اردو
Tuesday 20th of August 2024
0
نفر 0

مسلمان اوائل سے ہى اپنى خاص منطق ركھتے تھے يہ منطقى روش واضح طور پر علم كلام او ر اصولى فقہ ميں ديكھى جا سكتى ہے اس قسم كى منطق ميں اگرچہ مسلمان ارسطو كى منطق سے الہام ليتے تھے ليكن بہت ہى كم اس سے متاثر ہوتے تھے، بطور خاص علم اصول الفقہ فق

72

7) منطق

مسلمان اوائل سے ہى اپنى خاص منطق ركھتے تھے يہ منطقى روش واضح طور پر علم كلام او ر اصولى فقہ ميں ديكھى جا سكتى ہے اس قسم كى منطق ميں اگرچہ مسلمان ارسطو كى منطق سے الہام ليتے تھے ليكن بہت ہى كم اس سے متاثر ہوتے تھے، بطور خاص علم اصول الفقہ فقہاء كى منطق شمار ہوتا آيا ہے كہ جو مكمل طور پر مسلمانوں سے ہى تشكيل پايا، اور اہل كلام حضرات بھى پانچويں صدى تك ارسطو كى منطق سے كم ہى مدد ليتے تھے بلكہ اپنى خاص منطقى روش ركھتے تھے _

عالم اسلام ميں پہلى بار ايرانى دانشور ابن مقفع نے مقولات ، عبارات اور قياس كے عربى ترجمہ ميں سبقت كى اور ديگر مترجمين نے بھى منطقى رسائل كا ترجمہ كيا اس حوالے سے كندى ، فارابى ، ابن سينا ، بھمنياربن مرزبان اور حكيم لوكرى نے كوشش كيں، ليكن بو على سينا نے كتاب شفا ميں اگرچہ منطق ارسطو كے نصاب كو اصلى حالت ميں رہنے ديا اور مكمل طور پر اسكى شرح لكھى ليكن اپنى ديگر كتابوں ميں اس منطقى روش ( ارسطو كى روش) ميں بہت زيادہ كمى بيشى كى ، انہوں نے كتاب منطق المشرقين كے ديباچہ ميں يہ تاكيد كے ساتھ بتايا كہ وہ اسى طرح مشائين كى روش پر وفادار رہے ہيں _

خواہ نصير الدين طوسى نے بھى منطق ميں بہت تحقيق كى اور متعدد كتابيں كہ جن ميں سے اساس الاقتباس،شرح منطق اشارات ، تعديل المعيار اور التجريد فى المنطق تحرير كيں، وہ منطق كو علم كے ساتھ ساتھ وسيلہ بھى سمجھتے تھے ان كے خيال ميں منظق ايك ايسا علم ہے جو معنى اور انكى كيفيت كى شناخت كے ساتھ ديگر علوم كى فہم و ادراك كى كليد بھى ہے_

ابن تيميہ ( متوفى 661) بھى اسلام كے بڑے منطقيوں ميں سے ہيں انكى اس حوالے سے اہم ترين كتابوں ميں سے كتاب الرد على المنطقيين اور نقض المنطق ہيں_

ابن تيميہ كے بعد ارسطو كى منطق كے بڑے ناقد ابن خلدون ہيں انہوں نے اپنى اہم كتاب '' العبرو ديوان المبتداء والخبر'' كے مختلف ابواب ميں منطق كے حوالے سے گفتگو كى انہوں نے تاريخى نگاہ سے منطق

 

73

كا تجزيہ كيا اور واضح كيا كہ كيسے اس علم نے جنم ليا اور عالم اسلام ميں كس طرح داخل ہوا ، انہوں نے مختصر سے انداز ميں ماہيت منطق كى تعريف كى اسكے بعد اسكے مبادى اور اساس پر بحث كى _

گيارھويں صدى ہجرى ميں صدرالدين شيرازى ( ملا صدرا) كے ظہور كے ساتھ اسلامى تمدن ميں فكرى اور عقلى فعاليت اپنے عروج كو پہنچ گئي تھى ملا صدرا نے اپنى كتاب الاسفار كى مقدماتى فصول ميں مشائيوں كى پيروى ميں علوم كى تقسيم بندى اور منطق كے حوالے سے بھى گفتگو كى انكى روش منطق بہت زيادہ ابن سينا كى روش منطق سے مشابہت ركھتى ہے(1)

تاريخ اور تاريخ نگاري

زمانہ جاہليت ميں عرب كى ثقافت حفظ پر قائم تھى اور اسى طريقے سے ايك نسل سے دوسرى نسل ميں منتقل ہو رہى تھى ظہور اسلام سے پہلے اور قران كى گذشتہ اقوام كى داستانوں سے عبرت لينے كى تعليمات تك _ زمانہ جاہليت كے عرب لوگ وقت كے تسلسل كو ايك تہذيبى مفہوم كے طور پر نہيں سمجھتے تھے _ ليكن سب سے اہم چيز جس نے مسلمانوں كو تا ريخ نگارى اور تاريخ سے عبرت لينے كى طرف ترغيب دلائي وہ قران و حديث كى تعليمات تھيں لہذا عربوں ميں تاريخ اور تاريخ نگارى كا علم ظہور اسلام كے اوائل ميں ہى وجود ميں آيا_ مسلمان اپنے تاريخى مطالعات ميں قران و حديث سے متاثر ہوتے ہوئے سب سے پہلے پيغمبر اكرم (ص) كى سيرت اور جنگوں كى طرف متوجہ ہوئے اسكے بعد تاريخ نگارى كے ديگر موضوعات كى طرف بڑھے_ سب سے پہلے مسلمان مورخين ميں '' ابو مخنف'' ( متوفى 175 م ) كا نام ليا جاسكتا ہے وہ كسى ايك موضوع پر مبنى متعدد تواريخ كے مصنف تھے جنكے كچھ حصوں كاذكر تاريخ طبرى ميں موجود ہے_ ابن اسحاق ( متوفى 150 ق) بھى وہ پہلى شخصيت ہيں كہ جنہوں نے سيرہ نبوى پر كتاب لكھي_(2)


1) محمد خوانسارى ، قوانين مطنق صورى ( مختلف جگہ سے) ابو نصر فارابى ، احصاء العلوم ، ص 53 _دانش پوہ ، محمد تقى ، '' از منطق ارسطو روش شناسى نوين '' مجلہ جلوہ ،س 1، ش1، ص 24_

2) عبدالجليل ، تاريخ ادبيات عرب ، ترجمہ آذر تاش آذر نوش ، ص 153_

 

74

اس كتاب كے كچھ حصے تاريخ طبرى ميں نقل ہوئے ہيں اگرچہ يہ كتاب بذات خود ہمارے ہاتھ تك نہيں پہنچى ليكن يہ مكمل طور پر سيرہ ابن ہشام ميں آچكى ہے، واقدى ( متوفى 209 قمري) نے پيغمبر اكرم(ص) كى جنگوں كے حوالے سے مشہور كتاب '' المغازى '' لكھي_ واقدى كے شاگر د ابن سعد نے بھى پيغمبراكرم (ص) ، صحابہ اور تابعين كى زندگى كے حالات پر كتاب '' الطبقات'' لكھى ، تيسرى صدى ہجرى ميں بلاذرى ( متوفى 279 قمري) نے دو قيمتى تاريخى كتابيں '' فتوح البلدان '' اور '' انساب الاشراف'' اپنے بعد يادگار چھوڑيں_ اس صدى كے دوسرے نصف حصہ ميں اس دور كے اسلام كے بہت بڑے مورخ طبرى نے عظيم كتاب '' تاريخ الامم و الرسل و الملوك'' تصنيف كى _

پانچويں صدى ہجرى ميںچند بڑے مورخ گزرے ہيں_ كتاب تجارب الامم كے مصنف ابن مسكويہ ، سلاطين غزنوى كے ليے لكھى جانے والى كتاب تاريخ يمينى كے مصنف عتبى ، تاريخ بغداد كے مصنف خطيب بغدادى _ چھٹى صدى ہجرى ميں حالات زندگى پر لكھى جانے والى كتاب '' الاعتبار '' كے مصنف اسامہ بن منقذ (متوفي584 قمرى )اور سلجوقيوں كى تاريخ پر لكھى جانے والى كتاب '' نصرة الفترہ'' كے مصنف عماد الدين اصفہانى (متوفى 589 قمرى ) اس دور كے بڑے مورخ شمار ہوتے تھے_

ساتويں صدى ہجرى ميں ہم بہت بڑے مورخين كا سامنا كرر ہے ہيں ابن اثير جو كہ عرب زبان مورخين ميں سب سے مشہور ہيںاور انہوں نے كتاب '' الكامل فى التاريخ'' اور ''اسد الغابة'' تحرير كيں _ اس صدى كے دوسرے برے مورخين ابن خلكان ہيں كہ جنہوں نے اہم رسالہ ''وفيات الاعيان ''تحرير كيا كہ جو شخصيات كے تذكرہ اور تاريخ ادب پر فہرست كى روش پرہے_

آٹھويں صدى ہجرى ميں ابن ابى زرع ( متوفى 727قمرى )نے مغرب كى تاريخ كے حوالے سے اپنى اہم كتاب '' روض القرطاس'' اور ابوالفداء نے كتاب'' المختصر فى اخبار البشر'' تحرير كى نويں صدى ہجرى ميں تقى الدين فاسى نے تاريخ مكہ تحرير كى اسى صدى ميں مقريزى نے مصر كى تاريخ اور جغرافيہ پر اپنى اہم ترين

 

75

كتاب'' الخطط والآثار'' تحرير كى _ گيارہويں صدى ہجرى ميں مقرّى نے ہسپانيہ كى تاريخ پر كتاب'' نفح الطيب'' لكھى _ (1)

عربى زبان ميں تاريخ نگارى كے ادوار كى مانند فارسى زبان ميں بھى تاريخ نگارى نے اسى طرح سفر كيا اور مراحل ارتقاء طے كيے _ عربى زبان كے مورخين كى مانند ايرانى مؤلفين نے بھى بہت سے ادوار ميں تاريخى كتب تحرير كيں يا عربى سے فارسى ميں ترجمہ كيں _ فارسى زبان ميں قديمى ترين عمومى تاريخى كتابوں ميں سے جو باقى رہ گئي ہيں ان ميں سے تاريخ بلعمى كہ جو ابوعلى بلعمى نے 352قمرى ميں تحرير كى _

اسكے بعد كتاب'' زين الاخبار گرديزي'' ( پانچويں صدى كے پہلے نصف حصہ كى تأليف) كا نام بھى ليا جاسكتا ہے ليكن ايران ميں فارسى زبان كى تاريخ نگارى كا سب سے اہم ترين دور منگولوں كا دور يعنى ساتويں صدى كے بعد كا ہے_ اس دور ميں ہم فارسى تاريخى كتاب نويسى ميں انقلابى اٹھان كا مشاہدہ كرتے ہيں اس دور كى اہم ترين تاريخى كتابيں '' تاريخ جہانگشاى جوينى '' ہے كہ جو عطاملك جوينى كى تحرير ہے ، عثمان بن محمد جو زجانى كى تصنيف طبقات ناصرى جو 658 ق ميں تاليف ہوئي، عبداللہ بن عمر بيضاوى كى نظام التواريخ ، رشيد الدين فضل اللہ ہمدانى كى جامع التواريخ ، فخر الدين داؤد بناكتى كى تاريخ بناكتى ، حمداللہ مستوفى كى تاريخ گزيدہ، شرف الدين عبداللہ وصاف شيرازى كى تجزية الادصار يا تاريخ وصاف اور محمد بن على شبانكارہ كى مجمع الانساب ہيں _ فارسى زبان ميں تاريخ نگارى كى عظمت و بلندى تيمورى اور تركمانى ادوار ميں بھى جارى رہى ، ان ادوار كى يادگار كتب ميں سے حافظ ابرو كى مجمع التواريخ السلطانيہ'' ، شرف الدين على يزدى كى ظفرنامہ ، مير خواند كى روضة الصفا اور خواند مير كى تاريخ حبيب السير كا نام ليا جاسكتا ہے_ (2)

تركمانى دور كے بعد صفوى حكومت قائم ہونے كے ساتھ ہى فارسى زبان ميں تاريخ نگارى ميں اہم انقلاب


1) دانشنامہ جہان اسلام ، ج 6 ذيل تاريخ و تاريخ نگار ى _

2)دانشامہ جہان اسلام ، ج 6 ذيل تاريخ و تاريخ نگارى _

 

76

پيدا ہوا يہ انقلاب شيعى نظريات كى اساس پر تاريخ نگارى كى جديد شكل تھا_ اس طرز كى اہم ترين تاريخى كتابوں ميں سے ابن بزاز كى تحرير صفوة الصفا ، اسكند بيك منشى تركمان كى '' تاريخ عالم آراى عباسي'' يحيى بن عبداللطيف قزوينى كى ''لب التواريخ ''اور قاضى احمد غفارى كى ''تاريخ جہان آرا ''قابل ذكر ہيں _

اس دور كے مورخين كى ايك بڑى تعدا دصفوى بادشاہوں كى حكومت كى تاريخ كو تاريخ نگارى كا بنيادى موضوع قرار ديے ہوئے تھى _ اس حوالے سے بہت سى كتابيں تاليف ہوئيں ان ميں سے بوداق منشى قزوينى كى ''جواہر الاخبار ''قابل تذكرہ ہے _

افشاريہ اور زنديہ سلسلہ حكومت كے ادوار ميں صفوى تاريخ نگارى شيعى رحجان كے ساتھ جارى رہى اس دوران كے اہم ترين مورخين ميں سے نادر شاہ كے مخصوص منشى ميرزا مہدى خان استر آبادى تھے كہ جنہوں نے بہت سے تاريخى آثار چھوڑے ان ميں سے ''درّہ نادرہ'' اور'' جہانگشاى نادري'' قابل ذكر ہيں _ زنديہ سلسلہ حكومت كے دور ميں بھى ہم ''محمل التواريخ ''كے مصنف ابوالحسن گلستانہ ''روزنامہ ميرزا محمد كلانتر ''كے مصنف ميرزا محمد كلانتر اور ''تاريخ گيتى گشا ''كے مصنف ميرزا صادق موسوى اصفہانى جسے مورخين سے آشنا ہوتے ہيں_

قاجاريہ سلسلہ حكومت كے دور ميں فارسى زبان ميں ايرانى تاريخ نويسى ايك اہم تبديلى سے دوچار ہوئي جسكى بناپر اس دور كى تاريخ نگارى كودو اقسام ميں تقسيم كرنا چاہيے : ايرانيوں كى جديد علوم سے آشنائي سے پہلے او ر اسكے بعد ، قارجايہ حكومت كے پہلے دور ميں تاريخ نگارى صفويہ اور زنديہ ادوار كى مانند اسى سبك و سياق اور ادبى نثر پر جارى رہى جبكہ دوسرے دور ميں ايرانيوں كى يورپ كى جديد تاريخ نگارى روش سے آشنائي كے بعد تاريخ نگارى كا آغاز ہوا ، ايران كى روس سے شكست اور اس شكست كے اسباب اور ايرانيوں كا يورپى زبانوں سے ترجمہ كے كام كى طرف توجہ قاجار يہ دور ميں تاريخ نگارى كے دوسرے مرحلہ كا آغاز ہے _

قاجاريہ دور كے پہلے مرحلہ ميں تاريخ نگارى كے اہم آثار ميں سے ميرزا فضل اللہ خاورى شيرازى كى

 

77

تاريخ محمدى اور تاريخ ذوالقرنين، عبدالرزاق مفتون دنبلى كى ''مآثر سلطاني''، عضدالدولہ سلطان احمد ميرزا كى ''تاريخ عضدى ''، اور محمد تقى سپہر كى ''ناسخ التواريخ ''كا نام ليا جاسكتا ہے ،قاجاريہ كے دوسرے دور ميں يورپ كى زبانوں سے ترجمہ كى بناء پر يورپ كى تاريخ كے متعلق چند كتابوں ميںسے ايڈورڈگيبن كى كتاب'' تاريخ انحطاط و زوال امپراتورى روم'' كہ جو فارسى ميں ترجمہ ہوئي اسى طرح سرجان ملكم كى كتاب'' تاريخ ايران'' كہ جوانگريزى ميں تصنيف ہوئي اور بعد ميں فارسى ميں ترجمہ ہوئي_(1)

يہ تاريخ نگارى كے متعلق كچھ نكات تھے كہ جنكى طرف ہم نے اشارہ كيا ، اسلامى ادوار ميں تاريخ نگارى كے حوالے سے ايك اور قابل توجہ بحث يہ ہے كہ مورخين نے تاريخ نگارى كى مقبوليت كى بناء پر كتب كى تصنيف و تاليف ميں مختلف اقسام كے سبك و سياق كى پيروى كى اسى ليے ہم انكے تاريخى آثار كو چند اقسام ميںتقسيم كر سكتے ہيں جوكہ مندرجہ ذيل ہيں :

الف) روائي تاريخ نويسي: يہ مختلف موضوعات مثلا حديث ، قصہ ، مقتل ، سيرت اور جنگوں كے احوال ميں تقسيم ہوتى ہے _

ب) وقايع نويسى : واقعات اور رودادوںكوتاريخى نظم كے ساتھ تسلسل كى شكل ميں ايك جگہ پيش كرنا _

ج) ذيل نويسى اور مختصر نويسي: گذشتہ لوگوں كى تاريخى كتب پر ذيل و حاشيہ اور تكميلى نوٹ لكھنا_

د)عمومى تاريخ نويسي: تقويم اور سالوں كى ترتيب كے ساتھ اسلامى ممالك كے واقعات كو قومى و جغرافيائي عناصر كى مداخلت كے بغير لكھنا _

ہ) انساب كى روسے تاريخ نويسي: انساب كے سلسلہ اور شجرہ نسب كى آشنائي كے ساتھ تاريخى حوادث كا ذكر اور انكا ايسے قبائل اور طوائف سے ربط بيان كرنا جن كا پس منظر زمانہ جاہليت سے جا ملتا ہے _

و) طبقات كے اعتبار سے تاريخ نويسي: يہ تاريخ نگارى ميں اسلامى مورخين كى قديم ترين روش ہے


1) دانشنامہ جہان اسلام ج 6 ذيل تاريخ و تاريخ نگارى _

 

78

طبقات كے نام كى تاريخى كتب ميں ہر زمانہ ياہر نسل كى ديني، علمى اور سياسى شخصيات كے حالات زندگى زمانى ترتيب كے ساتھ ہر ايك طبقہ كو ديگر طبقات اور ادوار سے جدا كرتے ہوئے لكھے جاتے ہيں _

ز) سرگذشت نامے: يہ روش بہت سى تاريخى كتب ميں پائي جاتى ہے يعنى خلفاء ، حاكموں اور علماء كے حالات زندگى كے بارے ميں كتب تحرير كرنا ، تاريخ نويسى كى يہ روش پيغمبر اكرم (ص) كے حوالے سے تحرير شدہ سيرتوں كے زير اثر وجود ميں آئي _

ح) صدى نامہ : تاريخ نويسى كى يہ روش ساتويں صدى سے رائج ہوئي اس روش ميں ايك معين صدى كى شخصيات كى سرگذشت الف ب كى ترتيب سے لائي جاتى ہے _

ط) مقامى تاريخ نويسى :سال بہ سال تاريخ نويسى كى روش كے مطابق ايك منطقہ ، سرزمين يا شہر كے تاريخى حالات و واقعات كا ذكر _

ى ) خاندانى تاريخ نويسي: خلفا اور سلاطين كے دور فرمانروائي كى بنياد پر لكھى جانے والى كتب اور رسالات اس قسم كى تاريخ نويسى ميں جو كہ قبل از اسلام كے ايرانى لكھاريوں كے اسلوب كا اقتباس ہے بادشاہوںكى تاريخ كو مرتب كيا جاتا ہے_

درج بالا ہر ايك قسم كے تحت مختلف كتب اور رسالے فارسى اور عربى ميں تدوين كئے گئے ہيں كہ جنہيں مفصل تاريخى ما خذاور كتابيات ميں تلاش كيا جاسكتا ہے_(1)

9 ) جغرافيا

مسلمانوںنے علم جغرافيہ ميں بھى ديگر قديم علوم مثلا رياضي، طب اور نجوم كى مانند گذشتہ تہذيبوں خصوصاً يونان، ايران اور ہند كا سہارا ليا انہوں نے ان تہذيبوںكے آثار كا مطالعہ اور ترجمہ كرتے ہوئے ان علوم كو وسعت بخشي_ ايران ، مصر اور سندھ كى فتح سے مسلمانوں كو موقع ملا كہ ان تين تہذيبوں كے لوگوں كى علمى و


1) رسول جعفريان ، منابع تاريخ اسلام ، قم ص 51 ، فرانتس روزنتال ، تاريخ و تاريخ نگارى در اسلام ، ترجمہ اسداللہ آزاد ص 84، 81 ، عبدالعزيز دورى ، بحث فى نشان علم التاريخ عندالعرب ص 86 _ 81_

 

79

ثقافتى ترقى سے ابتدائي معلومات حاصل كريں _ ہندى جغرافيہ كے حوالے سے مسلمانوں كے پاس اہم ترين منبع كتاب '' سوريا سدھانتہ'' تھى كہ جو منصور عباسى كے دور خلافت ميں سنسكرت سے عربى ميں ترجمہ ہوئي _ يونان سے جغرافيہ اور نجوم كى معلومات بھى بطليموس اور ديگر يونانى دانشوروں كے آثار كے ترجمہ سے مسلمانوں ميں منتقل ہوئيں بطليموس كى جغرافيہ كے بارے ميں كتاب عباسى دور ميں چند بار ترجمہ ہوئي ليكن آج جو كچھ ہمارے پاس اس كتاب كے حوالے سے ہے وہ محمد بن موسى خوارزمى كا اس كتاب سے اقتباس ہے كہ جو مسلمانوں كى اپنى معلومات سے مخلوط ہوگيا ہے (1)

اسلامى تہذيب ميں علم جغرافيہ كا آغاز منصور عباسى كى خلافت كے زمانہ ميں ہو ا اور بالخصوص مامون كى خلافت كے زمانہ ميں اس علم كى طرف سركارى توجہ بڑھى مامون كى خلافت كے زمانہ ميں جغرافيہ نے بہت ترقى كى _ كرہ زمين كى قوس سے ايك درجہ كى پيمائشے ، نجومى جدول اور مختلف جغرافيائي نقشہ جات كا تيار ہونا و غيرہ اس ترقى كے ثمرات تھے_

تيسرى صدى ہجرى سے قبل جغرافيہ كے حوالے سے جداگانہ تصنيفات موجود نہ تھيں بلكہ كہيں كہيں ہميں اس زمانے كى كچھ جغرافيائي معلومات منتشر صورت ميںملتى ہيں ليكن تيسرى صدى ہجرى اسلامى تہذيب ميں علم جغرافيہ ميں اختراعات اور ترقى كا زمانہ ہے كيونكہ اس صدى ميں ايك طرف بطليموس كے آثار سے آشنائي حاصل ہوئي اور اسكے بعد ايسے تراجم ظاہر ہوئے كہ جنكى بناء پر سائينٹيفك جغرافيہ كا آغاز ہوا دوسرى طرف توصيفى جغرافيہ كى تشريح كيلئے گوناگون نمونہ جات بنائے گئے اور اسى صدى كے آخر ميں كئي جغرافيائي كتب تحرير ہوئيں اور مختلف قسم كے سفرنامے دائرہ تحرير ميں آئے_

چوتھى صدى ہجرى ميں اسلامى جغرافيہ ميں مختلف مكتب پيدا ہونے سے جو'' مسالك و ممالك '' كوخاص اہميت ديتے تھے اور اسلامى اطلس يعنى جغرافيائي اشكال كے بہترين نمونوں سے بہت نزديكى تعلق ركھتے تھے


1)فرانتس تشنر و مقبول احمد ، تاريخچہ جغرافيا در تمدن اسلامي، ترجمہ محمد حسن گنجى و عبدالحسين آذرنگ ص 10 و 9_

 

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خصائص علوم اہلبیت (ع)
زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام
پیغمبر (ص) امامت کو الٰہی منصب سمجھتے ہیں
چنداقوال از حضرت امام جواد علیہ السلام
سيد المرسلين ص کي علمي ميراث کے چند نمونے ( حصّہ ...
خصائص اہلبیت (ع)
امام حسین (ع)کی زیارت عرش پر اللہ کی زیارت ہے
عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں حضرت زہرا کا کردار
فاطمہ (س) کی معرفت لیلۃ القدر کی معرفت ہے
ائمہ معصومین علیہم السلام نے ایسے دورحکومت -5

 
user comment