل اور وھابیوں كے درمیان جھگڑا هوگیا اور یہ جھگڑا تقریباً تین گھنٹے تك جاری رھا، اور دونوں طرف سے تقریباًسو سو افراد مارے گئے۔
عراقی حجاج كا سامان او روھابیوں كے اونٹ اور گھوڑے غارت هوگئے اور وھابیوں میں سے جو شخص بھی باقی بچا وہ نجد كی طرف بھاگا اور عراقی حجاج بھی بغداد واپس هوگئے۔
اس واقعہ كے بعد وھابیوں اور نجف اشرف كے لوگوں میں بغض وحسد كی ایك لھر سی دوڑ گئی۔