بعض مورخین کے مطابق حضرت زہرا جو کچھ بنی اکرم سے سیکھتیں ‘ مسلمان عورتوں کو اسکی تعلیم دیتیں۔ دائرة معارفِ اسلامی (Islamic encyclopedia) کے مصنف نے نقل کیا ہے کہ ایک روز حضرت زہرا کے لکھے ہوۓ صفحات میں سے کچھ صفحے کہیں گم ہو گۓ انہوں نے ان اوراق کی تلاش کے لۓ’’فضہ ‘‘کو مامور کیا (جو عمر کے آخری حصے میں آپ کی خدمت پر مامور تھیں)۔ ان اوراق پر تحریر باتیں حضرت زہرا کے لۓ خاص اہمیت کی حامل تھیں کیونکہ یہ انہوں نے حضرت رسولِ کریم سے سیکھی تھیں۔
یہ موضوع اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حضرت زہرا تمام مشکلات اور سختیوں کے باوجود مسلمان خواتین (جو گاہے بگاہے آپ کے پاس آتی تھیں) کو تعلیم دینے اور انہیں زندگی کے مسائل سے آگاہ کرنے کے سلسلے میں اپنی ذمے داری کا احساس رکھتی تھیں۔
اہل بیت کی احادیث ہمیں بتاتی ہیںکہ بی بی کے پاس مصحف نامی کتاب تھی۔کچھ لوگوں نے لفظ ’’مصحف‘‘ سن کر خیال کیا ہے کہ یہ مسلمانوں کے پاس موجود قرآن سے مختلف کوئی دوسرا قرآن ہے۔جبکہ بعض احادیث (جن میںکافی کے باب زکات کی ایک حدیث بھی شامل ہے )میں آیا ہے کہ ’’مصحف فاطمہ ‘‘دراصل ’’کتاب ِفاطمہ‘‘ ہے۔ کیونکہ مصحف کا لفظ ‘ صحف سے ماخوذ ہے جس کے معنی اوراق ہیں ۔خداوند متعال قرآن کریم میں فرماتا ہے : صحف ابراھیم و موسیٰ ‘ (ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔سورہ اعلیٰ ۸۷۔آیت۱۹) یا :فی صحف مکرمۃ (یہ با عزت صحیفوں میں ہے۔سورہ عبس ۸۰۔آیت۱۳) ۔ لہٰذا ’’مصحف فاطمہ ‘‘وہ اوراق تھے جن پر حضرت فاطمہ لکھا کرتی تھیں۔ البتہ اس مصحف کے مواد و مشمولات کے بارے میں اختلاف ِراۓ پایا جاتاہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں حضرت فاطمہ کی وصیت اور کچھ شرعی احکام لکھے ہوۓ تھے‘جبکہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کتاب غیبی امور اور ان ہی جیسی باتوں پر مشتمل تھی۔
بہر حال یہ کتاب‘ آج دنیا کے کسی گوشے میں نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا اس کے مواد و مشمولات کے حوالے سے کۓ جانے والے دعوئوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ کتاب آج موجود ہی نہیں کہ اس پر اختلاف اور نزاع کیا جاۓ۔ہم اس کتاب کی صرف ان چیزوں کے بارے میں دعویٰ کر سکتے ہیں جو اہل بیت نے ہمارے لۓ نقل کی ہیں۔
اسی طرح ’’مصحف علی ‘‘ہے اور وہ بھی ہماری دسترس میں نہیں ۔اسکا صرف وہ حصہ جو اہل بیت نے ہمارے لۓ نقل کیا ہے قابل استفادہ ہے ۔یہی معاملہ ’’جامعہ ‘‘اور ’’جفر‘‘ کا ہے جنہیں اہل بیت نے اپنے منابع (Sources) قرار دیا ہے۔
خطبۂ زہرا (س)
مذکورہ گفتگو کی روشنی میں واضح ہے کہ حضرت زہرا ایک عالمہ کا مظہر ہیں اور ایک ایسی مبلغ کی حیثیت رکھتی ہیں جو ایک بلندعلمی اور معنوی مقام سے اسلامی امور و معا ملات کا اہتمام کرتی ہیں۔ جب ہم آپ کا وہ خطبہ پڑھتے ہیں جو آپ نے (مسجد میں اپنے حق فدک)کے حصول کے لۓ ارشاد فرمایا ‘تو ہمیںآپ کی بھرپورعلمی اور معنوی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے۔ حضرت فاطمہ یہ خطبہ ارشاد فرماکے اور فدک طلب کرکے کوئی مادی مقصد حاصل کرنا نہیں چاہتی تھیں‘ بلکہ کچھ دوسرے اہداف و مقاصد آپ کے پیش نظر تھے ‘جو ایک اجتماعی مسئلے سے جا ملتے ہیں‘ جس کا آپ دفاع اور تحفظ کرنا چاہتی تھیں۔ اس طرح انہوں نے امیر المومنین کے حقِ خلافت (جس کی وہ خود معتقد تھیں اور ہم بھی معتقد ہیں) کا دفاع کیا۔ خطبے کا مطالعہ کرتے ہوۓ ہم دیکھتے ہیں کہ اس خطبے کی پہلی فصل بہت سی اسلامی اقدار اور واجبات کی تشریح پر مشتمل ہے ‘جو آپ کی بھرپور علمی صلاحیتوں پر بہترین گواہی ہے۔ اس فصل کو متن قرار دے کر بہت سی اسلامی تعلیمات کو بیان کرنے والی ایک تفصیلی شرح لکھی جاسکتی ہے۔
اسی طرح جب آپ اپنے والد کی طرف سے ملنے والی وراثت کے حق کو ثابت کرنے کے لۓ اورپیغمبر اسلام سے منسوب کی جانے والی روایت :اننا معاشر الانبیا ء لا نورث ‘ ماترکناہ صدقۃ (ہم انبیا اپنا ترکہ نہیں چھوڑتے اور جو کچھ چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے)کو مسترد کرنے کیلۓ وراثت سے متعلق آیات ِقرآنی کو اپنے استنباط کی بنیاد بنا کر انہیں بطور سند پیش کرتی ہیں اور اس طرح ایک قرآنی بحث میں داخل ہوتی ہیں ‘توفقہی مسائل کے استنباط میں قرآن کریم کو سند قرار دینے کے سلسلے میںآپ کی عظیم فقہی صلاحیت سامنے آتی ہے۔
جب ہم مہاجرین اور انصار سے آپ کی گفتگوکا جائزہ لیتے ہیں توآپ کی راۓ کی پختگی اور اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے سلسلے میں آپ کی صلاحیت ہم پر روشن ہوتی ہے‘ اور یہ بات تصور میں بھی نہیں آتی کہ گفتگو کرنے والی یہ شخصیت ‘ وہی نحیف و ناتواں خاتون ہیں جو کبھی کبھی بے حال ہو جاتی ہیں۔ ہم انہیں ایک ایسی طاقتور خاتون کے روپ میں دیکھتے ہیں جو مردوں کے سامنے پا مردی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں اور ایک مضبوط منطق کی بنیاد پر ان سے گفتگو کرتی ہیں اور شبہات کو ایسی حجت اور دلیل سے مسترد کرتی ہے کہ جس کی مثال اس سے پہلے کسی عورت کی گفتگومیں نہیں ملتی۔
source : http://www.bayenat.net